(کارِ ترقیاتی) ہم زندہ نہیں ہیں! - عامرہ احسان

8 /

ہم زندہ نہیں ہیں!عامرہ احسان

ہماری خبروں کی دنیا ہر آن تہلکے بپا کرکے قوم کو مصروف رکھتی، توجہ ہٹاتی رہتی ہے۔ کبھی ہوا میں معلق بٹگرامی بچے، کبھی لفٹ میں حبسِ دم کے خدشے میں پھنسے وکلاء، وقتی طور پر بجلی گیس کے جھٹکے لگاتے، ہوش گم کر دینے والے بلوں کے غم بھلا دیتے ہیں۔ بٹگرام میں معلق چیئرلفٹ، جنگلات، پہاڑوں، کھائیوں میں گھری، ہزار فٹ سے زیادہ بلندی پر، 8 افراد بشمول 6 کم عمر طلبہ نے قوم کو معلق رکھا۔ بڑے اداروں کی کوششیں تیز ہواؤں اور ناساز گار تکنیکی حالات میں صرف دو کو نکالنے میں کامیاب ہوسکیں۔ جس طرح پاکستان خود اللہ توکل، دیسی طریقوں سے جھٹکے کھاتا، ہچکیاں لیتا، سرد آہیں بھرتا چلا جا رہا ہے۔ عوام سیاسی، معاشی، عدالتی گھڑمسوں کے بیچ پلے ہیں، سو اس موقع پر بھی چہ میگوئیوں، سجدوں، دعاؤں، وظیفوں پر فکرمندوں نے دن گزارا۔ رات کا اندھیرا امید ویاس کے مابین رولر کوسٹر اثر (غیرمتوقع ہچکولوں، جھٹکوں، چکروں بھرا جھولا) لے کر آیا۔ ایسے میں جان جوکھوں میں ڈال کر، خطرات میں گھر کر جب رضاکارانہ دو افراد نے یہ بِیڑا اٹھایا اور رات گئے یہ آپریشن کامیابی سے مکمل ہوا تو یہ عظیم کارنامہ تھا۔ شہ سرخیوں میں ان افراد کو ہیرو بناکر متعارف کروایا جاتا، اعزاز سرکاری طور پر دیا جاتا تاکہ جوانوں کی حوصلہ افزائی ہوتی۔ بہادری، ایثار، خطرات کے چیلنج قبول کرکے جان بچانے کے جذبے توانا ہوتے۔ مگر صرف مقامی طور پر کسی نے گلے لگا لیا، شاباش دی اور انعام کا اعلان کردیا۔ حکومت نے سارے سہرے خود پہن لیے، اداروں کو پہنا دیے (جن کی عمر سہرے پہننے کی بھی نہ تھی۔) نئے نویلے وزیر اعظم نے فرمایا: یہ ہم سب کا اجتماعی کریڈٹ ہے! داد وتحسین سے حوصلے بڑھتے ہیں۔ آپ سب تو پہلے ہی حوصلہ مند ہیں، مواقع پر بروقت کارکردگی دکھاتے ہیں۔ قوم کے بچوں، نوجوانوں کو ہمت افزائی کی ضرورت ہوتی ہے، آگے بڑھانے میں مدد دیتی ہے۔ قوم الزام تراشیوں کا کھیل اور سہرے پہننے کے مقابلے سے ہی نمٹتی رہتی ہے۔ حقدار کو حق دینے اور مجرم پکڑنے سے گریزاں رہتی عدالت در عدالت چکر دیتی رہتی ہے! ترقی کی شاہراہ یہ نہیں ہے، اسی لیے بھٹکے پھر رہے ہیں۔ اس واقعے میں آخر میں تکبیریں گونجی تھیں، آپریشن مکمل ہونے پر۔ سو رہے نام اللہ کا، جو معجزاتی طور پر اس ملک کو چلا رہا ہے۔ الٰہ… وہ ذات کہ تمام تر امیدیں ٹوٹ جانے کے بعد مایوسیوں کے گھپ اندھیروں سے جو روشنی میں لے آتی ہے۔ پاکستان اسی کے کلمے پر بنا تھا۔ اسی پر زندہ ہے!
پاکستانی نوجوانوں نے روزگار نہ ملنے، معاشی پریشانیوں سے نجات کا نرالا آن لائن حل نکالا ہے۔ کشتیوں میں بیرونِ ملک جانے کی کوشش میں ڈوبنے سے بہتر جانا کہ درآمدات پر توجہ دی جائے۔ سو آئے دن چین، امریکا، برازیل، برطانیہ سے (اکثر بڑی عمر کی) خواتین ٹک ٹاکتی، آن لائن دوستی کرکے پاکستان آن پہنچتی ہیں جوانوں سے شادی کرنے۔ یہ نکھٹو دیہاتی صنعت فروغ پا رہی ہے۔ بعدازاں یہ شادی رچاکر انہیں باہر اپنے ممالک لے جا آباد کریں گی۔ موبائلوں کے ہاتھوں نوجوان نسل لکھنے پڑھنے، تعلیم اور محنت کے ذوق سے تو ہاتھ دھو بیٹھی، اب قانونی عشق عاشقی سے کمائی ہو رہی ہے اور مستقبل سنوارے جا رہے ہیں۔ پوچھنے، غیرت کھانے والا کوئی نہیں! آئے دن وڈیوز، تصاویر نشر ہو رہی ہیں۔
امارات میں جادو ٹونہ کرنے پر 7 افراد جیل بھیج دیے گئے۔ 50ہزار درہم فی کس جرمانہ (ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس 400 سال پرانا جن ہے۔) نجانے پاکستان میں یہ جرم گردانا جاتا ہے یا نہیں۔ خبروں اور اشتہارات کی کثرت تو اس کے جواز کی خبر دیتی ہے۔
افغانستان میں 19اگست کو برطانیہ سے آزادی کا دن منایا گیا۔ اگلی سپرپاور روس تھی جو 10سال اس ملک کے پہاڑوں سے سر ٹکراتی 15فروری 1989 ء کو انخلا پر مجبور ہوئی۔ گویا یہ آزادی کا دوسرا ایک قومی دن بنا۔ بعدازاں امریکا دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کی بارات اور حمایت لیے اسی سرزمین پر آن اترا۔کابل 15اگست کو طالبان کے زیرنگین آ گیا۔ امریکی فوج نے مزید 15دن مکمل انخلاء میں صرف کیے۔ طالبان حکومت نے 31اگست کو امریکا سے آزادی کا دن ملک بھر میں منایا۔ سو یوں وہ نرالا ملک ہے جو تین سپر طاقتوں (اور آخری فتح میں روئے زمین کی تمام بڑی، ایٹمی طاقتوں) پر پے درپے فتح یاب ہوا۔ جس کی زمین میں عملاً بے شمار انسانی قومیتوں اور نسلوں کی باقیات دفن ہیں۔ اتنی ہی طرح کے شہداء کے خون (خصوصاً روس کے خلاف جنگ میں) نے اس سرزمین کو سیراب کیا ہے۔ اس زمین پر ہر نوعیت کا بارود بالخصوص گزشتہ 20سالوں میں مہیب بموں اور میزائلوں کے ذریعے اتارا گیا۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ہم سمجھتے تھے کہ یہ زمین بنجر اور ناقابلِ زراعت ہوچکی ہوگی۔ مگر اس کی زرخیزی کا دوچند ہو جانا عجب ہے۔ پاکستان میں پھل سبزیوں کی بے شمار درآمدات افغانستان سے امڈی چلی آتی ہیں اور ہمارا پانچ دریاؤں کا ملک بھارت کے ہاتھوں پانی کے قطرے کو ترستا ہے یا اب بھارت ہمارے دریاؤں میں وقفے وقفے سے سیلابی پانی چھوڑکر سینکڑوں دیہات ایک ایک علاقے میں اور کھڑی فصلیں تباہ کر رہا ہے۔ (ہم اسے چاند پر جانے کی مبارک دے رہے ہیں۔) یہ گھونٹ کتنا تلخ کیوں نہ ہو، ہمیں اپنے احتساب کی ضرورت تو ہے کہ یہ عظیم ملک آج کسمپرسی کے اس عالم میں کیوں ہے؟ اشرافیہ مراعات میں ڈوبی، اربوں کی بجلی لوٹ کر کھا رہی ہے۔ عوام بجلی پٹرول کے ہاتھوں مفلسی میں ڈوبتے چلے جا رہے ہیں۔ خط ِغربت سے اوپر اب صرف شاید اشرافیہ ہی رہ جائے گی! اشرف غنی، اس کی حکومت (امریکی کٹھ پتلی) لوٹ مار اور پھر ڈالر (قومی دولت کے) سمیٹ کر ملک سے فرار! ہمیں دیکھنے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا حال کچھ ایسا ہی ہے۔
سیکولر میڈیا ہمیں افغانستان کی بھیانک تصویر بناکر دکھاتا ہے۔ 31اگست، (ان کا ایک اور یومِ آزادی) کے لیے ان کا کہنا ہے کہ طالبان جشن منائیں گے مگر عوام کی خوشی کا سامان بہت کم ہے۔ اگرچہ لکھنے والے پر یہ صادق آتا ہے:
دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے!
سائیں سائیں کی سرسراہٹیں تمام امریکا کی محبت میں سرشار دلوں سے اٹھتی ہے۔ کہتے ہیں ’افغانستان عالمی تنہائی کا شکار ہے۔‘ کون سا عالم؟ LGBTQکا مارا عیاش بدمعاش دیوانہ عالم؟ معاشی استحصالوں، بحرانوں والا مکار عالم؟ یا اب مکافاتِ عمل میں خوفناک موسمیاتی تھپیڑوں، عذابوں میں گھرا عالم؟ ظلم وسربیت کی شرمناکیوں (بھارت، اسرائیل، برما) کو اُف تک نہ کہنے اور شرافت وتہذیب کے پیکر افغانستان پر دشنام طرازی پر کمربستہ عالم؟ امریکا، عالمی چودھری اسی ’غریب‘ افغانستان کے اربوں ڈالر بلاجواز دبائے بیٹھا ہے! ’چوہا لنڈورا ہی بھلا‘ کی مثال صادق آتی ہے، اس عالمی تنہائی کے تبصرے پر ۔رہا افغان عورت کی معاشرے میں عدم شمولیت کا نام لے لے کر ماتم مچانا۔ وہ پرسکون گھروں میں عزت ووقار سے بیٹھی گھرداری کرتی، سارہ انعام، نورمقدم کے سے انجام سے محفوظ انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ تم سے آباد ایک گھر نہ ہوا، ان سے آباد بستیاں ہیں بہت۔
ہمیں جس طرف دیکھ کر غیرت اور غم سے مرجانے، ادھ موئے ہونے کی ضرورت ہے، وہ بھارت، کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں پر ٹوٹتی قیامت ہے۔ یوپی کے ایک علاقہ مظفرنگر میں 7 سالہ معصوم مسلم بچے کو ہندو پرنسپل کھڑا کرکے علی الاعلان مسلمان ہونے کی پاداش میں منہ پر تھپڑ پڑوا رہی ہے، اس کے ہندو ہم جماعتوں سے باری باری، نیز چلّاکر مسلمانوں کو فحش ترین ماں کی گالی دے کر تمام مسلمان بچوں سے یہی سلوک دہرانے کا عزم اور مطالبہ کرتی ہے۔ ایسا واقعہ پاکستان میں ہوتا تو دنیا پاگل ہوکر ہم پر ٹوٹ پڑتی اور ہم بچے کو سونے میں تولتے۔ دنیا بھر میں یہ وڈیو دیکھی گئی۔ یہ سات سالہ روتے بچے پر گالی اور طمانچوں کی برسات نہیں، ڈیڑھ ارب مسلمانوں اور ان کے بے حس حکمرانوں کے منہ پر پڑ رہی ہے۔ بھارت کے سبھی ہندو (الاماشاء اللہ) مودی ہوگئے اور ہمارے بھائی بہنوں پر جنونی ہوکر ٹوٹ پڑے۔ پاکستان بھارت کو یومِ آزادی پر مٹھائیاں سرحد پار کھلاتا رہا ہے۔ ہر نوعیت کے کفر کے آگے گھٹنے ٹیکنے، خوشامدیں کرنے نے ہمیں یہ ذلت دکھائی ہے۔ امت سے کٹ کر اصلاً ہم عالمی تنہائی کا شکار ہیں۔
ہم اپنی خطاؤں پہ بھی شرمندہ نہیں ہیں
کہنے کو تو ہم زندہ ہیں پر زندہ نہیں ہیں