(زمانہ گواہ ہے) بجلی کے بلوں میں ظالمانہ اضافہ اور اشرافیہ کی مراعات - وسیم احمد

9 /

قائداعظم اور لیاقت علی خان کے جانے کے بعد جو اشرافیہ ارض پاک پر

مسلط ہوگئی اس نے پاکستان کے معاشی نظام کو اسلامی تصورات کے قریب

بھی نہیں جانے دیا۔ اسی کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں: ایوب بیگ مرزا

عوام کی سطح پر ایک لاوا کافی عرصہ سے پک رہا تھا جو اب

پھٹنے والا ہے : ڈاکٹر فرید احمد پراچہ

پاکستان کے عوام اس نظام سےمایوس ہو چکے ہیں وہ جان چکے ہیں کہ

الیکشن الیکشن کے کھیل سے صرف اشرافیہ ہی کو فائدہ ہو گا:رضاء الحق

بجلی کے بلوں میں ظالمانہ اضافہ اور اشرافیہ کی مراعات کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میںمعروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

سوال : بجلی کے بلوں میں ایک دم بے تحاشا اضافے نے عوام کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا ہے۔جماعت اسلامی نے 2 ستمبر کو اس حوالے سے ملک گیر احتجاج کیا ہے ۔ یہ بتائیے کہ بجلی کے بلوں میں اتنا اضافہ کیوں ہو رہا ہے ؟ 
فرید احمد پراچہ : عوام کی سطح پر ایک لاوا کافی عرصہ سےپک رہا تھا جو اب پھٹنے والا ہے ۔ لوگ مدت سے اس جبر کو برداشت کر رہے ہیں۔ بلوں میں اضافے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم دنیا میں مہنگی ترین بجلی بنا رہے ہیں ، حالانکہ سستی بجلی بنانے کے سارے وسائل ہمارے پاس موجود تھے ۔ ہمارےدریا سارا سال بہتے ہیں، کئی ممالک میں یہ سہولت موجود نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس چشمے ، ندیاں ، نالے وافر مقدار میں موجود ہیں ۔ لیکن ہم ان وسائل سے فائدہ نہیں اُٹھا پائے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس ہوا سے سستی بجلی پیدا کرنے کےوافر مواقع موجود تھے ہم نے ان سے بھی فائدہ نہیں اُٹھایا ۔ اسی طرح سولر پینل سے سستی بجلی ہم پیدا کر سکتے تھے ۔ سولر پینل بنانا کونسا مشکل کام ہے لیکن ہم یہ بھی امپورٹ کر رہے ہیں ۔ گویا یہاں کسی حکمران نے ، کسی حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی اور نہ کوئی پالیسی بنائی کہ یہ بنیادی کام کرنے کے ہیں۔ بجائے اس کے ہمارے حکمرانوں  نے مہنگے ترین فیول سے بجلی بنانے کے منصوبے شروع کیے ۔ یہاں تک کہ کوئلہ امپورٹ کرکے اس سے ہم بجلی پیدا کر رہے ہیں ۔ بنیادی خرابی یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ملکی مفاد میں پالیسیاں نہیں بنائیں ۔ اس کی بنیادی وجہ کرپشن ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا ریموٹ کنٹرول باہر ہوتاہے ، وہاں سے جو پالیسیاں آتی ہیں ان پر ہی عمل درآمد کرتے ہیں ، ہماری اسمبلیاں خود فیصلہ سازی کرنے سے قاصر ہیں ۔ پھر بیرونی قرضوں کی وجہ سے معاشی دباؤ بھی ہے ۔ تیسری وجہ ٹیکس ہیں ۔ ہم نے محکمہ انکم ٹیکس کی بجائے بجلی کے بلوں کو ٹیکس جمع کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے ۔ 16 قسم کے ٹیکس ہمارے بجلی کے بلوں میں شامل ہوتے ہیں ۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ، کوئی عدالت سوموٹو ایکشن لینے والی نہیں ہے ۔ پھر کچھ سلیب بنا دی گئی ہیں کہ تین سو یونٹ تک اتنا ریٹ ہوگا ، اس سے ایک یونٹ بھی بڑھ گیا تو ایک دم ہزاروں میں بل بڑھ جائے گا ۔ یعنی کوئی نسبت تناسب ہی نہیں ہے ۔ لہٰذا یہ اب انتہائی پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے ۔ پھر یہ کہ اشرافیہ جو بجلی چوری کرتی ہے اس کے پیسے بھی غریب عوام سے وصول کیے جاتے ہیں ۔
سوال : پورے پاکستان میں جو عوامی غم و غصہ دیکھنے میں  آرہا ہے کیا یہ صرف بجلی بلوں میں اضافے کی وجہ سے ہے یا اس کی کچھ اور بھی وجوہات ہیں ؟
ایوب بیگ مرزا:ایک طبیب نے کہا تھا کہ انسان بعض اوقات کس مرض میں مبتلا ہو جاتاہے لیکن اسے پتہ نہیں چلتا ۔ یہاں تک کہ تیز بخار بتاتا ہے کہ اندر کوئی بیماری ہے ۔ یہی حال ہمارے معاشرے کا ہے ۔ عوام نے 76 سالوں میں بہت مصائب اور آلام برداشت کرلیے ، یہاں تک کہ اب ان کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو رہا ہے ۔ لہٰذا عوام کا غم و غصہ کسی نہ کسی بہانے سے ظاہر ہورہا ہے ۔ عوام کو اس حال تک پہنچانے میں سب سے بڑا کردار ہمارے حکمرانوں کا ہے ۔ انہوں نے عوام کو سہولیات دینے کی بجائے ان سے چھیننے کی روش قائم رکھی۔ مثال کےطور پر چھ سات ماہ پہلے ایک دم شوگر ملزکی طرف سے اشتہارات آنے شروع ہو گئے کہ ہمارے پاس گیارہ لاکھ ٹن چینی فالتو پڑی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کی زیر صدارت ایک اجلاس ہوا، اس میں فیصلہ کیا گیا کہ ڈھائی لاکھ ٹن چینی باہر بھیج دی جائے۔اس کے بعد پھر چینی کی قلت پیدا ہوئی تو حکومت نے فیصلہ کیا کہ اب ہم چینی کو امپورٹ کریں گے ۔ یعنی وہی چینی جو باہر بھیجی گئی دوبارہ مہنگے داموں خرید کر عوام کو مہنگے داموں بیچی گئی ۔ زیادہ تر شوگرملیں حکمران مافیا یا بڑے سیاستدانوں  کی ہیں ۔ آپ اندازہ کریں کہ پہلے غلط رپورٹ دی گئی ، اس کی بنیاد پر چینی ایکسپورٹ کی گئی وہاں سے بھی مافیاز نے بے تحاشا فائدہ اٹھایا، پھر وہی چینی امپورٹ کی گئی تو وہاں سے بھی بے تحاشا فائدہ اُٹھایا ۔ یعنی بہت سے طریقوں سے ملک ، قوم اور عوام کو لوٹا گیا ۔ گزشتہ حکومت نے عوام کو ہیلتھ کارڈ کی سہولت دی تھی وہ بھی چھین لی گئی ۔یہ چیزیں عوام میں مسلسل غصہ پیدا کر رہی ہیں ۔ ساری دنیا نے کوئلے کے پلانٹ بند کر دیے تواس کے بعد ہم نے لگالیے کیونکہ ہمارے حکمرانوں کا مالی مفاد وابستہ ہے اس لیے مہنگی بجلی پیدا کر رہے ہیں ۔ پھر عوام کا حق تھا کہ اپنی مرضی سے اپنے حکمران چنتی لیکن الیکشن نہ کروا کر یہ حق بھی چھین لیا گیا ۔ صرف بجلی کے بلوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ عوام کا غم و غصہ اس بہانے سے سامنے آرہا ہے ۔ وجوہات بہت ساری ہیں ۔ حکومت ڈائریکٹ ٹیکس نہیں لگا رہی کہ جو جتنا کماتاہے اتنا ہی ٹیکس دے بجائے حکومت نے انڈائریکٹ ٹیکسز کی عوام پر بھرمار کر دی ہے جس کا مطلب ہے کہ سارا بوجھ غریب عوام پر آگیا ہے۔ بجلی کے بلوں  میں extraٹیکس کے نام سے بھی ٹیکس شامل ہے ۔ اب بندہ پوچھے یہ extraٹیکس کونسا ہوتاہے؟جن لوگوں کے پاس ٹی وی نہیں ہے ، ریڈیو کوئی نہیں سنتا لیکن بجلی کے بلوں میں اس کا ٹیکس شامل ہے ۔ ایسے ایسے مضحکہ خیز طریقے عوام کو لوٹنے کے اختیار کیے جارہے ہیں ۔ میں تو اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ عوام کا یہ غم و غصہ ملک کو انارکی کی طرف نہ لے جائے ، فساد کی صورت اختیار نہ کرلے ۔
سوال : شدید مہنگائی کے ساتھ ساتھ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشااضافے کی وجہ سے عوام میں جو غم و غصہ اور اضطراب بڑھ رہا ہے ، عوام سڑکوں پر نکل چکے ہیں ، کہیں حالات سول نافرمانی کی طرف تو نہیں جارہے ؟  خدانخواستہ عرب سپرنگ والا معاملہ توپاکستان میں نہیں ہونے جارہا ؟ 
رضاء الحق: اگر ہم پڑوسی ممالک کے ساتھ پاکستان کا موازنہ کریں تو اندازہ ہوتاہے کہ ہم معاشی سطح پر تباہ ہو چکے ہیں ۔ بھارت میں فی کس آمدن اس وقت ایک لاکھ 72 ہزار روپے ہے اور بجلی کی قیمت 2.3روپے فی یونٹ ہے ۔ بنگلہ دیش میں فی کس آمدن 45 ہزار روپے ہے اور بجلی 2.25 روپے فی یونٹ مل رہی ہے ۔ ایران میں فی کس آمدن 1 لاکھ روپے ہے اور بجلی 8.9روپے فی یونٹ مل رہی ہے۔ پاکستان میں فی کس آمدن 37 ہزار روپے ہے اور بجلی 53.2روپے فی یونٹ پڑ رہی ہے ۔ یعنی پڑوسی ممالک کی نسبت پاکستان میں جتنی غربت زیادہ ہے اتنی ہی یہاں بجلی بھی مہنگی مل رہی ہے ۔ اس کی ذمہ داری ہمارے پالیسی ساز اداروں پر ہے ۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں صنعتوں کو قومیادیا گیا۔ پھر بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں پرائیویٹائزیشن کی پالیسی اپنائی گئی اور بیرونی انوسٹرز کو ایسی پرکشش شرائط پر پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے یونٹس لگانے کی اجازت دی گئی جو کہ کسی صورت میں بھی قومی مفاد میں نہ تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں بجلی بہت مہنگی ہوتی گئی ۔ اس وقت پاکستان میں بجلی کی ڈیمانڈ 31 ہزار میگا واٹ ہے جبکہ بجلی پیدا کرنے کی capacity اس وقت 43 ہزار میگا واٹ ہے۔ یعنی ڈیمانڈ سے زیادہ capacity ہے ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے بجلی پیدا کرنے والے بیرونی اداروں کو ایک تو ادئیگیاں ڈالرز میں کرنی ہوتی ہیں ، اور یہ بھی شرائط ہیں کہ وہ بجلی پیدا کریں نہ کریں ان کو ادائیگیاں ہر صورت میں کرنا پڑیں گی ۔ اب ہمارے پاس ڈالر ہوں گے تو بجلی پیدا ہوگی اور پھر جو پیدا بھی ہورہی ہے اس میں سے50 فیصد بجلی ناقص ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہے اور صرف 22 ہزار میگاواٹ تصرف میں آتی ہے۔ اسی لیے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے ۔ اگر بجلی پیدا کرنے والے ان مہنگے اور نقصان دہ اداروں کے ساتھ ہم معاہدات ختم کرتے ہیں تو پچھلی حکومتوں نے ایسی شرائط تسلیم کی ہوئی ہیں کہ ہمارے خلاف وہ ادارے عالمی عدالت میں چلے جائیں گے ۔ اُلٹا ہمیں لینے کے دینے پڑ جائیں گے ۔ لیکن ان معاہدات کو جاری رکھتے ہیں تو پھر بھی نقصان بڑھتا چلا جارہا ہے اور اس کا بھی سارا پریشر عوام پر آرہا ہے ۔ یہاں تک کہ لوگوں کی تنخواہوں سے زیادہ بجلی کے بل آرہے ہیں تو لوگ بے چارے کہاں سے ادا کریں گے ۔ سچ پوچھیں تو اب عوام مایوس ہو چکے ہیں اور وہ الیکشن الیکشن کھیلنے کی سیاست سے بھی تنگ آچکے ہیں ۔ یہی وجہ ہے ٹرن آؤٹ مسلسل کم ہو تا جارہا ہے ۔عوام کو پتا چل چکا ہے کہ پاکستانی جمہوریت اشرافیہ کے کنٹرول میں ہے ۔وہ ڈیلیور نہیں کر سکتی ۔ لہٰذا اب عوام کے پاس صرف اور صرف احتجاج کا راستہ رہ گیا ہے ۔ حکومتی پالیسیاں عوامی اضطراب کو مزید بڑھانے کا کام کررہی ہیں اس کا مطلب ہے کہ بیرونی قوتوں کو بھرپور موقع دیا جارہا ہے ۔ پاکستان کو توڑنے کی باتیں تو 2008ء سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھیں ۔رالف پیٹرز نے امریکی آرمڈ فورسز جرنل میں 2008ء میںپاکستان کے حصے بخرے کرنے کا ایک نقشہ جاری کیا تھا ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عرب اسپرنگ کے دوران بھی اسی طرح عوام کے غصے کو استعمال کیا گیا اور کئی ممالک کو تباہ و برباد کر دیا گیا ۔ہمارے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور ابھی سے معاملات کو کنڑول کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
سوال : ایک تو مہنگائی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہےجس کی وجہ سے عوام مسلسل پستے چلے جارہے ہیں ، حالیہ رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ غیر معمولی آبادی خط غربت سے نیچے جاچکی ہے ۔ دوسری طرف اشرافیہ ٹس سے مس نہیں ہورہی ، اس کو اتنی مراعات اور یوٹیلیٹیز حاصل ہیں کہ اس کو کوئی پرواہ ہی نہیں ہے چاہے عوام مریں یا جئیں ۔ یہ طبقاتی فرق ہمیں کس طرف لے کر جائے گا ؟
فرید احمد پراچہ :پاکستان کا آئین بھی یہ کہتا ہے کہ تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں ۔ اسلام تو ویسے ہی عدل اور مساوات کا دین ہے ۔ نمازمیں تمام لوگ ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں چاہے کوئی امیر ہے یا غریب ہے ۔لہٰذا طبقاتی نظام غیر اسلامی بھی ہے ، غیر آئینی بھی ہے ، غیر اخلاقی بھی ہے ۔ لیکن پاکستان میں اشرافیہ نے تمام حدود کو توڑتے ہوئے انتہا درجے کی لوٹ مار کی ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ برطانوی حکومت کے پاس سرکاری پول میں 9 ہزار سے بھی کم گاڑیاں ہیں ۔ جبکہ ہماری صرف وفاقی حکومت کے پاس90 ہزار مہنگی ترین گاڑیاں ہیں ۔ 220ارب روپےعوام صرف اشرافیہ کی ان گاڑیوں کے پٹرول کا بھر رہے ہیں ۔ ہم پٹرول ڈالروں میں خرید کر ان ظالموں کو مفت میں دے رہے ہیں صرف عیاشیوں کے لیے ۔ 33 کروڑ یونٹ بجلی 16 گریڈ والوں کو مفت دی جارہی ہے اور 16 گریڈ سے اوپر والوں کو 70لاکھ یونٹ بجلی مفت دی جارہی ہے اور اس مد میں عوام 550 ارب روپے اپنی جیبوں سے دے رہے ہیں ۔ یہ کس استحقاق کی بنیاد پر اس اشرافیہ کو دیا جارہا ہے جبکہ یہ لوگ بڑی بڑی تنخواہیں بھی لے رہے ہیں ، رشوتیں بھی لے رہے ہیں ، مراعات بھی لے رہے ہیں ۔ اسی طرح جو بڑے بڑے جاگیردار ہیں ، ان کے پاس بیس بیس بڑی بڑی گاڑیاں  ہوتی ہیں وہ کوئی ٹیکس نہیں دیتے ، زراعت کے نام پر سب کچھ معاف کروا لیتے ہیں اور ان کی عیاشیوں کا خرچہ بھی عوام برداشت کرتے ہیں ۔ غریب آدمی بجلی ، گیس ، پانی اور ہر چیز پر ٹیکس دے رہا ہے ۔ یہ ساری چیزیں عوام کے غصے کو بڑھا رہی ہیں ۔ جماعت اسلامی نے2 ستمبر کو ملک گیر احتجاج اور ہڑتال کا اعلان کیالیکن ہم نے کوشش کی ہجوم اکٹھا نہ ہوکیونکہ حالات ایسے ہیں کہ عوام کے غصے کو شرپسند قوتیں استعمال کر سکتی ہیں۔
سوال : آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ کے اس ملک گیر احتجاج کی وجہ سے حکمران ظالمانہ فیصلے واپس لینے پر اور عوام کو ریلیف دینے پر مجبور ہو جائیں گے ؟ 
فرید احمد پراچہ : نگران حکومت نے جو پیش کش کی تھی کہ 16 گریڈ سے اوپر والوں کو جو مفت بجلی دی جارہی ہے اس کو ختم کردیں یا جن کو زیادہ بل آئے ہیں ان کو قسطوں کی سہولت دے دیں لیکن اب کہا جارہا ہے کہ اس حوالے سے بھی آئی ایم ایف سےپوچھیں گے ۔ جہاں ایسے حکمران ہوں جنہیں ہر کام سے پہلے آئی ایم ایف سے پوچھنا پڑتا ہو تو وہاں کیا توقع کی جاسکتی ہے ۔ جماعت اسلامی نے تو صرف عوام کی آواز بننے کی کوشش کی ہے کہ عوام کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے ۔ لیکن دیکھا جائے تو اس ظلم میں عوام بھی برابر کے شریک ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے :
{ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ}(الروم:41) ’’بحر و بر میں فساد رونما چکا ہے‘لوگوں کے اعمال کے سبب۔‘‘
عوام ہی ایسے لوگوں کو منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں جو پھر ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں ۔
سوال : کیا بجلی کے بلوں میں اضافے کی اصل وجہ وہ ظالمانہ معاہدے ہیں جو 1994ء میں ہوئے اور ان کا اختتام 2027ء میں ہوگا یا اس کے علاوہ بھی کوئی وجوہات ہیں ؟ 
رضاء الحق: آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کا آغاز 1994ء میںہوا تھا ، اس کے بعد 2002ء اور 2015ء میں بھی پاور پالیسیز بنی ہیں ، پھر 2019ء میں ان پالیسیز پر نظر ثانی کی کوشش کی گئی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکی ۔2021ء کیUNDPکی رپورٹ کے مطابق پاکستان پر اشرافیہ کی مراعات کی مد میں116 ارب ڈالر خرچ کیے گئے۔ آئی پی پی کمپنیوں کا سرکلرڈیٹا 1.5سے 5 . 2کھرب روپے تک جا پہنچا ہے۔ پھر ہم نے کیپسیٹی چارجز کی مد میںآئی پی پیز کے دو ہزار ارب روپے دینے ہیں۔ اب عوام ایک طرف ہیں اور اشرافیہ دوسری طرف ہے جس میں سیاستدان بھی ہیں ، جاگیردار بھی ہیں ، سرمایہ دار بھی ہیں ، جرنیل بھی ہیں اور ججز بھی ہیں ۔ بالکل ایسی ہی جیسے انقلاب ِ فرانس سے قبل ارسٹو کریسی ایک طرف تھی اور عوام دوسری طرف تھے ۔ پھر جب عوام نے دیکھا کہ ساری مراعات ارسٹوکریسی کے لیے ہیں تو وہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور اس کے نتیجہ میں انقلاب فرانس آیا ۔ آج پاکستان میں بھی اشرافیہ کے لیے بجلی ، گیس ، پٹرول سمیت ہر سہولت مفت میں میسر ہے اور دوسری طرف غریب عوام اس کی ادائیگی کر رہے ہیں ۔ تیسری طرف آئی ایم ایف کے ساتھ جو چھٹا معاہدہ ہوا ہے اس میں سٹیٹ بینک کو خود مختاری دی گئی ۔اس کے نتیجہ میں بھی پاکستان پر معاشی بوجھ بڑھا ہے ، پھر ایسا وقت آنے والا ہے کہ ہمیں سالانہ 23 ارب ڈالر چین کو ادائیگی کرنا ہوگی کیونکہ اس سے بھی قرضہ لیا ہوا ہے ، اسی طرح باقی ممالک سے بھی لیا ہوا ہے ۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ میں یہ شرط بھی ہے کہ بجلی کے بلوں میں کوئی سبسڈی عوام کو نہ دی جائے اور وہ نہیں دی جارہی ۔
سوال : کہا جارہا ہےکہ اس وقت ایران سے یومیہ 13لاکھ لٹر پٹرول سمگل ہو کر پاکستان آرہا ہے ۔ ہم باقی ممالک سے مہنگا تیل خرید رہے ہیں ، ایران سے سستے تیل اور گیس کے معاہدے کیوں نہیں کرلیتے ، اس میں کیا رکاوٹ ہے ؟
ایوب بیگ مرزا: 2015ء میں سات پاور پلانٹس ایسے لگے جن کو فی پلانٹ 37 کروڑ روپے دیے گئے ۔ بعد والی حکومت نے جب ان معاہدوں پر نظر ثانی کے لیے کہا تو ان آئی پی پیز نے کہا ہم عالمی عدالت میں جائیں گے اور آپ پر جرمانہ کروائیں گےلہٰذا جس طرح چل رہے ہیں اسی طرح چلنے دیں۔ اس طرح کے ظالمانہ معاہدےہماری اشرافیہ نے صرف اپنا کمیشن بنانے کے لیے کئے اور قومی مفاد نہیں دیکھا ۔ اشرافیہ کی لوٹ مار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ریٹائرڈ جج اتنی ہی پنشن لیتاہے جتنی ایک حاضر سروس جج لیتا ہے۔ یعنی ایک جج کی تنخواہ اور مراعات 18 لاکھ ہیں تو وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی 18 لاکھ پنشن لے گا ۔ دوسری طرف ایک عام ملازم کی تنخواہ حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر اب 32 ہزار کی گئی ہے جبکہ پرائیویٹ ادارے اب بھی 20 ،25 ہزار میں ملازمین رکھ رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں قومی اسمبلیاں اور صوبائی اسمبلیاں سڑکیں بنواتی ہیں اور گٹر بنواتی ہیں حالانکہ یہ کام بلدیاتی اداروں  کے ہوتے ہیں مگر چونکہ اشرافیہ کرپشن ، رشوت ، کمیشن اور لوٹ مار میں ملوث ہے اس لیے یہ سارے کام ہورہے ہیں ۔ جہاں تک ایران سے معاہدوں کا تعلق ہے تو چونکہ ہماری اشرافیہ امریکہ کے اشاروں پر چلتی ہے اس لیے ایران کے ساتھ معاہدے نہیں ہورہے ۔
رضاء الحق:ایران کے ساتھ 2014ء میں ہمارا جو گیس پائپ لائن کا معاہدہ ہوا تھا اس میں یہ شق بھی شامل تھی کہ 10 سال کے اندر کسی فریق نے اپنے حصے کا کام مکمل نہ کیا تو اس کو 18 ارب ڈالر دوسرے فریق کو ادا کرنے پڑیں گے ۔ گویا 2024ء تک پاکستان پر یہ جرمانہ بھی عائد ہو سکتاہے ۔ بریکس کی صورتحال بھی سٹریٹجک حوالے سے اہم ہے اس میں پانچ ممالک پہلے ہی شامل تھے۔ 2024ء سے اس میں 6 نئے ممالک بھی شامل ہو جائیں گے جن میں سعودی عرب ، ایران ، یو اے ای ، مصر ، ایتھوپیا ، ارجنٹائن شامل ہیں ۔ یہ ایک بڑی سٹریٹجک گیم ہے ۔ روس ایران کے ذریعے سعودی عرب سے trade کا ایک معاہدہ کر چکا ہے ، انڈیا 10 لاکھ ٹن تیل روپے میں یو اے ای سے لے رہا ہے ۔ پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ گلوبل جیو پولیٹیکس کو دیکھتے ہوئے نئے الائنسز کی طرف پیش قدمی کرے ۔
سوال : ہم یہاں ترانے بنا رہے ہیں کہ ہم نے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے اور دوسری طرف دشمن اپنے بچوں کو پڑھا کر چاند پر پہنچ چکا ہے ، جبکہ پاکستان کے بچے سکول جاتے ہوئے چیئر لفٹ میں پھنس جاتے ہیں ۔ یعنی حالات ہمارے یہ ہیں اور ہم باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں ، پاکستان نے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے بڑی منت سماجت کے بعدIMF سے قرضہ لیا ہے لیکن اس کی کڑی شرائط کا خمیازہ اب عوام بھگت رہے ہیں ، کیا آئی ایم ایف سے معاہدہ کرکے ہم مشکلات سے نکل جائیں گے ؟
فرید احمد پراچہ :اگر تو ہم قرآن پاک سے پوچھیں تو وہ صاف بتارہا ہے کہ ہمارے حالات نہیں سدھر سکتے ۔ ارشاد ہوتاہے :{وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا} (طہٰ:124) ’’اور جس نے میری یاد سے اعراض کیا تو یقیناً اُس کے لیے ہو گی (دنیا کی)زندگی بہت تنگی والی۔‘‘اس وقت سود کی صورت میں ہم لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ شروع کر رکھی ہے ۔ حکومت پہلے سٹیٹ بینک سے سات آٹھ فیصد سود پر قرض لیتی تھی اب شرح سود 22 فیصد تک پہنچ چکی ہے ۔ یعنی ہم معاشی تباہی کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں لہٰذا ہم جتنے بھی جتن کرلیں ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا جب تک کہ ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ ختم نہیں کرتے ، رشوت ، کرپشن وغیرہ کا خاتمہ نہیں کرتے ۔
سوال : پاکستان کو اس وقت جو چیلنجز درپیش ہیں اس سے نکلنے کاحل کیا ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:قرآن پاک نے خاص طور پر معیشت کے حوالے سے دو بنیادی اصول بتا کر دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے ۔یہ کہ سود اور جو ا کی بنیاد پر معیشت حرام ہے اور ارتکاز دولت نہیں ہونی چاہیے۔ پھر یہ کہ ہر حرام سے اجتناب کریں اور سرمایہ داری کی بجائے سرمایہ کاری کو رواج دیا جائے ۔ قائد اعظم نے سٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریب کے موقع پر فرمایا تھا کہ ’’مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے لاینحل مسائل پیدا کر دیے ہیں اور اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ میں اشتیاق اور دلچسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ’’مجلسِ تحقیق‘‘ بینکاری کے ایسے طریقے کیونکر وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔‘‘ لیکن قائداعظم اور لیاقت علی خان کے جانے کے بعد جو اشرافیہ ارض پاک پر مسلط ہوگئی اس نے پاکستان کے معاشی نظام کو اسلامی تصورات کے قریب بھی نہیں جانے دیا۔ اسی کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں۔ اللہ معاف کرے۔ اگر ہم نے یہ راستہ نہ چھوڑا تو ہماری آخرت بھی خراب ہو جائے گی اور دنیا میں بھی ذلیل و رسوا ہوں گے۔