(کارِ ترقیاتی) یہ ملک لیا تھا جو کبھی خون بہا کر! - عامرہ احسان

9 /

یہ ملک لیا تھا جو کبھی خون بہا کر!

عامرہ احسان[email protected]

قوم اپنے غم غلط کرنے کو موبائل کی اسکرینوں پر آتے مناظر سے دل بہلاتی ہے۔ حقیقت کی دنیا میں بھی بہت سے مناظر، گھروں خاندانوں، ملک وقوم، عالم اسلام اور عالمی سطح پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ جرائم کے مناظر جابجا کیمرے کی آنکھ محفوظ کرلیتی ہے اور پھر وہ وائرل ہو جاتے ہیں۔ انسان پہلا شکر تو یہ ادا کرتا ہے کہ میں محفوظ ہوں!
یہ منظر دیکھیے: ایک سنسان سڑک پر عورت جا رہی ہے۔ اچانک موٹرسائیکل سے ایک ڈاکو وارد ہوتا ہے۔ ایک مزید دوڑتا ہوا قریب سے نمودار ہوتا ہے۔ عورت کو ایک نے مضبوطی سے پکڑا، منہ پر ہاتھ رکھا، دوسرے نے فوری اسے طلائی زیورات سے محروم کیا۔ نقدی، موبائل چھینا۔ لات مار کر زمین پر گرایا اور تھیلا لے کر موٹرسائیکل پر سوار یہ جا وہ جا! یہ منظر دیکھ کر ہمیں آئی ایم ایف کا طریقِ واردات تازہ ہوگیا۔ بے یار ومددگار عوام زندگی کی سنسان کردی گئی شاہراہ پر تپتی دوپہر میں بے آسرا چل رہے ہیں۔ حکومت کی مدد سے اچانک حملہ آور ہوکر جمع پونجی سے محروم کرکے لات مار کر زمین پر گرا چھوڑکر بے رحمی سے اموال سمیٹ کر نکل جانا۔ منہ پر ہاتھ رکھ دینا کہ آواز بھی نہ نکالے۔ منظرنامے میں بھی دکانیں بند اور اردگرد کچرے کا ڈھیر ہے۔
ہمارے ہاں بھی اب یا شٹر ڈاؤن ہڑتالیں، کاروبار سسک رہے ہیں، مندی ہے۔ خریدار کہاں سے آئے جس کی جیب حکومت اور آئی ایم ایف نے مل کر خالی کر دی، پھاڑ ڈالی۔ مراعات یافتہ جج جرنیل افسر شاہی جیسے طبقات پر نوازشات اس لوٹ کے مال کی بندربانٹ سے مزید بڑھا دی گئی ہیں۔ عوام چاروں شانے چت بجلی، پیٹرول، اشیائے ضروریہ کی لات کھا کر زمین پر ادھ موئے پڑے ہیں۔ نگران وزیراعظم زخموں پر نمک چھڑکتے فرانسیسی شہزادی والی بے نیازی سے فرماتے ہیں کہ مہنگائی اتنی بھی نہیں کہ عوام پہیہ جام ہڑتال کر دیں۔ آپ عوام کو بہلانے، لارے لپے لگانے کو ہماری جیبوں سے ٹھنڈے ٹھار کیے گئے شاندار ماحول میں میٹنگیں کرتے، لنچ ڈنر (بھی ہمارے ٹیکسوں سے) اڑاتے ہیں۔ نکل کر ہمیں ہری جھنڈی دکھا دیتے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف کے آگے اف نہیں کرسکتے۔ قطع نظر اس سے کہ حکومت، نگران عبوری ہو یا نام نہاد جمہوری یہ آئی ایم ایف کے مقامی سہولت کار، شراکت کار لٹیرے ہیں۔ عالمی طاقتوں کے کٹھ پتلی گماشتے ہیں۔ ان کا نام اشرف غنی ہو، پرویز اشرف، کاکڑ یا کچھ اور۔ ان کے پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہتے ہیں۔
آئی ایم ایف کو ان سبھی کے (حکمرانی میں شریک جج جرنیلوں سمیت) اربوں کے اکاؤنٹ، اللے تللے، عیاشیاں مراعات دکھائی نہیں دیتے۔ عوام کو سستی دال کھاتے دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں اور اس پر ٹیکس عائد کرواتے ہیں۔ یہ ریموٹ کنٹرول غلامی خوفناک تر ہے جو ہمارے جمعہ بازاروں کے ریٹ طے کرتی ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم سے لے کر فیشن شوز تک کنٹرول کرتی ہے۔ کس کی بولتی کب بند کی جائے گی۔ آواز کا بٹن بھی برطانیہ امریکا سے کنٹرول ہوتا ہے۔
الطاف حسین کی کڑک چمک گرج برس چکی اور پھر یکایک سانپ سونگھ گیا! عوام کٹھ پتلی تماشا دیکھنے پر مامور ہیں۔ دل بہلانے، ولولے بگھارنے کو کرکٹ ٹیموں سے کام لیا جاتا ہے۔ جوانوں کے جذبے کوئی اور راہ نہ دیکھ لیں۔ ’شاہینی‘ کا لقب گیند بلے کی چومکھی پر اکتفا کرے۔ بھارت یہاں بھلے ہار جائے۔ جوان کہیں میدانِ کرکٹ چھوڑکر میدانِ جہاد کا رخ نہ اختیار کرلیں۔استعماری تسلط دنیا بھر میں آج بھی ’آن لائن‘ چل رہا ہے جسے ہم بھگت رہے ہیں۔ مغربی افریقہ میں پے درپے بغاوتیں ہو رہی ہیں۔ اس کے پسِ پردہ بھی عالمی طاقتوں کا وہاں وسائل کا استحصال اور کٹھ پتلی حکومتوں کے ساتھ مل کر عوام کو بدترین معاشی کسمپرسی کی دلدل میں دھکیلتے چلے جانا ہے۔ مالی، برکنیا فاسو اور گنی کے بعد نائیجر اور اب گیبون میں تختے الٹے گئے۔ (نائیجر میں مسلم آبادی 95.51 اور مالی میں 95 فیصد ہے۔ برکینا فاسو میں 63.8 اور گنی میں 46 فیصد ہے۔)نائیجر ایک طرف یورینیم اور معدنی وسائل میں مالامال ہے، جسے فرانس نائیجر کی حکومتوں سے مل کر لوٹتا رہا ہے۔ گھر فرانس کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن، ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی، کہہ کر عوام بپھر اٹھے۔ کیونکہ نائیجر کی آبادی دنیا میں دبلے پتلے، کمزور اور غریب ترین ہونے میں سرِفہرست ہے۔ آئی ایم ایف ہمیں شاید دوسرے نمبر پر لاکھڑا کرنے پر کمربستہ ہے!
ملکی مناظر جہاں ایک طرف بلوں کی چیخ وپکار اور ہڑتالوں کے ہیں، وہاں نگران وزیر اطلاعات پنجاب کی طرف سے تھیٹروں میں فحش رقص وسرود کا سخت نوٹس لینے کی خبر بھی ہے۔ دیر آید درست آید! شاید کچھ کفارہ اسی سے ادا ہو جائے۔ نگران وزیر نے نگرانی کی تو روشن خیالوں کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ ورنہ اب تو عرصہ دراز سے پاکستان میں کوئی چیز بھی بے حیائی، فحاشی کے زمرے میں نہیں آتی۔ فنکارائیں، آرٹسٹ، سیلیبرٹیاںہوتی ہیں۔ فنونِ لطیفہ جو دین ایمان حیا کو لطیفہ بناکر تمسخر واستہزا کرنے کا فن ہو چکا۔ رمضان تک میں ایسے پروگراموں کی بھرمار جو ہر قدم شریعت سے متصادم ہوں! چھاپا پڑا تو 10 رقص کی محافل کو غیرمعینہ مدت کے لیے بند کیا گیا۔ جب تک تھیٹر یہ عہد نامہ نہ دیں کہ وہ پاکستانی اقدار اور ثقافت واخلاقیات کو ترویج دیں گے۔ حالانکہ جب سرکاری سطح پر آزادیٔ کشمیر پر فلمیں اور رقص تیار کرکے قوم کی نذر کیے جاتے رہے۔ طاؤس ورباب اول وآخر ٹھہرے، تو یہاں اعتراض کیسا؟ کرکٹ کی فتوحات قدر اور ثقافت بن گئیں۔ اس میں چیئر گرلز ناچتی اٹھلاتی، ماڈل گرلز مٹکتی اسکرینوں پر دکھائی جاتی رہیں تو یہی سب ذرا زیادہ کھل کر تھیٹر میں ہونے لگا۔
نگران صاحب نگرانی پر تل گئے، اس پر سیکولر طبقے نے ناراضی برسائی۔ اسے عوام کی آزادیٔ اظہار پر قدغن قرار دیا جو گورے کے بنائے ڈراما ایکٹ (1876 ء) کے تحت ہوا۔ اندازہ کیجیے آج پاکستانی آزاد قوم 1876ء کے گورے حکمرانوں سے زیادہ روشن خیال ہوچکی۔ آزادیٔ اظہار زبان وبیان کی حدیں پھلانگ کر رقاصہ کی آزادیٔ اظہار تک جا پہنچی۔ جسٹس (ریٹائرڈ) بھنڈر نے اسی سلسلے میں سخت مذمتی نوعیت کا فیصلہ 2008ء میں صادر کیا تھا کہ: ’یہ نہایت افسوس ناک ہے کہ اس نوعیت کی سستی تفریح ایک اسلامی ملک میں فراہم کی جائے جہاں لاکھوں دین پسند لوگوں کے جذبات واحساسات مجروح ہوں۔ اسٹیج ڈراما صرف غیرمہذب، غیرشائستہ، اخلاق سے عاری لوگوں کو خوش کرتا ہے۔ پختہ سیرت وکردار کا باعزت انسان یوں بیہودگی، بے حیائی، فحاشی کی نمائش اور ترویج پسند نہیں کر سکتا…‘ باوجودیکہ وہ دور روشن خیالوں کے عروج وترویج کا دور تھا مگر یہ فیصلہ حق گوئی میں روشن خیالوں کے (بندش، چھاپوں جیسے) زخموں پر آج بھی نمک چھڑکتا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ نگران حکومت نے کہیں تو نگرانی ثابت کی!
ایک طرف ہمیں امید کی کرن نظر آتی ہے کہ سروے بتاتے ہیں کہ پاکستان میں تیل گیس کے وافر وسائل موجود ہیں۔ حصول اور پیداوار کے مراحل سے گزرنے کے لیے یہ توجہ، محنت، امانت ودیانت طلب ہیں۔ یہ وہ اوصاف ہیں جو ہمارا نظامِ تعلیم وتربیت پیدا نہیں کرتا! ہمارے پاس کچھ نہ کچھ ٹاٹ کے اسکولوں کے قبل از آزادی دور کے ہنرمند ودردمند موجود تھے جنہوں نے ایٹم بم کا معجزہ کر دکھایا تھا۔ اس پر پھر انہیں قوم سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا۔ اگلی نسل کو سبق مل گیا۔ خبردار! آئندہ ایسی جرأت نہ کرنا۔ کھیلو، کودو، ناچوگاؤ، عشق عاشقی کرلو، ملک گورے کی بھیک پر پلے گا۔ سو اب رونا کیسا؟ہم آئینہ دکھائیں گے تو شکایت بھی ہوگی اور چبھن بھی۔ افغانستان نے خود کفالت کے لیے محیر العقول کارنامہ کر دکھایا ہے۔ آمو دریا سے نہر نکالی ہے جو تیزی سے مراحل طے کرتی صحرا میں ایشیا کی طویل ترین نہر ہوگی۔ ساری دنیا سے جنگوں میں نبرد آزما ہوتے ملک نے محدود ترین وسائل میں کسی سے ایک پائی قرض، امداد لیے بغیر (امانت ودیانت کے بل پر) یہ کام کر دکھایا ہے۔ حتیٰ کہ کہیں سے تکنیکی مدد، ماہرین، مشیر تک نہ لیے۔ (285کلو میٹر طویل، 152میٹر چوڑائی، 8.5میٹر گہرائی) شمالی افغانستان میں شفاف پانی امڈتا دیکھا جاسکتا ہے۔ پچھلی تمام حکومتوں نے افغانستان کی اس دیرینہ ضرورت کو نظرانداز کیے رکھا۔ (ہمارے کالا باغ ڈیم کی مانند) اب پوری دنیا جس حکومت کو تسلیم کرنے سے گریزاں، ان پڑھ گردانتی تحقیر وتمسخر کی نوک پر لیے رہتی ہے، اس حیرت انگیز کارنامے کو دیکھ کر انگلیاں چبا رہی ہے۔
شاندار زبردست تفاصیل کا یہ محل نہیں مگر یہ معجزے سے کم نہیں کہ کس تکنیکی مہارت (افغان انجینئر، افغان کنٹریکٹر، ماہرین تعمیرات وارضیات) سے پورا پراجیکٹ بھرپور کامیابی اور ولولے سے آگے بڑھ رہا ہے۔ کام کرنے والے حکومتی کارکردگی، پشت پناہی، بروقت اور معقول ادائی کی بھرپور تعریف کرتے ہیں۔ مدرسۂ رسالتؐ سے تعلیم یافتگان (بغیر اعلیٰ مغربی یونیورسٹیوں کی ڈگریوں کے) ملک اور عوام کی ترقی وخوشحالی میں دن رات جتے ہوئے ہیں۔ معیشت (سود سے پاک)، ورلڈ بینک کے مطابق مستحکم ہے۔ ڈالر کمزور افغانی مضبوط ہے۔ مہنگائی کی شرح قابو میں ہے۔ اشیائے ضروریہ کے کارخانے خاموشی سے لگ رہے ہیں۔ بڑھک بازی نہیں ہے۔ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود وایاز کا منظر ہے۔ ہمارے ہاں نہ محمود نمازی ہے نہ ایاز۔ دونوں کرپشن کی صف میں کھڑے ہیں۔ سو بے برکتی تو ہوگی۔ سبق سیکھنے کو بہت کچھ ہے!
ورائے عقل ہیں اہلِ جنوں کی تدبیریں!