(منبرو محراب) عدل کے تقاضے - ابو ابراہیم

8 /

رب،فرد اوربندوں سے متعلقعدل کے تقاضے

 

مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی ،کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ  حفظ اللہ کے25اگست 2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اورتلاوت آیات کے بعد!
تنظیم اسلامی کے زیراہتمام بقائے پاکستان: نفاذ عدل اسلام مہم جاری ہے ۔پاکستان کااستحکام ہمیں عزیز ہے، اب اس کی بقاء کامسئلہ ہمارے سامنے ہے ۔اس کا واحد حل یہ ہے کہ جس نام پرہم نے پاکستان کوحاصل کیا تھا اس وعدے کو پورا کرنے اوراللہ کے عطا کردہ دین ،اسلام کو غالب کرنے کی جدوجہد کی جائے ۔ اس پرہماری پیش رفت اورتوجہ بھی ہو۔پاکستان بھر میں ہم اس پیغام کوعام کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔
عدل کامفہوم
عدل اور انصاف دوعلیحدہ اصطلاحیں ہیں۔ انصاف کے معنی ہیں نصف کرنا ، برابر تقسیم کرنا ۔ جبکہ عدل سے مُراد یہ ہے کہ جو جس کا حق بنتاہے وہ اس کو دیا جائے ۔ مثال کے طور پر کسی شخص کا ایک بیٹا آٹھ سال کا ہے اور دوسرا اٹھارہ سال کا ہے ۔ دونوں کو شفقت اور حسن سلوک کے لحاظ سے برابر رکھنا انصاف ہو گا جبکہ عدل یہ ہوگا کہ جو خرچہ وہ آٹھ سال کے بیٹے کے لیے کرتاہے ، اس سے زیادہ اٹھارہ سال والے کے لیے کرنا ہوگا ، کیونکہ اس کے اخراجات زیادہ ہیں ، لہٰذا یہ اس کا حق ہے کہ اس پر زیادہ خرچ کیا جائے ۔ بہرحال عدل کا تقاضا یہ بھی ہے کہ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اعتدال کی راہ اختیار کی جائے ۔
عدل وقسط
اللہ تعالیٰ نے کم وبیش 22مرتبہ عدل کے لفظ کو قرآن مجید میں استعمال فرمایا۔ قرآن کریم میں قسط کا لفظ بھی اسی مفہوم میں استعمال ہوتاہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:{یٰٓــایُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ }(النساء:135)’’اے اہل ایمان ‘ کھڑے ہوجائو پوری قوت کے ساتھ عدل کو قائم کرنے کے لیے ۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ کی اپنی شان ہے ۔ فرمایا:
{ قَــآئِمًا م بِالْقِسْطِ ط}(آل عمران:18) ’’وہ عدل وقسط کا قائم کرنے والا ہے۔‘‘
سورۃا لحدید میں اللہ کے رسولوںکایہ مشن بیان ہوا
{لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج }(آیت:25) ’’تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔‘‘
رسول اللہﷺ سے کہلوایاگیا:
{وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ ط} (الشوریٰ:15) ’’اور (آپؐ کہہ دیجیے کہ) مجھے حکم ہوا کہ مَیں تمہارے درمیان عدل قائم کروں۔‘‘
قرآن وحدیث میں انفرادی اوراجتماعی دونوںگوشوں میں عدل پرجابجازور دیاگیا۔رسول اللہﷺ نے ایک حدیث میں سات افراد کاذکر فرمایاجوقیامت کے دن اللہ کے عرش کے سائے میں ہوںگے ان میں پہلاالامام العادل ہوگا یعنی عدل کرنے والا حکمران ۔ اسی طرح حضور ﷺ نے فرمایا:کچھ لوگ قیامت کے دن رحمان کے دائیں طرف نور کے منبروں پرہوںگے اوریہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنے معاملات میں عدل کرنے والے ہوں گے ۔اس کے برعکس ظلم کرنے والے اندھیروں میں ہوںگے۔انہیںجنت کی طرف راستہ نہیں ملے گا ۔الصراط پر ان کے لیے روشنی نہیں ہوگی ۔
عدل کی ضد ظلم ہے ۔کسی شے کو اس کے مقام پر رکھنا عدل ہے جبکہ کسی شے کو اس کے مقام سے ہٹا دینا ظلم ہے ۔ظلم خود تاریکی ہے اوراس کاارتکاب کرنے والے بھی تاریکیوںمیں ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ قیامت کی رسوائی سے ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔
ہم نے مہم کاعنوان بقائے پاکستان:نفاذ عدل اسلام اس لیے رکھاکہ اگر زندگی کے تمام گوشوںمیں عدل مطلوب ہے توان تمام گوشوںمیں اسلام کی عطا کردہ تعلیمات کے نفاذ کے لیے کوشش کرنا ہوگی ۔ کیونکہ عدل صرف العادل اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی میسر آئے گا ۔ ورنہ دنیا کے مسائل بڑے پیچیدہ ہیں۔ اگر مرد نظام تشکیل دے گا تو وہ عورت کا استحصال کرے گا ، عورت کے ہاتھ میں سارا نظام آئے گا تو مرد کو انصاف نہیں ملے گا ، سرمایہ دارنظام تشکیل دے گا تو وہ مزدور کا استحصال کرے گا ۔ جیسا کہ اب بھی مزدوری آٹھ گھنٹے کی دی جاتی ہے اورکام سولہ گھنٹے کا کروایا جاتاہے ۔ اسی طرح اگر مزدور نظام تشکیل دے گا تو سرمایہ داروں کی شامت آئے گی ۔ حقیقی عدل اور انصاف اس وقت قائم ہوگا جب انسان کو بنانے والے رب کا نظام نافذ کیا جائے گا۔ بہرحال عدل اسلام کی تعلیمات کاکیچ ورڈ ہے ۔اس حوالے سے چند پہلو آپ کے سامنے پیش کرنا مقصود ہے ۔
1۔فرد کاذاتی عدل
بندہ اپنی ذات کے ساتھ عدل کرے۔ ایک صحابی ؓ کی زوجہ محترمہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش ہوئیں  اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ! میرے شوہر ہمیشہ نفلی روزہ رکھتے ہیں اور پوری پوری رات نوافل میں گزار دیتے ہیں ۔آپﷺ نے ان صحابیؓ کوبلاکرپوچھا کہ کیا یہ سچ ہے ؟ صحابی ؓنے عرض کیا یارسول اللہﷺ! ایسا ہی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:’’ایسا مت کرو۔تمہارے نفس کابھی تم پرحق ہے،تمہاری آنکھ کا بھی تم پرحق ہے ،تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے مہمان کا بھی تم پرحق ہے ۔‘‘ معلوم ہوا کہ اپنی ذات کے معاملے میں بھی افراط و تفریط کا شکار ہوجانا عدل و انصاف نہیں ہے۔ یعنی ایک طرف یہ انتہا ہو کہ فرض نماز بھی ضائع ہو جائے اور دوسری طرف یہ انتہا ہو کہ نفل نمازوں اور روزوں میں تو بہت آگے ہے لیکن اپنے حق میں بھی اور حقوق العباد میں بھی کوتاہی ہے تو یہ عدل کے منافی ہے ۔ اسلام رہبانیت سے منع کرتاہے کہ بندہ زندگی کے معاملات کو ترک کرکے جنگلوں اوربیابانوںمیں نکل جائے۔یہ غیرفطری زندگی اسلام کو مطلوب نہیں ہے ۔ بندے پر اس کے نفس کا بھی حق ہے اور نفس کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اسے جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کی جائے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ـ:’’اے اہل ِایمان! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے۔‘‘(التحریم:6)
بعض لوگ کبھی دین پرعمل کرنے والوں کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ وہ مسجد میں لگے رہتے ہیں ،درس میں لگے رہتے ہیں ،دینی کام میں لگے رہتے ہیں ان کودنیا کی فکر ہی نہیں ہے ۔دین والے بھی ان کو جواب دے سکتے ہیں کہ تم بھی 24گھنٹے کمانے میں لگے رہتے ہو، فلمیں، ناچ گانوں،سمارٹ فون میں لگے رہتے ہواوردیگر کئی سرگرمیوں میں لگے رہتے ہو کیاتمہیں خدا کاخوف ہے ؟ تم پراللہ کابھی کوئی حق ہے کہ نہیں ؟فرائض وواجبات ادا کرنے ہیں کہ نہیں ؟حلال کماناچاہیے۔بالکل ٹھیک ہے،گھر والوں کی فکر کرنی چاہیے ، یہ تودین کاتقاضاہے لیکن دین کاتقاضا یہ بھی ہے کہ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائو۔ اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ کمائی حلال ہو ، جائز کاموں پر خرچ ہواور دین کے احکامات پر عمل ہو ۔اگر کسی نے اپنے نفس کو جہنم کی آگ سے بچا لیا تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی ، قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
’’تو جو کوئی بچا لیا گیا جہنم سے اور داخل کر دیا گیا جنت میں تو وہ کامیاب ہو گیا۔اور یہ دنیا کی زندگی تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ صرف دھوکے کا سامان ہے۔‘‘ (آل عمران:185)
سورہ فرقان میں ذکر آتا ہے کہ ایمان والوں کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ نہ تو وہ کنجوسی کرتے ہیں اور نہ خرچ کرتے وقت ہتھ چھٹ ہو کر سارا دے ڈالتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا(110)} (بنی اسرائیل)’’اور مت بلند کرو آواز اپنی نمازمیں اور نہ ہی بہت پست رکھو اس میں‘بلکہ اس کے بین بین روش اختیار کرو۔‘‘
عبادات کے رویے ہوں، اخراجات کے معاملات ہوں یا شب و روز کے دیگرمعمولات سب میں عدل مطلوب ہے، یہ اپنی جگہ اتنا بڑا موضوع ہے کہ اس کو کھولتے جائیں تو دین کا خوبصورت پہلو سامنے آئے گا کہ وہ زندگی کے ہر گوشے میں ہم سے عدل کا تقاضاکرتا ہے ۔
رب کے ساتھ عدل
جیسے اپنے آپ کے ساتھ عدل کرنا ہےاسی طرح اپنے رب کے ساتھ بھی عدل کرنا ہے۔عدل یہ ہے کہ جوجس مقام کا حقدار ہے اسےاُسی پر رکھا جائے اور ظلم یہ ہے کہ اس کو اس کے مقام سے ہٹادیا جائے ۔ سب سے بڑا ظلم کیا ہے؟ارشاد ہوا:{یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللہِ ط اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌM}(لقمان)’’اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک مت کرنا یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘
بندہ شرک کرتے ہوئےاللہ کو اس کے مقام سے ہٹا دیتاہے ۔ جیسے ایک تصور ہے کہ چپراسی کی مٹھی گرم کروگے تو فائل اوپر جائے گی ، ایسے ہی اللہ کے بارے میں بھی یہ مشرکانہ تصور ہے کہ وہ براہ راست نہیں سنتا ، کسی کو درمیان میں سیڑھی بنانا پڑے گا ۔ یہ ظلم ہے کہ اللہ کے ساتھ بھی وہ کمزوری وابستہ کی جائے جو انسانوں کو درپیش ہے ۔ اسی طرح مخلوق کواٹھا کر خالق کے برابر کر دینا بھی ظلم ہے ۔ شرک سب سے بڑا ظلم ہے اور ظلم عدل کی ضد ہے۔ رب کے ساتھ عدل یہ ہے کہ جو اس کا حق ہے اس کو دو۔ اللہ کا حق ہے کہ سب سے بڑھ کر محبت اللہ سے کی جائے، وہ خالق بھی مالک بھی، رازق بھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّـلّٰہِ ط} (البقرۃ:165) ’’اور جو لوگ واقعتاًصاحب ِایمان ہوتے ہیں ان کی شدید ترین محبت اللہ کے ساتھ ہوتی ہے۔‘‘
اللہ کا حق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے معروف بات ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور مَیں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر صرف اس لیے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘(الذاریات:56)
اللہ تقاضا کرتا ہےکہ تمہاری سب سے بڑھ کر محنتیں اللہ کے لیے ہونی چاہیے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘ (الانعام:162)
اللہ کے ساتھ کیسا معاملہ ہوناچاہیے بخاری شریف میں اس حوالے سے ایک حدیث ہے کہ :جس نےاللہ کی خاطر کسی سے محبت کی اور نفرت کی تو اللہ کی خاطر ، کسی کو کچھ دیا تو اللہ کی خاطر ، کسی سے ہاتھ کھینچ لیا اللہ کی خاطر تو یقیناً اس نے اپنے ایمان کی تکمیل کر لی ۔چنانچہ اللہ کے ساتھ عدل یہ ہے کہ سب سے بڑھ کر محبت ، نفرت ، اطاعت ، محنت ، فکر ، خوف اور راضی کرنے کی کوشش اللہ کے لیے ہو۔ کیا آج اللہ میرا اور آپ کا مقصود اول اور مطلوب اول ہے ؟ رشتہ دار ناراض نہ ہوجائیں ، دوست احباب ناراض نہ ہوجائیں  ان کی تو فکر ہے ۔ کیا ہمیں اللہ کی ناراضگی کا خوف ہے ؟ ارشاد ہوتاہے :
{اَتَخْشَوْنَہُمْ ج فَاللہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْہُ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(13)} (التوبہ)’’کیا تم ان سے ڈر رہے ہو؟ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو ۔‘‘
خاندانی معاملات میں عدل
گھریلواور خاندانی معاملات میں عدل کے بہت سارے پہلو ہو سکتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اولاد دی ہے تو ایسا نہیں کہ بیٹوں کوبیٹیوں پر ترجیح دی جائے۔رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا بلکہ رسول اللہﷺ نے تو یہ فرمایا اگر اجازت ہوتی اولاد میں کسی کو کسی پر ترجیح دینے کی تو میں بیٹیوں کو ترجیح دیتا بیٹوں پر مگراجازت نہیں۔ اگر بیٹے اللہ کی نعمت ہیں تو بیٹیاں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہیں۔ سورۃالشوریٰ میں فرمایا : ’’آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے۔وہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے ۔جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے۔یا وہ انہیں ملا کر دیتا ہے بیٹے اور بیٹیاں ۔اور جس کو چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے۔یقیناً وہ سب کچھ جاننے والا‘ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘( آیت:49اور50)
وہ پوری قدرت رکھتا ہے سب کو سب کچھ دینے کی مگر اپنی مشیت کے مطابق جس کو جو چاہے عطا کردے اور جس کو چاہے نہ کرے ۔ ہمیں اجازت نہیں کہ ہم اولاد میں کسی کو کسی پر ترجیح دیں ۔فطری طور پر، قلبی طور پرکسی سے محبت ہونا الگ بات ہے مگر کفالت اور معاملات میں سب کے ساتھ برابر سلوک کرنا عدل ہے ۔ اسی طریقے پر اگر ایک سے زائد بیویاں ہیں تو اللہ کا قرآن بتاتا ہے کہ عدل کا معاملہ ہونا چاہیے ۔ اگر ایک بیوی بھی ہے تو اس کے ساتھ بھی عدل ہونا چاہیے ۔ جو اس کا حق بنتا ہے اس کو دینا چاہیے ۔ بیوی کو جہنم کی آگ سے بچانا بھی اس کا حق ہے۔ اسی طرح بہو کے ساتھ بھی عدل کا تقاضا ہے کہ جو آپ اپنی بیٹیوں کے لیے چاہتے ہیں وہی اس کو بھی دیں کیونکہ وہ بھی کسی کی بیٹی ہے ۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ اپنی بیٹیاں تو رانی بن کر رہیں اور بہو نوکرانی بن کر رہے ۔ اگر ایک گھر میں ، ایک خاندان میں عدل نہیں ہوگا تو 24 کروڑ کی آبادی میں عدل کیسے قائم ہوگا ۔ اسی طرح رشتہ داروں میں عدل مطلوب ہے۔کوئی فوت ہوگیا تو اس کے بعد عدل کا تقاضا ہے کہ اس کی وراثت کو شریعت کے مطابق تقسیم کیا جائے ۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بہت ڈنڈیاں ماری جاتی ہیں خاص طور پر بہنوں کا حصہ ہڑپ کیا جاتاہے ۔ حالانکہ یہ اللہ کی حدود ہیں کہ بیٹی کا حق دینا پڑے گا ، بہن کا حق دینا پڑے گا ۔ سورہ نساء میں اللہ تعالیٰ نے ان حدود کومقرر فرمادیا ۔ نماز اللہ کا حق ہے مگر نماز کی رکعتوں کی تعداد قرآن میں بیان نہیں فرمائی ، اس کی تفصیل ہمیں حدیث سے ملتی ہے ، مگر وراثت میں کس کا کتنا حصہ ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن میںبیان فرمایا۔ سورۃ النساء کے اسی مقام پر اللہ فرماتاہے جو ان حدود کی پاسداری کرے گا اس کے لیے جنت اور جو اس کی خلاف ورزی کرے گا اس کے لیے جہنم ہے ۔ چنانچہ عدل کا نفاذ سب سے پہلے اپنی ذات سے ہوگا ، پھر اپنے گھر اور خاندان میں ، اس کے بعد معاشرت ، معیشت ، سیاست اور ریاست کا معاملہ آئے گا ۔ اگر میںاپنے دائرہ کار میں حتی الامکان شریعت پر عمل نہ کروں اور دنیا جہاں کے سامنے دین کی باتیں کروں اور عدل کی باتیں کروں اس سے بات نہیں بنے گی ۔ اپنی ذات پر عدل کا نفاذ ہوگا تو بات آگے بڑھے گی ۔پھر اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسروں کو دین کی دعوت پیش کرنی ہے اور اقامت دین کی جدوجہد کرنی ہے ۔ تنظیم اسلامی کی اس ساری مہم کا اصل مقصد اسی حوالے سے پورے ملک کے اندر شعور کو اجاگر کرنا ہے کہ عوام الناس تک یہ بات پہنچے ، حکمرانوں تک پہنچے ، مقتدر حلقوں تک پہنچے کہ اسلام کا نظام عدل قائم کریں گے تو یہ ظلم ، کرپشن اور استحصال کا سلسلہ رکے گا ۔ یہ شعور صرف دینی تربیت اور دینی تعلیم سے ہی آئے گا ۔ آج پب جی گیمز کے ذریعے ٹارگٹ ملے تو بھائی کو مارڈالنا ، ماں کو مارڈالنا ، یہ سب اسی معاشرے میں ہو رہا ہے ۔ ماں بیٹی کو سمجھانے سے ڈرتی ہے کہ پلٹ کے کوئی جواب نہ دے دے ، بیٹا کمانے گیا ہوا ہے تو وہ ماں با پ کو خاطر میں ہی نہیں لاتا ، حالانکہ پال پوس کر بڑا کس نے کیا ؟ یہ سب سیکولر نظام تعلیم کی وجہ سے ہورہا ہے ۔ اگر عدل چاہتے تو وہ اس نظام کے تحت کبھی نہیں آئے گا ۔ عدل و انصاف قائم ہوگا تو صرف دینی تعلیم اور اسلام کے ذریعے۔ لیکن ہم نے آج کس چیز کو بالا تر سمجھا ہوا ہے ؟ دولت ، شہرت ، کرسی ، پیسہ ، خاندان یہ ہمارے معیار ہیں ، کیا تقویٰ ، دینداری اور آخرت بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہے ؟میتھس کے ٹیوٹر کو ہم 20ہزار روپے دینے کو تیار ہیں ، قرآن پڑھانے والے کو ہم کیا دیتے ہیں، سب کو پتا ہے ۔ کس کو ترجیح دے رہے ہیں ؟ عدل چاہتے ہو تو اپنی ذات سے شروع کرنا ہوگا ۔ ہم خود عدل پر قائم ہوں گے تو معاشرہ بھی عدل پر قائم ہوگا اور پھر ریاست اور حکومت کی بات آئے گی ۔ ہم میں سے ہی اُٹھ کر لوگ ایوانوں میں جاتے ہیں ، جیسے ہم ہوں گے ایسے ہی لوگ ہم پر مسلط ہوں گے ۔ آج ہمارے معیارات کیا ہیں ؟محمد الرسول اللہ ﷺ کے gatup والے کو بڑی ترچھی نگاہوں سے لوگ دیکھتے ہیں،محمد رسول اللہﷺ کا getup کیا تھا؟چہرے پر سنت رسول سجی تھی، سرڈھانپ کررکھتے تھے ، ٹخنےکھلا رکھتے تھے۔ اس getup کے اندرکوئی مسلمان نظر آجائے تو کچھ لوگوں کے چہرے بگڑ جاتے ہیں اورجس getup کو دیکھ کر رسول اللہﷺ نے چہرہ پھیر لیا (ناپسندیدگی کا اظہار کیا )ایسے clean shave چہروں کو دیکھ کر لوگوں کے چہرے کھل اُٹھتے ہیں، کیا یہی عدل ہے ؟کیا اُمتی ہونے کے ناطے ہمارا معیار یہی ہونا چاہیے کہ جو رسول اللہ ﷺ کی سنت کی خلاف ورزی کرے ،ان کی تعلیمات کی خلاف ورزی کرے اُمتی اس کو ترجیح دے اور جو اللہ کی پیروی کرے ، رسول اللہ ﷺ کےgetup کو اختیار کرے تو امتی اس کو degrade کرے ؟آج کہا جاتاہے اسلام میں صرف داڑھی نہیں ہے ۔ کیا اسلام میںconcertsکا تصور ہے ؟ کیا ایسے کھیل تماشوں کا تصور ہے جن میں عورت کو بالکل نیم برہنہ کر کے پیش کیا جائے ؟ ایسی gathering کے بارے میں اسلام میں کہاں لکھا ہے؟ ایسی بے حیائی اور فحاشی کیا تُک بنتی ہے ، کتنے لوگ جانتے بوجھتے نماز ترک کرتے ہیں ، اس پر بھی بات ہونی چاہیے ۔ یہ عدل نہیں ہے کہ صرف داڑھی والوں کو ٹارگٹ بنایا جائے ۔ یہاں عدل کا معیار قائم ہوگا تو اس کے بعد معاشرے اور نظام میں عدل کی بات آئے گی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین !