جڑانوالہ میں ایک نہیں بلکہ دو سانحات ہوئے ۔ پہلا سانحہ وہ تھا جب قرآن کی بے حرمتی کی گئی
اس کے نیتجہ میں کچھ لوگوں نے قانون کو ہاتھ میں لیا ، ان کو سزا ملنی چاہیے لیکن مقدسات ِ اسلامی
کی توہین کرنے والوں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے : ایوب بیگ مرزا
جب قرآن پاک کی بے حرمتی اور نبی مکرم ﷺ کی توہین کے مجرموں کو سزا نہیں ملتی تو
مسلمانوں میں غم وغصہ پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے سانحہ جڑانوالہ جیسے واقعات ہوتے ہیں۔ ایسے
واقعات کو روکنے کے لیے گستاخوں کو سزا دی جائے:آصف حمید
سانحہ جڑانوالہ کے پیچھے کچھ ملک دشمن عناصر دکھائی دیتے ہیں جو امن وامان کو
تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں:عبدالوارث
سانحات جڑانوالہ اور صدر علوی کی ٹویٹ کے موضوع پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال : سانحہ جڑانوالہ پوری پاکستانی قوم کے لیے باعث ندامت بنا، آپ نے وہاں پر وزٹ بھی کیا ہے، کچھ تفصیل بتائیے کہ یہ واقعہ کیسے رونماہوا ؟
عبدالوارث :سب سے پہلے تو ایسے واقعات کا پس منظر آپ دیکھیں کہ کس طرح کچھ عرصہ سے پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے واویلہ کیا جاتاہے ، ان کی عبادت گاہوں کے حوالے سے عدم تحفظ کا اظہار کیا جاتاہے ، غیر مسلموں کے اسلام قبول کرنے پر اعتراض کیا جاتاہے اور پھر اس حوالے سے مخصوص حلقے کبھی احتجاج بھی کرتے نظر آتے ہیں ۔ 11 اگست 2023ء کو کراچی میں اس طرح کا ایک احتجاج ہوا ۔اس کے بعد 16 اگست کو ایک خبر آتی ہے کہ ایک گلی میں قرآن مجیدکے صفحات بکھرے ہوئے ہیں اور ان پر غیر مناسب کلمات لکھے ہوئے ہیں ۔ علاقہ کے ایس ایچ او کو اس حوالے سے آگاہ کیا جاتاہے ، وہ وقوعہ کا مشاہدہ کرتاہے ۔ اس کے بعد دو گھنٹے تک کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اس دوران وہاں کے مسیح اسسٹنٹ کمشنر شوکت مسیح نے مسیحی آبادی کووہاں سے نکال کر ان کے گھر خالی کروائے ، اس کے بعد جب پولیس آئی تو ملزمان بھاگ چکے تھے ، تھانے کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہونے پر کچھ لوگ جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ وہاں کے مقامی نہیں تھے، انہوں نے مسیحیوں کے گھروں اور عبادت گاہوں پر حملے شروع کردیے اور دیکھتے ہی دیکھتے گیارہ بجے تک پورے شہر میں آگ پھیل گئی ۔ اس سارے پس منظر کو اگر ذہن میں رکھیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ سارا کچھ Preplanned تھا۔ اس کے پیچھے کچھ ملک دشمن عناصر ہیں جو امن و امان تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں ۔ تحصیلدار کی رپورٹ کے مطابق 19 چرچ اور 86 گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔ اس ساری صورتحال میں انتہائی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ابھی تک 600 کے قریب مسلمانوں کو پکڑلیا گیا ہے جبکہ وہ توہین قرآن کے مرتکبین جن کی وجہ سے یہ سارا واقعہ ہوا ان کو سامنے نہیں لایا جارہا ، صرف مسلمانوں کو بدنام کیا جارہا ہےا ور ایک بدنما چہرہ بنا کر پوری دنیا کو دکھایا جا رہا ہے کہ جی دیکھو یہاں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں ، ان کی عبا دت گاہیں محفوظ نہیں ہیں ۔ حالانکہ حقیقت کیا ہے ؟ میں وہاں گیا تو وہاں کے مسیحی لوگ رو رو کر بتا رہے تھے کہ مسلمانوں نے تو ہمارے گھروں کو بچایا ہے ۔ایک مسیح نے بتایا کہ یہ مسلمان نہ ہوتے تو ہمارے بیوی بچوں سمیت ہمارے گھروں کو جلا دیا جاتا۔ اس حقیقت کو دنیا کے سامنے نہیں لایا جارہا بلکہ چھپایا جارہا ہے ۔وہاں عرفان خلیل صاحب ہیں جن کو اس وجہ سے زدوکوب کیا گیا کہ وہ مسیحیوں کو بچارہے تھے ۔ اسی طرح وہاں کے ایم پی اے اپنے آدمیوں کے ساتھ گاؤں کے باہر حصار بنا کر کھڑے ہوگئے کہ یہاں ہم کسی مسیحی کے گھر کو ہاتھ نہیں لگانے دیں گے۔ انہوں نے گاؤں کی پوری مسیحی آبادی کو بچالیا ۔ یہ حقیقت دنیاکے سامنے کیوں نہیں لائی جارہی ۔میڈیا صرف مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کیوں کررہا ہے ؟ یہ اصل سوچنے والی بات ہے ۔
سوال : دین اسلام اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہمیں کیا رہنمائی دیتا ہے؟
ایوب بیگ مرزا: اسلام نے باقاعدہ ضابطہ دیا ہے کہ اسلامی ریاست میں جتنے بھی غیر مسلم ہیں ان کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنا تحفظ اسلام نے اقلیتوں کو دیا ہے اتنا دنیا کے کسی بھی اور مذہب نے نہیں دیا۔ یہ بات نبی اکرم ﷺ کے دور سے شروع ہوتی ہے۔ جب نجران کے عیسائی مسجدنبویؐ میں آئے تو آپ ﷺ نے انہیں وہاں ٹھہرایااور انہیں عبادت کی اجازت بھی دی ۔ فتح بیت المقدس کے موقع پر دیکھئے خود عیسائی مورخین اعتراف کرتے ہیں کہ جب نماز کا وقت ہوا تو عیسائی پادریوں نے انہیں آفر دی کہ چرچ میں نماز پڑھ لیں۔ حضرت عمرh نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ اگر آج میں نے چرچ میں نماز پڑھ لی تو بعدوالے مسلمان آپ کی عبادت گاہوں پر قبضہ کرلیں گے ۔ عیسائی تو اہل کتاب ہیں ، ان کے لیے تو ویسے ہی اسلام نرم گوشہ رکھتاہے لیکن ان کے علاوہ بھی تمام غیرمسلمانوں کے حقوق کو اسلام تحفظ دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے تم ان کے خداؤں کو بُرا مت کہو ۔ اگرچہ اس کی وجہ یہ تھی کہ جواب میں وہ ہمارے خدا کو بُرا بھلا کہیں گے لیکن بہرحال اللہ نے مشرکین کے بتوں کو بھی بُرا بھلا کہنے سے روک دیا۔ اسی طرح غیر مسلمانوں کو اپنی عبادت گاہوں کے اندر عبادت کرنے کی اسلام پوری اجازت دیتاہے۔اگرچہ وہ اپنے مذہب کی کھلے عام تبلیغ نہیں کر سکتے کیونکہ اسلامی ریاست نے ان بنیادوں کو بھی دیکھنا ہوتا ہے جن پر وہ قائم ہوتی ہے ۔ البتہ اسلام غیر مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو گرانے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا ۔ کسی کی جان، مال، عزت مسلمان پر حلال نہیں ہے ۔ اسلامی تاریخ میں اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک کی ایسی مثالیں موجود ہیں جن کی نظیر نہیں پیش کی جا سکتی۔ ایک یہودی بوڑھا بازار میں مانگ رہا تھا ، حضرت عمرh نے پوچھا کیوں مانگ رہے ہو ؟ اس نے جواب دیا کہ میں ضعف کی وجہ سے کما نہیں سکتا کہ جذیہ ادا کرسکوں ، آپؓ نے فوراً ایکشن لیا اور کہا کہ جب تک یہ جوان تھا تو ریاست کا جذیہ ادا کرتا تھا اب یہ بوڑھا ہو گیا تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی کفالت کرے۔ اسی طرح ایک مرتبہ ایک شہر کو مجاہدین نے فتح کیا اور اس کے بعد جزیہ کی وصولی شروع کی۔ چند دن بعد دارالخلافہ سے اسلامی لشکر کے لیے اس شہر سے کوچ کا حکم آگیا ۔ لشکر کے کمانڈر نے تمام شہریوں کو جمع کیا اور سب کا جذیہ یہ کہہ کر واپس کردیا کہ ہم نے جذیہ اس لیے لیا تھا کہ آپ کی حفاظت کریں گے لیکن اب ہمیں یہاں سے جانے کا حکم آگیا ہے لہٰذا ہم جذیہ واپس کر رہے ہیں ۔ ایسی مثال دنیا کی کسی اور تاریخ میں نہیں ملتی۔ مسلمانوں کا ہمیشہ سے اقلیتوں کے ساتھ یہی رویہ رہا ہے ۔ البتہ اسلامی ریاست اقلیتوں کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ اسلام ، مسلمانوں اور اسلامی ریاست کے خلاف سازشیں کریں یا اسلامی شعائر کے تقدس کی پامالی کریں۔ اسی طرح انہیں اسلامی ریاست کے معاملات میں مداخلت کی بھی اجازت نہیں ہے ۔
سوال :پاکستان میں ایسے واقعات رونما کیوں ہوتے ہیں، کئی سال پہلے لاہور میں جوزف کالونی میں ایسا ایک واقعہ ہوا ، پھر ایک مرتبہ سیالکوٹ میں ہوا ، اب جڑانوالہ میں ہوگیا ، ایسے واقعات کے اصل محرکات کیا ہیں ؟
آصف حمید: اس وقت اگر آپ ایک scenario دیکھیں کہ کوئی بھی شخص اسلام کے خلاف کوئی بات کرے تو اس کوایوارڈ ملنے شروع ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملالہ یوسف زئی نے جب دہشت گردی کی آڑ میں اسلام کو ٹارگٹ کرنا شروع کیا تو اس کو نوبل انعام دیا گیا ۔ اصل میں یہ ایک بہت بڑی گریٹر گیم کا حصہ ہے اور بدقسمتی سے امت مسلمہ خواہی نخواہی اس گیم کا حصہ بن رہی ہے ۔ آپ یہ دیکھیں کہ ہمارے جو ٹی وی چینلز ہیں ان پر مثبت اور اچھی چیزیں تو نہ ہونے کے برابر دکھائی جاتی ہیں لیکن اگر کہیں اسلام کو ridicule کیا جا رہا ہو یہی ٹی وی چینلز کھل کر تبصرے کرتے ہیں ۔ اسی طرح مغرب میں آئے روز مسلمانوں کے جذبات کو مجروع کیا جاتاہے ، توہین رسالت کے واقعات ہوتے ہیں ، قرآن کی بے حرمتی کے واقعات ہوتے ہیں اور ریاستیں اس کی پشت پناہی کرتی ہیں جیسا کہ فرانس کے صدر نے کیا ۔ مسلمان ممالک میں ایسے واقعات کے خلاف احتجاج ہوتا ہے لیکن باقاعدہ کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ۔ جیسا کہ پاکستان میں آج تک کسی گستاخ رسول کو سزا نہیں ملی ۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ جو بھی اسلام کے خلاف بات کرتا ہے تو اس کو مغرب کا ویزہ مل جاتا ہے ، مغرب اسے پروٹوکول دیتاہے جیسا کہ آسیہ ملعونہ کو دیا گیا ۔ اس وجہ سے پھر ایسے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں سانحہ جڑانوالہ جیسے واقعات رونما ہوتےہیں۔ کسی کو قرآن مجید کے صفحے پھاڑنے سے کیا ملے گا، اگر ایسا ہوا ہے اور ان صفحوں پر نازیبہ کلمات بھی لکھے ہوئے تھے تو یہ صاف ظاہر ہے کہ اشعال انگیزی کی کوشش تھی ۔ اس پر بھی بات ہونی چاہیے ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ایسے واقعات نہ ہوں جیسا کہ جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ جڑانوالہ میں ہوئی تو آپ ایسے لوگوں کو بھی سزادیں جو گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جب حکومتیں ایسے لوگوں کو سزا نہیں دیتیں تو پھر عوام کے جذبات بھڑکتے ہیں اور پھر ایسے سانحات رونما ہوتے ہیں۔ اس غیر یقینی کی صورتحال سے وہ بیرونی قوتیں بھی فائدہ اٹھاتی ہیں جو پاکستان میں فسا د پھیلانا چاہتی ہیں تاکہ پاکستان دنیامیں بدنام ہو ، اس پر پابندیاں لگیں۔ لہٰذا میرا مشورہ یہ ہے کہ ہمارے جو مقتدر حلقے ہیں وہ عدل و انصاف سے ان معاملات کو حل کریں ۔
عبدالوارث:ایسے واقعات کے پیچھے وجوہات میں کچھ مسیحی کردار شامل ہوتے ہیں کیونکہ ایسے لوگوں کو یورپ ویزے ، پروٹیکشن اور پروٹوکول دیتاہے ۔ اس لالچ میں بھی کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں ۔ پھر اس کے پیچھے سازشی ہاتھ بھی ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ قانون کا غلط استعمال بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ آپ دیکھیں کہ توہین رسالت کے 1300 کیسز میںصرف 14 کیسز مسیحیوں پر ہوئے ہیں جبکہ باقی سارے مسلمانوں نے مسلمانوںپر کیے ہیں ، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس قانون کو ختم کر دیا جائے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس قانون پرٹھیک طریقے سے عمل درآمد کروایا جائے تو ایسے واقعات نہیں ہوں گے
ایوب بیگ مرزا: سب سے پہلے تو حکومتی سطح پر تسلیم کیا جائے کہ یہ دو سانحات تھے ۔ پہلا سانحہ وہ تھا جب قرآن مجید کی بے حرمتی کی گئی اور نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کی گئی ۔ اس کی وجہ سے پھر دوسرا سانحہ ہوا کہ بعض شرپسندوں نے قانون کو ہاتھ میںلیا اور لوگوں کے گھروں کو جلایا ۔ ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں لیکن اگر آپ پہلے سانحہ کا ذکرہی نہ کریں اور اس کے ذمہ داروں کو پکڑ کر کٹہرے میں ہی نہ لائیں تو پھر یہ انصاف نہیں ہے ۔ آئی جی پولیس نے بھی یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ وہ ملزم تو بیرون ملک فرار ہو چکے ہیں۔ یعنی اس کا مطلب ہے کہ سانحہ کے اصل ملزموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی ۔اسی وجہ سے فسادات ہوتے ہیں ۔
عبدالوارث: تین ملزمان کو اس وقت تک گرفتار کیا گیا ہے ، ان میں ایک راجہ عامر ہے ، دوسرا سلیم مسیح ہے ، تیسرا ایک اور تھا جس کو چھوڑ دیا گیا ۔ لیکن یہ حیران کن بات ہے کہ جن کے اوپر الزام لگاہے ،کہا جارہا ہے کہ ان کے ویزے ، ٹکٹ وغیرہ باہر جانے کے لیے کنفرم ہو چکے تھے ۔
سوال :19کے قریب چرچ ، کئی گھر ، بچیوں کے جہیز اور پورے پورے گھر تباہ ہو گئے ۔ آپ یہ بتائیں کہ حکومت اب کیا کر رہی ہے۔ وزیراعظم صاحب جاکر متاثرین کے سرپر ہاتھ پھیررہے ہیں ، ان کو تسلیاں دے رہے ہیں ، اسی طرح وزیراعلی صاحب جا رہے ہیں،متاثرین کے لیے کچھ رقموں کا بھی اعلان ہو رہا ہے لیکن ان سارے اقدامات سے یہ مسائل مستقل طور پر حل ہو جائیں گے ؟
ایوب بیگ مرزا : اس طرح کے واقعات یقیناً پہلے بھی ہوئے ہیں اور ہماری حکومتوں کا رویہ یہی رہا ہے کہ متاثرین کو کچھ پیسے دو ، ان کے سر پر ہاتھ پھیردو اور ایک پریس کانفرنس کر دو ۔ لیکن اس طرح یہ مسئلہ مستقل طور پر حل نہیں ہوتا ۔ اصل ضرورت ہے اس بات کی ہے کہ نظام عدل قائم ہو ۔ ہر شخص کو معلوم ہوکہ اگر اُس نے جرم کیا تو سزا لازمی ملے گی اور میں نے جرم نہیں کیا تو مجھ کچھ نہیں ہو گا۔ اسلامی تاریخ میں ایسا بھی ہوا ہے کہ خلیفہ وقت کے خلاف فیصلہ آگیا ، اس نظام میں غیر مسلمانوں کو بھی برابر انصاف ملتا تھا ۔ ایسا ہی نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے تب یہ مسئلہ مستقل طور پر حل ہوگا ورنہ جو تسلی ، تشفی ، پیسے ، اعلانات وغیرہ حکومت کر رہی ہے اس طرح تھوڑی دیر کے لیے خاموشی ہو جائے گی لیکن پھر کوئی ایسا ہی واقعہ رونما ہو جائے گا ۔ اصل بات یہ ہے کہ دوطرفہ ملزموں کو ڈھونڈ کر ایسی عبرت ناک سزا دی جائے کہ باقیوںکے لیے عبرت بن جائے ۔
آصف حمید: کسی بھی اقلیت کے خلاف لوگوں کا قانون کو ہاتھ میں لینا خلاف اسلام اور خلاف انسانیت ہےاور ہر لحاظ سے اس کی مذمت کرنی چاہیے لیکن آپ یہ اندازہ کیجیے کہ بھارت میں کتنےچرچ جلائے گئے ، وہاں کس قدر انسانی حقوق سلب ہو رہے ہیں ، مسلمانوں کے ساتھ کتنے مظالم ہو رہے ہیں لیکن ان مظالم کو عالمی میڈیا نہیں دکھاتا اور نہ امریکہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ہے۔ انڈیا میں جتنا بڑا واقعہ بھی ہو جائے تو پورا مغرب خاموش بیٹھا ہوتاہے ، کوئی پابندی نہیں لگتی ، کوئی سفارتی تعلقات منقطع نہیں ہوتے ۔ پاکستان میں اگر اس طرح کا کوئی واقعہ ہو جائے تو پورا مغرب آسمان سر پر اُٹھا لیتا ہے۔ ظاہرہے کہ پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لیے یہ سب کیا جاتاہے ۔ جڑانوالہ واقعہ میں ملوث افراد کے بارے میں خبر ہے کہ وہ وہاں کے مقامی نہیں تھے ، اس کا مطلب ہے کہ کہیں سے بھیجے گئے تھے اور یہ ایک پورا پلان تھا۔ پوری قوم کو اس بات کو سمجھنا چاہیے اور مطالبہ کرنا چاہیے کہ عدل پورا ہونا چاہیے ۔ سانحہ کی وجہ بننے والوں کو سزا ملے گی تو آئندہ ایسے واقعات بھی نہیں ہوں گے ۔
سوال : کہا جا رہا ہے کہ اس سارے واقعہ کی آڑ میں ایک دینی جماعت پر پابندی لگانے کی تیاری کی جارہی ہے جبکہ اس دینی جماعت نےواضح طور پر کہا ہے کہ ہم اس واقعہ میں ملوث نہیں ہیں ۔ آپ کے خیال میں اس رائے میںوزن ہے ؟
آصف حمید: کوئی ایسی دینی جماعت نہیں ہے جو ایسی حرکتیں کرے ۔ اصل مقصد ایک دینی جماعت کو ٹارگٹ کرنا نہیں ہے بلکہ پورے پاکستان کو بدنام کرنا شرپسندوں کا مقصد ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بدامنی پھیلے ، اس کی آڑ میں مسلمانوں کو دبانا اور اسلام کو بدنام کرنا مقصود ہے۔
عبدالوارث :دیکھئے ! یہ چرچوں پر اور مسیحی گھرانوں پر حملے کیوں ہوتے ہیں ۔ اس کی اصل وجہ کیا ہے ؟ 15مارچ 2015ء کویوحنا آباد لاہور میں ایک چرچ میں دھماکہ ہوا اور راہ چلتے دو داڑھی والے مسلمانوں کو پکڑ کر ان کو آگ میں زندہ جلایا جاتاہے ۔ اس پر مین سٹریم میڈیا نے کوئی آواز نہیں اُٹھائی کہ بے گناہ مسلمانوں کو کیوں جلایا گیا۔ پھر جلانے والوں میں سے جن لوگوں کو پکڑا گیا تھا ان کو بھی چند سال بعد چھوڑ دیا گیا ۔ ان دو مسلمانوں کو انصاف کون دے گا ؟ اس کے بعد آپ دیکھیے کہ آسیہ مسیح کو چھوڑ دیا گیا ، کراچی کے دو بھائیوں کو چھوڑ دیا گیا جبکہ مسلمانوں کے خلاف ہر اقدام کیا جاتاہے ۔ اس وجہ سے پھر لوگ قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں ۔ ایک مسلمان بچی کو مسیح لڑکے نے پروپوزل کیا ، اس نے انکار کیا، اس پر نہ صرف اس لڑکی کا ریپ کیا گیا بلکہ اس کو قتل بھی کیا گیا ، آج تک اس حوالے سے کوئی انصاف نہیں ہوا۔ لہٰذا ہم یہ کہتے ہیں کہ جنہوں نے جرم کیا ہے وہ مجرم ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پوری مسیح برادری سزا کی مستحق ہے ۔ اسی طرح مسیح برادری کو بھی سوچنا چاہیے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہ اسلام کی تعلیمات ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تک مجرموں کو قرارواقعی سزا نہیں ملے گی تب تک عوام کا اداروں پر اعتماد بحال نہیں ہوگا ۔ اس بار بھی اگر قرآن کی بے حرمتی کرنے والے پکڑے نہ گئے تو پھرواقعہ میں ملوث لوگ یہی کہیں گے ہم نے صحیح کیا ہے ۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ حکمران وہاں کے دورے کریں اور پروٹوکول کی وجہ سے عوام کو مزید پریشان کریں ، ان کو چاہیے کہ قانون اور انصاف کے تقاضے پورے کریں۔ وہاں کے مسلمانوں کو اذیت دی جارہی ہے ، وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم مدعی تھے لیکن ہمیں ملزم بنا دیا گیا ہے ۔کہا یہ بھی جا رہے کہ اس سارے منظر نامے کے ذریعے ایک ایسا پریشر ڈویلپ کیا جارہا ہے کہ جو ناموس رسالت کے حوالے سے قانون ہے ـ(295) اس کو جڑوں سے اکھاڑ دیا جائے ۔ لیکن یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ ا س قانون کی جڑیں تورات اور انجیل میں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ مزید اگر آپ دیکھیں کہ ہند میں اس قانون کو 1880ء میں انگریزوں نے شامل کیا تھا، اس قانون کی پہلی ذیلی شق یہ ہے کہ کسی کے مذہب ، کسی کے دینی جذبات ،دینی شعائر یا کسی کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچانے والا ، ان کی بے حرمتی یا توہین کرنے والا قابل گرفت ہوگا ۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قانون کو ختم کرنے کی بجائے اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو پھر مسئلہ حل ہو گا ۔
سوال :صدر مملکت آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کے حوالے سے کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے اس بل پر دستخط نہیں کیے تھے اور اس کو واپس بھیجنے کا کہا تھا جبکہ حکومت کہہ رہی ہے کہ چونکہ بل واپس نہیں آیا اس لیے وہ قانون بن گیا ہے۔ اس ساری صورتحال میں ان نئے قوانین کی آئینی اور قانونی حیثیت کیا ہوگی ؟
ایوب بیگ مرزا : بجائے اس کے کہ میں خود اپنی طرف سےاس پر کوئی کمنٹ کروں آئین کا آرٹیکل 75 پڑھ دیتا ہوں کہ آئین اس بارے میں کیا کہتا ہے ۔ یہ آرٹیکل کہہ رہا ہے کہ اگر کوئی بل پاس ہوتاہے تو وہ منظوری کے لیے صدر کے پاس جاتاہے ۔ اگر صدر دس دن کے اندر اس پر دستخط کر دے تو وہ قانون بن جا تا ہے لیکن اگر صدر دستخط نہ کرے اور نظرثانی کے لیے پارلیمنٹ کو واپس نہ بھی بھیجے تو یہ قانون نہیں بن سکتا۔ البتہ اگر صدر نظر ثانی کے لیے پارلیمنٹ کو واپس بھیج دے اور پارلیمنٹ نظر ثانی کرکے دوبارہ صدر کی منظوری کے لیے بھیجے ۔ اب اگر صدر دستخط نہ بھی کرے تو دس دن کے بعد وہ قانون بن جائے گا۔ حالیہ واقعہ میں صدر کے پاس بل پہلی مرتبہ بھیجا گیا تھا اس لیے آئینی طور پر وہ قانون نہیں بن سکتا۔ اس بات کو وزیر قانون نے بھی تسلیم کیا ہے ۔ اصل میں بعض حلقے چاہتے تھے کہ یہ قانون فوری طور پر بن جائے لیکن مسئلہ یہ بن گیا کہ پارلیمنٹ موجود ہی نہیں رہی ۔ اب بل واپس جائے گا تو کہاں جائے گا۔ اب جو لوگ اس قانون کو زبردستی لاگو کرنا چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ ہی صدر کو بھیجا ہے تو قانون بن گیا ہے ۔
آصف حمید:صدر صاحب کی ٹویٹ جب میرے سامنے آئی تو مجھے ایک بے چارگی سی نظر آئی کہ شاید ان کے پاس اختیارات بھی نہیں تھے ۔ انہیں اللہ کو گواہ بنانا پڑا اور پھر تسلیم کیا کہ ہمارے پاس اختیارات اس طرح کے نہیں ہیں اور پھر معافی بھی مانگی ۔ اصل میںہو یہ رہا ہے کہ جب دل چاہتا ہے تو آئین کا سہارا لیا جاتاہے اور جب دل چاہتا ہے آئین کو اٹھا کر پھینک دیا جاتاہے ۔ آئین تو پھر بھی چھوٹی چیز ہے ہم نے قرآن کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے ؟ قرآن کہتاہے :
’’تو کیا تم کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک کو نہیں مانتے؟تو نہیں ہے کوئی سزا اس کی جو یہ حرکت کرے تم میںسے‘سوائے ذلت و رسوائی کے دنیا کی زندگی میں۔اور قیامت کے روز وہ لوٹا دیے جائیں گے شدید ترین عذاب کی طرف۔اور اللہ غافل نہیں ہے اُس سے جو تم کر رہے ہو۔‘‘ (البقرۃ:85)
جو سلوک اللہ کی کتاب سےہم نے کیا وہی سلوک چھوٹے لیول پر آئین کے ساتھ بھی کیا ۔ اب یہ جو مضحکہ خیز صورتحال سامنے آئی ہے اس میں بحیثیت پوری قوم ہماری تذلیل ہوئی ہے کہ یہ ہے تمہارا ملک، یہ ہے تمہارا صدر، اور یہ ہے تمہارا آئین جسے تم سمجھتے ہو کہ سب سے بالاترہے۔ہمارے تمام ریاستی اور حکومتی عہدیدار قرآن پر حلف اُٹھاتے ہیں کہ میں پاکستان کے مفاد کا تحفظ کروں گا مگر اس کے بعد وہ کیا کررہے ہیں ؟ اصل میں جب تک ہم اپنے نظام کو ٹھیک نہیں کریں گے ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اور یہ ہماری ذلت کا باعث بنتے رہیں گے ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024