’’بقائے پاکستان- نفاذ عدل اسلام ‘‘مہم کے ذریعے ہم اہل پاکستان کو
یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی بنیاد اسلام ہے ۔ اسلام کا
نظام عدل نافذ ہوگا تو پاکستان بچے گا : خورشید انجم
اس وقت باقی تمام دینی جماعتیں جن کے منشور میں نفاذ شریعت موجود
ہے وہ الیکشن کے راستے پر جا رہی ہیں، جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ
اس راستے سے نظام تبدیل نہیں ہوگا : ڈاکٹر عطاء الرحمٰن عارف
بقائے پاکستان- نفاذ عدل اسلام مہم کے موضوع پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال:تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام ملک گیر مہم ’’بقائے پاکستان - نفاذ عدل اسلام‘‘ کے عنوان سے چلائی جارہی ہے ۔ اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں ؟
خورشید انجم:قیام پاکستان کا مقصد بہت واضح تھا۔ پاکستان کا مطلب کیا: لا الٰہ الا اللہ تحریک پاکستان کا سب سے بڑا نعرہ تھا جو پشاور سے کراچی اور خیبر سے راج کماری تک گونج رہا تھا ۔ اسی پکار پر قوم کھڑی ہوئی تھی ۔ قائد اعظم کی سو سےزیادہ تقاریر اس مقصد کو واضح کرتی ہیں۔ یہاں تک کہا ہے کہ لوگ پوچھتے ہیں پاکستان کا دستور کیا ہوگا ،پاکستان کا دستور تو چودہ سو سال پہلے آ چکا ہے اور وہ قرآن و سنت ہو گا۔ لہٰذا قیام پاکستان کا اصل مقصد ایک ایسا خطہ حاصل کرنا تھا جہاں پر اسلام کے اصولوں کے مطابق ہم اپنی زندگی گزار سکیں ۔اسی مقصد کے لیے قوم نے قربانیاں دیں۔تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت پاکستان کے لیے ہوئی ۔ اگر ان لمحات کو ذہن میں لائیں تو آپ کو کہیں تڑپتی ہوئی لاشیں نظر آئیں گی ، کہیں مسلم خواتین کنوؤں اور دریاؤں میں چھلانگیں لگاتی ہوئی نظر آئیں گی ، کہیں ریل کے ڈبے اور بوگیاں لاشوں سے اٹی ہوئی نظر آئیں گی ۔ یہ سب قربانیاں کسی خاص مقصد کے لیے تھیں ۔ نماز، روزہ ، حج و قربانی کی اجازت تو متحدہ ہندوستان میں بھی تھی ۔ مدارس بھی چل رہے تھے ۔ اگر پاکستان کے قیام کا کوئی مقصد تھا تو وہ یہ تھا کہ ہمارا آئین اور قانون اسلام کے مطابق ہو ۔ ایک خدشہ یہ بھی تھا کہ متحدہ ہندوستان میں ہندواکثریت کی حکومت ہوگی اور وہ اپنی فطرت کے مطابق مسلمانوں سے تعصب برتیں گے ، ہمیں اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی نہیں گزارنے دیں گے بلکہ ہم پر اپنا آئین اور قانون مسلط کریں گے جیسا کہ اب وہاں ہورہا ہے ۔ لہٰذا تحریک پاکستان کا اصل مقصد اسلامی ریاست کا قیام تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس مقصد کی جانب شروع میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی ۔ جیسا کہ 1949ء میں قرارداد مقاصد پاس ہوگئی جس میں طے ہوگیا کہ پاکستان میں حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ہوگی اور قرآن و سنت کی بالا دستی ہوگی ۔ اس کے بعد 31 علماء کے 22 نکات بھی پیش ہوگئے کہ ان کے مطابق اسلام کا نفاذ پاکستان میں ممکن ہے جس پر تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہوگا ۔ لیکن اس کے بعد پھر پاکستان کا سفر اُلٹی سمت میں شروع ہوگیا اور ہم اپنی اصل منزل یعنی نفاذ اسلام سے دور ہوتے گئے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ1971ء میں پاکستان دولخت ہوگیا ۔ تنظیم اسلامی کی’’ بقائے پاکستان - نفاذ عدل اسلام‘‘ مہم کا مقصد یہی ہے کہ ہم پاکستانی قوم کو بھولا ہوا سبق دوبارہ یاد دلائیں کہ قیام پاکستان کا اصل مقصد اسلام کا نظام عدل اجتماعی ہے ۔ عدل اسلام کا کیچ ورڈ ہے ۔ قرآن میں نبی اکرم ﷺکو حکم دیا گیا :
{وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ ط}(الشوریٰ:15) ’’اور (آپؐ کہہ دیجیے کہ) مجھے حکم ہوا کہ مَیں تمہارے درمیان عدل قائم کروں۔‘‘
’’بقائے پاکستان - نفاذ عدل اسلام‘‘ مہم کے ذریعے ہم یہی یاددہانی کروا رہے ہیں اور اس کے لیے علماء ، دینی جماعتوں ، سیاسی اور سماجی رہنماؤں ، حکمرانوں ، میڈیا مالکان اور پوری قوم کو متوجہ کر رہے ہیں کہ ہم اپنے اصل مقصد کی طرف لوٹیں اور اس کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔
سوال:آپ تنظیم اسلامی کے ناظم اعلیٰ ہیں اور پورے پاکستان میں تنظیم اسلامی کے نظم کو آپ مانیٹر کر رہے ہیں ۔ ہماری رہنمائی فرمائیے کہتنظیم اسلامی کی’’ بقائے پاکستان - نفاذ عدل اسلام ‘‘عوامی رابطہ مہم کی تفصیلات کیا ہیں ؟
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن عارف: یہ مہم ہماری تین ہفتوںپر محیط ہے۔ 11 اگست سے اس کا آغاز ہو چکا ہے اور 3 ستمبر تک یہ جاری رہے گی ۔ امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ sنے کراچی میں خطاب جمعہ سےاس کا آغاز کیا تھا۔ اس مہم کے دوران ہمارے رفقاء عوام تک رسائی حاصل کریں گے اور سلوگنز ، بینرز ، پمفلٹ ، ٹی بورڈ، رکشہ فلیکس،لٹریچر ،سوشل میڈیا ، سیمینارز اور دیگر ذرائع سےاپنا پیغام پہنچانے کی بھرپور کوشش کریں گے ۔ اس کے ساتھ ساتھ علماء ، دینی جماعتوں ، سیاسی و سماجی رہنماؤں ، صحافیوں اور دیگر اہم شخصیات سے جاکر ہمارے رفقاء ملاقات کریں گے اور ان کو امیر تنظیم اسلامی کی جانب سے خطوط بھی پہنچائیں گے ۔ اسی طرح ہم خطباء سے بھی اپیل کریں گے اور کچھ میٹریل بھی ان تک پہنچائیں گے تاکہ وہ اپنے خطبات جمعہ میں اس پیغام کو عام کریں ۔ اس کے علاوہ کچھ ریلیوں کا اہتمام بھی کیا جائے گا ۔ کارنر میٹنگز ہوں گی، ڈور ٹو ڈور گشت ہوگا، مارکیٹوں میں گشت ہو گا، پریس کلبوں کے سامنےاور دیگر اہم مقامات پر مظاہرے بھی ہوں گے ۔ اس کے علاوہ ہم اس موضوع پر سیمینارز کا بھی اہتمام کریں گے ۔ اس حوالے سے پہلا سیمینار ہم 14 اگست کو کراچی میں کر چکے ہیں ۔ امیر تنظیم اسلامی اس دوران مختلف علاقوں کے دورے کریں گے اور مختلف مقاما ت پر خطبات فرمائیں گے ۔ ان سیمینار میںہم دیگر شخصیات کو بھی دعوت دے رہے ہیں۔ان تمام کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ ہم قیام پاکستان کے حوالے سے بھولا ہوا سبق یاد دلائیں ۔
سوال: صوبائی اور قومی سطح پہ نگران سیٹ اپ آ چکے ہیں، ان حالات میں جب پوری قوم آئندہ عام انتخابات کی تیاری میں مصروف ہے ہم تین ہفتے کی یہ مہم چلارہے ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کے عدل اجتماعی کا نفاذ کیا جائے تو ان حالات میں یہ مہم کتنی موثر ہوگی ؟
خورشید انجم: نفاذ عدل اسلام محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا مستقل موضوع تھا اور اس کو وہ ایک مثال کے ذریعے سمجھایا کرتے تھے کہ ایک ہے کسی انسان کا زندہ رہنا اور ایک ہے کسی انسان کا مسلمان ہونا۔ اسی طرح ایک ہے ملک کا قائم رہنا اور ایک ہے اس میں اسلام کا نافذ ہونا ۔ جب تک اسلام کا نظام غالب نہیں ہوجاتا تب تک اس ملک کو چلانے کے لیے اور اس کو قائم رکھنے کے لیے جمہوری پراسس اور انتخابات کا ہوتے رہنا ضروری ہے تاکہ گھٹن پیدا نہ ہو ، البتہ وہ یہ بھی فرماتے تھے کہ انتخابات کے ذریعے اس ملک میں اسلام غالب نہیں ہوسکتا۔ جمہوریت اور انتخابات کے ذریعے چلتے نظام کو چلایا جاسکتا ہے ، اس کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ،اس طریقے سے صرف چہرے بدلتے ہیں ، نظام نہیں بدلتا ہے ۔ اب تو عوام بھی جان چکے ہیں اور 76 برس کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے ، چند خاندان اور مخصوص طبقہ ہی ہم پر مسلط ہے ، چچا گیا تو بھتیجا آجاتاہے ، باپ گیا تو بیٹا آجاتاہے ، 76سال سے اسی شیطانی گھن چکر میں عوام کو جکڑ رکھا ہے ۔ اب جبکہ الیکشن کی از سر نو تیاریاں ہو رہی ہیں اور عوام اس گھن چکر سے عاجز آچکی ہے تو یہی صحیح وقت ہے کہ عوام کو اصل مقصد اور راستے کی طرف متوجہ کیا جائے اور وہ یہ ہے کہ نظام کو تبدیل کرنے کے لیے ایک انقلابی عمل کی ضرورت ہے۔ اسلامی انقلاب کے لیے کوشش کرنا اور جدوجہد کرنا نبوی سنت ہے ۔ ہمارے تمام تر دنیوی اور اُخروی مسائل کا حل اسی میں ہے کہ ہم اس مقدس اور نبوی مشن کے ساتھ جڑ جائیں ۔ اسلام کا کیچ ورڈ عدل ہے ۔ جب عدل کا یہ نظام نافذ ہوگا تو ہر امیر اور غریب کے ساتھ انصاف ہوگا ، روٹی، کپڑا،مکان، تعلیم، علاج یہ ساری ضرورتیں فراہم کرنا ایک اسلامی فلاحی ریاست کی ذمہ داری ہوگی ۔ جب عدل اور انصاف ہوگا تو پاکستان کو بھی استحکام نصیب ہوگا اور عوام بھی خوشحال ہوں گے ۔
سوال:کیاآپ دیانتداری سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے عوام الیکشن کی سیاست اور اس کے نتائج سے اُکتا چکے ہیں اور واقعتاً کوئی دوسرا راستہ دیکھ رہے ہیں؟
خورشید انجم: الیکشن کے نتیجےمیں جو کچھ ہوتا ہے عوام اب اس سے اُکتا چکے ہیں ، الیکشن بھی انجینئرڈ قسم کے ہوتے ہیں اور نتائج بھی ۔ کوئی تبدیلی ، کوئی بہتری اس عمل سے 76 سال میں نہیں آسکی ۔ لہٰذ ا عوام مایوس ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح یہ نظام تبدیل ہو لیکن وہ جانتے ہیں کہ الیکشن سے یہ تبدیلی نہیں آسکتی ہے لہٰذا لوگ ہماری دعوت پر غور کر رہے ہیں اور تسلیم کررہے ہیں کہ اس کے لیے انقلابی جدوجہد ہی واحد راستہ ہے ۔
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن عارف: ووٹرز کاٹرن آئوٹ الیکشن میں بہت کم رہ گیا تھا ۔ پھر 2018ء میں جب نئی پارٹی آئی اور لوگوں کی امید بندھی تو ٹرن آؤٹ تھوڑا بہتر ہوا لیکن اس کے بعد پھر عوام مایوس ہیں کیونکہ ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں نئی پارٹی بھی کچھ ڈیلیور نہیں کر سکی حالانکہ اس دور میں تمام ادارے اور مقتدر قوتیں ایک پیج پر تھیں ۔ لہٰذا اب عوام کسی دوسرے آپشن کی تلاش میں ہیں اور یہی صحیح وقت ہے کہ ہم انہیں وہ پیغام دیں کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل اسلام کے نظام عدل میں ہے ۔ یہ وقت کی ضرورت بھی ہے کیونکہ اگر بیلٹ کا راستہ رُکتا ہے تو دوسرا ذریعہ bullet آجائے گا۔ جبکہ سب سے بہتر راستہ منہج انقلاب نبویﷺ کا ہے ۔ ڈاکٹر اسراراحمد ؒ جس کی تشریح میں فرماتے تھے کہ ایک منظم اور پُرامن تحریک جو منہج انقلاب نبوی ﷺ کی روشنی میں چلائی جائے وہی حقیقی معنوں میں انقلاب لا سکتی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}(الصف:9)’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ اور دین ِحق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر‘‘
یہ نبی اکرم ﷺ کا مشن تھا اور یہ مشن دوبارہ بھی کامیاب ہوگا۔ حدیث نبوی ﷺ میں بشارت موجود ہے کہ پورے روئے زمین پر اللہ کا دین ایک بار پھر نافذ ہوگا اور اسی طریقے پر نافذ ہوگا ۔
سوال: اس وقت ہردینی اور مذہبی جماعت کے منشور میں نفاذ شریعت کا ہدف شامل ہے ، تنظیم اسلامی ایسی دینی اور مذہبی جماعتوں کا اتحاد بنا کر ایسی کوئی مہم چلانے کی بجائے اکیلے یہ مہم کیوں چلا رہی ہے ؟
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن عارف: اس وقت باقی تمام دینی جماعتیں جن کے منشور میں نفاذ شریعت موجود ہے وہ الیکشن کے راستے پر جا رہی ہیں۔ جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس راستے سے نظام تبدیل نہیں ہوگا ۔ لہٰذا جب تک نظام تبدیل نہیں ہوتا ہم لوگوں کو دعوت دیتے رہیں گے ۔ 14اگست کو کراچی میں ہمارا سیمینار ہوا ہے اس میں بھی اکثر دینی جماعتوں کے نمائندے موجود تھے وہاں بھی ہم نے اپنی دعوت پیش کی کہ اگر اس نظام کو تبدیل کرنا ہے تو اس کے لیے انقلابی راستہ اپنانا ہوگا ۔
خورشید انجم:اسلام کے نفاذ کےحوالے سے پاکستان میں جو بھی کوششیں ہوئی ہیں ان میں تنظیم اسلامی اپنے قیام کے وقت سے شامل رہی ہے ۔ مثلاً محمد خان جونیجوکے دور میں ایک شریعت محاذ بنا تھا۔ اس میں تنظیم اسلامی شامل تھی اور ایک اہم حیثیت میں اپنا رول ادا کیا تھا۔ پھر اسی طرح 1999ء میں متحدہ اسلامی انقلابی محاذ بنا تھا ۔ اس میں بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمد ؒ ایک سال کے لیے پہلے صدر منتخب ہوئے ۔ اسی طرح متحدہ مجلس عمل کی بھی بانی محترم نے تائید کی تھی ۔ اس وقت تنظیم اسلامی ملی یکجہتی کونسل کا حصہ ہے اور متحرک کردار ادا کر رہی ہے ۔ تنظیم اپنے طور پر سال میں ایک بڑی مہم چلاتی ہے جیسا کہ یہ ’’بقائے پاکستان - نفاذ عدل اسلام‘‘ مہم ہے ۔ باقی سارا سال بھی تنظیم کی مہمات چلتی رہتی ہیں ۔ یعنی ہم داخلی سطح پر بھی کوششیں کر رہے ہیں اور دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر بھی کام کر رہے ہیں ، جہاں سے بھی ہمیں دعوت آتی ہے ہم جاتےبھی ہیں اور دوسروں کو بلاتے بھی ہیں۔ اس طرح باہمی تعاون بھی جاری ہے ۔
سوال: ملک گیر سطح پر جو مہمات چلتی ہیں ان میں رفقاء تنظیم اسلامی کی بھرپور شرکت کے لیے ذہنی اور فکری رہنمائی کیسے کرتے ہیں؟
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن عارف: جب کسی مہم کا آغاز ہوتا ہے تو پہلے مرکز میں مشاورت سے طے ہوتاہے ۔ ذمہ داریاں تقسیم کی جاتی ہیں اور مختلف شعبوں کو تفویض کی جاتی ہیں ۔ مثال کے طور پر کچھ چیزیں شعبہ نشرواشاعت میں تیار ہوتی ہیں اور کچھ شعبہ تربیت تیار کر رہا ہوتا ہے ۔ ان میں خطوط کی تیاری ، سلوگنز ، ہینڈ بلز اور مختلف چیزیں شامل ہوتی ہیں ۔ پھر ہر سطح پر منصوبہ بندی ہوتی ہے ۔ ہر مہم سے قبل امیر تنظیم کی جانب سے رفقاء کے نام ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جاتا ہے ۔ یہاں سے رفقاء کی ذہنی تیاری کا آغاز ہوجاتاہے ۔ پھر مہم سے ایک دن قبل امیر تنظیم اسلامی کا ایک پیغام تمام رفقاء و احباب اور عوام الناس کے لیے بھی جاری کیاجاتاہے ۔ پھر مختلف اجتماعات میں رفقاء کو مہم کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا جاتاہے ۔ اسی طرح جو لٹریچر عوام میں تقسیم ہوتاہے کہ وہ پہلے ہم رفقاء کو مطالعہ کے لیے دیتے ہیں تاکہ انہیں علم ہو کہ وہ عوام کو کیا آگاہی دینا چاہتے ہیں ۔ پھر جہاں سیمینار ہوتاہے تو اس کو براہ راست بھی رفقاء و احباب سن رہے ہوتے ہیں ۔ ابھی کراچی میں جو سیمینار ہوا ہے تو اس کی live streaming بھی کی گئی ۔ اسی طرح تنظیم کی تینوں سطحوں ( اُسرہ ، مقامی تنظیم ، حلقہ جات ) پر ذمہ داران کی میٹنگز ہوتی ہیں اور مہم کی تیاری کی جاتی ہے ۔اُسرے کی سطح پرڈور ٹو ڈور گشت کرنا ، ایک ایک فرد سے جاکر ملنا اور تنظیم کا پیغام پہنچانا ، لٹریچر کی تقسیم ، رکشہ فلیکس اور بینرز وغیرہ لگانا شامل ہے ۔ مقامی تنظیم کی سطح پر کارنر میٹنگز ، مختلف جگہوں پر مظاہرے اور ریلیوں کا اہتمام ، حلقے کی سطح پر سیمینارز کا انعقاد شامل ہے ۔ اس طرح مختلف سطحوں سے ذمہ داریاں ادا ہوتی ہیں اور ان کی نگرانی ہر حلقہ کا ناظم دعوت کرتاہے لیکن بعض مقامات پر ہر مہم کا ایک ناظم مقرر کیا جاتاہے جو مسلسل نگرانی کررہا ہوتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر مرکز کو رپورٹ دے رہا ہوتاہے کہ کہاں پر کیا چیز ہورہی ہے ، کس طرح کام ہورہا ہے ، کہیں پر کچھ خامیاں پیدا ہوتی ہیں ، کچھ سوالات اُٹھتے ہیں تو آئندہ ان کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ الحمدللہ تنظیم اسلامی کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ ہم کوئی ایسا کام نہیں کرتے کہ جس میں ملک و قوم کو کوئی نقصان پہنچے ۔ ہم مظاہروں اور ریلیوں کے دوران روڈ بلاک نہیں کرتے ۔ جہاں بھی کوئی پروگرام کرتے ہیں تو مقامی انتظامیہ کو پہلے اس سے آگاہ کرتے ہیں اور اجازت حاصل کرتے ہیں ۔
سوال:ایسی عوامی مہمات کا عوام میں کیا رسپانس ہوتا ہے۔ کیا اس کےکوئی قابل محسوس فوائد عوام میں آپ کو کبھی نظر آئے ہیں ، آپ کا اس حوالے سے کیا تجزیہ ہے ، اپنا تجربہ شیئر کیجئے ؟
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن عارف: الحمدللہ۔ اس کے فوری نتائج قابل ذکر ہیں ۔ مثال کے طور پر تنظیم کی موجودہ مہم جو’’ بقائے پاکستان -نفاذ عدل اسلام‘‘ کے نام سے چل رہی ہے ۔ اس حوالے سے جب ہم عوام کو بتاتے ہیں کہ بحیثیت پاکستانی قوم ہمیں اس وقت جن مسائل ، مصائب اور خطرات میں گھرے ہوئے ہیں ان کی وجوہات کیا ہیںتو عوام اتفاق کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارے دل کی بات کررہے ہیں تو یہی وقت ہوتا ہے جب ان کو بتایا جائے کہ ان تمام مسائل اور مصائب سے نکلنے کا حل کیا ہے۔ قوم کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے اور ہم بتاتے ہیں کہ انفرادی سطح پر ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں اور اجتماعی سطح پر ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں ۔ وہ بھولا ہوا سبق ہم یاد دلاتے ہیں کہ ہم اپنے اصل کی طرف لوٹیں ۔ اس مہم میں خاص طور پر ہم نفاذِعدلِ اسلام کی بات کرتے ہیں لیکن بحیثیت مسلمان ہمارا اصل ہدف اُخروی نجات ہے ۔ اس کے لیے توبہ انفرادی سطح پر بھی ہے اور اجتماعی سطح پر بھی ہے ۔ انفرادی سطح کی توبہ یہ ہے ہم اپنی ذات پر اسلام کو نافذ کریں ۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں عدل قائم ہو تو وہ عدل میرے گھر میں بھی ہو،میرے دفتر میں بھی ہو ، میرے بزنس میں بھی ہو۔ پھر اجتماعی سطح پر توبہ یہ ہے کہ ہم اجتماعی سطح پر نفاذِ عدلِ اسلام کی جدوجہد میں شریک ہوں ۔ ظاہر ہے ا س کے لیے کسی اجتماعیت سے جڑنا ضروری ہوتاہے ۔ تنظیم اسلامی ان کے سامنے یہ پروگرام بھی رکھتی ہے ۔بہرحال ایسی مہمات کے خاطر خواہ فوائد نظر آتے ہیں ، لوگوں تک آگاہی پہنچتی ہے اور لوگ رجوع بھی کرتے ہیں ۔ چند واقعات شیئر کروں گا ۔ ایک موقع پر سود کے خلاف تنظیم کی مہم جاری تھی ، انہی دنوں وفاقی شرعی عدالت میں سود کے خلاف کیس بھی چل رہا تھا ۔ پاکستان کےایک بڑے اخبار نے لیڈنگ سٹوری شائع کی کہ ہم نے آج تک ایسا مظاہرہ کبھی نہیں دیکھا کہ ٹریفک بھی چل رہا ہے اور سینکڑوں لوگ مظاہرہ میں ڈھائی میل لمبی قطار میں کھڑے ہیں ، ہاتھوں میں پلے کارڈ اُٹھا رکھے ہیں ، کچھ لٹریچر تقسیم کررہے ہیں ۔ اس مظاہرہ کے دوران لوگ آتے تھے ، ہم سے ملتے تھے اور پوچھتے تھے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے ، ہم آپ کے ساتھ کس طرح شامل ہو سکتے ہیں ۔ ہمارا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو توبہ کی طرف متوجہ کیا جائے کیونکہ اصلاح کے سارے دروازے اس کے بعد ہی کھلتے ہیں ۔ اسی طرح کئی مرتبہ حیاء کے حوالے اور بے حیائی اور فحاشی کے خلاف تنظیم کی مہمات جاری تھیں تو کئی بڑے لوگوں نے پیش کش کی کہ ہم بھی آپ کی اس مہم میں حصہ ڈالنا چاہتے ہیں اور کبھی کسی بزنس مین نے اپنا بل بورڈ پیش کر دیا کہ ایک دو ماہ کے لیے آپ اپنا پیغام اس کے ذریعے پھیلا سکتے ہیں ۔ کئی جگہوں پر اب بھی تنظیم کے بینزر لگے ہوئے ہیں اور لوگ صدقہ جاریہ کے طور پر ان کو لگا رہے ہیں ۔ اسی طرح کئی لوگ کہتے ہیں کہ ہم آپ کے ہینڈبلز مزید چھپوا کر تقسیم کرنا چاہتے ہیں ۔ الحمدللہ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹراسرار احمدؒکے زمانے سے ہم نے اپنی کسی چیز پر copyrights نہیں رکھے، ہم صرف یہ کہتے ہیں جو چیز بھی آپ پرنٹ کروا رہے ہیں وہ ایک مرتبہ ہمیں دکھا دیں تاکہ اس میں کوئی ردوبدل نہ ہو جائے ۔ اس کے بعد آپ خودچھپوائیں اور تقسیم کریں۔ الحمدللہ ۔ بہت سارے لوگوں نے اس حوالے سے بھی تنظیم سے تعاون کیا ۔ پھر ان مہمات کی وجہ سے کئی لوگ تنظیم سے رابطہ کرتے ہیں ، ہمارے پروگرامز میں شرکت کرتے ہیں اور ان میں سے بعض تنظیم میں بھی شامل ہوتے ہیں ۔
خورشید انجم:’’بقائے پاکستان- نفاذِ عدلِ اسلام ‘‘ مہم کا پس منظر یہ ہے کہ 1982ء میں ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے استحکام پاکستان کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی اور اس پر ان کے مختلف لکچرز بھی پورے ملک میں ہوئے تھے ۔ ان میں ڈاکٹر صاحب ؒ نے بڑے واضح انداز میں قوم کے سامنے یہ بات رکھی تھی کہ پاکستان کا قیام ایک معجزہ تھا اور یہ صرف کلمہ طیبہ کی بنیاد پر ممکن ہوا تھا ۔ اس کے پیچھے نہ کوئی تاریخی عوامل کارفرما تھے ، نہ ہی کوئی نسلی و لسانی محرک تھا ، نہ کوئی جغرافیائی تقدس حاصل تھا ۔ صرف کلمہ کی بنیاد پر یہ ملک بنا اور کلمہ کے نفاذ سے ہی اس کا استحکام اور اس کی بقاء مشروط ہے ۔ اگر اسلام آئے گا تو یہ ملک بچے گا۔ اس کا طریقہ بھی انہوں نے بتایا کہ یہ منہج انقلاب نبوی کی روشنی میں ممکن ہوگا ۔ اس وقت ملک گیر سطح پر ایک بحث چل رہی ہے کہ مہنگائی ہے ، ظلم ہے ، عوام مصائب میں پھنسےہوئے ہیں، غربت ہے ۔ ہم عوام میں اس حوالے سے شعور اُجاگر کرتے ہیں کہ ان تمام مسائل سے نکلنے کا واحد حل اسلام کا نظام عدل ہے ۔ عدل اسلام کا کیچ ورڈ ہے ۔ حضرت سعد بن ابی وقاصh نے جب ایران کو فتح کیا تھا تو ایرانیوں نے کہا تھا کہ آپ لوگ پہلے بھی آتے تھے لوٹ مار کرتے تھے اور چلے جاتے تھے ۔ اب واپس کیوں نہیں جاتے ۔آپؓ نے جواب دیا تھا کہ اب ہم خود نہیں آئے بلکہ ہمیں بھیجا گیا ہے تاکہ ہم لوگوں کو جاہلیت کے اندھیروں سے نکال کر اسلام کی روشنی کی طرف لائیں اور بادشاہوں کے ظلم و ستم سے نکال کر عدل کے نظام کی طرف لائیں ۔ ہمارے ہاں جب نفاذ شریعت کی بات کی جاتی ہےتو لوگوں کے ذہن صرف چند سزاؤں کا تصور اُبھر آتاہے حالانکہ شریعت صرف چند سزاؤں کے نفاذ کا نام نہیں ہے بلکہ شریعت عدل کا ایک پورا نظام عطا کرتی ہے ۔ جب وہ نظام قائم ہو جائے گا تو لوگوں کو روٹی ، کپڑا ، مکان فراہم کرنا اور بنیادی ضروریات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری بن جائے گی ۔ جب لوگوں کو حقوق ملیں گے تو جرائم خود بخود کم ہو جائیں ۔ اسلام پہلے لوگوں کو حقوق دینے کا تقاضا کرتا ہے ۔ حضرت عمرh کے دور میں ایک مرتبہ قحط پڑ گیا تو آپ ؓنے چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا معطل کر دی تھی ۔ اسلامی فلاحی ریاست کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو انصاف فراہم کیا جائے ۔
سوال: امر بالمعروف و نہی عن المنکر ایک اہم دینی اصطلاح ہے ۔ اسی دینی فریضے کی ادائیگی کے لیے یہ مہمات بھی چلائی جاتی ہیںاور دینی اور مذہبی جماعتیں بھی اسی کےلیے کام کررہی ہیں ۔ کیا یہ کام ہمہ وقتی نہیں ہے ۔ مخصوص دن اور تاریخیں مقرر کرکے یہ کام کرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟
خورشید انجم:امر بالمعروف ونہی عن المنکرایک ایسا بنیادی فریضہ ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں تقریباً دس مرتبہ آیا ہے ۔ البتہ نہی عن المنکر کاتقاضا اور تذکرہ خصوصی طور پر آیا ہے ۔ کسی بھی بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح اس کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا: ((مَنْ رَآی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ ، وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ)) (رواہ مسلم) ’’ جب تم کسی برائی کو دیکھو تو اسے اپنے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرو ، اگر اس کی قوت نہیں ہے تو زبان سے روکو ، اس کی بھی سکت نہیں ہے تو دل میں بُرا جانو اوریہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے ۔‘‘ دوسری حدیث میں اسی کی وضاحت کی گئی ہے اور تینوں درجوں کو بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ اس کے بعد ایمان رائی کےدانے کے برابر بھی نہیں ہے۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے کہ اس کے لیے کوئی دن یا تاریخ مقرر کر دینا کیسا ہے تو اس حوالے سے عرض یہ ہے کہ انفرادی سطح پر تو یہ فریضہ ہمہ وقت ہے ۔ اجتماعی سطح پر اُسرہ ، مقامی تنظیم اور حلقہ کی سطح پر بھی اکثر آگاہی منکرات مہمات چلتی رہتی ہیں ۔ اس کے علاوہ بعضcurrent issues ہوتے ہیں اس دوران بھی مظاہرے ، ریلیاں، سیمینار وغیرہ ہوتے رہتے ہیں ۔ یہ ہمارا ایک مستقل کرنے کا کام ہے ۔ البتہ سال میں ہم ایک مہم ذرا بڑے لیول پر چلاتے ہیں جس میں ہم کسی خاص ایشو پر فوکس کرتے ہیں۔ جیسا کہ حالیہ’’ بقائے پاکستان - نفاذ عدل اسلام‘‘ مہم ہے ۔ اس مہم کے دوران ہم اس بات کو اجاگر کر رہے ہیں کہ اسلام کا نظام عدل نافذ ہوگا تو پاکستان بچے گا۔
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن عارف: ایسا نہیں ہے کہ جب ہم یہ مہم چلا رہے ہیں تو تنظیم اسلامی کی جومعمول کی مصروفیات ہیں وہ ختم ہو جائیں گی ۔ الحمدللہ ، ساری محنتیں ساتھ ساتھ چل رہی ہوتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ تمام رفقاء کی محنتوں کو قبول فرمائے ۔ معمول کے مطابق تربیتی اجتماع بھی ہورہے ہیں ، کورسز بھی ہورہے ہیں ، اُسرے اور اجتماعات بھی ہورہے ہیں اور ساتھ یہ مہم بھی چل رہی ہے ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024