(الہدیٰ) حضرت سلیمان ؑ کا ملکہ ٔ کا تخت لانے کا حکم - ادارہ

8 /

الہدیٰ

حضرت سلیمان ؑ کا ملکہ ٔ کا تخت لانے کا حکم


آیت 38{قَالَ یٰٓاَیُّہَا الْمَلَؤُا اَیُّکُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِہَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ(38)} ’’(پھر اپنے درباریوں سے مخاطب ہو کر )سلیمانؑ نے کہا: اے درباریو! تم میں سے کون اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لائے گا اس سے پہلے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس پہنچیں؟‘‘
یعنی آپؑ کو یقین تھا کہ ملکہ سبا اظہارِ اطاعت کے لیے ضرور حاضر ہو گی۔ چنانچہ آپؑ نے چاہا کہ اُس کے آنے سے پہلے اس کا تخت یہاں پہنچ جائے اور اس میں تھوڑی بہت تبدیلی کر کے اس کی آزمائش کی جائے کہ وہ اپنے تخت کو پہچان پاتی ہے یا نہیں۔
آیت 39{قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَ ج وَاِنِّیْ عَلَیْہِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ(39)} ’’جنوں میں سے ایک دیو نے کہا کہ میں اسے آپؑ کے پاس لے آتا ہوں اس سے پہلے کہ آپؑ اپنی اس مجلس سے اٹھیں‘ اور مَیں یقیناً اس کام کے لیے طاقت بھی رکھتا ہوں اور امانت دار بھی ہوں۔‘‘
جس طرح انسانوں میں کوئی کمزور ہوتا ہے اور کوئی طاقتور‘ اسی طرح جنوں میں بھی چھوٹے بڑے جن ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک طاقتور قوی ہیکل دیو نے دعویٰ کیا کہ آپؑ کے دربار برخواست کرنے سے پہلے میں وہ تخت لا کر آپؑ کی خدمت میں حاضر کیے دیتا ہوں۔
آیت 40{قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ ط} ’’کہنے لگا وہ شخص جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ مَیں اسے آپؑ کے پاس لے آتا ہوں اس سے قبل کہ آپؑ کی نگاہ پلٹ کر آپؑ کی طرف آئے۔‘‘
یعنی مَیں آپ ؑ کے پلک جھپکنے سے پہلے اس کو حاضر کیے دیتا ہوں۔ یہ جس شخص کا ذکر ہے اس کے بارے میں مفسرین کہتے ہیں کہ وہ حضرت سلیمان ؑ کے وزیر آصف بن برخیاہ تھے‘ اور یہ کہ ان کے پاس کتب سماویہ اور اللہ تعالیٰ کے ناموں سے متعلق ایک خاص علم تھا جس کی تاثیر سے انہوں نے اس کام کو ممکن کر دکھایا۔
{فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ} ’’پھر جب اُس نے دیکھا اُسے اپنے سامنے رکھا ہوا‘‘
یعنی وہ صاحب اپنے دعوے کے مطابق اس تخت کو واقعی پلک جھپکنے سے پہلے لے آئے اور جب حضرت سلیمان ؑ نے اسے اپنے سامنے دیکھا تو بے اختیار آپؑ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنے لگے۔
{قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ قف} ’’اُس ؑنے کہا کہ یہ میرے رب ہی کے فضل سے ہے‘‘
کوئی دنیا دار بادشاہ ہوتا تو اپنے وزیر کے کمال کو بھی اپنا ہی کمال قرار دیتا‘ لیکن حضرت سلیمان ؑ نے اسے اللہ تعالیٰ کا فضل قرار دیا اور اس کا شکر ادا کیا۔ بندگی کا کامل نمونہ بھی یہی ہے کہ انسان بڑی سے بڑی کامیابی کو اپنا کمال سمجھنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا انعام جانے اور اس پر اُس کا شکر ادا کرے۔
{لِیَبْلُوَنِیْٓ ئَ اَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُط} ’’تا کہ وہ مجھے آزمائے کہ کیا مَیں شکر ادا کرتا ہوں یا نا شکری کرتاہوں۔‘‘
{وَمَنْ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ ج} ’’اور جو کوئی شکر کرتا ہے وہ اپنے ہی (بھلے کے) لیے کرتا ہے۔‘‘
{وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ کَرِیْمٌ (40)} ’’اور جو کوئی نا شکری کرتا ہے تو میرا رب یقیناً بے نیاز ہے‘ بہت کرم کرنے والا۔‘‘

درس حدیث

ایمان کی علامت

عَنْ اَبِیْ مُحَمَّدٍعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو ابْنِ الْعَاصi قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : (( لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَـکُوْنَ ھَوَاہُ تَـبَعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ)) (شرح السنۃ)
سیدنا ابومحمد‘ عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی بھی اُس وقت تک حقیقی مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی دلی خواہشات اس ( شریعت اور دین) کے تابع نہ ہوجائیں جو میں لایا ہوں!‘‘