(لمحہ فکریہ) تاریخ کی بدترین نسل کشی - محمد حامد حسن

9 /

تاریخ کی بدترین نسل کشی

مرسلہ:محمد حامد حسن

حکم ہوا تمام مردوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے۔ فوجی شہر کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ ماؤں کی گود سے دودھ پیتے بچے چھین لیے گئے۔ بسوں پر سوار شہر چھوڑ کر جانے والے مردوں اور لڑکوں کو زبردستی نیچے اتار لیا گیا۔ لاٹھی ہانکتے ‘کھانستے بزرگوں کو بھی نہ چھوڑا گیا۔ سب مردوں کو اکٹھا کر کے شہر سے باہر ایک میدان کی جانب ہانکا جانے لگا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ تھے۔ عورتیں چلّا رہی تھیں۔ گڑگڑا رہی تھیں۔ اِدھر اعلانات ہو رہے تھے: ’’گھبرائیں نہیں ‘کسی کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ جو شہر سے باہر جانا چاہے گا ‘اسے بحفاظت جانے دیا جائے گا۔‘‘
‏زاروقطار روتی خواتین اقوامِ متحدہ کے اُن فوجیوں کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں جن کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ شہر محفوظ ہاتھوں میں ہے لیکن وہ سب تماشائی بنے کھڑے تھے۔ شہر سے باہر ایک وسیع و عریض میدان میں ہر طرف انسانوں کے سر نظر آتے تھے۔ گھٹنوں کے بل سر جھکائےزمین پر ہاتھ ٹکائے انسان جو اس وقت بھیڑوں کا بہت بڑا ریوڑ معلوم ہوتے تھے۔ دس ہزار سے زائد انسانوں سے میدان بھر چکا تھا۔
ایک طرف سے آواز آئی: فائر!سینکڑوں بندوقیں بیک وقت گونجیں لیکن اس کے مقابلے میں انسانی چیخوں کی آواز اتنی بلند تھی کہ ہزاروں گولیوں کی تڑتڑاہٹ بھی دب کر رہ گئی۔ ایک قیامت تھی جو برپا ہو گئی۔ ماؤں کی گودیں اجڑ رہی تھیں۔ بیویاں آنکھوں کے سامنے اپنے سروں کے تاج تڑپتے دیکھ کر دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں۔ سینکڑوں ایکڑ پر محیط میدان میں خون‘ انسانی اعضاء کے چیتھڑوں اور نیم مردہ کراہتے انسانوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ شیطان کا خونی رقص جاری تھا اور انسانیت دَم توڑ رہی تھی۔ ان سسکتے وجودوں کا ایک ہی قصور تھا کہ یہ کلمہ گو مسلمان تھے۔ اس روز اسی سالہ بوڑھوں نے اپنے بیٹوں اور معصوم پوتوں کی لاشوں کو تڑپتے دیکھا۔ بے شمار ایسے تھےجن کی روح شدتِ غم سے ہی پرواز کر گئی۔
شیطان کا یہ خونی رقص تھما تو ہزاروں لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے مشینیں منگوائی گئیں۔ بڑے بڑے گڑہے کھود کر پانچ پانچ سو‘ ہزار ہزار لاشوں کو ایک ہی گڑھے میں پھینک کر اسے مٹی سے بھر دیا گیا۔ لاشوں کے اس ڈھیر میں کچھ نیم مردہ سسکتے اور کچھ فائرنگ کی زد سے بچ جانے والے زندہ انسان بھی تھے۔لاشیں اتنی تھیں کہ مشینیں کم پڑ گئیں۔ بے شمار لاشوں کو یوں ہی کھلا چھوڑ دیا گیا اور پھر رُخ کیا گیا غم سے نڈھال ان مسلمان عورتوں کی جانب جو میدان کے چہار جانب ایک دوسرے کے قدموں سے لپٹی رو رہی تھیں۔ایسے میں انسانیت کا وہ عریاں رقص شروع ہوا کہ درندے بھی دیکھ لیتے تو شرم سے پانی پانی ہو جاتے۔ شدتِ غم سے بے ہوش ہو جانے والی عورتوں کا بھی ریپ کیا گیا۔ خون اور جنس کی بھوک مٹانے کے بعد بھی چین نہ آیا۔ چنانچہ اگلے کئی ہفتوں تک بھی پورے شہر پر موت کا پہرہ طاری رہا۔ اقوامِ متحدہ کےپناہ گزیں کیمپوں سے بھی ہزاروں لوگوں کو نکال نکال کرگولیوں سے بھون دیا گیااور عورتوں کی عصمت دری کی جاتی رہی۔ دس بارہ سال کی بچیوں سے لے کر ضعیف العمر خواتین تک کی آبروریزی کی گئی۔ محض دو دن میں پچاس ہزار نہتے مسلمان زندہ وجود سے مردہ لاش بنا دیے گئے۔
یہ تاریخ کی بدترین نسل کشی تھی۔ ظلم و بربریت کی یہ کہانی سینکڑوں ہزاروں سال پرانی نہیں‘ نہ ہی اس کا تعلق وحشی قبائل یادورِ جاہلیت سے ہے۔ یہ 1995ء کی بات ہے جب دنیا اپنے آپ کو خودساختہ مہذب مقام پر فائز کیے بیٹھی تھی۔ مقام کوئی پس ماندہ افریقی ملک نہیں بلکہ یورپ کا جدید قصبہ سربرینیکا تھا۔ یہ واقعہ اقوامِ متحدہ کی نام نہاد امن فورسز کے عین سامنے بلکہ ان کی پشت پناہی میں پیش آیا۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مبالغہ آرائی ہے تو اقوامِ متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کا بیان پڑھ لیجیے جس نے کہا تھا کہ یہ قتل عام اقوامِ متحدہ کے چہرے پر ایک بدنما داغ کی طرح ہمیشہ رہے گا۔
نوے کی دہائی میں یوگوسلاویہ ٹوٹنے کے بعد بوسنیا کے مسلمانوں نے ریفرنڈم کے ذریعے سے اپنے الگ وطن کے قیام کا اعلان کیا۔ بوسنیا ہرزیگوینا کے نام سے قائم اس ریاست میں مسلمان اکثریت میں تھے‘ جو ترکوں کے دورِ عثمانی میں مسلمان ہوئے تھے اور صدیوں سے یہاں آباد تھے۔ یہاں مقیم سرب اس الگ ریاست سے خوش نہ تھے۔ انہوں نے سربیا کی افواج کی مدد سے بغاوت کی۔ اس دوران میں بوسنیا کے شہر سربرینیکا کا سرب افواج نے محاصرہ کر لیا‘جو کئی سال تک جاری رہا۔
اقوامِ متحدہ کی امن افواج کی تعیناتی کے ساتھ ہی باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ اب یہ علاقہ محفوظ ہے‘ لیکن یہ اعلان محض ایک جھانسا ثابت ہوا۔ کچھ ہی روز بعد سرب افواج ‏نے جنرل ملادچ کی سربراہی میں شہر پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کی نسل کشی کا وہ انسانیت سوز سلسلہ شروع کیا جس پر تاریخ آج بھی شرمندہ ہے۔ اس دوران نیٹو افواج نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔ شاید اس لیے کہ معاملہ مسلمانوں کا تھا!
اگست1995ء سے اگست 2023ء تک اٹھائیس سال گزر گئے۔آج بھی مہذب دنیا اس داغ کو دھونے میں ناکام ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا واحد واقعہ ہے جس میں مرنے والوں کی تدفین آج تک جاری ہے۔ آج بھی سربرینیکا کے گردونواح سے کسی نہ کسی انسان کی بوسیدہ ہڈیاں ملتی ہیں تو انہیں اہلِ علاقہ دفناتے نظر آتے ہیں۔ جگہ جگہ قطار اندر قطار کھڑے پتھر اس بات کی علامت ہیں کہ یہاں وہ لوگ دفن ہیں جن کی اور کوئی شناخت نہیں ماسوائے اس کے کہ وہ مسلمان تھے۔ اگرچہ بعد میں دنیا نے سرب افواج کی جانب سے بوسنیائی مسلمانوں کی اس نسل کشی میں اقوامِ متحدہ کی غفلت اور نیٹو کے مجرمانہ کردار کو تسلیم کر لیا‘ کیس بھی چلے ‘معافیاں بھی مانگی گئیںمگرع ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا!
اب تو یہ واقعہ آہستہ آہستہ یادوں سے بھی محو ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کو جنگ عظیم‘ سرد جنگ اور یہودیوں پر ہٹلر کے جرائم تو یاد ہیں لیکن مسلمانوں کا قتل عام یاد نہیں۔ غیروں سے کیا گلہ ‘ہم میں سے کتنوں کو معلوم ہے کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا بھی تھا؟ پچاس ہزار مردوں اور بچوں کا قتل اتنی آسانی سے بھلا دیا جائے! یہ وہ خون آلود تاریخ ہے جسے ہمیں بار بار دنیا کو سنانا ہو گا۔
جس طرح نائن الیون اور دیگر واقعات کو ایک گردان بنا کر رٹایا جاتا ہے‘ بعینہ ہمیں بھی یاد دلاتے رہنا ہو گا۔ نام نہاد مہذب معاشروں کو ان کا اصل چہرہ دکھاتے رہنا ہو گا۔ اپنے دوستوں کو روزانہ پھول ضرور بھیجیں مگر خدارا ایسی تحریریں بھی ارسال کریں جن سے ہمارے ایمان اور عمل میں اضافہ ہوتا ہو۔اس واقعے میں ہمارے لیے ایک اور بہت بڑا سبق یہ بھی ہے کہ کبھی اپنے تحفظ کے لیے اغیار پر بھروسانہ کرو ‘کیونکہ اپنی جنگیں اپنے ہی زورِ بازو سے لڑی جاتی ہیں۔