(امیر سے ملاقات ) امیرسے ملاقات قسط 18 - ابو ابراہیم

9 /

جب تک شریعت کے نفاذ کی طرف پیش قدمی نہیں ہو گی اللہ

کی رحمت ہمارے شامل حال نہیں ہو سکتی۔

انتخابی راستے سے نظام تبدیل نہیں ہوسکتا، پاکستان

کی76 سالہ تاریخ نے بھی یہ ثابت کیا ہے ۔

چند دنوں میں 54 بل پاس ہوگئے لیکن اللہ کی شریعت کے ایک

حکم کے نفاذ کے لیے قانون بنانے کو تیار نہیں ہیں۔

جب عمران خان سے ہماری ملاقات ہوئی تھی تو ہم نے ان سے

بھی یہی کہا تھا کہ آپ ایک طرف ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں

اور دوسری طرف آپ کےجلسوں میں بینڈ باجے ، ناچ گانا

اور مرد و عورت کا مخلوط ماحول ہوتا ہے ۔

امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات

میز بان :آصف حمید

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: ڈاکٹر صاحب نے غالباً 1995ء میں عمران خان کے بارے میں کہاتھا کہ وہ یہودیوں کا آلہ کار بن چکا ہے۔ یہ بات انہوں نے جمائمہ گولڈ سمتھ سے عمران خان کی شادی ہونے پر کہی تھی۔تنظیم اسلامی کا اس کےبارے میں کیا موقف ہے اور کیا ڈاکٹر صاحب کا عمران خان کے بارے میں بقیہ زندگی میں بھی یہی موقف تھا۔ میں نے حقیقت ٹی وی کی ایک ویڈیو میں سنا ہے کہ جمائمہ سے شادی کے بعدعمران خان کی اینکرپرسن حسن نثار کے ہمراہ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔ اس میں کتنی سچائی ہے اگر یہ سچ ہے تو اس ملاقات کاخلاصہ بیان کریں؟ (علی رضا صاحب، بہاولپور)
امیر تنظیم اسلامی:یہ سوال اکثر مختلف حلقوں  کی جانب سے سامنے آتاہے ۔ بلکہ کچھ عرصہ پہلے جب عمران خان سے میری ملاقات ہوئی تھی، ہمارے وفد میں تنظیم کے کچھ سینئر رہنما بھی شامل تھے۔ اس وقت بھی بہت سارے سوالات اٹھے تھے ۔ علی رضا صاحب نے ڈاکٹر صاحب کے 1995ء کے خطاب کا حوالہ دیا ۔ اس کے بعد بھی ڈاکٹر صاحب کے کچھ خطبات ہیں جن میں انہوں نے عمران خان کے حوالے سے گفتگو کی ہے ۔ یہ سارے خطبات ہمارے ریکارڈ کا حصہ ہیں کیونکہ ڈاکٹر صاحب ؒکے خطبات جمعہ ہمارے ماہانہ مجلے میثاق میں تحریری شکل میں شائع ہوا کرتے تھے ۔ ان خطبات میں وہ الفاظ نہیں ملتے کہ ڈاکٹر صاحب نے عمران خان کو یہودی ایجنٹ اور یہودی آلہ کار کہا ہو ۔ ریکارڈ بطور ثبوت پیش کیا جاسکتا ہے ۔ یہ الفاظ بعد میں شاید سیاسی مخالفت میں بعض سیاسی جماعتوں نے ایڈ کیے ہیں۔ کیونکہ آج ویڈیو ایڈیٹنگ بہت زیادہ ہورہی ہے ، ادھر ادھر سے کلپس اُٹھا کر ان کو جوڑ کر کسی کی بات کو توڑ موڑ کر اور سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنا آج عام وطیرہ بن چکا ہے اور اس کی زد میں علماء اور مذہبی شخصیات بھی آتی رہی ہیں ۔ جہاں تک ڈاکٹر صاحب کے 1995ء کے خطاب کا تعلق ہے تو اس وقت عمران خان کی شادی جن حالات میں جمائمہ گولڈ اسمتھ سے ہوئی تھی اور جس انداز سے اور جس سرعت رفتاری کے ساتھ یہ معاملہ ہو ا تھا کہ عمران خان کو فوراً پاکستان سے جانا پڑا تھا تو یہ اپنی جگہ ایک بہت بڑا question mark تھا ۔ اسی تناظر میں ڈاکٹر صاحب نےا یک بات کی تھی کہ ایک ایسا شخص جو پاکستانی قوم میں مقبول ہے ، اس نے ورلڈ کپ جیت کر پاکستان کو دیا ہے،اس کے بعد اس نے سوشل ویلفیئر کے کام بھی کیے ہیں ، کینسر ہسپتال بنائے ہیں ، اس کے علاوہ اس نے اسلام کی حمایت میں کئی بیانات دیے ہیں تو ایسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ دشمن قوتیں اس کو اُچک لینے کی کوشش کریں ۔ کیونکہ ایک جدید تعلیم یافتہ ، آکسفورڈ کا پڑھا ہوا شخص جو دنیا میں شہرت ا ور مقبولیت رکھتا ہے وہ اگر اسلام کی باتیں کرنا شروع کردے تولوگ اس کی طرف زیادہ متوجہ ہو سکتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ ایسے شخص کو عالمی طاقتیں اپنے قابو میں کرنے کی کوشش کر رہی ہوں ۔ اسی خطاب میں ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی فرمایاتھا کہ بہرحال دعا ہے کہ ان کی یہ شادی کامیاب ہو جائے جوکہ بعد میں نہ ہوئی ۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم دعا کریں گےکہ اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرمائے۔
لہٰذا اس خطاب میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا اور ساتھ ساتھ اُن کےلیے دعائیں بھی کی تھیں ۔ اس کے بعد بھی ڈاکٹر صاحب نے اپنے خطبات میں عمران خان کا ذکر کیا ۔ 1996ء کے ماہ جون ، اگست اور اکتوبر میں بھی عمران خان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف کے حوالے سے ذکر کیا کہ اگر وہ انصاف کی بات کرتے ہیں تو اس کے مقابلے میں بہترین لفظ عدل ہے اور اسلام کا نظام ہی وہ واحد نظام ہے جو عدل اجتماعی عطا کرتاہے۔ اس میں سیاست ، معاشرت اور معیشت سمیت تمام تر اجتماعی معاملات کے حوالے سے بھی عدل موجود ہے ۔ لہٰذا اگر عمران خان انصاف اور عدل کی بات کرتے ہیں تو وہ دین کے پورے تصور کو سامنے رکھیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کی زندگیوںمیں کتنا اسلام ہے اور یہ بات آج بھی ہم کہیں گے۔ اسی طرح ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ جب یہ عدل کی بات کر رہے ہیں تو سود کے نظام اور بدترین جاگیرداری نظام کے خلاف بھی بات کرنا چاہیے اور اس کو بھی اپنے ایجنڈے میں شامل کرنا چاہیے تھا ۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ جتنی بھی باتیں کی ہیں وہ الدین النصیحۃ (دین نصح وخیرخواہی کانام ہے )کےجذبے کے ساتھ کی ہیں ۔ وہ اگر سیاسی تبصرے کرتے تھے تو مقصد یہی ہوتا تھا کہ سیاستدانوں کو نصیحت کی جائے ، عدل ، انصاف اور اچھے کاموں کی طرف توجہ دلائی جائے ، کہیں ملکی سالمیت کو کسی پہلو کے اعتبار سے خدشات لاحق ہوں اس کا تذکرہ کیا جائے اور اس کی اصلاح کے لیے جو کوشش کی جا سکتی ہے اس پر متوجہ کیا جائے۔ آج بھی تنظیم اسلامی کا موقف یہی ہے۔
آصف حمید(میزبان):1995ء کا تو ڈاکٹر صاحب کا پورا خطاب ہے اور اس کاعنوان ہے:’’سانحہ عمران خان !‘‘ اس کے بعد جون1996ء میں ڈاکٹر صاحب نےتحریک انصاف کے حوالے سے بات کی کہ وہ صرف ایک مغربی طرز کا انصاف ہے ۔ جبکہ اسلام نظام عدل چاہتاہے ۔ اگست1996ءمیں ڈاکٹر صاحب نے ایک بات کی کہ عمران خان کو بیرونی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ اکتوبر1996ءمیں ڈاکٹر صاحب نے کہا تھاکہ عمران خان جنہیں اس وقت عالمی مہاجن کے آلہ کار کی حیثیت حاصل ہے وہ محض ایک مبہم سےانصاف کا نام لے رہے ہیں اور سودی معیشت اور جاگیرداری نظام کے حوالے سے مسلسل خاموش ہیں۔اس کے بعد عمران خان کے ساتھ جو میٹنگ ہوئی تھی اس میں میں بھی شامل تھا، حسن نثار بھی تھے۔ اصل بات یہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب نےضیاء الحق، نوازشریف، پرویزمشرف اور عمران خان سمیت ہر ایک سے حسن ظن رکھا ہے۔یہ اوربات ہے کہ بعد میں کس نے کیا کیا وہ آپ سب کے سامنے ہے ۔ انہوں نے نوازشریف کے بارے میں بھی حسن ظن رکھتے ہوئے مشورہ دیا تھا کہ آپ دو تہائی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں لہٰذا آپ کے پاس موقع ہے کہ آپ شریعت کی بالا دستی ، خصوصاً سود کے خاتمہ کے لیے اپنا کردار ادا کریں ۔ نواز شریف نے وعدہ کرکے اس کے بعد پھر خلاف ورزیاں کیں ۔
امیر تنظیم اسلامی: ڈاکٹر صاحب ؒ نے سیاسی رہنماؤں کو اچھے مشورے بھی دیے اور جہاں قابل تنقید پہلونظر آیا وہاں تنقید بھی کی ۔ یہی اصولی بات ہے جس کا قرآن حکم دیتا ہے:
{وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی صوَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ص}(المائدہ:2) ’’اور تم نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو ‘اور گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں تعاون مت کرو۔‘‘
مسئلہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ مسئلہ اصولی ہے ۔ اگر کہیں قابل تنقیدپہلو آئے گا تو دین کا تقاضا ہے کہ تنقید کی جائے لیکن تنقید کرنے کا انداز شائستہ ہونا چاہیے اور کہیں اگر حسن ظن کے امکانات ہوں تو بندئہ مومن اچھا گمان رکھتا ہے اور کہیں اگر کوئی خیر کا پہلو نظر آئے تو اس کو appreciate کیاجائے ۔ ہمارے بعض viewers یا ہم سے محبت کرنے والےبھی سمجھ بیٹھتے ہیں کہ کبھی آپ محبت میں ایک طرف جھک جاتے ہیں کبھی دوسری طرف ۔ حالانکہ ایسی بات نہیں ہے ۔ بات صرف اُصول کی ہے ۔ اگر کہیں خیر کی طرف پیش قدمی کا پہلو نظر آئے گا تو ہم خیر مقدم کریں گے اور اگر کہیں شر کی طرف پیش قدمی ہوگی ، خلاف شریعت قانون سازیاں ہوں گی تو ہم مخالفت کریں گے ۔ عمران خان نے ریاست مدینہ کے حوالے سے بات کی تو ہم نے خیر مقدم کیا اور اس حوالے سے کئی سیمینار کیے جن میںحق بات پہنچانے کی کوشش کی کہ ریاست مدینہ اصل میں کیا تھی اور رسول اللہ ﷺ نے کیا اصول عطا کیے تھے، اسلام کا عدل اجتماعی کیا ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ شریعت کا نفاذ ہے چاہے وہ کوئی بھی کردے ، یہ مشورےتنظیم کے پلیٹ فارم سے ضیاء الحق، پرویزمشرف اور نواز شریف کو بھی دیے گئے ۔ لیکن ان کے مقدر میں نہیں تھا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِo}(الحج) ’’ اور تمام امور کا انجام تو اللہ ہی کے قبضہ ٔقدرت میں ہے۔‘‘
ایک داعی کی حیثیت سے ہمارایہی موقف ہے کہ اگر کوئی شریعت نافذ کرنے کی طرف پیش رفت شروع کر دے تو ہم اس کےساتھ تعاون کرنے کو تیار ہیں، مشورے دینے کو تیار ہیں، لیکن اگر شریعت کی خلاف ورزی کی بات ہو، پورا دین present نہ کیا جائےاور مبہم سی بات رکھی جائے، شریعت کے خلاف قانون سازی کی جائے تو ہم مخالفت کریں گے ۔
سوال: بہت سے لوگوں کاخیال ہے کہ تنظیم اسلامی پرو پی ٹی آئی ہو چکی ہے۔ یہ خیال درست ہے یاغلط ؟
امیر تنظیم اسلامی:یہ انتہائی غلط خیال ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب انہوں نے ایٹمی پروگرام کی طرف پیش قدمی یا قادیانیوں کو کافر قراردیا ، یا اسلامک سمٹ منعقد کروائی تو یہ اچھے کام تھے ، ہم نے اگر ان کی تعریف کردی تو کیا اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہم پیپلز پارٹی کے ہر کام کی تحسین کر رہے ہیں یاہم زرداری صاحب سے اتفاق کر رہے ہیں ؟ ہرگز نہیں ۔اسی طرح ماضی قریب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم سود کے خاتمے کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں اور وفاقی شرعی عدالت کے سود کے خلاف فیصلے کے خلاف سٹیٹ بینک اور نیشنل بینک کی اپیل کو واپس لے رہے ہیں تو ہم نے اس کی تحسین کی ۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم ن لیگ کے ہر کام سے اتفاق کرتے ہیں ؟اگر عمران خان نے کبھی کہا کہ ہمیں امریکہ سے نجات حاصل کرنی چاہیے تو ہم نے تحسین کی کیونکہ یہی ہمارا موقف بھی ہے ۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم عمران خان کے ہر کام کی حمایت کرتے ہیں ۔ تنظیم اسلامی کا اپنا ایک منہج ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ انتخابی راستے سے نظام تبدیل نہیں ہوسکتا، پاکستان کی 75 سالہ تاریخ نے بھی یہ ثابت کیا ہے اور یہ یقین اب پاکستانی قوم کو بھی ہونے لگ گیا ہے۔ پچھلےچند دنوں میں 54 بل پاس ہوگئے لیکن اللہ کی شریعت کے ایک حکم کے نفاذ کے لیے قانون بنانے کو تیار نہیں ہیں۔جب عمران خان سے ہماری ملاقات ہوئی تھی تو ہم نے ان سے بھی یہی کہا تھا کہ آپ ایک طرف ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف آپ کےجلسوں میں بینڈ باجے ، ناچ گانا اور مرد و عورت کا مخلوط ماحول ہوتا ہے ۔ یعنی اگر کہیں خلاف شریعت بات ہوتی ہے تو ہم اس کی بھی نشاندہی کرتے ہیں اور توجہ دلاتے ہیں ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک اسلامی انقلاب برپا نہیں ہوجاتا تب تک جولوگ نظام چلا رہے ہیں ان کو ہم مشورہ تو دے سکتے ہیں کہ جہاں جہاں خرابیاں ہیں ان کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے لیکن اس کا قطعا ً یہ مطلب نہیں کہ ہم فلاں کے پرو ہو گئے اور فلاں کے مخالف ہوں گے۔
سوال: بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی میں جو واقعہ ہوا ہے اس پر روشنی ڈالیں اور یہ بتائیں کہ ایسے واقعات کیوں ہوتے ہیں اور کس طرح اس قسم کے واقعات کو کم کیا جا سکتا ہے؟( شمیم آفریدی، لاہور)
امیر تنظیم اسلامی:یہ ایک یونیورسٹی کامسئلہ نہیں ہےبلکہ پورے ملک میں قائم یونیورسٹیز کا ماحول دیکھ سکتے ہیں ۔ ہر طرف ایسے معاملات بڑھتے جارہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے ہم نے اللہ کے احکامات کو نہیں مانا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی} (بنی اسرائیل:32)’’اور زنا کے قریب بھی مت جائو‘‘
وہ تمام ذرائع جو زنا تک لے جا سکتے ہیںان کے قریب بھی مت جاؤ ۔ مگرہمارے معاشرے میں ہر کام اس کے برعکس ہو رہا ہے ۔ ایک طرف میڈیا دن رات فحاشی و عریانی سب کچھ دکھاتا ہے، دوسری طرف سوشل میڈیا پر فحاشی کی بھر مار ہے ، پھر اس کے ساتھ تعلیم گاہوں میں مخلوط ماحول بھی دے دیا گیا ہے ۔ یہ سارے وہ ذرائع ہیں جن کو دین منع کرتا ہے۔پھر جب کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے،ا سکینڈل سامنے آتے ہیں تو یہی میڈیا آسمان سر پر اُٹھا لیتا ہے ۔ حالانکہ میڈیا نے ہی تو یہ ساری آگ لگائی ہے جس کے نتیجے میں اب یہ تباہیاں کھل کر سامنےآ رہی ہیں۔ ایک طرف وہ طالبات ہیںکہ جن کے دماغوں میں ڈال دیا گیاکہ تمہارے اچھے marks آئیں گے تواچھاFuture ملے گا اور اچھے رشتے آئیں گے ۔ نمبر کا اتنا craze ہے لڑکوں پر بھی لڑکیوں پر بھی کہ وہ اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیارہیں۔ منشیات کے حوالے سے آپ جانتے ہیں لاکھوں طلبہ نشے کے چکر میں کہاں تک چلے گئے، ورغلایا جاتا ہے کہ فلاں نشہ استعمال کر لو تین دن تک جاگتے رہو گے، exam کی تیاری بہترین ہو گی paper بڑا زبردست attempt ہو گا۔ اسی طرح کئی جگہ بلیک میلنگ کا معاملہ بھی ہوتا ہے کہ ٹیچرز کو، پروفیسرز کو خوش رکھو گے تو اچھے مارکس آئیں گے ۔ اللہ معاف کرے ۔ ہمارا معاشرہ کس حد تک پستی میں چلا گیا ہے ۔ تعلیم گاہوں میں نمبرز کے لیے ، نجی اداروں میں پروموشن کے لیے لوگ کہاں تک جارہے ہیں ۔ گویا اللہ تعالیٰ کو رزاق نہیں مانا جارہا ۔ اس میں ماں باپ اور معاشرے کا بھی قصور ہے کیونکہ ان کی طرف سے بھی اچھے مارکس اور کوالیفیکیشن کے لیے پریشر ہوتاہے ۔ اس کے برعکس شریعت ستر و حجاب، پردہ ، نگاہوں کی حفاظت اور نکاح کو آسان بنانے کے احکامات دیتی ہے اور زنا کے تمام اسباب و ذرائع کو بند کرنے کاتقاضا کرتی ہے جن میں فحش لٹریچر ، مرد اور عورت کا آزادانہ اختلاط ،بے حیائی وغیرہ بھی شامل ہیں ۔ شریعت عورت اور مرد کا الگ الگ دائرہ کار معین کرتی ہے ۔ دین کی ان تعلیمات کو اگر بیان کیا جائے تو یہی میڈیا اور لبرل لوگ ہڑبڑانے لگ جاتے ہیں کہ یہ دقیانوسی باتیں ہیں ، پھر جب نتائج سامنے آتے ہیں تو یہی لوگ رونا دھونا کرتے ہیں ، ہر روز اخبارات میں لڑکیوں کے گھروں سے بھاگنے کی خبریں ہوتی ہیں ، کبھی زنا اورکبھی ریپ کے کیسز سامنے آتے ہیں ۔ یہ سب شریعت سے بغاوت کے نتائج ہیں ۔ ہم نے اللہ کی رزاقیت پر اعتماد نہیں کیا ۔ نمبرگیم اور پروموشن کے چکر میں پڑ گئے۔ پھر یوٹیوب ، ٹک ٹاک پر کمائی کے لیے زیادہ سے زیادہ فحش مواد پھیلایا جاتاہے ،اس کمائی کے لیے حدود کو پھیلانگتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ صرف یونیورسٹیز کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس میں ماں باپ کا بھی رول ہے ، انتظامیہ کا بھی کردار ہے ، وقت کے حکمرانوں اور میڈیا کا بھی رول ہے ۔ سب کو اپنا کردار ٹھیک کرنا ہوگا ۔ شریعت نے عورت پر صرف اتنا بوجھ ڈالا ہےکہ وہ گھر کی ذمہ داری سنبھالے اور اولاد کی اچھی طرح تربیت اور ذہن سازی کرے ۔ گھر سے باہر کی ساری ذمہ داریاں  مرد کے کندھے پر ڈالی گئی ہیں ۔ قرآن مجید میں سب سے زیادہ ہدایت گھر اور خاندان کے نظام کے حوالے سے دی ہے ۔ گھر ٹھیک ہو گا تو معاشرہ ٹھیک ہوگا ۔گھر عورت اور مرد کے نکاح سے بنتا ہے ۔ وہ معاشرہ جہاں نکاح کا بندھن ختم ہو جائے وہ تباہ و برباد ہو جاتاہے ۔ لیکن آج والدین نمبروں کے چکر میں پڑکر یہ سب بھول گئے کہ وہ اپنی بچیوں کو کن اداروں میں بھیج رہے ہیں وہاں کا ماحول کیسا ہے ۔ نتائج سامنے ہیں ۔
آصف حمید: آج ہمارے میڈیا میں بے حیائی کو پروموٹ کیا جارہا ہے ، اسکینڈلز اخبارات میں تفصیل سے بتائے جاتے ہیں ، ٹی وی چینلز ان کودوبارہ ایکٹ کر کے دکھا رہے ہوتے ہیں۔ استغفراللہ! اورٹاک شوز چل رہے ہوتے ہیں لیکن دینی رہنمائی کے لیے کوشش نہیں ہوتی ۔ حضورﷺ نےفرمایا کہ دیوث جنت میں نہیں جائے گا۔ اور دیوث کون ہے جس کی گھر کی خواتین بے پردہ گھومتی ہوں یعنی کہ جو اپنی خواتین کے بارے میں بے پرواہ ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ معاملہ گھر سے شروع ہوتاہے اور جس جس جگہ پر کوئی صاحب اختیار ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس سے بچے۔ اسی طرح تنگ لباس اور باریک لباس پہننے والی خواتین کے بارے میں جو وحید حضورﷺ نے فرمائی کہ ایسی عورت جنت سے کوسوں دور رہے گی ، یہ علامات قیامت میں سے بھی ہے ۔ ان دینی تعلیمات کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ مغرب کا ہم پر اتنا غلبہ ہو گیا ہے اس نے ہمارے خاندانی نظام کو تباہ کردیا ہے۔
امیر تنظیم اسلامی:آپ یونیورسٹیز کے سربراہوں کے سامنے پردے کی بات کریں ، یا والدین dress code کی بات کریں توسخت ری ایکشن آتاہے ، کبھی HECنے پردے یا لڑکے لڑکیوں کے لیے علیحدہ تعلیم کی بات کی تو اس کا حشر نشر کر دیا گیا ۔ ماضی قریب میں عمران خان نے عورت کے پردے اور لباس کے بارے میں ایک انٹرویو میں بات کردی تو کہرام مچ گیا ۔ یعنی ہمارا میڈیا ، ہمارا لبرل اور حکمران طبقہ ہر اس کام کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں جو بے حیائی ، فحاشی اور زناکو روکنے والا ہو ۔
آصف حمید:ایک ماہر تعلیم نےمجھ سے کہا کہ یونیورسٹیزکے مالکان کو خوف ہے کہ اگر ہم نے لڑکے اور لڑکیوں میں علیحدگی کر دی تو ہماری یونیورسٹیز میں داخلے کم ہوں گے ۔ اندازہ کریں کہ یہ لوگ کمائی کے لیے کس قدر اندھے ہوگئے ہیں ۔
امیر تنظیم اسلامی:پھر عورت کو جس طرح نمایاں کر کے اپنی product کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے ، جس طرح اشتہارات میں عورت کا استعمال کیا جاتاہے ، اس کا مطلب ہے کہ ان لوگوں کا توکل اللہ پر نہیں ہے بلکہ عورت پر ہے ۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ عقیدےاور ایمان کی کمزوری کا مسئلہ ہے۔
سوال:تنظیم کےقیام کو نصف سنچری ہونے کو ہے، ابھی تک نہ ملک کے سرکاری اداروں میں اسلامی نظام کے اثرات دکھائی دیتے ہیں اور نہ معاشرے میں ۔ اسلامی ریاست بنانے میں شاید سو سال بھی کم ہیں لیکن ابھی ہم نے ایک سوسائٹی بھی تعمیر نہیں کی جس میں تنظیم کےلوگ ایک اسلامی طرز پر زندگی گزاریں، ایک امام کے پیچھے ایک مقصد کو لے کر زندگی گزاریں، اس سوسائٹی میں شرعی قوانین کی پاسداری ہو ۔ ایک اسلامی سوسائٹی کے نمونے کو ابھی تک کیوں پیش نہیں کیا گیا، کیا اس میں بھی کوئی قانونی رکاوٹ ہے ؟ 
امیر تنظیم اسلامی:ویسے یہ دردمندی اور فکر ہم سب کو ہونی چاہیے کہ تنظیم کو بنے پچاس سال ہونے کو ہیں جبکہ پاکستان کو بنے 76 برس ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک اسلامی معاشرہ کی کوئی جھلک نظر نہیں آرہی ۔ بھائی کا سوال اپنی جگہ اہم ہے لیکن ہمیں اس بات کی فکر نہیں کہ اس کام میں سو سال لگ جائیں یا زیادہ لگیں  لیکن ہمیں فکر یہ ہونی چاہیے کہ ابھی اگر موت آجائے تو کیا میں اس کے لیے تیار ہوں کہ اس حوالے سے جواب دے سکوں کہ اقامت دین کے لیے میں نے کتنا حصہ ڈالا ہے ۔ تنظیم کا ہدف کوئی اسلامی سوسائٹی یا ٹاؤں بنانا نہیں ہے بلکہ تنظیم کا ہدف یہ ہے کہ پورے ملک میں اسلام کا غلبہ ہو ۔ اس کے بعد اللہ توفیق دے گا تو پھر اس سے آگے بھی جدوجہد ہوگی ۔ تب تک چار مرحلے بہت اہم ہیں ۔ پہلا مرحلہ اپنی ذات پر اسلام کا نفاذ ہے ، دوسرے مرحلے میں اپنے گھر میں دین کا نفاذ ، تیسرے مرحلہ میں معاشرہ میں دعوت و تبلیغ ، چوتھے مرحلہ میں ریاستی سطح پر اسلام کے نفاذ کی جدوجہد ۔ بات فرد سے شروع ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ اکیلے کھڑے ہوئے اور پہلے ہی دن چار قریبی لوگ ایمان لے آئے۔ بی بی خدیجہؓ ،سیدنا علیؓ، صدیق اکبرؓ، زید بن حارثہ ؓ۔ یعنی ایک آپؐ کی زوجہ ہیں ، ایک غلام ہیں، ایک کزن ہیں ، ایک دوست ہیں ۔ اس کے بعد 13 برس کی محنت سے آپؐ نے ایک جماعت تیار کی اور اس جماعت کو مدینہ شریف پہنچتے ہی معاشرہ قائم کرنے کا موقع ملا ۔پھر جدوجہد جب قتال کے مرحلے میں داخل ہوئی تو فتح مکہ کے بعد ایک اسلامی ریاست قائم ہوگئی۔ یہی تنظیم اسلامی کا منہج ہے ۔ اس کی بجائے اگر ہم ایک ٹاؤن بنالیتے ہیں تو وہاں قانون کس کا چلے گا؟ عدالتیں کس کی ہوں گی ، سکہ کس کا چلے گا ؟ ظاہر ہم جس ریاست میں رہ رہے ہیں اسی کا نظام چلے گا ۔ اس لیے جو ہمارے اختیار میں ہے ہمیں وہ کرنا چاہیے ۔ فرد کی سطح پر محنت کی جائے ، پھر گھروں کے اندر شریعت کی پابندی کروائی جائے ، پھر معاشرےمیں جو غیر شرعی رواج ہیں ان کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے ۔ جیسے ڈاکٹر اسراراحمد ؒ نے نکاح کو آسان بنانے کی مہم کا آغاز کیا ، ہمارے اکثر تنظیمی رفقاء کی بیٹیوں کے نکاح مساجد میں ہوتے ہیں ، بیٹیاں مسجد سے رُخصت ہوتی ہیں اور سنت کی تعلیم کے مطابق ایک ولیمے کی دعوت ہوتی ہے ،کمی بیشی ہو گی لیکن اس پر ہم عمل پیرا ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، ہماری بہت سی خواتین گھروںاور گھروں سے باہر شرعی احکام کی پابندی کرتی ہیں ، اسی طرح اپنے بچوں اور گھر والوں کی دینی تربیت کے لیے گھریلو اُسرہ کا اہتمام ہوتاہے ۔ اسی طرح رفقاء کا باہمی تعلق مضبوط ہونا چاہیے۔ بعض اجتماعیتیں آپس میں رشتہ داری کو رواج دیتی ہیں جس سے تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ جہاں تک نظام کی بات ہے تو اللہ جانتا ہے وہ کب قائم ہوگا ، ہمارے ذمہ صرف اپنے حصہ کا کام کرنا ہے ۔ جو ہمارے دائرہ اختیار میں ہے وہاں دین کا نفاذ ہماری ذمہ داری ہے ۔ ہماری ذات، ہمارا گھر اور ہماری معاشرت ہے،اس میںاسلام کے نفاذ کی کوشش کرنی ہے ۔ اس کوشش میں اضافے اور بہتری کی ضرورت ہے ۔
سوال:اس وقت تنظیم اسلامی بقائے پاکستان: نفاذ عدل اسلام! کے عنوان سے ایک مہم چلا رہی ہے ۔ اس مہم کا مقصد کیا ہے اور آپ اس حوالے سے لوگوں کو کیادعوت دیتے ہیں؟
امیر تنظیم اسلامی:یہ مہم 11اگست سے 3ستمبر 2023ء تک جاری رہے گی ۔ ہم نے طے کیا ہے ہر سال اگست کے مہینے میں ایک اس طرح کی مہم چلائیں گے ۔ اس مہم کا بنیادی مقصد اس اصل سبق کی یاددہانی ہے کہ پاکستان کیوں قائم ہوا؟ کس مقصد کے لیے قائم ہوا؟ آج ہم جن مصائب اور مسائل کا شکار ہیں اور جن مصیبتوں میں گھرے ہوئے ہیں کہ معیشت کا بیڑا غرق ہے، اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا، سیاسی سطح پر سر پھٹول انتہا کو پہنچا ہوا ہے ،بیرونی پریشرز اتنے زیادہ ہیں کہ ہم ہر چیز سرنڈر کرتے چلے جارہے ہیں ۔ ان سب مصائب کی کیا وجہ ہے؟اسی طرح اس مہم میں اصل پیش نظر یہ ہے کہ ہم اللہ سے رجوع کرتے ہوئے سچی توبہ کریں اور جس مقصد کے لیے اس ملک کو حاصل کیا تھا اس کے حصول کی جدوجہد میں لگ جائیں ۔ وہ مقصد یہ تھا کہ اللہ کی عطا کی ہوئی اس سرزمین پر اللہ کے نظام کو قائم کر کے دنیا کے سامنے نمونہ پیش کرناہے ۔ اس پیغام کو عوام تک پہنچانے کے لیے ہم خطبات جمعہ ، سوشل میڈیا ، سیمینارز سمیت تمام ذرائع بروئے کا رلائیں گے ان شاء اللہ ۔اسی طرح علماء کرام، صحافی حضرات ، میڈیا مالکان ، سیاستدان و حکمران اور معاشرے کےدیگر با اثر طبقات تک ہم تحریری طور پر بھی یہ پیغام پہنچائیں گے ۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب قوم رسول ہاشمیﷺ
پاکستان واحد مسلم ملک ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے ۔ باقی کوئی لسانی بنیادوںپر قائم ہوا ، کوئی نسلی، جغرافیائی اور تاریخی بنیادوں پر قائم ہوا ۔ لیکن پاکستان واحد مسلم ملک ہے جہاںنہ زبان ایک،نہ نسل ایک،نہ خطہ ایک، نہ جغرافیہ ایک ، نہ تاریخ ایک تھی بلکہ مختلف رنگ، نسل ، زبان ، علاقہ کے لوگوں کو جوڑ کر ایک پاکستانی قوم بنایا گیا اور جوڑنے والی واحد چیز کلمہ طیبہ تھا ۔ لہٰذا یہ ملک کلمہ کی بنیاد پر وجود میں آیا ۔ اس بنیاد کو ہم نے کمزور کیا تو 1971ء میں ملک دولخت ہوگیا اور زبان کی بنیاد پر بنگلہ دیش وجود میں آگیا ۔ اگر ہم اس بنیاد کی حفاظت نہیں کریں گے تو ایسے سانحات مزید پیش آسکتے ہیں ۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے ۔ اگر کوئی کہے کہ ہمارے پاس ایٹمی قوت ہے اور طاقت ہے تو وہ سوویت یونین کے انجام سے سبق سیکھے جس کے پاس ہم سے زیادہ عسکری اور جوہری طاقت تھی لیکن نظریہ کمزور پڑا تو اس کا خاتمہ ہوگیا ۔ ہم اُلٹے لٹک جائیں ، یہود کی مانیں، نصاری کی مانیں، پوری دنیا کی مانیں، جب تک اللہ کی نہیں مانیں گے ہمارے معاملات سدھریں گے نہیں، اس کی دعوت اس مہم کے ذریعے ہم ملک بھر میں دینے کی کوشش کر رہے ہیں اوریہ اصل میں اجتماعی توبہ کی دعوت ہے ۔ اور اجتماعی توبہ یہ ہے کہ ملک میں شریعت کے نفاذ کے اپنے وعدے کو پورا کریں ۔ جب تک شریعت کے نفاذ کی طرف پیش قدمی نہیں ہو گی اللہ کی رحمت ہمارے شامل حال نہیں ہو سکتی۔
آصف حمید: ایک بڑی سادہ سی بات ہے کہ نفاذ اسلام سے مراد کیا ہے ؟ ایک شخص اپنے اوپراگر اسلام کا نفاذ نہیں کرتا تو وہ بدکار بھی ہو گا،وہ بد عہد بھی ہو گا، وہ خائن بھی ہو گا ۔ اگر وہ بندہ اسلام پر ہو گا تو نہ وہ بدکارہو گا، نہ وہ خائن ہو گا، نہ وہ بد عہد ہو گا، نہ بد اخلاق ہو گا۔ آج ہم ایک ایک برائی کودیکھ لیں تو یہ اس لیے ہورہی ہے کہ کوئی نہ کوئی اللہ کا حکم ٹوٹ رہا ہے ۔ یعنی جب ہم اللہ کے حکم کو توڑیں گے تو اس کی سزا بھی ہمیں ملے گی ۔
امیر تنظیم اسلامی:نفاذ عدل اسلام سے مراد یہ ہے کہ اپنی ذات میں بھی عدل ہو ، اپنے گھرانے میں بھی عدل ہو ، اپنی اولاد میں بھی عدل ہو ، ملازمین کے ساتھ بھی عدل ہو ، معاشرے کے دیگر طبقات کے ساتھ بھی عدل ہو ، یعنی وہی چار مراحل ہیں ۔ جب میں اپنی ذات پرا سلام کو غالب کروں گا تو میری ذات دوسروں کے لیے نفع کا باعث بنے گی اور جب نظام کی سطح پر اسلام نافذ ہوگا تو چوبیس کروڑ عوام کے لیے نفع کا باعث بنے گا ۔ عدالت کے فیصلے شریعت کے مطابق ہوں گے ، معاشرت کی سطح پر بے حیائی ، بداخلاقی ، جرائم کا قلع قمع ہوگا ، معیشت کی سطح پر سود ، جوا ، سٹہ اور تمام حرام ذرائع کا خاتمہ ہوگا ، نتیجہ میں چوبیس کروڑ عوام کو فائدہ پہنچے گا ، اللہ کی رحمت نازل ہوگی ۔ یہی نبوی مشن ہے اور اسی مقصد کے لیے پاکستان بنا تھا ، اس دعوت کو عام کرنے کے لیے تنظیم اسلامی نے بقائے پاکستان : نفاذ عدل اسلام مہم کا آغاز کیا ہے ۔
سوال: بہت سی جماعتیں نفاذ اسلام کا نام لے رہی ہیں لیکن قوم ساتھ نہیں ہے کیانفاذ اسلام سے قوم کو ڈر ہے؟ حالانکہ جب ہم گہرائی میں اس کاتجزیہ کریںتو اسی میں عافیت ہے۔ جیسے قرآن میںارشاد ہوتاہے ؛
وَلَـوْ اَنَّـہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَـآ اُنْزِلَ اِلَـیْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ ط}(المائدہ:66)’’اور اگر انہوں نے قائم کیا ہوتا تورات کو اور انجیل کو اور اس کو جو کچھ نازل کیا گیا تھا ان پر اِن کے رب کی طرف سے‘تو یہ کھاتے اپنے اوپر سے بھی اور اپنے قدموں کے نیچے سے بھی۔‘‘
امیر تنظیم اسلامی: ڈاکٹراسراراحمدؒ فرماتے تھے کہ شاید دینی بیانیہ present کرنے میںدینی حلقوں سے کمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے عوام الناس کا ایک بڑا طبقہ سمجھتا ہے کہ شریعت کے نفاذ کا مطلب صرف سزاؤں کا نفاذ ہے ۔ حالانکہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جو بندوں کو حقوق ، سہولتیں ، آسانیاں دینے کا بھی تقاضا کرتاہے۔ وہ لوگوں کی کفالت کا بھی تقاضا کرتاہے ۔ سیدنا عمر فاروق h فرماتے ہیں فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائےتو مجھ سے جوابدہی ہوگی ۔ اسی طرح  دین معاشی استحصال کو بھی روکتاہے ۔آج پاکستان کاریونیو 9.5ہزار ارب روپے ہے جس میں سے7.5 ہزار ارب روپے صرف سود اور سودی قرضوں کی مد میں جارہا ہے تو قوم کے لیے بچے گا کیا؟اگر شریعت کا نفاذ ہوتا تو یہ سودی بوجھ آج قوم نہ اُٹھا رہی ہوتی۔ لہٰذا نفاذ اسلام کا مطلب فقط چند سزاؤں کا نفاذ نہیں ہےبلکہ نفاذ اسلام میں معیشت ، سیاست ، عدالت ، معاشرت اور اقلیتوں کے حقوق وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ اسی طرح اس وقت جو دجالی تہذیب اور دین دشمنوں کے فتنے اور سازشیں ہیں ان سب کا مقابلہ بھی ہم اسلام کے اندر رہ کر ہی کر سکتے ہیں۔ آج کل تو خدا کی ذات کے بارے میں بحث ہو رہی ہے، ایتھی ازم والی سوسائٹی موجودہے ۔خداکا انکار دھڑلے کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ اس سارے ماحول میں ہم نے دین کو present کرناہے اور یہ خوف نکالنا ہے کہ دین صرف سزاؤں کے نفاذ کا نام ہے ۔ پھر یہ کہ سزاؤں کے نفاذ سے پریشانی صرف جرائم پیشہ افراد کو ہی ہونی چاہیے۔ عام لوگوں کے لیے تو یہ سزائیں بھی برکت کا باعث ہوں گی کیونکہ اس سے لوگوں کی جان ، مال ، عزت اور آبرو محفوظ ہو جائے گی ۔ لیکن حقیقت میں اسلام کا سوشل جسٹس والا پہلو زیادہ اہم ہے کہ جس میں قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے ۔ آج تو طاقتور لوگ قانون کی دھجیاں اُڑا دیتے ہیں ، عدالتوں سے ان کو استثنیٰ مل جاتی ہے ، ضمانتیں مل جاتی ہیں ، ان کے اوپر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا ، کیس واپس ہو جاتے ہیں ، اپنے لیے جواز پیدا کر رکھا ہے پچاس کروڑ سے کم کرپشن کرے گا تو نیب کے ریڈار پر نہیں آئے گا ۔ جبکہ اس کے برعکس اسلام کا تصور عدل یہ ہے کہ اللہ کے پیغمبرﷺ فرماتے ہیں : بالفرض محال اگر میری بیٹی فاطمۃ الزہرا ؓ نے چوری کی ہوتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا پچھلی قومیں اسی وجہ سے تباہ و برباد ہوئیں کہ بڑے جرم کرتے تھے توانہیں چھوڑ دیاجاتا تھا جبکہ چھوٹے جرم کرتےتو ان کو سزا دی جاتی تھی ۔ یہ ہے وہ عدل کا نظام جس کے نفاذ کی طرف ہم توجہ دلانے کی اس مہم میں کوشش کر رہے ہیں ۔