(اداریہ) آئین اور قانون کی زیردستی - ایوب بیگ مرزا

9 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزا

آئین اور قانون کی زیردستی

آج دینی اور مذہبی جماعتوں کے مخلص کارکن اکثر آئین اور دستور کی اہمیت کو سمجھنے میں الجھن کا شکار ہیں وہ انتہائی سادہ لوحی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب ہمارے پاس قرآن کی مکمل اور محفوظ ہدایت موجود ہے تو ہمیں آئین اور دستور کی بھلا ضرورت ہی کیا ہے۔ لہٰذا آج ہم پہلے آئین کی وضاحت کرتے ہیں پھر قرآنی ہدایت کے طریقہ کار پر روشنی ڈالیں گے۔ سب جانتے ہیں کہ تاریخ انسانی میں کسی بھی انسانی معاشرہ کو حدود و قیود کا پابند رکھنے کے لیے قانون کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی تشکیل، تعمیل اور یکساں و منصفانہ تنفیذ کو یقینی بنانا ریاست و حکومت کا کام ہوتا ہے۔ لیکن اس ذمہ داری کی ادائیگی میں ریاست کے مختلف اسٹیک ہولڈرز بھی بذاتِ خود کچھ ’’متفقہ اعلیٰ اصول و ضوابط‘‘ کے پابند ہوتے ہیں۔
قدیم دور میں ریاست بنانے والے مختلف قبائل کے باہمی معاہدہ و میثاق کو یہ درجہ حاصل ہوتا تھا اور جدید دور میں اسے آئین و دستور کہا جاتا ہے۔ جو مختلف اداروں کے اختیارات و فرائض کے ساتھ ساتھ عوام کے بنیادی حقوق و فرائض کا تعین کرتا ہے جس کی پابندی مختلف اداروں اور عوام پر یکساں اور مکمل طور پر لازم ہوتی ہے۔ جو اس ریاست کے مختلف صوبوں اور اداروں، اور حکمرانوں اور عوام الناس کے درمیان ایک معاہدہ یا میثاق ہی کی جدید شکل ہے۔ اب ہم قرآن کی ہدایت کے طریقہ کار کی طرف آتے ہیں۔ اسلام ایک مکمل دین ہے اور اگرچہ اس کا اصل مخاطب تو فرد ہی ہے لیکن اسلام معاشرہ اور ریاست کے تمام اجتماعی معاملات میں بھی مکمل اور ابدی ہدایات دیتا ہے۔ لیکن اسلام اس حوالے سے ہر ہر موضوع پر تفصیلات دینے کی بجائے صرف ضروری حدود و قیود کا تعین کرتا ہے۔ یہی معاملہ ریاستی ہدایات کا ہے جس کے بارے میں قرآن مجید سورۃ النساء میں میرٹ اور جسٹس کی آفاقی ہدایت کے بعد قرآن و سنت کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے ’’اپنے میں سے‘‘ حکمرانوں کی اطاعت کا حکم دیتا ہے جن کو مکی سورۃ الشوریٰ میں ہی ’’اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ‘‘ کی قرآنی ہدایت کا پابند بنا دیتا ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ قرآن نے معاہدات کی پاسداری میں کیا کہا ہے؟ اور اللہ کو گواہ بنا کر کیے ہوئے ’’عہد اللہ‘‘ کی خلاف ورزی کو ’’فساد فی الارض‘‘ کا سبب کیوں قرار دیا ہے۔ اور جب ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی گئی تو قرآنِ مجید کی موجودگی کے باوجود صاحبِ قرآن ﷺ نے مدنی انصار و مکی مہاجرین کے درمیان مواخات اور بعدازاں مسلمانانِ مدینہ اور یہودِ مدینہ کے درمیان ہونے والے معاہدے کو تحریر میں لا کر اِسے میثاق کیوں قرار دیا۔ اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو ریاستِ مدینہ سے کاٹ کر کیوں پھینک دیا گیا۔ لیکن پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو افسوس کی بات یہ ہے کہ مدینہ ثانی کہلانے والا پاکستان اس حوالے سے عجیب ہی نقشہ پیش کر رہا ہے۔
پاکستان بھارت سے ایک دن پہلے آزاد ہوا لیکن بھارت نے 1949ء میں ہی آئین بنا لیا اور 1950ء میں نافذ کر دیا پاکستان 1956ء تک ایک بے آئین سر زمین رہا۔ قائداعظم پاکستان بننے کے بعد 13 ماہ زندہ رہے لیکن صحت اتنی خراب ہو چکی تھی کہ وہ ذاتی طور پر متحرک ہو کر کسی کام کو پوری طرح سرانجام نہیں دے سکتے تھے۔ لہٰذا 1935ء کا ایکٹ ہی ہمیں گورن کرتا رہا۔ ایسا نہیں کہ پاکستان کے پاس آئین ساز ماہرین نہیں تھے لیکن مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والا طاقتور مفاد پرست طبقہ کسی صورت نئے آئین کے تحت بننے والی حکومتوں میں مشرقی پاکستان کا بھاری پلڑا برداشت کرنے کو تیار نہ تھا۔ اس لیے کہ مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی لہٰذا مشرقی پاکستان میں کسی مقبول جماعت کے وفاق میں حکومت بنانے کے زیادہ امکانات تھے۔ 1951ء میں یعنی پاکستان بننے کے صرف چار سال بعد مسلم لیگ مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ کے ہاتھوں بُری طرح پِٹ چکی تھی لہٰذا عدل کا تقاضا یہ تھا کہ آئین سازی کا کام ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کر لیا جاتا اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاست دان اپنی محنت اور خلوص کی بنا پر مشرقی پاکستان میں اپنی جگہ بناتے۔ ظاہر ہے مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاست دان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مقبول تو نہ رہتے اس لیے بھی کہ حکمرانی مقبولیت پر یقینی طور پر اثر انداز ہوتی ہے اور پھر موقع ملنے پر مشرقی پاکستان سے بھی نشستیں جیت کر وفاق میں صحیح معنوں میں ایک مضبوط حکومت بناتے لیکن مغربی پاکستان کے مفاد پرست سیاست دانوں کی عیار بیوروکریسی کی ذہانت نے مدد کی اور مغربی پاکستان میں ون یونٹ بنا دیا اور پاکستان کو ایک ایسا ملک قرار دیا جو دو یونٹوں پر مشتمل ہے اور عوامی نمائندگی برابر کر دی اور پھر وہ آئین جو نو (9) برس نہیں بن سکا تھا آناً فاناً بن گیا۔
ہم نے یہ تمہید اس لیے باندھی ہے کہ قارئین جان سکیں کہ وطن عزیز پاکستان نہ صرف شروع سے ہی عدل، اصول، ضوابط اور قومی سوچ سے محروم رہا بلکہ ذاتی سیاسی مفادات اور اقتدار کی ہوس نے غلط اور ناحق فیصلے کروائے۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنی سوچ اور اجتماعی زندگی کے امور سر انجام دیتے ہوئے اپنی اس روش میں نہ صرف کسی قسم کی کوئی اصلاح نہ کی بلکہ بڑی تیز رفتاری سے اس راہِ کج پر آگے بڑھتے چلے گئے اور آج ہم ایک ایسے خوفناک انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کا کُھل کر ذکر کرنے سے زبان اور قلم دونوں تھر تھر کانپ رہے ہیں۔ عوام کی اکثریت اس پر اس لیے توجہ دینے سے قاصر ہے کہ اندرونی اور بیرونی منصوبہ سازوں نے ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں کہ عوام جسم اور جان کا رشتہ برقرار رکھنے کی فکر کریں یا قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی بددیانتی بلکہ بدمعاشی سے برآمد ہونے والے نتائج کا تدارک کرنے کا سوچیں کیونکہ اغیار جو کھیل کھیل رہے ہیں اُس کی کاٹ کو نتیجہ دینے میں سال نہ سہی مہینے تو لگیں گے جبکہ بدقسمتی سے اکثریت کی سوچ یہ ہوگئی ہے کہ آج جان بچاؤ کل آئے گا تو دیکھا جائے گا۔
عدل کو ٹھکرانے اور قانون سے بالاتر ہونے کا اداروں کی سطح پر آغاز تب ہوا جب جسٹس منیر نے نظریۂ ضرورت ایجاد کرکے عدل پر پہلا حملہ کیا نتیجہ یہ نکلا کہ عدل زیر ہوگیا اور اقتدار کی ہوس زبَر ہوگئی بعدازاں یہ زیر اور زبَر کا معاملہ بڑھتا چلا گیا۔ Might کی لاٹھی سے قانون، ضوابط اور عدل و انصاف کو للکارا جانے لگا۔ وقت کے وزیراعظم ہائی کورٹ کے ججوں کو فون کرنے لگے کہ فلاں کی سزا بڑھا دو فلاں کو ہاتھ نہ لگے۔ مارشل لاؤں نے یہ سبق بھی پڑھا دیا کہ آئین کے تحت نہیں L-F-O کے تحت حلف اُٹھاؤ جو نہیں مانے گا وہ کرسی خالی کر دے۔ سچی بات یہ ہے کہ بہت سے باضمیر ججوں نے مختلف مواقع پر کرسیاں خالی کر دیں۔ آہ! کاش سب اِسی طرح کا فیصلہ کرتے اور ضمیر کی زندگی کا ثبوت دیتے تو بات کبھی آگے نہ بڑھ سکتی۔ لیکن لالچ اور ہوس صرف سیاست دانوں تک محدود نہیں تھا بلکہ یہ پھوڑا کینسر کی صورت اختیار کر رہا تھا۔ نہ صرف مارشل لاؤں کو جائز اور قانونی قرار دے دیا گیا بلکہ آگے بڑھ کر فرد واحد کو آئین میں ترمیم کا حق بھی عطا فرما دیا گیا۔ ایک طرح کی بادشاہت آگئی اور کون نہیں جانتا کہ عالم پناہ اگر خوش ہو جائیں تو کیا کچھ عطا نہیں کر سکتے اور ناراض ہو جائیں تو کیسے کیسے عذاب ڈھا سکتے ہیں۔ لہٰذا آج تک تو کوئی ایسا دیوانہ پیدا نہیں ہو سکا جو کہے کہ بادشاہ ننگا ہے اور اگر کسی کا اس طرح کا دیوانہ بن جانے کا امکان بھی پیدا ہو جائے تو اُسے پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے اور Nip the evil in the bud" "کو زریں اصول تسلیم کرتے ہوئے راستے کا کانٹا نکالنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔
بات کدھر نکل گئی آغاز تو ہوا نظریہ ضرورت کے تحت عدالتوں سے من چاہے فیصلے لینے کا لیکن چونکہ دوا کوئی نہ کی گئی۔ لہٰذا وقت کے ساتھ ساتھ مرض بڑھتا چلا گیا۔ اب وقت یہ آگیا ہے کہ عدالت کون ہوتی ہے کہ ہماری چاہت کے خلاف فیصلہ دے۔ لہٰذا اپوزیشن نہیں یقین کیجئے حکومتیں کہتی ہیں کہ ہم سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول نہیں کریں گے اگر وہ فیصلہ ہمارے سیاسی مفاد کو زک پہنچاتا ہے۔ فلاں فلاں جج کو بینچ سے نکال دیا جائے اور فلاں فلاں کو بینچ میں بٹھایا جائے۔ یہ مدعی یا مدعا علیہ مطالبہ کرتے ہیں۔ ہائی کورٹ فلاں ملزم کی ضمانت لے لے یا اُسے رہا کر دے، ہماری مرضی کے بغیر رہا نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی رہا ہو جائے تو پلک جھپکتے ہی دوسرے مقدمہ میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ ایک تماشا لگا ہوا ہے جو دنیا بغیر ٹکٹ کے دیکھ رہی ہے۔ پھر یہ کہ قانون ہی نہیں آئین سے بھی دو دو ہاتھ کر لیے گئے ہیں۔ آئین کی کوئی شق کتنی ہی غیر مبہم اور واضح کیوں نہ ہوں ہم اسے پاؤں تلے روندنے لگے ہیں۔ آئین اسمبلی ٹوٹنے کے بعد نوّے (90) دن میں الیکشن کا کہتا ہے اور اس دوران انتخابات کے انعقاد کے لیے نگران حکومت کے قیام کا کہتا ہے۔ اسمبلی ٹوٹ جاتی ہے لیکن نوّے دن میں انتخابات نہیں ہوتے اور نگران حکومتیں ہر کام کرتی ہیں۔ سوائے انتخابات کرانے کے انتظامات کرنے کے۔ گویا افراد زبردست ہیں اور قانون و آئین زیردست ہیں۔ کوئی احمق ہی ہوگا جو خیر برآمد ہونے کی توقع کرے گا۔ کانٹے بونے سے پھول کیسے کھلیں گے۔ زہر شہد کا کام کیونکر دے گی حیوانیت میں انسانیت کا رنگ کیسے نکھر سکے گا۔ درندگی صرف شرمندگی کا باعث بنے گی۔ پاکستان ہماری آماجگاہ ہی نہیں اِسے اسلام کا گہوارہ بھی بننا ہے۔ یاد رہے پاکستان ہماری مادی ہی نہیں روحانی ضرورت بھی ہے گویا ہماری زندگی اللہ کی بندگی کی محتاج ہے۔