پاکستان کی خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات …
چین اور روس کی طرف توجہ اور امریکی غلامی سے نجات کی طر ف پیش رفتنیز متنوع تعلقات کی پالیسی
چین نے مارچ 2023ء میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی معاہدہ کرایا ہے۔ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے حالیہ معاہدے نے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے کردار کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے اور پاکستان کو اس پیش رفت کا نوٹس لینا چاہیے ۔پاکستان نے روایتی طور پر امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے ہیں اور دونوں ممالک نے انسداد دہشت گردی اور علاقائی استحکام جیسے امور پر تعاون کیا ہے۔ تاہم مشرق وسطیٰ میں امریکا کا بدلتا ہوا کردار پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات کو متاثر کر سکتا ہے۔دوسری جانب چین اور روس حالیہ برسوں میں پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنا رہے ہیں۔ چین نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے پاکستان کے بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے جبکہ روس نے پاکستان کے ساتھ اپنے فوجی اور اقتصادی تعاون کو گہرا کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
* حکومت کے لیے سفارشات: درج بالاپیش رفت کی روشنی میں پاکستان کو امریکہ، چین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ چند قابل توجہ نکات:
1۔تعلقات میں تنوع:
پاکستان کو امریکہ، چین اور روس جیسی بڑی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو متنوع بنانا چاہیے۔ اس سے پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کی خود مختاری برقرار رکھنے اور کسی ایک ملک پر انحصار کم کرنے میں مدد ملے گی۔مضبوطی تعلقات کی پیش رفت میں پاکستان کو اپنی اسلامی تشخص، علاقائی کلچر اور خاندانی نظام کو محفوظ بنانے کے اقدامات بھی کرنے چاہیں۔ جہاں پر بھی بڑی طاقتوں کا تسلط رہا ہے وہاں کے سماجی ڈھانچے پر اس کے اثرات نمایاں ہوئے ۔ خصوصاًامریکہ کے حوالے سے مغربی اقدار و تشخص نمایاں طورپر اثر انداز ہوا ہے۔لہٰذا اس کے تدارک کی ضرورت ہے۔
2۔چین کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنائیں:
چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اور فوجی اثر و رسوخ کے پیش نظر پاکستان کو چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرنا چاہیے۔ اس سے پاکستان کو چینی منڈیوں اور ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کرنے میں مدد ملے گی ۔ البتہ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ تیسری دنیا کے جن ممالک میں چین گیا وہاں کے سماجی ڈھانچے پر اس کے اثرات نمایاں ہوئے اور علاقائی تشخص اور معاشرتی نظام پر چین کی آزاد سوچ کے اثرات نمایاں ہوگئے۔ لہٰذا اس کے تدارک کی بھی اشد ضرورت ہے۔
3۔ روس کے ساتھ نئے مواقع کی تلاش:
پاکستان کو روس کے ساتھ تعاون کے نئے مواقع تلاش کرنے چاہئیں، خاص طور پر توانائی اور دفاع کے شعبوں میں۔ اس سے پاکستان کو امریکہ پر انحصار کم کرنے اور اپنے فوجی سازوسامان کے ذرائع کو متنوع بنانے میں مدد ملے گی۔
4۔ علاقائی مفادات میں توازن:
پاکستان کو اپنے علاقائی مفادات کو متوازن بنانا چاہیے اور جغرافیائی وسیاسی رقابتوں کے درمیان پھنسنے سے بچنا چاہیے۔ اس کے لیے پاکستان کو محتاط سفارت کاری میں شامل ہونے اور بڑی طاقتوں کے درمیان تنازعات میں کسی کا ساتھ دینے سے گریز کرنے کی ضرورت ہوگی۔پاکستان کو مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے جغرافیائی وسیاسی منظرنامے کی روشنی میں امریکہ، چین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ اپنے تعلقات کو متنوع بنا کر اور اپنے علاقائی مفادات کو متوازن بنا کر پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کی خودمختاری کو برقراررکھ سکتا ہےا ور اپنے قومی مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے۔ البتہ India کے ساتھ معاملہ خصوصی ہے۔ اکھنڈ بھارت کے تحت پاکستان کو اپنے اندر ضم کرنے پر اس کے عزائم ہماری دائمی دشمنی پر مبنی ہیں۔ لہٰذا ہمیں مسلسل دفاعی لحاظ سے مضبوط سے مضبوط تر ہونے اور اس کے عزائم کو بے نقاب کرنے اور ان کے تدارک کا بڑھ کر اہتمام کرنا چاہیے۔
.5 معیشت امریکی معیشت ممکنہ طور پر ڈالر کی قدر میں کمی اور بین الاقوامی تجارت کے لیے ڈالر کی بالادستی کے خاتمے کے ساتھ نیچے جا رہی ہے۔ پاکستان کو آنے والے دنوں میں امریکی حمایت یافتہ مالیاتی اداروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اس عنصر کے پیش نظر احتیاط سے چلنا چاہیے۔اس ضمن میں اپنی داخلی اور معاشی خود مختاری کو بھی یقینی بنانے کے لیے ماضی میں بنائے جانے والے قوانین پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
.6 تبادلاتی تجارت(barter trade) پاکستان جتنی جلدی امریکی غلامی کی زنجیروں کو توڑ دے، اتنا ہی بہتر ہے۔موجودہ حالات میں نان ڈالر ادائیگی کے نظام میں سستا تیل اور گندم خریدنے پر توجہ نیز تبادلاتی تجارت (barter trade) پر بھی توجہ دے۔
.7 پاکستان کےلیے عرب ممالک ہمیشہ سے اہم ترین رہے ہیں ۔ چونکہ یہ مسلمان ممالک ہیں اور وجوہات بڑی واضح اور سادہ ہیں ۔ پچاس لاکھ کے قریب پاکستانی وہاں رہتے اور کما کر پاکستان بھیجتے ہیں ۔ ہر مشکل وقت میں ان ممالک نے بے لوث مدد کی ۔ قطر ، سعودیہ، کویت اور بحرین سمیت دیگر ممالک کے دفاع میں پاک فوج عملی کردار ادا کرتی رہی ہے ۔ حکومتی و سرکاری اداروں کے علاوہ پرائیویٹ فلاحی اداروں اور تنظیموں کی سطح پر بھی ان ممالک سے اربوں کے فنڈز آتے ہیں۔ فنڈ ز کی درآمد کے اس تمام عمل کو ریگولیٹ کرنا ہوگا۔
.8 پاکستان کے لیے امید کی کرنیں:
• عرب ممالک اور چین کے ایک ہی بلاک بننا
• ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشمکش کا خاتمہ
• سعودیہ عرب کے ترکی، قطر اور ملائیشیا سے تعلقات بھی بحال ہو چکے ہیں۔
• سی پیک کے روٹ اور تعطل کا شکار منصوبے بحال ہو رہے ہیں
• زبردست جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر چین اور روس دونوں کی گرم پانیوں تک رسائی کے مواقع
.9 ملکی مفاد کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر پاکستان رہے گا تب ہی اسلام کےلیے جدوجہد ہوسکے گی۔اس کے لیے مقدرمقتدر طبقات ، حکمرانوں اور سیاست دانوں کو اپنا کردا ر اداکرنے کی ضرورت ہے۔
.10 البتہ اس بات کے حوالہ سے بہت احتیاط اور توجہ کی ضرورت ہے کہ امریکی غلامی سے نجات کی فکر کرتے ہوئے روس اور چین کی طرف رخ اور توجہ کی کیفیت ایسی نہ ہو کہ ایک دوسری غلامی میں چلے جائیں۔ ملکی خود مختاری اور مفاد کا تحفظ بے حد ضروری ہے۔ نیز سب سے بڑھ کی اللہ تعالیٰ کی غلامی اختیا ر کرنے، ملکی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت او ر مقصد قیام پاکستان، یعنی نفاذ دین اسلام کی طرف پیش قدمی کرنا سب سے بڑھ کر لازمی ہے۔
ان تمام تجاویز کے لیے ایک مستحکم حکومت نیز خود دار، آزاد اور مخلص قیادت کی ضرورت ہے جو ملکی مفاد اور دینی حمیت کو ذاتی، خاندانی، کاروباری اور پارٹی مفادات پر ترجیح دے اور عوام الناس سے قربانیوں کا مطالبہ کرنے کی بجائے خود آگے بڑھ کر اپنی مراعات سے دستبردار ہوجائے ۔تب ہی ملک خوشحال اور مستحکم ہوگا۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024