(منبرو محراب) عدل کے تقاضے - ابو ابراہیم

9 /

معاشرتی ، معاشی ، قانونی اور ریاستی سطح پر

عدل کے تقاضے

 

مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی ،لاہور میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ sکےیکم ستمبر 2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص
خطبہ مسنونہ اورتلاوت آیات کے بعد!
تنظیم اسلامی کی بقائے پاکستان : نفاذ عدل اسلام مہم کے ذیل میں گزشتہ ایک خطاب جمعہ میں عدل و قسط کےتین مختلف پہلوؤں پر گفتگو ہوئی تھی ۔ عدل و قسط ایک جامع اصطلاح ہے جس کو اگر کھولا جائے تو یہ زندگی کے تمام معاملات پر محیط ہو جائے۔آج ان شاء اللہ اسی تسلسل میں عدل و قسط کے مزید چار پہلوؤں کا مطالعہ کریں گے ۔
معاشرتی زندگی میں عدل :
معاشرتی معاملات میں عدل کے بہت سارے پہلو ہیں۔ معروف حدیث ہے اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں جو ہمارے بڑوں کا ادب نہ کرے اور جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ یہ بھی عدل کا تقاضا ہےکہ بڑوں کا ادب کیا جائے اور چھوٹوں پر شفقت کی جائے ۔ استثنیٰ کی گنجائش اس صورت میں ہوگی کہ کوئی گستاخ رسول ہو یا کوئی ایسا گناہ یا جرم کیا ہو جو انتہائی سنگین نوعیت کا ہو ۔ ورنہ عدل کا تقاضا ہے کہ بڑوں کا ادب کیا جائے ۔ اسی طرح جتنے حقوق العباد کے پہلو بیان ہوتے ہیں ، والدین کا معاملہ ہو ، زوجین کا معاملہ ہو ، اولاد کا معاملہ ہو ، رحمی رشتوں ، پڑوسیوں ، رشتہ داروں ، ساتھ کام کرنے والوں ، ساتھ سفر کرنے والوں ، ایک مسجد میں نماز پڑھنے والوں ، ایک کلاس میں پڑھنے والوں کا معاملہ ہو ، اسی طرح معاشرتی زندگی میں جہاں  جہاں بھی کسی سے تعلق واسطہ پڑتا ہو ، سب کے ساتھ عدل مطلوب ہے کہ جو جس کا حق بنتا ہے وہ اس کو حق دیا جائے۔ اسی طرح معاشرتی معاملات میں محبت اور نفرت کے پہلو بھی آ سکتے ہیں۔بخاری شریف میں نبیﷺکی بڑی واضح حدیث ہے کہ جس نے محبت کی تو اللہ کی خاطر، نفرت بھی کی تو اللہ کے لیے، کسی کو کچھ دیا تو اللہ کی خاطر کسی سے کچھ روکا بھی تو اللہ کی خاطر ،اس نے اپنے ایمان کی تکمیل کر لی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے :
’’اے اہل ایمان ‘کھڑے ہوجائو پوری قوت کے ساتھ عدل کو قائم کرنے کے لیے اللہ کے گواہ بن کر‘خواہ یہ (انصاف کی بات اورشہادت) تمہارے اپنے خلاف ہو یا تمہارے والدین کے یا تمہارے قرابت‘داروں کے۔ چاہے وہ شخص غنی ہے یا فقیر‘ اللہ ہی دونوں کا پشت پناہ ہے۔ تو تم خواہشات کی پیروی نہ کرو‘ مبادا کہ تم عدل سے ہٹ جائو۔ اگر تم زبانوں کو مروڑو گے یا اعراض کرو گے تو (یاد رکھو کہ) اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل سے پوری طرح با خبر ہے۔‘‘(سورۃ النساء :135)
یہ اصل میں عدل کا تقاضا ہے کہ چاہے اپنی ذات پر ہی بات کیوں نہ آجائےیا اپنوں کے خلاف ہی کیوں بات نہ آجائے کبھی کسی کی محبت یا کبھی کسی کی عداوت عدل کے راستے میں رکاوٹ نہ بننے پائے ۔مگر آج ہمارے معاشرے میں کیا ہورہا ہے ؟ اپنے مفاد ، اپنوں کی محبت میں اور مخالفین کی دشمنی ہو ہر وہ کام بھی ہورہا ہے جو ناجائز اور حرام ہے ۔ یہ ظلم ہے۔ کسی شے کو اس کے مقام پر رکھنا عدل ہےاور کسی شے کو اس کے مقام سے ہٹا دینا ظلم ہے ۔ آج زبان کا تعصب ہے ، برادری کا تعصب ہے ، نسلی ، علاقائی ، خاندانی تعصبات ہیں جو اس عدل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ حالانکہ اسلام نے تو طے کر دیا تھا کہ کسی گورے کو کسی کالے پر ، کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے ، سوائے اس کے کہ جو تقویٰ میں بڑھ کر ہے وہ اللہ کے ہاں محترم ہے ۔ حضرت بلالؓ پہلے غلام تھے لیکن اسلام قبول کرلینے کے بعد حضرت عمرh جیسے جلیل القدر صحابی بھی انہیں سیدنا بلال ؓ کہہ کر پکارتے تھے ۔ معراج کی شب حضورﷺ ان کے قدموں کی آواز جنت میں سن رہے ہیں۔ یہ تھا عدل کا معیار ۔
معاشی سطح پر عدل
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جینے کا حق دینا چاہتاہے اور وہ طبقاتی کشمکش کو مٹانا چاہتاہے ۔ اگرچہ یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ معاشی سطح پر سب برابر ہو جائیں ، یہ تو غیر فطری بات ہو جاتی ہےالبتہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ معاشی سطح پر فرق اور تفاوت کم سے کم ہو ۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ دولت چند ہاتھوں میں محدود ہو کر رہ جائے اور باقی لوگ دو وقت کے کھانے کو ترسیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سود ، جوئے ، ذخیرہ اندوزی ، رشوت ، کرپشن ، چوری ، ڈاکہ ، غصب وغیرہ کو حرام قرار دیا اور ان پر سخت پابندیاں عائد کیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ اور عشر کا حکم بھی دیا اور ساتھ صدقات و خیرات کی ترغیب و تشویق بھی دلائی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے والدین ، بیوی بچوں کی کفالت اور قریبی رشتہ داروں کےساتھ حسن سلوک کا حکم دیا۔ ان ساری تعلیمات کواگر دیکھیں تو ان کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ دولت کا flowجاری رہتاہے اور دولت کے ثمرات غرباء ، مساکین اور ضرورت مندوں تک منتقل ہوتے رہتے ہیں ۔ ان کو بھی جینے کا حق ملتاہے ۔
بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ تو بارہا فرمایا کرتے تھے کہ حاکم اور محکوم ، آجر اور اجیر ، حکمران اور رعایا ، مرد اور عورت ، زمیندار اور کسان ، سرمایہ دار اور مزدور کے مابین عدل اس وقت قائم ہوگا جب پیدا کرنے والی ذات کا حکم مانیں گے ، اسی کے بنائے ہوئے نظام کو نافذ کریں گے تو ہر سطح پر عدل قائم ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ نے حلال اور حرام ، جائز اور ناجائز کی جو تقسیم اور تفریق تعلیم فرمائی ہے اس میں عدل ، امن اور فلاح ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ  ارشاد فرماتاہے :
{اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ط}(الملک :14) ’’کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے؟‘‘
وہی پیدا کرنے والا ہے اور اسی کو خبر ہے کہ کیا چیز انسان کے فائدے اور بھلائی میں ہے اور کیا چیز اس کے لیے نقصان دہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ شرعی سزائیں بھی عطا کی ہیں تاکہ لوگوں کی جان، مال، آبرو، عقیدہ اور عقل محفوظ رہ سکے ۔
قانونی سطح پر عدل
قانونی اور عدالتی امور میں عدل کا معاملہ قرآن کریم میں تفصیل سے بیان ہوا ہے ۔ قرآن مجید کی سب سے طویل آیت میں ان امور کے متعلق ارشاد ہے :  ’’اے اہل ِایمان! جب بھی تم قرض کا کوئی معاملہ کرو ایک وقت معین تک کے لیے تو اس کو لکھ لیا کرو۔اور چاہیے کہ اس کو لکھے کوئی لکھنے والا تمہارے مابین عدل کے ساتھ۔‘‘(البقرہ : 282)
لین دین کرتے وقت گواہ بنانے اور لکھنے تک پر اسلام زور دیتاہے اور لکھنے والے کو بھی حکم دیتاہے کہ وہ عدل سے لکھے کیونکہ کل اسی بنیاد پر فیصلہ ہونا ہے ۔ عدل کے قیام کے معاملے میں اسلام اس قدر حساس ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ بھی حکم دیتاہے کہ :
’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرو۔‘‘ (النساء :58)
یہ مناصب اور عہدے بھی امانت ہیں ، اہل لوگ ان عہدوں پر بیٹھیں گے تو وہ عدل کریں گے ، ورنہ لوگوں کے ساتھ ظلم ہو گا ، ناانصافی ہوگی اور لوگوں کا حق مارا جائے گا ۔ آگے فرمایا : 
’’اور جب لوگوں کے مابین فیصلہ کرو توعدل سے فیصلہ کرو، بے شک اللہ تمہیں نہایت اچھی نصیحت کرتا ہے، بے شک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔‘‘(النساء :58)
اگر نااہل لوگ فیصلہ کرنے بیٹھیں گے تو ظلم ہی ہوگا ، کسی کی محبت آڑے جائے گی ، کسی کی عداوت ، کہیں مالی مفاد ، کہیں کوئی اور مفاد آڑے آجائے گا ۔ پھر یہ کہ قانون سب کے لیے برابر ہو ۔ یہ نہیں کہ طاقتور کے لیے اور قانون ہو اور کمزور کے لیے اور ۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کا مشہور خطبہ ہے جب انہوںنے خلافت کا عہدہ سنبھالا تو فرمایا :’’تمہارا ہر طاقتور میرے نزدیک کمزورہے جب تک کہ اس سے حق لے کر کمزور کو نہ دلوا دوں۔ تمہارا ہر کمزور میرے نزدیک طاقتور ہےجب تک کہ اس کو اس کا حق نہ دلوا دوں ۔‘‘ اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے عدل پر صرف لکچرز ہی نہیں دیے بلکہ حقیقی معنوں میں عدل قائم کرکے دکھایا ۔لیکن آج اُمتی کیا کر رہے ہیں ؟ مشہور جملہ ہے کہ ہم وکیل نہیں کرتے جج ہی کرلیتے ہیں اور اب تو بے چارے ججوں کا بھی معاملہ یہ ہوتاہے کہ وہ انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ اوپر سے فیصلہ آئے گا تو ہم سنائیں گے۔50 کروڑ سے کم کی کرپشن نیب کے ریڈار پر نہیں آسکتی ، یہ قانون بن گیا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ غریب آدمی اگر مجبوراً اشارہ توڑ دے تو فوراً جرمانہ ہو جائے گا ۔ حکمرانوں ، ججوں اور بڑے لوگوں کے لیے بجلی ، گیس ، پٹرول ، سب کچھ فری اورعام لوگوں کو بجلی کے بل تنخواہوں سے زیادہ آرہے ہیں ، لوگ پوچھتےہیں ہم کھانا کھائیں یا بجلی کا بل جمع کروائیں ۔
ریاست کی سطح پر عدل
کتنا پیارا اورمشہور جملہ ہے کہ ریاست تو ماں کی طرح ہوتی ہے۔ماں کے نزدیک تو سارے بچے برابر ہوتے ہیں ، تاہم اگر کوئی بچہ معذور یا کمزور ہوتو اس پر ماں کی توجہ زیادہ ہوتی ہے ۔ اگر ہمارے حکمران یہ کہتے ہیں کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے تو پھر ماں کا کردار بھی ادا کرنا چاہیے ۔اس کے نزدیک تمام شہری برابر ہونے چاہئیں اور عدل کا تقاضا یہ ہے کہ جس کا جو حق ہے وہ اس کو ملنا چاہیے ۔ انسان کے عقیدے ، جان ، مال ، آبرواور عقل کی حفاظت : علماء نے شریعت کے 5 مقاصد بیان کیے ہیں۔ان میں تین باتیں تو بہت معروف ہیں ۔ قاتل پر جرم ثابت ہوجائے تو اسے سزائے موت دی جائے تاکہ جان کے بدلے جان کا عدل کا تقاضا پورا ہو جائے اور آئندہ کے لیے دوسروں کی جان بھی محفوظ ہو جائے ۔ اسی طرح چوری اور ڈاکے کی سزا کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کا مال محفوظ ہو جائے ۔ زنا اور زنا کی تہمت پر سزا کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی آبرو محفوظ ہو جائے ۔ اسی طرح مرتد کی سزا کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کا عقیدہ محفوظ ہو جائے۔ کوئی اگر لوگوں کو مرتد بنانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے لیے عبرت کا سامان ہو جائے ۔ شریعت نے شراب سے منع کیا تاکہ لوگوں کی عقل محفوظ رہے ورنہ شراب پی کر زنا ، بے حیائی اور بداخلاقی کے راستے کھلتے ہیں ۔ جس سے مزید برائیان جنم لیتی ہیں ۔ اسی طرح شریعت نے جوئے کو بھی حرام قرار دیا کیونکہ جوا ہار کر بھی انسان اپنے حواس میں نہیں رہتا ۔ ریاستی سطح پر یہ ذمہ داری ریاست چلانے والوں کی ہوتی ہے کہ وہ ان پانچ مقاصد شریعہ کو پورا کریں ۔ اسی طرح نادار شہریوں کی کفالت بھی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ حضرت عمر ؓ فرماتے تھے کہ فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمر سے اس کی پوچھ ہوگی۔ آج ہم اس بات کا ذکر بھی کرتے ہیں اور فخرسے بتاتے ہیں کہ سیکینڈے نیوین ممالک میں عمرلاء کے نام سے قوانین آج بھی نافذ ہیں ۔ لیکن کیا ہم بحیثیت مسلمان خود اس کی کوئی مثال پیش کر رہے ہیں ؟ ایک بوڑھے یہودی کو بھیک مانگتے ہوئے آپ؄ نے دیکھا تو پوچھا کیوں مانگ رہے ہو ، کہنے لگا اس قابل نہیں ہوں کہ کما کر جزیہ دے سکوں ۔ فرمایا آج سے ریاست تیری کفالت کرے گی ۔ اسی طرح آپ ؄ کے دور میں معذوروں کی کفالت کا پورا ایک نظام موجود تھا۔ بچوں کے لیے وظیفہ مقرر تھا ۔ آج ہم اس نظام کو ترس رہے ہیں ۔ اسی طرح قرآن میں ارشاد ہوتاہے:
’’وہ لوگ کہ اگر انہیں ہم زمین میں تمکّن عطا کر دیں تو‘وہ نماز قائم کریں گے‘اور زکوٰۃ ادا کریں گے‘اور وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔ اور تمام امور کا انجام تو اللہ ہی کے قبضہ ٔقدرت میں ہے۔‘‘ (الحج : 41)
نماز کا پورا نظام قائم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ اسلامی ریاست میں جمعہ کا خطبہ بھی حکمران یا اس کا کوئی نمائندہ دیتا تھا ۔ عید کا خطبہ حکمران دیتا تھا ۔ اسی طرح  زکوٰۃ کا نظام قائم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے تاکہ غرباء کی معاش بھی چلتی رہے ۔ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا بھی حکمرانوں کی ذمہ داری ہے ۔ جس طرح مادی لحاظ سے شہریوں کی کفالت ریاست کی ذمہ داری ہے اسی طرح روحانی کفالت بھی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ انہیں اللہ کا بندہ بنانے ، آخرت سنوارنے ، دینی تعلیم دلوانے کے سارے انتظامات ریاست کرے گی ۔ آیت کے آخری حصہ میں پیغام ہے کہ ان ذمہ داریوں کے حوالے سے ہر کسی نے جواب دینا ہے ۔ آج اگر طاقت اور اقتدار کے نشے میں یہ بھولے ہوئے ہیں مگر اللہ کسی چیز کو بھولنے والا نہیں ہے ۔ گھر کے سربراہ سے لے کر ریاست کے سربراہ تک ہر ایک کو حساب دینا ہے ۔ حدیث میں آتاہے کہ عادل حکمران روز قیامت اللہ تعالیٰ کے عرش کے سائے میں ہوگا ۔ دوسری حدیث میں ہے کہ جس کو مسلمانوں کے معاملات میں ذمہ دار بنایاگیا ، اس نے اپنے عہدے میں خیانت کی ، ظلم کیا ، انصاف سے کام نہ لیا تو وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا ۔
آج مہنگائی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ لوگ تڑپ اُٹھے ہیں، اوپر سے بجلی کے بل اتنے زیادہ آرہے ہیں کہ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں ، ہارٹ اٹیک ہو رہے ہیں ، ایک مسلمان کی جان کتنی قیمتی ہے ۔اللہ کے پیغمبرﷺ نے کعبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا :’’ اے کعبہ ! تو کس قدر عظمت والا ہے ، لیکن اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے، ایک مسلمان کی جان اللہ کی نگاہوں میں تجھ سے زیادہ قیمتی ہے۔‘‘آج حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مسلمان خودکشیاں کررہے ہیں ، ہمارے ہر حکمران نے آئی ایم ایف سے معاہدے کیے اور ملک کو اس تباہی تک پہنچایا ، اس کے ذمہ دار حکمران ہیں ۔ ظلم یہ ہے کہ سارا بوجھ بھی غریب عوام پر ڈالا جارہا ہے اور مسلسل بڑھتا چلا جارہے جبکہ دوسری طرف اشرافیہ معمولی سا بوجھ اُٹھانے کے لیے بھی تیار نہیں ہے ۔ سیاستدان ، ججز ، جرنیل کوئی بھی یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ہماری تنخواہ اتنے لاکھ ہے، آج سے ہم اتنے لاکھ کم لیں گے تاکہ کچھ بوجھ بٹایا جا سکے ؟ اشرافیہ میں سے کوئی بھی قوم کا درد محسوس کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ دوسری بات یہ کہ جتنا پیسہ اس اشرافیہ نے لوٹا ہے اور ملک سے باہر لے کر گئے ہیں اس کو واپس لانے کا بھی کوئی ذریعہ نہیں ہے ۔ لائے گا کون ؟ ہر ادارے کے اندر کرپشن ہے ۔ کوئی خوف خدا نہیںہے ۔ اسی کرپشن کی وجہ سے معیشت کا ستیاناس ہوگیا ، اسی وجہ سے آج امریکہ کے آگے جھکے پڑے ہیں ، آئی ایم ایف کے آگے جھکے پڑے ہیں ۔ عوام کو سوچنا چاہیے کہ یہ سب عذاب ہم پر کیونکر نازل ہوئے ۔ سورہ طٰہٰ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔
اور جو میرے ذکر سے منہ پھیرے گا تو اس کی زندگی بھی تنگ ہوگی اور اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے۔(آیت :124)
حکمرانوں کا بھی قصور ہے ، اسٹیبلشمنٹ کا بھی قصور ہے ، بیوروکریسی کا بھی قصور ہے لیکن ہم عوام کا بھی اتنا ہی قصور ہے ۔ ہم نے یہ ملک اس عہد پر حاصل کیا تھا کہ ہم یہاں قرآن کا نظام نافذ کریں گے ۔ مگر 76 سال میں ہم نے اس طرف کوئی پیش قدمی نہیں کی ، اپنے وعدے سے انحراف کیا ۔ سورۃ الروم میں اللہ فرماتا ہے : 
’’خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب سے فساد پھیل گیا ہے تاکہ اللہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آجائیں۔‘‘(آیت :41)
اللہ نے اس قوم کوبار بار جھنجوڑا ، زلزلے ، سیلاب ، طوفان ، اجناس کی کمی سے ، دشمن کے خوف سے مگر یہ قوم پلٹنے کو تیار نہ ہوئی ۔ یہی ہمارا سب سے بڑا جرم اور مسئلہ ہے ۔ یہی بات کرتے کرتے ڈاکٹر اسرار احمد ؒ دنیا سے چلے گئے۔ اسلام کے عادلانہ نظام کی طرف پیش قدمی کرنا پوری قوم کی ذمہ داری ہے جو ادا نہیں ہورہی ۔ سود کا نظام چل رہا ہے ۔ اللہ کہتا ہے کہ سود نہیں چھوڑتے تو مجھ سے اور میرے رسولؐ سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ کیا اللہ سے جنگ کرکے ہم رحمت کی اُمید رکھ سکتے ہیں ؟ لہٰذا جب تک اسلام کی طرف پیش قدمی نہیں کرتے اللہ کی رحمت ہم سے منہ موڑے رہے گی ۔ جب تک اللہ کے عادلانہ نظام کے قیام کی جدوجہد نہیں کرتے ہمارے مسئلے حل نہیں ہو سکتے ۔ چاہے ہم جتنا بھی زور لگا لیں ۔ اب جو یہ مظاہرے شروع ہو گئے ہیں، اللہ کرےکہ پُرامن رہیں، اپنے احتجاج کو ریکارڈ کروائیں، اپنے حق کا مطالبہ رکھیں بالکل صحیح ہے لیکن حکمرانوں کو اور ہمارے مقتدرطبقات کو سوچنا چاہیے کہ اگر یہ بات اور آگے بڑھے گی تو ملک کی سالمیت خطرے میں پڑجائے گی ۔ ملک کو ٹکڑے کرنے کی باتیں تو ہم برسوں سے سنتے چلے آرہے ہیں ۔ ان تمام مسائل کا حل صرف ایک ہی ہے ؎
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزارسجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اس رب کو ناراض کیا ہے تو آج یہ شاخسانے ہمارے سامنےہیں ۔ اس رب کو راضی کرنے کے لیے اس کی کتاب کوتھامنے ، اس کے دین کے نفاذ کی جدوجہداور پیش قدمی کرنے کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے ۔ اللہ کرے کہ حکمران اس بات کو سمجھ جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اللہ کی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !