(الہدیٰ) تخت کے رنگ و روپ میں تبدیلی سے ملکہ کا امتحان - ادارہ

9 /

الہدیٰ

تخت کے رنگ و روپ میں تبدیلی سے ملکہ کا امتحان


آیت 41{قَالَ نَکِّرُوْا لَہَا عَرْشَہَا} ’’سلیمانؑ نے کہا کہ اس کے لیے اس کے تخت کی ہیئت ذرا بدل دو‘‘
ملکہ کو آزمانے کے لیے تخت کی ظاہری ہیئت میں تھوڑی بہت تبدیلی کر دو۔
{نَنْظُرْ اَتَہْتَدِیْٓ اَمْ تَکُوْنُ مِنَ الَّذِیْنَ لَا یَہْتَدُوْنَ(41)} ’’ہم دیکھیں کہ وہ پہچان پاتی ہے یا ان لوگوں میں سے ہوتی ہے جو نہیں پہچان پاتے۔‘‘
آیت 42{فَلَمَّا جَآئَ تْ قِیْلَ اَہٰکَذَا عَرْشُکِ ط قَالَتْ کَاَنَّہٗ ہُوَج} ’’پھر جب وہ آئی تو (اُس سے) کہا گیا کہ کیا اسی طرح کا ہے آپ کا تخت؟ اُس نے کہا یہ تو گویا وہی ہے!‘‘
چنانچہ اس نے اپنے تخت کو پہچان لیا۔ یعنی وہ واقعی ایک ذہین اور سمجھ دار عورت تھی۔ اس سے پہلے آیت34 میں فاتح بادشاہوں کے بارے میں اس کا تبصرہ بھی اس کی ذہانت اور دانش مندی کا ثبوت ہے۔
{وَاُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہَا وَکُنَّا مُسْلِمِیْنَ(42)} ’’اور ہمیں اس سے پہلے ہی علم حاصل ہو چکا ہے اور ہم اسلام لا چکے ہیں۔‘‘
یعنی میرے تخت کا یہاں پہنچ جانا اب میرے لیے کوئی بہت بڑی حیرت کی بات نہیں۔ آپؑ کا اللہ کے ہاں جو مقام و مرتبہ ہے اس کے بارے میں مجھے بہت پہلے ہی علم ہو چکا ہے اور اسی وجہ سے ہم مسلمان ہو کر آپؑ کی اطاعت قبول کر چکے ہیں۔

درس حدیث  

فکر ِآخرت کا ثمرعَنْ اَنَسِ بِنْ مَالِکِ ؓ قَالَ قَالَ رَسُوْْلُ اللہِﷺ :((مَنْ کَانَتِ الْاٰخِرَۃُ ھَمَّہٗ جَعَلَ اللّٰہُ غِنَاہُ فِیْ قَلْبِہِ وَجَمَعَ لَہُ شَمْلَہُ وَأَتَتْہُ الدُّنْیَا وَھِیَ رَاغِمَۃٌ وَمَنْ کَانَتِ الدُّنْیَا ھَمَّہٗ جَعَلَ اللّٰہُ فَقْرَہُ بَیْنَ عَیْنَیْہِ وَفَرَّقَ عَلَیْہِ شَمْلَہٗ وَلَمْ یَأْتِہٖ مِنَ الدُّنْیَا اِلَّا مَاقُدِّرَلَہٗ))
(رواہ الترمذی)
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جسے سب سے زیادہ فکر آخرت کی ہو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو غنی کر دیتا ہے اور اس کے اُلجھے ہوئے کاموں کو سُلجھا کر اس کے دل کو تسکین دیتا ہے اور دنیا اس کے پاس ذلیل و خوار ہو کر آتی ہے (یعنی دنیا کا مال و متاع جو اس کی قسمت میں لکھا ہے بغیر کسی شدید مشقت کے آسانی سے اس کے پاس پہنچ جاتا ہے)۔ جو شخص دنیا کے عیش پر مرمٹنے کا فیصلہ کر چکا ہو ، اللہ تعالیٰ اس پر محتاجی کو مسلط کر دیتا ہے (وہ اس احساس میںمبتلا ہو جاتا ہے کہ میں لوگوں کا محتاج ہوں) اور اللہ تعالیٰ اس کے سلجھے ہوئے معاملات کو پراگندہ کر کے اُلجھا دیتا ہے( اس لیے وہ سکونِ قلب کی نعمت سے محروم ہو جاتا ہے) اور دُنیا کا رزق (زیادہ نہیں بلکہ) اسے صرف اتنا ہی ملتا ہے، جتنا اس کے مقدر میں ہوتا ہے ‘‘۔