’’ڈاکٹراسراراحمدؒ کی تجدیدی مساعی اور تحریک ِرجوع الی القرآن کی نصف صدی‘‘
(مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے زیر اہتمام انٹرنیشنل کانفرنس)
لاہور (پ ر):مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے زیر اہتمام ’’ڈاکٹراسراراحمدؒ کی تجدیدی مساعی اور تحریک ِرجوع الی القرآن
کی نصف صدی‘‘ کے عنوان سے 27 اگست 2023ء کو الحمراء آرٹس کونسل لاہور کے آڈیٹوریم میںایک انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
ڈاکٹر اسرار ؒ نے تحریک رجوع الی القرآن اور اقامتِ دین کی
جہدوجہد میں تن من دھن لگا دیا۔ (شجاع الدین شیخ)
ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے اسلام کے انقلابی پیغام کو وسیع
پیمانے پر عام کیا۔(ڈاکٹر عارف رشید)
ڈاکٹر اسراراحمدؒ جسم اور روح کے ڈاکٹر تھے انہوں نے عوام کو
قرآن کے ساتھ جوڑنے کا عظیم کارنامہ سر انجام دیا۔ (سراج الحق)
ڈاکٹر اسراراحمدؒ اسلامی انقلاب کے داعی اور امت مسلمہ کو
قرآن وسنت کی طرف واپس لانا چاہتے تھے۔(ڈاکٹر ذاکر نائیک)
ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے اپنے دور میں دعوتِ قرآن کو عام کرنے اوراقامتِ دین کی
جدوجہد کے لیے وقت کے تمام جدید ذرائع کو استعمال کیا۔ (مفتی طارق مسعود)
ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی دعوتِ قرآن و اقامتِ دین کے سلسلے میں خدمات دور
حاضر اور مستقبل کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ (استاذ نعمان علی خان)
اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹراسراراحمد ؒ پر کرم کیا اور ان کی ذات سے
ایک ادارے جتنا کام لیا۔ (قاسم علی شاہ)
ڈاکٹر اسرار احمد ؒکے سوشل میڈیا کلپس سے متاثر ہو کرنوجوانوں کی
کثیر تعداد دین کی طرف لوٹ رہی ہے۔ (محمد علی، یوتھ کلب)
رجوع الی القرآن اور اقامت دین کے حوالے سے ڈاکٹر اسراراحمد ؒ کی جدوجہد کا
امتیازی وصف یہ تھا کہ انہوں نے تعلق مع اللہ کو اس کی بنیاد بنایا۔ (احمد جاوید)
ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے امت کو قرآن کی طرف راغب کیا اور نظامِ خلافت
کی اصطلاح کو زبانِ زد عام کیا۔ (ڈاکٹر صہیب حسن)
ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے رجوع الی القرآن کے دروس کی تاثیراوراُس کی بنیاد پر
عملی تحریک آج بھی موجود ہے۔ (ڈاکٹر محمد حماد لکھوی)
قرآن مجید کے منتخب نصاب کو مرتب کرنا اور منہج انقلاب نبویﷺ
کو عام کرنا ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی اہم خدمات ہیں۔ (ڈاکٹر عبدالسمیع)
ڈاکٹر اسراراحمد ؒتجدید اسلام کے حوالے سے بیسویں صدی کی
اہم شخصیت ہیں۔ (ڈاکٹر محمد طاہر خاکوانی)
ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے جہاد بالقرآن اور جہاد فی سبیل اللہ کے مربوط عنوانات
کے تحت اقامتِ دین کی جدوجہد کا آفاقی پیغام دیا۔ (مصطفی الترک)
ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے امتِ مسلمہ کے کمزور اجتماعی نظم کو مضبوط کرنے کا
خاکہ پیش کیا۔ (مفتی حسین خلیل خیل )
تنظیم اسلامی کے امیر جناب شجاع الدین شیخ نے پروگرام کے پہلے سین میں اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ ڈاکٹر اسراراحمد ؒ نے تحریکِ رجوع الی القرآن اور اقامتِ دین کی جدوجہد میں تن من دھن لگا دیا۔ انہوں نے دین کو ایک پیشہ کے طور پر کبھی نہ لیا بلکہ للہیت کے جذبہ سے سرشار ہو کر اس کارِ خیر میں حصہ لیا امیر تنظیم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قرآن اور دین حق عطا فرمایاہے ۔ ایک طرف قرآن کو لے کرکھڑا ہونا اور اُس کے پیغام کو عام کرنا اور دوسری طرف وہ افراد جو قرآن کے پیغام سے متاثر ہوں انہیں اجتماعیت کی شکل دے کر قرآن و سنت کی روشنی میں نظام قائم کرنے کی جدوجہد کرنا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کی مساعی کی یہی اساس تھی۔ ہمارا اصل نصب العین اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُخروی نجات ہے۔اللہ تعالیٰ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں اُن کی تعلیمات سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
صدر مرکزی انجمن خدام القرآن لاہوراورڈاکٹر اسراراحمدؒ کے بڑے صاحب زادے جناب ڈاکٹر عارف رشید نے پروگرام کے دوسرے سیشن کے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کا رجوع الی القرآن اور اقامتِ دین کا جذبہ اور ان کی تجدیدی مساعی کو اپنے بچپن و جوانی کے واقعات اور مشاہدات کی روشنی میں بیان کیا۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے اسلام کے انقلابی پیغام کو وسیع پیمانے پر عام کیا اور اقامت دین کی بھرپور جدوجہد کو اپنی زندگی کا مشن بنایا۔ انہوں نے تمام مہمان مقررین اور شرکاء محفل کا شکریہ ادا کیا۔
امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے کہا کہ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل عطا فرمایا کہ وہ جسم اور روح دونوں کے طبیب کی حیثیت رکھتے تھے۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے اپنی زندگی کو قرآن کی خدمت اور لوگوں کو قرآن سے جوڑنے کے کام میں وقف کر دیا۔ بدعات اور باطل رسم و رواج کے خلاف جہاد کیا اور سنت کا بول بالا کرنے کی جدوجہد کی۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی تحریک کا کارکن چاہے مشرق میں ہو یا مغرب میں اس کا بنیادی ایجنڈا قرآن اور جہاد کے ذریعہ دین کی سربلندی ہے۔ قرآن کی تعلیمات پر خود عمل کیا جائے اور اسے دوسروں تک پہنچایا جائے۔ پھر اس کو قائم کی جدوجہد کی جائے۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے بلا خوف و خطر ڈکٹیٹرز اورنام نہاد جمہوری سیاست دانوں کو حق کی طرف دعوت دی،برائی سے منع کیا اور دین کو قائم اور غالب کرنے کی طرف متوجہ کیا۔ مسلمانوں کو قرآن کے ساتھ جڑ کر فرقہ واریت کے خاتمے کی طرف راغب کیا۔ اس وقت ملک اور ملت اخلاقی انحاط کا شکار ہے حکمران و عوام، تعلیمی اداروں، مدارس، سیاست، ریاست ہر جگہ سیکولر ازم سرائیت کر چکی ہے۔ ملک کو درپیش معاشی تباہی سے بچانے کے لیے بھی قرآنی تعلیمات اور صاحبِ قرآن ﷺکی سنت پر عمل کرنا ہو گا۔
معروف اسلامی سکالرجناب ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ملائیشیا سے ویڈیو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ اسلامی انقلاب کے داعی اور امت کو قرآن و سنت کی طرف واپس لانا چاہتے تھے۔ وہ بہترین مفسر قرآن تھے ان کی سیاستی فکر بھی انتہائی متاثر کن تھی۔ انہوں نے 1995ء میں کہا تھا کہ BJP انڈیا پر حکومت کرے گی۔ تب یہ ممکن نہیں لگتا تھا لیکن بعدازاں ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی سیاسی سوچ سچ ثابت ہوئی۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے مجھے سادہ زندگی گزارنے کی تلقین کی اور دعوت دین کے کام کے لیے میری بہت حوصلہ افزائی کی اور راہنمائی فرمائی۔ وہ بہترین مقرر اور خطیب تھے انہوں نے بہت سے لوگوں کی زندگیاں بدلنے میں اپنا کردار ادا کیا۔
معروف عالم دینجناب مفتی طارق مسعود نے کہا کہ میرے نزدیک ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا شمار دورِ حاضر کی چار اہم ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے قرآن کے ان مضامین کو عام کیا اور لوگوں تک پہنچایا جن کا سبق امت مسلمہ بھول چکی تھی۔ ہمارے ملک میں آج ایسے سکالر بھی موجود ہیں جو مغرب کو خوش کرنے کے لیے لبرل ازم کی جانب گامزن ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی پوری جدوجہد لوگوں کو اسلاف سے قریب کرنے پر مشتمل ہے۔ ہمیں نیکی اور خیر کے کاموںمیں ایک دوسرے کا مددگار بننا ہو گا۔ ہمیں اپنے بنیادی اسلامی اصولوں پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر دین پر قائم رہنا اور اس کی دعوت دینا ہو گی۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے قرآن کی دعوت کو عام کرنے کے لیے اپنے دور کے جدید ذرائع کا بھرپور استعمال کیا۔ انہوں نے پڑھے لکھے طبقہ کو ان کی زبان اور اسلوب کے مطابق پیغام دیا۔ ملک کے بنیادی مسائل، خصوصاًبے حیائی اور سودجیسے منکرات کے خلاف بھرپور جدوجہد کی۔
امریکہ سے بذریعہ ویڈیو اپنے پیغام میںجناب استاذ نعمان علی خان نے کہا کہ دعوتِ قرآن اور اقامتِ دین کے لیے جدوجہد کے سلسلے میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی خدمات آج اور مستقبل کی نسلوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ انہوں نے اسلام کے جامع تصور کی دعوت دی جس میں انفرادی اور اجتماعی زندگی دونوں کے حوالے سے قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی موجود ہے۔ ڈاکٹر صاحب ؒنے لوگوں کو اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ تمام علوم میں قرآن کو مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے قرآن حکیم کی عظمت کے حوالے سے جو کام کیا اس پر آج بھی ہم تحقیق کر رہے ہیں۔ آج دنیا بھر کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نظریات کی جنگ جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن کے انقلابی اور آفاقی پیغام کو عام کیا جائے تا کہ باطل نظریات کا ابطال کیا جا سکے۔
معروف موٹیویشنل اسپیکرجناب قاسم علی شاہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر اسرار احمدؒ کو جو عظمت عطا فرمائی وہ ان کے خالقِ حقیقی سے جا ملنے کے بعد پوری طرح ظاہر ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی ذات سے ایک ادارے جسے کام لے لیا۔ آج کے زمانے کا سب سے بڑا چیلنج نو جوان نسل کی صحیح تربیت کرنا ہے۔ ڈاکٹر صاحبؒ کے سوشل میڈیا پر کلپس آج کی نوجوان نسل کی صحیح تربیت کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
یوتھ کلب کے بانی رکن جناب محمد علی نے کہا کہ ڈاکٹر اسرارا حمدؒ کی شخصیت اور دعوت سے متاثر ہو کر نوجوانوں کثیر تعداد آج بھی دین کی طرف لوٹ رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحبؒکے کلپس جو سوشل میڈیاپر موجود ہیں وہ لوگوں کے لیے کئی معاملات میںہدایت کا باعث ہیں۔ ان کے آواز دل سے نکلتی تھی اوردوسروں کے دلوں میں گھر کر جاتی تھی۔ انہوں نے ٹھوس عقیدہ کی دعوت دی، قرآن سے محبت کو اجاگر کیا،دین کے جامع تصور کو واضح کیا، علامہ اقبال کے پیغام کو عام کیا اور فتنہ دجال کے بارے میں آگاہی دی۔
معروف دانشور جناب احمد جاوید نے کہا کہ اگرچہ نو آبادیاتی دور کے گزر جانے کے بعد بہت سی تحریکوں نے احیائے اسلام اور تجدید دین کے لیے جدوجہد کا علم اٹھایا اور خصوصی طور پر اسلام کے سیاسی نظام کے حوالے سے جدوجہد کی لیکن ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے اسلام کے کارناموں اور اقامت دین و رجوع الی القرآن کے سلسلے میں ان کی جدوجہد کا امتیازی وصف یہ تھا کہ انہوں نے اس کی بنیاد تعلق مع اللہ پر رکھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ اقبال نے امت کے سامنے دین کے تقاضوں کو جس طرح سامنے رکھا تھا ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے اس کو جامعیت کے ساتھ تکمیلی شکل دی تو غلط نہ ہو گا۔ انہوں نے شاہ ولی اللہؒ کی طرز پر خلافتِ انسانی کے ظاہری پہلوئوں کے ساتھ ساتھ اس کے باطنی پہلوئوں کی طرف بھی توجہ دلائی۔
معروف دینی سکالرجناب ڈاکٹر صہیب حسن نے انگلینڈ سے اپنے ویڈیو خطاب میں کہا کہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے امت کو رجوع الی القرآن کی طرف راغب کیا اور نظام خلافت کی اصطلاح کو زبان زدِ عام کیا۔ انہوں نے معاشرے سے جہالت، کرپشن، بدعات اور غیر اسلامی رسومات کے خاتمے کے لیے قرآن تعلیمات کے ذریعے علمی جہاد جاری رکھا۔ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ جانتے تھے۔ وہ اندرونی اور بیرونی سازشوں کے ذریعے اس قلعے میں نقیب زنی کرنے والوں کی نشاندھی کرتے رہے اور ہر شخص کو اپنی بساط، صلاحیتوں اور استعداد کے مطابق دینی ذمہ داریاں ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتے رہے۔ انہوں نے اپنی اولاد کے لیے دنیاوی مال و متاع کی بجائے صرف دین کو بطور ورثہ چھوڑا۔
ڈین فیکلٹی آف اسلامک سٹڈیز پنجاب یونیورسٹی لاہورجناب ڈاکٹر محمد حماد لکھوی نے کہا کہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی لوگوں سے محبت بھی قرآن و سنت کی بنیاد پر تھی اور ناپسندیدگی بھی اسی بنیاد پر تھی۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے رجوع الی القرآن کے دروس کی تاثیر اور اس کی بنیاد پر عملی تحریک آج بھی موجود ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے عام آدمی کو قرآن سے قریب کیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔
صدر انجمن خدام القرآن فیصل آباد جناب ڈاکٹر عبد السمیع نے کہا کہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی تحریک رجوع الی القرآن نے عام مسلمان کو بھی اللہ کے فضل سے جہاد بالقرآن کے ذریعے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا پیغام دیا۔ تصوف کا اصل موضوع بھی تعلق مع اللہ ہے اور ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے معروف حدیث کے حوالے سے احسان کے درجہ کو حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے قرآن مجید کے منتخب نصاب کو مرتب کر کے درحقیقت قرآن کو سمجھنے کے لیے ایک اہم ذریعہ فراہم کیا۔ پھر یہ کہ منہج انقلاب نبویﷺ کے ذریعہ سیرتِ نبیﷺ میں اقامت دین کی جدوجہد کے انقلابی پہلو کی طرف توجہ دلائی۔
صدر انجمن خدام القرآن ملتان جناب محمد طاہر خاکوانی نے کہا کہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ بیسوی صدی کے دوران تجدید اسلام کے حوالے سے اہم شخصیت ہیں جنہوں نے امت مسلمہ کو قرآن سے جوڑا اورمسلمانوں کو اسلام کے غلبے کا سبق یاد دلایا۔ قرآن کے ذریعہ جہاد کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔حقیقت یہ ہے کہ قرآن ہی دنیا میں اقوام کو عروج دیتا ہے اور قرآن کو چھوڑ کرقومیں ذلیل و رسوا ہوتی ہیں۔دورِ نبویﷺ کی اصطلاحات کواسلام کے اولین دور کی روح کے مطابق زندہ کیا۔ رسولﷺ کے اسوہ کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کامل پیروی کی دعوت دی اور اس کے مطابق اقامت دین کی جدوجہد کے لیے قربانی دینے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر خاص عنایت کی کہ مختلف شہروں میں قرآن اکیڈمیز قائم ہوئیں ۔پھر یہ کہ ان کا پیغام آج بھی سوشل میڈیا کے ذریعے بھر پور انداز میں پھیل رہا ہے ۔
اسلامک آرگنائزیشن آف نارتھ امریکہ کے امیرجناب مصطفیٰ الترک نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے جہاد بالقرآن اور جہاد فی سبیل اللہ کے مربوط عنوانات کے تحت اقامتِ دین کی جدوجہد کا آفاقی پیغام دیا۔ اسلامک آرگنائزیشن آف نارتھ امریکہ کا قیام ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی محنت کا پھل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن سے دوری امت مسلمہ کے زوال کی بنیادی وجہ ہے اور رجوع الی القرآن ہی سے امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ ہو سکتی ہے۔ قرآن سے حقیقی تعلق افراد، مسلم کمیونٹی اور ریاست کی سطح پراسلام کے احیاء کا باعث بنے گا۔ قرآن ہی مسلمانوں کے مابین اتحاد و اتفاق کا ذریعہ ہے۔
سینئر مفتی جامعۃ الرشیدجناب مفتی حسین خلیل خیل نے کہا کہ ڈاکٹر اسراراحمدؒنے امت مسلمہ اور پاکستانی قوم کو درپیش مسائل کے حل کاخاکہ پیش کیا۔ جو قرآن وسنت کی بنیاد پر ہے۔ ہمارا اجتماعی نظم بحیثیت امت انتہائی کمزور ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے قرآن کو اپنے مشن میں مرکزی آلہ کے طور پر اپنایا۔ وہ ایک انتہائی پر خلوص مدرس، مبلغ اور مجاہد ِقرآن تھے اور اپنے مشن کے لیے ہر قربانی دی۔ نبوی سنت کے مطابق الاقرب فالاقرب سے آغاز کیا اور ہر قسم کے چیلنج کو حوصلہ سے برداشت کیا۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے تعلیم کی سیکولر آئزیشن کو ملک و قوم کے لیے زہر قاتل قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ قرآن کو تعلیمی نظام کا مرکز و محور بنایا جائے۔
کانفرنس کے دوران جناب حافظ عاطف وحیدنے سٹیج سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیئے۔
ناظرین کو مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کی تاسیس کے 50 سال مکمل ہونے پر بنائی گئی خصوصی ڈاکومینٹری بھی SMD سکرینز پر دکھائی گئی۔
عوام الناس نے بڑی تعداد میں کانفرنس میں شرکت کی اور الحمراء آرٹس کونسل آڈیٹوریم کے دونوں ہال کچھا کھچ بھرے رہے۔ کانفرنس کو سوشل میڈیا پر بھی براہِ راست نشر کیا گیا۔
آخرمیں امیر تنظیم اسلامی جناب شجاع الدین شیخ نے دعا کروائی۔(جاری کردہ:وسیم احمد،نائب ناظم شعبہ نشر و اشاعت تنظیم اسلامی پاکستان)
tanzeemdigitallibrary.com © 2024