(زمانہ گواہ ہے) پاکستان :پارلیمانی نظام بمقابلہ صدارتی نظام - وسیم احمد

7 /

انتخابات کے ذریعے نظام کو چلایا جا سکتا ہے لیکن اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔

نظام کو تبدیل صرف انقلاب کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے :ایوب بیگ مرزا

یہ نظام اس وقت تک تبدیل نہیں ہوگا جب تک لوگوں کے دلوں میں حقیقی ایمان پیدا نہیں ہوتا

اور ہم سب مل جل کراسلامی نظام کے قیام کے لیے کام نہیں کرتے : ڈاکٹر عطاء الرحمان عارف

دنیا بھر میں حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں سارے مفادات

طبقہ اشرافیہ کے پورے ہوتے ہیں اور عوام کا مفاد حکومتوں کے مدنظر نہیں ہوتا : رضاء الحق

پاکستان :پارلیمانی نظام بمقابلہ صدارتی نظام کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:پاکستان میں کئی طرح کے طرز حکومت چلتے رہے ہیں۔ اس وقت پارلیمانی طرز حکومت موجودہے لیکن اس کابھی ٹرینڈ ناکامی کی طرف ہے۔ آپ یہ فرمائیےکہ اس میں قصور کس کاہے نظام کایانظام کوچلانے والے ہاتھوں کا؟
ایوب بیگ مرزا:میرے خیال میں نظام کابھی قصور ہے لیکن نظام کو چلانے والے ہاتھوں کا زیادہ قصور ہے ۔ انسان فطری طور پر اقتدار کا خواہشمند ہے ، وہ دوسروں پر اپنا غلبہ چاہتاہے۔ آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں۔ بادشاہوں کی آپس میں جنگیں ہوئیں، بھائیوں نے اپنے بھائیوں کوقتل کیا۔ باپ نے بیٹے کو،بیٹے نے باپ کو قید کیا۔ لیکن مغرب نے تقریباً دو سو سال سے اس چیز کو کنٹرول کیا ہے ۔ اب وہاں اقتدار کی منتقلی ایک نارمل چیز بن گئی ۔ وہاں الیکشن ہوتے ہیں جو پارٹی کامیاب ہوتی ہے اس کو اقتدار منتقل کر دیا جاتاہے اور ہارنے والی پارٹی اس کی حکومت کو تسلیم کرتی ہے۔ ہم مسلمانوں نے دنیا کو ایک بہترین نظام دیا تھا لیکن آج ہم خود ہی اس معاملے میں سب سے پیچھے ہیں ۔ ہمارے ہاں اقتدار کی خواہش جنون کی حد تک ہے جس کے لیے ہم ہر اصول اور قاعدے کو روند دیتے ہیں ۔ ہمارے ہاں پارلیمانی نظام ہے جس میں قانوناً اقتدار کی منتقلی بہت آسان ہے لیکن مسئلہ اس لیے بنا ہوا ہے کہ یہاں بعض لوگ اقتدار کے اس قدر بھوکے ہیں کہ وہ اس کے لیے پارٹیاںبدلنے میں وقت نہیں لگاتے۔ محترم ڈاکٹر اسرار احمد ؒ صاحب مینڈکوں کے پھُدکنے کی مثال دیتے تھے جیسے مینڈک پھدک کر ادھر سے اُدھر ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح ہمارے ہاں لوگ ذاتی مفاد کے لیے پارٹیاں بدلتے ہیں اور چلتی حکومتوں کو عدم اعتماد کے ذریعے گرادیا جاتاہے ۔اگرچہ حکومت فنانشل بل پاس کرانے میں ایک ووٹ سے بھی ناکام ہو جائے تو وہ فارغ ہو سکتی ہے۔ لیکن مفاد پرست سیاستدان ہر موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے پارٹیاں  بدل کر سیاسی عدم استحکام کا باعث بنتے ہیں ۔حالانکہ مغرب میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ حکومت میں اور اپوزیشن میں  صرف ایک نشست کا فرق ہوتاہے لیکن اس کے باوجود حکومتیں اپنی مدت پوری کرتی ہیں ۔ اس وجہ سے وہاں استحکام پیدا ہوتاہے اور ملک ترقی کرتے ہیں ۔ لیکن ہمارے ہاں یہ جو مفاد پرستی ہے یہ نظام کو چلنے نہیں دیتی جس کی وجہ سے یہاں پارلیمانی نظام مسلسل ناکام ہوتا جارہا ہے۔ اگر پارلیمانی طرز حکومت کی بجائے کوئی دوسرا نظام ہو جس میں زیادہ ووٹوں سے کامیابی حاصل کرنا پڑتی ہو تو شاید وہ ناکام نہ ہو ۔
سوال:پاکستانی قوم 76 سال سے یہ تماشا دیکھ دیکھ کر بے زار ہو چکی ہے ۔ جب کوئی نیا حکمران آتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ مسیحا آگیا ہے ، اب ہماری کشتی پار لگا دے گا ، لیکن وہ بھی اُمیدوں پر پانی پھیر دیتاہے ، پھر وقتاً فوقتاًصدارتی نظام کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں ۔ صدارتی نظام اور پارلیمانی نظام میں فرق کیا ہے اور کیا صدارتی نظام پاکستان کے لیے مفید ہوگا ؟
رضاء الحق:اس وقت جو مغربی جمہوری نظام دنیا میں رائج ہے اس کی بنیاد وحی کے ذریعے پہنچائے گئے احکامات کے انکار پر ہے۔ اس لیے اگرہم سمجھتے ہیں کہ یہ نظام دنیا کو سوفیصد عدل فراہم کر سکتا ہے تو یہ ہماری غلط فہمی ہوگی کیونکہ نظام عدل اجتماعی صرف اللہ کا نظام ہی قرار پا سکتاہے ۔ البتہ اللہ کے نظام سے ہی کچھ چیزیں اس مغربی جمہوری نظام میں مستعار لی ہوئی ہیں جن میں چند بنیادی اخلاقی اصول ہیں ، انسانی حقوق کا تصور ہے وغیرہ ۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے جو نظام ہمیں دیا ہے اس میں بنیادی اصول یہ ہیں کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہوگی قرآن و سنت کے دائرے میں رہتے رہتے قانون سازی ہو گی اور شورائیت کا نظام ہوگا ،حکومت اور معاملات میں عوام کی رائے کو اہمیت دی جائے گی ۔ پارلیمانی نظام اور صدارتی نظام میں فرق یہ ہے کہ پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم چیف ایگزیکٹیو ہوتاہےاور کابینہ کا انتخاب وہ منتخب نمائندوں میں سے کرتاہے ۔ جبکہ صدارتی نظام میں صدر چیف ایگزیکٹیو ہوتاہے اور صدارتی نظام میں الیکٹورل کالج بھی مختلف ہو سکتاہے۔ صدارتی نظام میں صدر کی مدت مقرر ہوتی ہے جبکہ پارلیمانی نظام میں اسمبلی کی مدت ہوتی ہے جبکہ وزیر اعظم اور کابینہ کسی وقت بھی عدم اعتماد کے نتیجہ میں تبدیل ہو سکتے ہیں ۔ صدارتی نظام میں صدر کے پاس اختیار ہوتاہے کہ وہ چاہے تو منتخب نمائندوں سے ہٹ کر بھی کسی کو وزیر بنا سکتا ہے ۔ اس لیے صدارتی نظام میں عدم اعتماد کا خطرہ کم ہوتا ہے اور نہ ہی اسمبلی ممبران کو خوش کرنے کے لیے وزراء کی فوج کھڑی کی جاتی ہے ۔ علاوہ ازیں صدارتی نظام میں احتساب کا جو نظام ہے اس کے باعث صدر کو بلیک میل نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی طرح صدارتی نظام میں پالیسی میں بھی استحکام ہوتاہے ۔
سوال:دونوں نظاموں کی اپنی اپنی خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی ہیں ۔ اگر کوئی مخلص لیڈر یا گروہ حکومت میں  آجائے تو کیا وہ ان میں سے کسی ایک نظام کے اندر رہتے ہوئے پاکستان کے مسائل حل کر سکتاہے ؟
عطاء الرحمان عارف:پارلیمانی نظام میں کابینہ اور تمام حکومتی ادارے پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوتے ہیں ۔ جبکہ صدارتی نظام میں وزراء اور حکومتی ادارے صدر کو جواب دہ ہوتے ہیں ۔ البتہ دونوں جمہوری نظام ہیں اور جمہوریت کا انجن عوام ہوتے ہیں۔ اس کا ایندھن بیوروکریسی ہوتی ہے جو اس کو چلاتی ہے ۔ اس کا ڈرائیور صدر یا وزیر اعظم ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی مخلص صدر یا وزیر اعظم آبھی جائے اور انجن یعنی عوام ساتھ نہ دے تو پھر بھی نظام نہیں چلے گا ، ایندھن یعنی بیوروکریسی خراب ہو تو پھر بھی نہیں چلے گا ۔ ہمارے ہاں نظام کو چلانے والی اشرافیہ کے اپنے مفادات ہیں جس کی وجہ سے نظام غیر متوازن ہو جاتا ہے ۔ اس لیے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جب تک تمام پرزے اپنی جگہ ٹھیک کام نہیں کریں گے جمہوریت کی گاڑی ٹھیک طریقے سے نہیں چلے گی اور نہ ہی پاکستان کے مسائل حل ہوں گے ۔ اب الیکشن میں بہت زیادہ پیسہ بھی involve ہو چکا جبکہ 1985ء سے پہلے اس کا رجحان بہت کم تھا اور تعصبات کی یہ کیفیت نہیں تھی جو آج ہے ۔ سیاستی جماعتیں کسی حد تک اپنی سوچ کے مطابق چل رہی تھیں لیکن 1985ء  کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد تعصبات کو فروغ ملا اور نظریہ کی جگہ پیسہ involve ہو گیا۔ آئین میں بھی اتنی ترامیم ہو چکی ہیں کہ وہ بھی اب اس نظام کو سدھار نہیں سکتا ۔ اب اس کا حل یہ ہے کہ ہم اس نظام کی طرف پلٹیں جو ہمیں اللہ اور اس کےرسولﷺ دے کرگئے ۔
سوال: بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمد ؒ نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا تھا: ’’ خلیفہ کا انتخاب بلا واسطہ تمام مسلمان مرد اور عورتیں کریں گے لیکن اس خلیفہ کا معاملہ وہ نہیں ہوگا جوپارلیمانی نظام میں ہے۔ خلفائے راشدین مشورہ لیتے تھے، مشورہ لینا فرض ہےجب حضورﷺ سے کہا گیا:
{وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِج}(آل عمران:159) ’’اور معاملات میں ان سے مشورہ لیتے رہیں۔‘‘
لہٰذا کون ہو گا جو اس سے مستثنیٰ ہو لیکن خلافت راشدہ میں
ووٹوں کی گنتی کا معاملہ کبھی نہیں رہا، اسلام میں خلیفہ راشدنے کبھی گنتی کر کے، ووٹ لے کر فیصلے نہیں کیے بلکہ یہ کہ خلیفہ کو پورا اختیار ہے ،کتاب و سنت کی تلوار تو سب پر ہے، ویسے ہی خلیفہ کے سر پر بھی ہے۔ اگرچہ خلفائے راشدین کے ہاں معین مدت نہیں تھی، وہ تازیست خلفاء تھے لیکن وہ لازم نہیں ہے۔ معین مدت مقرر کی جا سکتی ہے لیکن خلیفہ کو اختیار دیا جائے ۔ یہ نہ ہو کہ وہ ہمیشہ پارلیمنٹ کی اکثریت کا محتاج رہے ،خاص طور پرجیسےہی اسمبلی آئی اس کے بعد جو بھی وزیر اعظم حکومت بناتا ہے ، اس کی ساری توجہ اسی پر ہوتی ہے کہ کہیں یہ مینڈک پھدک نہ جائے، کہیں یہ گھوڑا کہیں جا کر بک نہ جائے، کچھ اسے دو، پچاس وزیر بنا دو، بلوچستان میں شاید اب بھی ہے کہ جے یو آئی کے غالباً صرف چھ رکن ہیں اور چھ کے چھ وزیر ہیں۔ یہ تماشے اس پاکستان میں ہو رہے ہیں۔(کیونکہ وزیراعظم کو خطرہ رہتا ہے کہ ) چند مینڈک پھدک گئے تو حکومت ختم ،چند گھوڑے بک گئے تو حکومت ختم ،لہٰذا ساری توجہ اسی پررہتی ہے۔ (لہٰذا اس نظام میں)کوئی نیک ہی کیوں نہ ہو کوئی کام نہیں کر سکتا ،اسے تو اپنی کرسی بچانے کی فکر ہو جاتی ہے ، ایک دوسرا متبادل نظام صدارتی نظام ہے ۔وہ نظام خلافت کے زیادہ قریب ہے ۔اس لیے کہ وہاں صدر کانگریس کی اکثریت کا پابند نہیں ہے ۔ وہ اپنی مرضی سے جس کو چاہیے وزیر بنا دے جو امریکہ میں سیکرٹری کہلاتے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ وہ کانگریس کا رکن ہی ہو بلکہ باصلاحیت ہو ، جس کی فارن پالیسی پر گہری نظر ہو ، جو مالیات میں ماہر ہو ، الیکشن لڑ کر نہیں آسکا تو کوئی جرم نہیں ،اس کی صلاحیتوں سےفائدہ اٹھانا قوم کے لیے ضروری ہے تو اسے بڑے سے بڑے منصب پر فائز کیا جاسکتا ہے ۔ آخر اسی دنیا میں وہ نظام بھی ہے۔ بہرحال یوں کہناچاہیے کہ صدارتی نظام پارلیمانی نظام کےمقابلے میں نظام خلافت سے قریب ترہے۔‘‘
آپ نےڈاکٹر صاحب کا فرمان سنا کہ صدارتی نظام، نظام خلافت کے قریب تر ہے۔ پاکستان میں بھی کسی حد تک صدارتی نظام قائم رہا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ کامیاب نہیں ہو سکا ۔ اب بھی وقتاً فوقتاً یہ بحث ہوتی ہے کہ یہاں صدارتی نظام آنا چاہیے ۔ کیا آپ کے خیال میں صدارتی نظام پاکستان کے لیے موزوںہے؟
ایوب بیگ مرزا:پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان میں صدارتی نظام ایک دن کے لیے بھی نہیں آیا ۔ اگر کوئی چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اپنا نام صدر رکھ لیتا ہے تو یہ الگ بات ہے ۔اگر یہ کہا جائے کہ کسی ڈکٹیٹر نے صدارتی نظام قائم کیا ہے تو یہ صدارتی نظام کی توہین ہوگی ۔ صدارتی نظام وہ ہوتا ہے جس میں باقاعدہ انتخابات کے ذریعے صدر منتخب ہوتا ہے ۔
سوال:جب مشرف کو صدر بنایا گیا تو کیااس وقت voting نہیں ہوئی تھی ۔یہ نہیں کہا گیا تھا کہ ہم دس دفعہ بھی وردی میں صدر select کریں گے؟
ایوب بیگ مرزا:وہ ریفرنڈم ہوا تھا ۔ اسے انتخابات ہرگز نہیں کہا جا سکتا ۔ انتخاب وہ ہوتا ہے جس میں آپ بھی اُمیدوار ہوتے ہیں ، آپ کے مقابلے میں کوئی دوسرا بھی اُمیدوار ہوتاہے ۔ کوئی آپ کو ووٹ دیتاہے ، کوئی دوسرے کو ووٹ دیتاہے ، جو اکثریت حاصل کرتاہے وہ صدر بن جاتاہے ۔ ریفرنڈم تو ہمارے ہاں فوجی طالع آزما کراتے تھے جن میں ہمیشہ وہ 97.5فیصد ووٹ لیتے تھے جو کہ پہلے سے طے شدہ نتائج ہوتے تھے ۔لہٰذا ڈکٹیٹر شپ کا صدارتی نظام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صدارتی نظام خلافت کے نظام کے قریب تر ہے ، اس میں حکومت گرنے کے چانسز کم ہوتے ہیں ، جب تک کہ مواخذہ نہ ہو اور مواخذہ کے لیے کم سے کم 66 فیصد ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہےجو کہ خاصا مشکل ہوتاہے اس لیے صدر کو خطرہ نہیں ہوتا کہ اس کی کرسی کوئی کھینچ لے گا ۔ لہٰذا وہ بڑی تسلی سے اپنا کام کرتاہے ۔ پاکستان میںاگر صدارتی نظام آجائے تو وہ پارلیمانی نظام سے بہتر ثابت ہوگا ۔ جہاں تک ہمارے ہاں پارلیمانی نظام کی ناکام کی بات ہے تو اس میں ایک بڑی وجہ بیرونی ہاتھ بھی ہے ۔ پاکستان ایک نظریہ کی بنیاد پر بنا تھا ، اس کی جغرافیائی پوزیشن بھی بہت اہم تھی اور اس کے پاس طاقتور فوج تھی لہٰذا عالمی طاقتوں کو خطرہ تھا کہ اگر پاکستان کو ترقی کرنے دی گئی تو یہ بڑا طاقتور نظریاتی ملک بن جائے گا اور سرمایہ دارانہ نظام اور اسرائیل کے لیے خطرہ بن جائے گا لہٰذا امریکہ نے شروع سے ہی کوشش کی کہ پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام نہ آسکے ۔ ورنہ ہمارے ساتھ انڈیا آزاد ہوا وہاں کبھی مارشل لاء نہیں لگا ، کبھی اتنی اکھاڑ بچھاڑ  نہیں ہوئی ۔قدرت اللہ شہاب کہتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ سوویت یونین اورامریکہ آپس میں اختلافات رکھنے کے باوجود اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو کسی صورت مستحکم نہیں ہونے دینا ۔ اس کے لیے انہوں نے طریقہ یہ نکالا کہ پاکستان میں بار بار مارشل لاء لگایا جائے ۔ لہٰذا جہاں ہم نالائق تھے وہاں ہماری بدقسمتی بھی تھی کہ عالمی قوتوں نے یہاں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا ۔
سوال: جمہوری نظام پوری دنیا میں نہ صرف رائج ہے بلکہ deliver بھی کر رہا ہے ۔ پاکستان اس نظام سے فائدے کیوں نہیں اُٹھا پارہا ؟
رضاء الحق:بڑی سادہ سی بات ہےہر ریاست کی کچھ اخلاقی اور آئینی بنیادیں ہوتی ہیں جیسا کہ ریاست حکومت کرنے کے لیے نہیں بلکہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے قائم کی جاتی ہیں ۔ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے حکومت منتخب کی جاتی ہے ۔ مغرب میں یہی تصور ہے ، اسرائیل میں یہودیوں کے لیے ، بھارت میں ہندوؤں کے لیے حکومتیں کام کرتی ہیں اور ان کے فائدے کو مدنظر رکھتی ہیں ۔ اشرافیہ کو انہوں نے نظام کے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔ لیکن ہمارے ہاں سارے مفادات خاص طبقہ اشرافیہ کے پورے ہوتے ہیں اور عوام کا مفاد حکومتوں کے مدنظر نہیں ہوتا ۔ وہی ہر حکومت میں موجود ہوتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے بڑے عہدے بھی اسی اشرافیہ کے پاس ہوتے ہیں ۔لہٰذا ہر سطح پر اشرافیہ کے مفاد کا تحفظ ہوتا جبکہ عوام اور ملک کے مفاد کا کوئی تصور ہمارے ہاں نہیں ہے ۔
عطاء الرحمان عارف:اصل میںسیاست کی اصل پہچان عوام کے لیےبہترین طرز حکومت قائم کرنااورعوام کے لیے بہترین سہولتیں فراہم کرناہے ۔ جیسا کہ مغربی طرز حکومت میں ہمیں دکھائی دیتاہے ۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے مگر ظلم پر مبنی حکومت نہیں چل سکتی ۔ مغرب میں اگر جمہوری نظام کامیاب نظر آتاہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں عوام کو انصاف فراہم کرنے کا تصور ہے ، وہاں کی عدلیہ آزاد ہے ۔ وہاں پر ہر شخص کو اس کے بنیادی حقوق بہرحال مل رہے ہیں ۔عجیب بات ہے کہ وہاں محمڈن لاء کے نام پر ، عمر لاء کے نام پر اسلامی نظام سے چیزیں مستعار لے کر نافذ کر دی گئی ہیں  جن کے ذریعے عوام کو حقوق مل رہے ہیں ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے خود اسلامی اقدار کو چھوڑ دیا بلکہ اس کے برعکس کر رہے ہیں ۔ یہاں عوام کو عدل و انصاف مہیا نہیں ہے ۔ حالانکہ یہ ملک اس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا کہ ہم یہاں  اسلامی نظام قائم کریں گے ۔
رضاء الحق: ہمارے نزدیک تین بڑے بنیادی اصول ہیں کہ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہو گی اور قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو گی۔ سورۃالحج میں فرمایا:
’’وہ لوگ کہ اگر انہیں ہم زمین میں تمکّن عطا کر دیں تو‘وہ نماز قائم کریں گے‘اور زکوٰۃ ادا کریں گے‘اور وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔ اور تمام امور کا انجام تو اللہ ہی کے قبضہ ٔقدرت میں ہے۔‘‘ (آیت:41)
پھرسورۃالشوریٰ میں فرمایا:{اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط} (آیت:13) ’’کہ قائم کرو دین کو۔اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘
یعنی دین کو قائم کرنا ہمارے لیے اتنا اہم ہے، اتنا بنیادی فریضہ ہے کہ اس میں کسی قسم کا تفرقہ نہیں اورفرمایا:
{وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ ص}(الشوریٰ:38) ’’اور ان کا کام آپس میں مشورے سے ہوتا ہے۔‘‘
اب ان بنیادی اصولوں کواگر ایک جگہ اکٹھا کریں تو ہمارے پاس پورا فریم ورک وجو د میں آجاتاہے کہ کس طرح کا نظام ہمارے ہاں ہونا چاہیے ۔ اس دائرہ کے اندر رہتے رہتے لوگوں کوالیکشن کی اجازت بھی دی جا سکتی ہے، لیکن اس دائرہ کار کو نافذ کرنے کے لیے بہرحال ایک پُرامن انقلابی جدوجہد کی ضرورت ہوگی ۔اس کے بعد اس کو چلانے کے لیے مختلف طرزہائے حکومت استعمال کیے جا سکتے ہیں ۔
سوال: جس فریم ورک کی بات رضا الحق صاحب کر رہے ہیں اگر اس کی بنیاد پر ہم پاکستان میں اپنا نظام مرتب کریں تو کیا وہ ایک اسلامی منزل بن سکتی ہے یا نہیں ؟ دوسری بات یہ کہ اسلامی نظام کی صورت میں ہمارے پاس ایک رول ماڈل موجود ہے ، ہم بحیثیت قوم اس کو اپلائی کیوں نہیں کرتے ، جمہوریت کی طرف کیوں جاتے ہیں ؟ حتیٰ کہ تنظیم اسلامی بھی جمہوریت کے حوالے سے اپنی رائے دیتی ہے ، ایسا کیوں ہے ؟ 
ایوب بیگ مرزا: ہم نے جمہوریت کی نفی کبھی نہیں کی، ہم نے جس سےاپنے آپ کو بچایا ہے وہ انتخابات ہیں، انتخابات جمہوریت کا ایک حصہ ہیںجبکہ جمہوریت ایک پورا طرز حکومت ہے ۔ جو لوگ جمہوریت کے ذریعے پاکستان میں اسلامی نظام لانا چاہتے ہیں وہ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ جبکہ ہماری رائے یہ ہے کہ انتخابات کے ذریعے نظام چلایا جا سکتا ہے لیکن اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ نظام کو تبدیل صرف انقلاب کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے لیے ڈاکٹر اسراراحمد ؒ نے منہج انقلاب نبوی ﷺ کو ماڈل بنایا ہے جس کے مختلف مراحل ہیں ۔ سب سے پہلا مرحلہ لوگوں کی دینی تربیت ہے ۔ انتخابات کے ذریعے تبدیلی اس لیے بھی نہیں آسکتی کیونکہ نمائندے عوام کی ذہنی و فکری تربیت نہیںکرتے ۔ انہیں صرف ووٹ اور کرسی سے تعلق ہوتا ہے ۔ جب ذہنی و فکری تبدیلی نہیں آئے گی تو صرف انتخابات سے نظام کیسے تبدیل ہوگا ۔ البتہ چہرے ضرور بدل جائیں گے۔ اس کے برعکس انقلاب کے لیے پہلے ذہنوں میں انقلاب لانا پڑتا ہے ، پہلے لوگوں کی دینی و اخلاقی تربیت ہوگی ، تب ہر سطح پر تبدیلی آئے گی ۔
سوال: نظام کی تبدیلی کے حوالے سے ایوب بیگ مرزا صاحب نے تنظیم کے مؤقف کو بڑی تفصیل سے واضح کیا ہے ۔آپ کی نظر میں فریم ورک کیا ہوگا ، یہ سب مراحل کیسے طے ہوں گےجس کے بعد حقیقی تبدیلی آئے گی ، تنظیم اسلامی کے مؤقف کو آپ کیسےسمرائز کریں گے؟
عطاء الرحمان عارف: بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹراسرار احمدؒ نے یہ بات ہمیں بہت اچھی طرح سمجھائی ہے کہ اسلام میں سیاست شجر ممنوعہ نہیں ہے کیونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ اگر اسلامی نظام بالفعل قائم ہوتو ایسی صورت میں سیاست کرنا عبادت ہے۔ بنی اسرائیل کے انبیاء ؑکی مثال ہمارے سامنے ہے ، انہوں نے حکومت کی ہے ۔ یہاں تک کہ کسی غیر اسلامی حکومت میں رہ کر دین اور انسانیت کے لیے سیاست کرنا بھی جائز ہے ۔ حضرت یوسف ؑ نے مصر میں ایسا کرکے دکھایا ۔ اسی طرح سے اگر غیر اسلامی نظام حکومت ہو جیسا کہ پاکستان میں ہے تواس صورت میں اقتدار کی رسہ کشی میں شامل ہونا ناجائز تصور کیا جائے گا اسی لیے تنظیم اسلامی انتخابی سیاست سے دور ہے ۔ اسی طرح اگر اسلامی ریاست ہو تو وہاں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے، نظام مملکت کو چلانے کے لیے، اسلام کی خدمت کرنے کے لیے انتخابات میں حصہ لینا اور ذمہ داریاں سنبھالنا جائز ہے۔ تنظیم اسلامی کا اصل مقصد اسلامی نظام کا قیام ہے اور چونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ انتخابات کے ذریعے نظام تبدیل نہیں ہو سکتا اس لیے ہم انتخابی سیاست سے دور ہیں، ہم انتخابی مہم کا حصہ بھی نہیں بنتے ۔ یہ تنظیم کی پالیسی ہے ۔ البتہ نظریاتی سیاست ہم کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ اللہ کے رسول ﷺکی حدیث ہے : ((الدین النصیحۃ ))’’دین تو نام ہی نصیحت کا ہے۔‘‘
اس فرمان کےتحت ہم سیاسی امور پر ، حکمرانوں کے طرز عمل پرتبصرہ بھی کرتے ہیں ، انہیں مشورے بھی دیتے ہیں اور حالات کا تجزیہ بھی کرتے ہیں لیکن الحمدللہ ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم یہ سب بڑے وقار کے ساتھ اور ایک مقصدیت کے تحت کریں ۔اگر ہم جمہوریت پر بات کرتے ہیں تو صرف اس لیے کہ جب تک اسلامی نظام قائم نہیں ہو جاتا پاکستان کا نظام چلتا رہے ۔ مارشل لاء کے نتائج ہم 1971ء میں بھی بھگت چکے ہیں اور آئندہ بھی بھگت سکتے ہیں ۔ پاکستان قائم رہے گا تو اقامت دین کی جدوجہد بھی ہوگی ۔ ہماری کوشش ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنی ذات پر اللہ کے دین کو نافذ کریں ، پھر اللہ کے دین کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں اور پھر ہم اس نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں اور یہ نظام اس وقت تک تبدیل نہیں ہوگا جب تک حقیقی ایمان لوگوں کے دلوں میں گھر نہیں کر لیتا اور ہم سب مل کر مل جل کر اسلامی نظام کے قیام کے لیے کام نہیں کریں گے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی بقا اسی میں ہے کہ جس مقصد کے لیے اسے قائم کیا گیا تھا اس مقصد کو پورا کریں ۔