اداریہ
ایوب بیگ مرزااصل ہدفانسانی جسم میں جب کوئی خرابی یعنی بیماری پیدا ہوتی ہے تو بعض اوقات انسان خود اُس سے بے خبر ہوتا ہے۔ پھر اکثر اوقات جب بخار کی صورت میں جسم چیخ اٹھتا ہے تو انسان اُس بیماری کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ گویا بیماری کچھ اور ہوتی ہے بخار الارم کا کام کرتا ہے۔ تب انسان ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے ٹیسٹ وغیرہ کرواتا ہے جو بیماری کی صورتِ حال سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہی حال انسانی معاشرہ کا ہے اُس میں کئی خرابیاں پیدا ہو چکی ہوتی ہیں۔ کرپشن، بدعنوانی، بددیانتی، دوسروں کے حقوق تلف کرنا، پھر یہ کہ ظالمانہ اقدام سے اقتدار کی راہداریوں پر غاصبانہ قبضہ کرکے اکثریتی عوام کے رجحان اور رائے کو رد اور مسترد کر دینا، یہ سب کچھ انسانی معاشرے کو ایسے روگ لگا دیتا ہے۔ جس سے اچھائی دب جاتی ہے اور انسان دوسرے کو نقصان پہنچانے پر اتر آتا ہے۔ بجلی کے بل زیادہ آنے پر بپھری ہوئی عوام کا سڑکوں پر نکل آنا، بل جلا دینا، سڑکیں بلاک کر دینا، مارکیٹوں میں ہڑتال کر دینا یہ سب اگرچہ منفی اور قوم کے لیے نقصان دہ کام ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ اچانک ہوگیا۔ کیا صرف بجلی کے بل زائد آنے پر لوگ آپے سے باہر ہوگئے اور کیا عوام کو صرف بجلی کے بلوں میں عارضی طور پر ریلیف دینے سے معاملات ٹھیک ہو جائیں گے اور مستقل طور پر ٹھیک ہی رہیں گے۔ ہماری رائے میں عارضی ریلیف عارضی طور پر لوگوں کو گھروں میں واپس بھیج سکتا ہے۔ جیسے کسی مہلک مرض میں مبتلا مریض کو درد ختم کرنے والا انجکشن لگا کر وقتی طور پر اُسے تکلیف سے نجات دلا دی جاتی ہے، لیکن جونہی انجکشن کا اثر ختم ہوتا ہے مریض پھر بلبلانے لگتا ہے۔
معاشرہ چونکہ افراد کے مجموعہ کا نام ہے لہٰذا بیمار معاشرہ بحیثیت مجموعی دوبارہ درد محسوس کرنے میں کچھ زیادہ وقت لیتا ہے لیکن اگلی مرتبہ اُس کے رویے اور طرزِ عمل میں مزید شدت دکھائی دیتی ہے، لہٰذا اگر اصل بیماری کا علاج نہ کیا جائے یا اُس کو مدِنظر رکھ کر ابتدائی کام بھی نہ کیے جائیں تاکہ عوام کو کچھ حوصلہ ہو تو پھر ایسے معاشرے یا ایسی ریاست کا انجام کسی طرح بھی خوش کن نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کسی ایسی قوم کی حالت اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک خود اُسے اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔ اُردو میں کہتے ہیں ’’ہمتِ مرداں مددِ خدا‘‘ اور انگریزی میں اِسے "God helps those who help themselves"۔ حقیقت یہ ہے کہ کامیابی اور کامرانی کے لیے جنبش کی ضرورت ہے۔ پھر یہ کہ بیماری جتنی زیادہ complicate ہوتی جائے گی علاج اور پرہیز بھی اُسی طرح مزید زور دار طریقے سے کرنا پڑے گا۔
پاکستان کا مسئلہ کیا ہے؟ پاکستان اسلام کے نام اور اسلام کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا اور جمہوریت کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا۔ نظریہ ٔپاکستان اسلام نہ ہوتا تو کبھی مسلمانانِ ہند میں جوش و جذبہ پیدا نہ ہوتا اور 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ مسلمان نشستوں پر کلین سویپ نہ کرتی تو مسلمانانِ ہند آزادی سے اور دور ہو جاتے انگریز حکمران اور ہندو اکثریت اُنہیں پرکاہ کی حیثیت نہ دیتے۔ لیکن جب پاکستانی قوم اپنی ریاست کی تعمیر اُس بنیاد پر ہی نہ کر سکی اور اُس نظریۂ اسلام کو عملی تعبیر ہی نہ دے سکی اور اُس ذریعہ کو بھی اپنے ہی پاؤں تلے کچل دیا جس سے پاکستان کو حاصل کیا گیا تو پھر پہلے نتیجہ کے طور پر پاکستان شکست و ریخت کا شکار ہوگیا۔ملک دو لخت ہوگیا۔ ایک حصہ جو آبادی میں زیادہ بھی تھا اُس نے الگ ہو کر پاکستان کا نام بھی خلیج بنگال میں ڈبو دیا وگرنہ اگر دنیا میں شمالی اور جنوبی کوریا یا شمالی اور جنوبی ویت نام ہو سکتے ہیں تو مشرقی اور مغربی پاکستان بیک وقت گلوبل نقشہ پر کیوں نہیں رہ سکتے تھے۔ دلچسپ کہیں یا حیران کن اور افسوسناک بات کہیں کہ مشرقی پاکستان میں ہی مسلم لیگ نے جنم لیا اور مشرقی پاکستان کی ہی سیاسی قیادت نے قراردادِ لاہور میں بعدازاں تبدیلی کی جس میں originaly ہندوستان میں Muslim states بنانے کا ذکر تھا۔ اُس میں states کا "s" کاٹ کر Muslim stateبنایا اور مطالبۂ پاکستان قانونی اور تحریری طور پر دنیا کے سامنے آیا۔ گویا قرار دادِ لاہور 1940ء کے مطابق تو برصغیر میں مسلمان ریاستیں بن رہی تھیں زیادہ سے زیادہ اُن کے درمیان کنفیڈریشن قائم ہو جاتی، لیکن ان آزاد ریاستوں کا معاملہ ختم کرکے 1947ء سے کچھ پہلے اسے ایک فیڈریشن بنا دیا گیا۔ لیکن ہم پاکستانیوں نے خود پر ظلم یہ کیا کہ ایک طرف تو قراردادِ مقاصد اور علماء کرام کے بائیس نکات کو نظر انداز کیا گیا، جس سے پاکستان کی حقیقی اور روحانی بنیاد ہی ختم ہوگئی۔
دوسری طرف اقتدار پر قبضہ کرنے والوں نے بالکل مخالف سمت پر یعنی سیکولر بنیادوں پر اندھا دھند تعمیر شروع کر دی ظاہر ہے یہ بے بنیاد عمارت زمانے کے تھپیڑوں اور اپنوں کی تخریب کاریوں کا کیسے مقابلہ کر سکتی تھی۔ پھر یہ کہ اُس ذریعے سے بھی انحراف کر لیا جو پاکستان کو معرضِ وجود میں لایا تھا ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو قائداعظم اور علامہ اقبال کے تصورات کے مطابق ایک حقیقی اسلامی ریاست بنا دیا جاتا تو یہ بھلایا جاسکتا تھا کہ پاکستان کے قیام کا ذریعہ کیا تھا۔ یہ ہماری دلی خواہش تھی اور ہے کہ کسی طرح مملکتِ خداداد پاکستان میں اسلام کا نفاذ تو ہو جائے اگرچہ عقلی اور منطقی طور پر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا اس لیے کہ آج بھی گئے گزرے زمانے میں تمام سروے کے مطابق 80 فیصد سے زائد لوگ پاکستان میں اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں لیکن عوام کی حقیقی خواہش کو کسی نہ کسی طرح manage کر لیتے ہیں لہٰذا نظام سیکولر بنیادوں پر ہی چل رہا ہے اور یہ manage کرنے کے لیے پاکستان میں چار مرتبہ مارشل لاء لگا۔ علاوہ ازیں یہ کہ اوّل تو وزیراعظم ہی اشرافیہ، مراعات یافتہ اور طاقتور طبقات کی مرضی سے بنتے ہیں یعنی پہلے ہی یوں عوام کے اس حق پر ڈاکہ ڈالا جاتا پھر یہی طبقات اُس کو دورانِ حکومت بھی اپنے تابع رکھتے ہیں۔ لیکن اس غلطی کا علاج بھی غلط طریقے سے کیا گیا۔
ضرورت اس امر کی تھی کہ لوہے کو لوہا کاٹتا یعنی پے در پے انتخابات کروائے جاتے اور عوامی سطح پر یعنی سیاسی سطح پر مارشل لاء کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جاتا لیکن سیاست دان اور عوام ہمت مرداں کا مظاہرہ نہ کر سکے اور نہ ہی عدلیہ نے مدد کی بلکہ عدلیہ نے تو نظریہ ضرورت ایجاد کرکے انتہائی منفی رول ادا کیا لہٰذا غلط اقدار مستحکم ہوتی چلی گئیں ۔ یہاں تک کہ مفاد پرست اشرافیہ عوام کے اذہان میں یہ راسخ کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ انتخابی عمل بے سود اور بالکل بے کار ہے جسے انگریزی میںـ" excercise in futility "کہتے ہیں یعنی ایسا کام جو فائدے سے مکمل طور پر خالی ہو۔
ہم سمجھتے ہیں کہ انتخابات سے پاکستان میں کوئی انقلابی تبدیلی تو ہرگز نہیں آسکتی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان ہرگز اس حالت کو نہ پہنچتا اگر ایک وزیراعظم کو عہدے سے عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا کر فوری طور پر یعنی اپریل 2022ء میں ہی انتخابات کروا دیے جاتے اور PDM منتخب ہو کر حکومت بناتی تو وہ مضبوط حکومت بنا سکتی تھی لیکن ایسا نہ کیا گیا لہٰذا پاکستان آج سیاسی اور معاشی طور پر بُری طرح تباہ و برباد ہوگیا۔ اب بھی اگر فوری طور پر انتخابات کروا دیئے جائیں تو ففٹی ففٹی چانس ہے کہ پاکستان کسی بڑے سانحہ سے دو چار ہونے سے بچ جائے گا۔ لیکن اگر اب بھی قبضہ مافیا انتخابات کرانے سے گریز کرتا رہا تو اللہ تعالیٰ تو جو چاہے کر سکتا ہے۔ لیکن زمینی حقائق اور انسانی عقل کا جہاں تک تعلق ہے پاکستان کا کسی بڑے حادثے سے بچ جانا ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ بھی یاد رہے کہ بار بار اور مسلسل انتخابات سے اتنا فائدہ یقیناً حاصل ہو جاتا ہے کہ عوامی نمائندوں کو یہ خیال رہتا ہے کہ اگر اُنہوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے کوئی کام بھی نہ کیا تو وہ آئندہ اقتدار سے باہر ہو جائیں گے۔
درحقیقت مارشل لاء اور ایمرجنسی وغیرہ تو صاحبانِ اقتدار کو عوامی فلاح و بہبود کے کاموں سے بھی فارغ کر دیتے ہیں کہ انتخابات کا سِرے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور یہ کوئی ایسا کام نہیں کر سکتے جس سے عوام کی بھلائی ممکن ہو۔ گویا عوام کے گرد ایک چار دیواری بنا دی جاتی ہے وہ اس میں محصور ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج غیر یقینی کی صورتِ حال ہر طرف چھا گئی ہے لہٰذا توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ کا منفی اور قومی سطح پر نقصان دہ رویہ سامنے آ رہا ہے جو ہمیں ایسی پستیوں میں لے جا رہا ہے جیسے پہاڑی شاہراہوں سے کوئی گاڑی لڑھک جائے اور وہ تہہ تک پہنچنے تک رک ہی نہ سکے۔ لہٰذا ہمارے لیے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ ہم پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے تن من دھن لگا دیں اور جب تک انقلاب برپا نہیں ہو جاتا نہ کسی غیرنمائندہ حکومت کو قبول کریں اور نہ انارکی پیدا ہونے دیں۔ کیونکہ یہ ملک و قوم کے لیے تباہی کا باعث بنے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ 1947ء میں مسلمانانِ برصغیر کو الگ ایک قطعۂ زمین کی ضرورت تھی تاکہ وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلام کے زریں اصولوں کے مطابق گزار سکیں یعنی اسلامی فلاحی ریاست قائم کر سکیں اور آج اُسی ریاست کو بچانے کی اس لیے ضرورت ہے کہ 1947ء میں کیے گئے وعدے اور عہد کی تکمیل ہو سکے۔ کل بھی اصل ہدف اسلامی ریاست تھا، آج بھی اصل مقصد وہی ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024