(دعوت و تحریک) اسلامی نظام کی نظریاتی اساس: ایمان(6) - ڈاکٹر اسرار احمد

9 /

اسلامی نظام کی نظریاتی اساس: ایمان(6)

(بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے 1988ء کے ایک خطاب کی تلخیص)


قرآن کریم میں موجود جلی اور مخفی حقیقتوں کا یقین ِکامل
مَیں نے آپ کے سامنے جو کچھ بیان کیا‘ اس میں کچھ توجلی اور واضح چیزیں ہیں جو ہر فرد کے ذہن کی گرفت میں آسکتی ہیں اور جو ہر شخص کے لیے لازمی بھی ہیں۔ یہ چیزیں آپ کو قرآن کے ہر صفحے پر مل جائیں گی‘ جبکہ کچھ چیزیں اشارات کی صورت میں آئی ہیں۔
وہ چیزیں جو ہر شخص کے جاننے کی ہیں اور قرآن میں جلی انداز سے آئی ہیں‘ ان میں سے پہلی شے ایمان باللہ ہے۔ ایمان باللہ ہی انسان میں نیکی کا جذبۂ محرکہ (motivating force) پیدا کرنے والی اصل شے ہے۔دل میں ایمان موجود ہو تو آدمی اللہ کی محبت کی بنا پر بھلائی کے کام کرتا ہے اور اللہ کی رضا جوئی اور خوشنودی کے لیے بدی سے رکتا ہے۔ وہ ہر دم ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں میرا اللہ مجھ سے ناراض نہ ہو جائے۔ ایمان باللہ گویا مثبت قوتِ محرکہ ہے۔ دوسری شے ایمان بالآخرۃ ہے۔ ایمان بالآخرۃ بھی قوتِ محرکہ ہے‘ لیکن یہ ایک طرح کا کوڑا ہے۔ یہ یقین کہ قیامت کے دن حساب کتاب ہوگا‘ جواب دہی ہوگی‘ میرا ایک ایک عمل میرے سامنے آجائے گا ‘یہ دراصل انسان کے اندر اُسے شر سے بچانے اور خیر کی طرف راغب کرنے کی ایک منفی قوت ہے‘ اگرچہ اس کا بھی ایک مثبت پہلو ہے۔ بہر حال یہ دونوں چیزیں اتنی اہم ہیں کہ ہر فرد کی ضرورت ہے۔ شیخ احمد سرہندیؒ نے انہی کو مبدأ و معاد سے تعبیر کیا ہے۔ تیسری چیز ایمان بالرسالت ہے۔ ایمان بالملائکہ‘ ایمان بالکتاب اور ایمان بالرسل یہ تینوں ایمان بالرسالت کے اجزاء ہیں۔
البتہ بعض حقائق جو ذرا مخفی ہیں‘ قرآن حکیم میں اشارات کی صورت میں آئے ہیں۔ مثلاً اس دنیا میں آنے سے پہلے بھی ہماری ایک زندگی ہے‘ قرآن نے اس کو زیادہ نمایاں نہیں کیا‘ صرف ایک دو مقامات پر اشارے دیے ہیں۔ مثلاً قرآن حکیم میں اہل جہنّم کی فریاد نقل ہوئی ہے:
{قَالُوْا رَبَّـنَـآ اَمَتَّـنَا اثْنَـتَـیْنِ وَاَحْیَیْـتَنَا اثْنَتَـیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَہَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ(11)} (المؤمن)
’’وہ کہیں گے : اے ہمارے رب! تُو نے ہمیں دو مرتبہ مارا اور دو مرتبہ زندہ کیا‘ پس ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں ‘تو کیا اب یہاں سے نکلنے کا بھی کوئی راستہ ہے؟‘‘
اللہ تعالیٰ نے عالم ِ ارواح میں ہماری روحوں کو پیدا کیا۔ اس کے بعد ارواح کو گویا کسی کولڈ سٹوریج میں رکھ دیا۔ یہ گویا اماتت ِ اولیٰ ہے۔ پھر انسان کا یہاں احیاء ہوا ‘ جب اس کے جسد ِخاکی کے ساتھ جو رحم ِمادر میں تیار ہوا‘ اس کی روح کو شامل کیا گیا ۔ یہ احیائے اولیٰ ہے۔ پھر اس پر موت واقع ہو گی جب انسان اس دنیا کو چھوڑ جائے گا ‘ اور یہ ’’اماتت ِ ثانیہ‘‘ ہو گا ‘ جس کے بعد انسان کا زمین والا حصّہ زمین میں رہ جائے گا اور جو آسمان سے آیا تھا وہ آسمان کی طرف چلا جائے گا۔ قرآن حکیم میں فرمایا گیا: {مِنْہَا خَلَقْنٰکُمْ وَفِیْہَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی(55)} (طٰہٰ) ’’اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا اور اسی میں تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے دوسری دفعہ نکالیں گے‘‘۔ تاآنکہ جب بعث بعد الموت کا مرحلہ آجائے گا تو انسان کو زمین سے نکالا جائے گا۔ یہ گویا دو اماتتیں اور دو احیاء ہوگئے جو سورۃ المؤمن کی مذکورہ بالا آیت میں بیان ہوئے۔
اسی طرح اس بات کی طرف بھی صرف اشارہ کر دیا گیا ہے کہ انسان کی حقیقت کیا ہے اور اُس کا اصل وجود کون سا ہے؟ انسان کا اصل وجود یہ جسد ِحیوانی نہیں بلکہ کچھ اور (روحِ ربانی) ہے۔ اللہ تعالیٰ اور روحِ انسانی کے درمیان اتنا گہرا ربط و تعلق ہے کہ جب انسان اللہ کو بھول جاتا ہے تو گویااپنے وجود کو بھی بھلا دیتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {وَلَا تَـکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰىھُمْ اَنْفُسَہُمْ ط}(الحشر:۱۹) ’’ان لوگوں کی مانند نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے ان کو اپنے آپ سے غافل کردیا‘‘۔ یعنی اللہ کو بھلانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنی حقیقت کو فراموش کربیٹھے۔ انہوں نے اپنے آپ کو اشرف المخلوقات سمجھنے کے بجائے‘ بس زیادہ ارتقاء یافتہ حیوان سمجھ لیا۔ یہ دراصل اللہ کو بھلانے کی نقد سزا ہے جو انہیں اسی دُنیا میں مل رہی ہے۔یہاں ’’اَنْفُسَھُمْ‘‘ ( اپنے آپ) سے مراد وجودِ حیوانی نہیں ہوسکتا‘ اس لیے کہ کوئی بھی شخص اپنے حیوانی وجود کو نہیںبھولتا۔ اس کا نفع و نقصان اور اس کی تکلیف و راحت کا خیال تو اُسے ہر دم رہتاہے۔ اسی کو تو خوش رکھنے کی خاطر وہ حلال و حرام کی بھی پروا نہیں کرتا۔انسان اپنے جس وجود سے غافل ہوجاتا ہے وہ دراصل اُس کا روحانی وجود ہے‘ اور یہی اصل وجود ہے۔ اُپنشد کا ایک بہت خوبصورت جملہ ہے:
" Man in his ignorance identifies himself with the material sheeths which encompass his real self." ’’انسان اپنی نادانی اور جہالت میں اپنے آپ کو ان مادّی غلافوں سے تعبیر کر بیٹھتا ہے جن کے اندر اُس کی اصل حقیقت مضمر اور پنہاں ہے۔‘‘
انسان کی اصل انا‘ اس کی اصل خودی اس کا وہ روحانی وجود ہے جو حقیقت میں مسجودِ ملائک بنا‘ نہ کہ یہ حیوانِ انسان۔ ازروئے الفاظِ قرآنی: {فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ(72)}(صٓ)
’’پھر جب مَیں اس کو درست کرلوں اور اُس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تو اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔‘‘
افسوس کہ انسان اپنے اصل روحانی وجود کو بھول گیا۔جب تک اسلامی نظامِ حیات کی یہ فکری اسا س ہمارے اندر مستحکم نہ ہو جائے‘ حقیقت ِ کائنات کا یہ پورا تصوّر دل و دماغ میں راسخ نہ ہوجائے‘ تب تک اسلامی نظامِ حیات کا نفاذیااسلامی انقلاب‘ یہ صرف ایک آرزو اور تمنّا ہی رہے گی۔ اسلامی نظام کے بالفعل نفاذ کے لیے پہلا کام یہ ہے کہ فکر ِاسلامی کی تشکیل ِنو ہو اور ایمان ایک روشن یقین (burning faith)کی شکل اختیار کرے‘ اگلا قدم پھر ہی اٹھ سکے گا۔
یقین ِقلبی کا ذریعہ: قرآن مجید
مَیں نے جو کچھ بیان کیا ہے اس کی تفصیلات میں توکسی کو اختلاف ہوسکتا ہے‘ لیکن کم ازکم اس کی واضح اور کھلی کھلی باتیں تو ہر مسلمان مانتا ہے‘ البتہ اصل کمی یقین کی ہے جب کہ یقین قلبی بہت ضروری ہے۔ بقولِ اقبال ؎
یقیں پیدا کر اے ناداں‘ یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری !
لیکن اب سوال یہ ہے کہ وہ یقین کیسے پیدا ہو؟ یہ یقین کہاں سے آئے؟ اس کے لیے مَیں پھر عرض کروں گا کہ اس کا ذریعہ قرآن حکیم ہے۔ قرآن حکیم میں حضورﷺ سے خطاب ہوا:
{وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَـآ اِلَـیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَاط مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْـکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰـکِنْ جَعَلْنٰـہُ نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَآءُ مِنْ عِبَادِنَاط وَاِنَّکَ لَـتَہْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (52)}(الشوریٰ)
’’اور(اے نبیﷺ!) اسی طرح ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے ایک روح (یعنی قرآن) اپنے امر میں سے۔ آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے‘لیکن ہم نے اس(قرآن ) کو ایسا نُور بنایا ہےجس کے ذریعے ہم اپنے بندوںمیں سے جس کو چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔ اور بے شک (اے محمدﷺ!) آپ سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتے ہیں۔‘‘
حضورِ اقدس ﷺجو یقین مجسم بنے اور پھر آپؐ سے یہ یقین معاشرے کے اندر متعدی ہوااور لوگوں میں پھیلا‘ قرآن مجید اس کا بھی یہی synthesis کرتا ہے۔ سورۃ الضحیٰ میں فرمایا: {وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَھَدٰی(7)} ’’اور اُس نے آپؐ کو تلاشِ حقیقت میں سرگرداں پایا تو ہدایت دی۔‘‘ یعنی آپؐ تفکر و اعتبار (غوروفکر) کے مراحل طے کرتے ہوئے جب ایسے مرحلے تک جاپہنچے گویا حقیقت کے دروازے پردستک دی‘ تو آپؐ پر دروازے وا کر دیے گئے۔ پھر اس کے بعد اس میں یقین کا رنگ وحی کے ذریعے سے پیدا ہوا۔ آج ہمارے دلوں میں اگر ایمان کی شمع روشن ہوسکتی ہے تو اسی نورِ وحی یعنی آیاتِ قرآنی سے ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہی ہمارے اندر ایمان کی جوت جگا سکتی ہے۔ اللہ کی معرفت یوں تو ہمارے دلوں میں موجود ہے‘ لیکن وہ خوابیدہ (dormant) ہے ۔ اسے بیدار کرنے کے لیے آیاتِ قرآنیہ نازل ہوئی ہیں اور یہ قرآن مجید ہی کے ذریعے متحرک (activate) ہوسکتی ہے ؎
ایسے کچھ تار بھی ہیں سازِ حقیقت میں نہاں
چھو سکے گا نہ جنہیں زخمہ ٔ مضرابِ حواس
انسان کی فکر کی سطح پر ایمان کو (activate) کرنے کے لیے تو آیاتِ آفاقیہ موجود ہیں۔ چنانچہ فرمایا:
{سَنُرِیْہِمْ اٰیٰـتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَـبَـیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ ط} (حٰمٓ السجدۃ:۵۳)
’’ہم عنقریب اُن کو اطراف ِ عالم میں اور خود اُن کی ذات میں بھی نشانیاں دکھائیں گے‘ یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے۔‘‘
لیکن اُس کے اندر کے تاروں کو چھیڑنے کے لیے آیاتِ قرآنیہ کا نزول ہوا ہے۔ ارشاد ہوا:
{اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِط}(البقرۃ:۲۵۷)
’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اُن کا دوست اللہ ہے جو ان کو اندھیروںسے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے۔‘‘
وہ لوگ جو ذہنی صلاحیتیں رکھتے ہوں اور جنہوں نے غور و فکر کے مراحل طے کیے ہوں‘ ان کے اندر قرآن مجید کی آیات ہی کے ذریعے سے یہ ایمان اُبھرے گا اور اسی کے ذریعے فکرکی جڑیں مضبوط ہوں گی۔ آپ غالب کا ایک شعر سنتے ہیں تو جھوم جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس شعر نے آپ کے وجودکے اندر کے تاروں میں سے کسی تار کوچھیڑدیا ہے۔ آپ کااپنا کوئی احسا س تھا جو اس شعر کے ذریعے متحرک ہوا اور آپ جھوم گئے۔
ایمان و یقین حواس کے مشاہدے اور خارجی تجربہ سے پیدا نہیں ہوسکتا۔ علّامہ اقبال نے تو یہاں تک ثابت کیا ہے کہ خارجی تجربہ بسا اوقات انسا ن کو دھوکا دے دیتاہے۔ مثلاً آپ ایک گرم چیز کو زیادہ دیر چھونے کے بعد کم گرم شے کو چھوئیں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ ٹھنڈی ہے۔ لیکن ایک ٹھنڈی شے کو چھونے کے بعد آپ اسی کم گرم شے کو چھوئیں تو معلوم ہوگا کہ وہ گرم ہے۔ اندازہ کیجیے ‘ ایک ہی شے کو آپ کے حواس گرم بھی بتارہے ہیں اور ٹھنڈا بھی۔ گویا خارجی تجربہ دھوکہ دے سکتا ہے اور اس سے انسان کو طرح طرح کے مغالطے ہوسکتے ہیں۔ یقین ِقلبی آیاتِ قرآنیہ سے پیدا ہوگا۔حافظ ابن قیم ؒفرماتے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو قرآن کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس کرتے ہیں گویا یہ قرآن میں لکھا ہوا نہیں بلکہ ان کے اپنے دل پرنقش ہے۔ کلام اللہ اور اُن کے دل کے درمیان اتنی ہم آہنگی اور توافق ہوتا ہے کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو میری فطرت کی پکار ہے۔(اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ!)
اسلامی انقلاب کے لیے فکری اساس کی پختگی
آیاتِ قرآنیہ کے ذریعے تزکیہ اگرچہ دِقّت طلب کام ہے‘ لیکن یہ انتہائی ناگزیر ہے۔ ایمان کی تعمیر نو (reconstruction of faith)کے لیے یہ محنت بہرحال کرنی پڑے گی۔ ضروری ہے کہ پہلے سماج کے ایک طبقے اور گروہ کے اندر یہ ایمان پیدا ہو‘ پھر اس طبقے سے متعدی ہو کر کچھ اور لوگوں کے دلوںمیں گھر کر ے ‘اور یہ یقین اس درجے تک ہوکہ وہ غلبہ ٔ دین ِحق کے لیے اپنا تن من دھن لگا دینے کے لیے تیار ہو جائیں ‘ اُن میں وہ قوت پیدا ہوجائے کہ اللہ کی رضا اور اُخروی فلاح کے لیے اپنی ہر شے قربان کرسکتے ہوں۔ تب صحیح طور پر اسلامی تحریک کے لیے افراد کی تیاری کی پہلی شرط پوری ہوگی۔ ایسے ہی افراد انقلاب کے مراحل سے گزرتے ہوئے وہ انقلاب لائیں گے جس سے اسلام کا نظام ِ حیات بالفعل قائم ہو جائے گا۔اگر ہم محض موروثی عقیدے‘ جو ہمیں وراثتاً منتقل ہوتا ہوا چلا آرہا ہے‘ مگر لوگوںکی سوچ اور ان کے نظامِ اقدار کے اندر سرایت کیے ہوئے نہیں ہے‘ کی بنیاد پر کوئی جذباتی تحریک اٹھا کریا کچھ وقتی ہنگامے کھڑے کر کے‘ مطالبات کا ایک طومار سامنے لا کر ‘ سیاسی تحریکیں چلاتے رہے تو اس سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ کرنے کا اصل کام یہ ہے جو مَیں نے بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اُس زندہ ایمان سے نوازے جسے مَیں نے ’’روشن یقین‘‘ (burning faith)سےتعبیر کیا ہے۔(آمین!) (ختم شد)