(نقدو نظر) سانحہ جڑانوالہ کی اصل کہانی - نعیم اختر عدنان

9 /

سانحہ جڑانوالہ کی اصل کہانینعیم اختر عدنان

سٹی تھانہ جڑانوالہ کی حدود میں واقع کرسچن کالونی، علی نگری کے علاقہ میں توہین قرآن اور رسالت مآب ﷺ کی شان اقدس میں 16 اگست 2023ء بروز بدھ کو ایک انتہائی گھناؤنا واقعہ پیش آیا۔ اُس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ گورنمنٹ گرلز ہائی سکول میں درجہ چہارم کے ملازم سلیم مسیح کے دو بیٹوں مسمیان راجہ عامر سلیم مسیح اور راکی مسیح نے قرآن مجید کے مقدس اوراق پر سرخ مارکر سے نازیبا کلمات لکھے، اسی طرح کچھ اوراق پر رسالت مآبﷺ کے بارے میں توہین آمیز اور گستاخانہ باتیں تحریر کیں، ان تحریروں میں مسلمانوں اور اُن کے عقائد کی بھی توہین کی گئی اور اُن کا مذاق اُڑایا گیا۔ ان اوراق پر اور گستاخانہ مواد پر اپنی تصاویر اور ٹیلی فون نمبر بھی درج کیے، پھر یہ مواد سینما روڈ نامی گلی میں پھینک دیا گیا۔ یہی مواد سوشل میڈیا پر بھی مذکورہ ملزمان کے دوستوں نے اپ لوڈ کیا۔ اس پر یہ چیلنج بھی تحریر تھا کہ جس نے جو کارروائی کرنی ہے وہ کر کے دیکھ لے۔ اس سارے معاملے کو سٹی تھانہ پولیس کے سامنے لایا گیا کہ بروقت اور مناسب قانونی کارروائی کی جائے۔ لیکن جڑانوالہ کے عیسائی مذہب کے حامل اے سی شوکت مسیح نے قانون کی عمل داری میں سست روی کا مظاہرہ کیا اور ملزمان کے خلاف مقدمہ کا اندراج اور ان کی گرفتاری بروقت نہ کی۔ جس سے ملزمان کو بیرون ملک فرار ہونے کا موقعہ مل گیا ۔ مقامی پولیس اور تحصیل و ضلعی انتظامیہ اگر قانون کے مطابق بروقت کارروائی کرتی تو جلاؤ گھیراؤ کے نا خوشگوار اور ناپسندیدہ واقعات رونما نہ ہوتے۔ بعداز خرائی بسیار اے سی شوکت مسیح کو معطل کرکے تاندیانوالہ کے اے سی رانا اورنگ کو جڑانوالہ کا اضافی چارج دے دیاگیا۔ سانحہ جڑانوالہ کے پس پردہ اسباب ومحرکات کے ضمن میں کچھ معلومات تحریر کر دی گئیں ہیں۔ آئی جی پنجاب جناب ڈاکٹر عثمان انور نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ توہین اور گستاخی کے مرتکب ملزمان بیرون ملک فرار ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سے اہم ترین سوال یہ ہے کہ اگرچہ پاکستان جیسے مسلمان اکثریت کے ملک کو یقینی طور پراقلیتوں کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کرنا ہوگی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اقلیتوں کے بعض عناصر کو توہینِ رسالت اور توہین قرآن جیسے قبیح جرائم کا ارتکاب کرنے کی کھلی چھٹی دی جائے۔ ایسے افراد کو مغربی ممالک میں وی آئی پی پروٹوکول اور شہریت سمیت تمام سہولتیں فی الفور مل جاتیں ہیں۔ تحفظ ناموس رسالت کے قانون کے تحت ماضی میں گستاخی کے مرتکب ملزموں کے خلاف مقدمات بھی درج ہوئے، سیشن کورٹس اور ہائی کورٹس سے مجرموں کو سزا بھی سنائی گئی مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ جس سے عوام میں یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ریاست تو تحفظ ناموس رسالت میں بُری طرح ناکام ہوگئی بلکہ یہاں تک کہ رہائی پاتے ہی ان لوگوں کو ہر حکومت نے فوری طور پر بیرون ملک بھیجنے کا سرکاری طور پر انتظام کیا۔ میں ذاتی طور پر قانون کو ہاتھ میں لینے اور گھیراؤ اور جلاؤ کرنے کے سخت مخالف ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کا اللہ ،اُس کے رسول ﷺاور اُس کی کتاب سے گہرا روحانی اور جذباتی لگاؤ ہے جو بُری طرح مجروح ہوا ہے۔
اس تحریر کا نا چیز راقم توہین اور گستاخی کے ایک مقدمے کی پیروی کر رہا ہے۔ یہ مقدمہ تھانہ گوالمنڈی لاہور میں 2001ء میں درج ہوا۔ سیشن کورٹ نے مجرم کو سزائے موت کا حق دار قرار دیا بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے بھی اس سزا کو برقرار رکھا۔اب 2017ء سے یہ کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے گویا 2001ء کا مقدمہ 2023ء کو بھی انجام تک نہیں پہنچا۔ ہمارے ملک کے ذمہ داران جب آئین و قانون کی پاسداری کریں گے تو یہ عوام کے لیے مثال بنے گا اور وہ بھی اپنے بپھرتے ہوئے جذبات پر قابو پاسکیں گے۔