(سیرتِ رسولﷺ) حضور ﷺ : اخلاقِ حسنہ کے پیکر - آسیہ

7 /

حضور ﷺ : اخلاقِ حسنہ کے پیکر

 

آسیہ سیف

 

زندگیاں بیت گئیں اور قلم ٹوٹ گئے
تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہ ہوا
کائناتِ ارض و سماں میں سب سے اعلیٰ و ارفع ہستی محبوب رب کونین سیدالمرسلین، خاتم النبیین اور رحمۃ للعالمین حضور اکرم ﷺ کی ذات اقدس کے اوصاف حمیدہ اور اخلاقِ حسنہ کے بارے میں کچھ لکھتے وقت نہ صرف تنگ داماں کا احساس ہوتا ہے بلکہ ایسا قلم کہاں سے لائیں جو تاجدار کائنات کے اوصاف قلمبند کرسکے۔ ایسے الفاظ کہاں سے ڈھونڈیں جن سے مدحت مصطفیٰﷺ کا حق ادا ہوسکے۔
خوشبو ہے دو عالم میں تیری اے گُل چیدہ
کس منہ سے بیاں ہوں تیرے اوصافِ حمیدہ
آقا ﷺ کہ جن کی شان میں اللہ رب العزت نے سارا قرآن نازل فرمادیا۔ قرآن شانِ محمدی حضورﷺ کے سراپا پُرنور سے لے کر اخلاق و کردار تک آپؐ کی گفتار سے لے کر اٹھنے، بیٹھنے، کھانے، پینے، چلنے پھرنے کی ایک ایک ادا تک کو قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ سیرت مطہرہ کو اہل ایمان کے لیے کامل اسوئہ حسنہ، خوبصورت ماڈل قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (الاحزاب:21)’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ ( ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے۔‘‘
گویا زندگی گزارنے کا جامع ضابطہ حیات اگر کوئی ہے تو وہ محمد رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں نہ کوئی آپ جیسا کامل انسان بنایا ہے نہ بنائے گا کیونکہ آپ ﷺ پر نبوت و رسالت کی تکمیل ہی نہیں ہوئی بلکہ تمام کمالات انسانی، اوصاف اور اخلاق کی تکمیل بھی بدرجہ اتم آپ ﷺ کی ذات پر ہوچکی ہے اور آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ایسے اوصاف و کمالات سے نوازا کہ آپ کو تمام صفاتِ الہٰیہ اور اخلاق الہٰیہ کا مظہر اتم بناکر بھیج دیا اور آپ کے اخلاق کی اس بلندی کی خود اللہ تعالیٰ نے گواہی دے دی اور فرمایا:
{وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (4)} (القلم) ’’اوربے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں۔‘‘
اور حضور نبی اکرمﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد ہی اخلاق کی تکمیل قرار دیتے ہوئے فرمایا:
((بعثت الیکم لاتمم مکارم الاخلاق))’’میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ شریفانہ اخلاق کی تکمیل کروں۔‘‘ (الموطا کتاب حسن الخلق)
اور جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضور ﷺ کے اخلاق کی بابت ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا:
’’آپ ؓ نے فرمایا آپ ﷺکا اخلاق قرآن کریم ہے۔‘‘
اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کے اخلاق کا آئینہ قرآن کریم ہے، اس میں بہت سے راز مضمر ہیں۔ لہٰذا انہوں نے یہ فرمایا کہ آپ کے اخلاق قرآن کا آئینہ ہیں یہ ان کے وسعت علم اور ادب کا ثبوت ہے۔
تو جس ہستی کے اخلاق باکمال کے عظمتوں اور رفعتوں کی گواہی خود رب کائنات نے دے دی ہے جس کا خلق ہی قرآن قرار پایا اس کے اخلاقی اوصاف کے بارے میں کچھ مزید کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے یہی وجہ ہے کہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے حضورﷺکے اخلاق کے بارے میں سوال کیا تو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے الٹا ان پر سوال کردیا کیا تم نے کبھی قرآن نہیں پڑھا جو مجھ سے حضورﷺ کے اخلاق کے بارے میں پوچھتے ہو کیونکہ قرآن نے جو عمدہ اخلاق بتائے ہیں اور جو اخلاق اللہ رب العزت کی صفات اور ذاتی خلق کا حصہ ہیں، وہ سب کے سب اخلاق تو حضور ﷺ کے خلق عظیم میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں اور اللہ رب العزت نے جو اخلاقی صفات اپنے لیے بیان فرمائیں، قرآن میں کئی جگہوں پر اللہ تعالیٰ نے انہیں الفاظ اور اسماء صفات کو اپنے حبیب اکرم ﷺکے لیے بھی بیان فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے آپؐ پر درود پڑھتے ہیں۔ اوراس درود کے صدقے اللہ تعالیٰ آپؐ پر رحمتیں نازل کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ازل سے ہی رحمۃ للعالمین بناکر مبعوث فرمایا اور لمحہ لمحہ درجے بلند کرنے اور ذکر کو بلند کرنے کاآپؐ سے وعدہ کررکھا ہے۔ لہٰذا اب آپؐ اخلاق میں اس قدر بلند و بالا ہوچکے ہیں اور آپؐ کےکردار کی عظمتیں اس سطح تک پہنچ چکی ہیں کہ آپؐ کے اخلاق پر اللہ نے اخلاق الہٰیہ کا رنگ چڑھا دیا ہے اور آپؐ کی صفات الہٰیہ کا مظہر اتم بنادیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ(118)}(التوبۃ)’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (ﷺ ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزومند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔‘‘
درج بالا آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے روف اور رحیم جو کہ اس کے اپنے اسماء الحسنیٰ میں سے ہیں، اپنے حبیب ﷺ کے لیے بھی یہی الفاظ بیان فرماکر آپؐ کے اخلاق و صفات کی عظمت پر مہر ثبت کردی کہ اب کائنات ارض و سماء میں اخلاق کردار کی اصلاح اور رہنمائی کے لیے اگر کسی کو ماڈل بنانا ہے تو صرف اور صرف محمد مصطفیٰﷺ کی ذات بابرکات ہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اخلاق اگر کسی کے ہیں تو محمد عربیﷺ کی ہستی ہی ہے اب چونکہ اللہ تعالیٰ کو تو نہ کسی نے دیکھا ہے نہ کوئی دنیا میں دنیا کی آنکھ سے دیکھ سکتا ہے اس لیے اتباع کے لیے پیکر اخلاق حسنہ تمام بنی نوع انسانیت کے لیے حضور اقدس کی حیات مبارک کو ہی قرار دے دیا گیا۔ اللہ رب العزت نے سورہ آل عمران آیت 31 میں ارشاد فرمایا:
{قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ وَیَغْفِرْ لَـکُمْ ذُنُـوْبَکُمْ ط وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(31)} (آل عمران) ’’(اے حبیب!) آپؐ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
گو اب اگر کوئی بارگاہ خداوندی میں محبت اور قربت کا طلب گار ہے تو اسے اتباع مصطفیٰ ﷺ اختیار کرنا ہوگا۔ کوئی اللہ کی بندگی پانا چاہتا ہے تو اسے پہلے اپنی گردن میں محمد ﷺکی غلامی کا پٹہ ڈالنا ہوگا، کوئی بارگاہ خدا تک رسائی چاہتا ہے تو پہلے بارگاہ رسالت مآب تک پہنچنا ہوگا۔ کوئی اخلاق الہٰیہ کا طلب گار ہے تو اسے اخلاق مصطفیٰ ﷺ کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگنا ہوگا۔
پیغمبر اسلام دنیا کے کامل ترین انسان ہیں کیونکہ زندگی میں بیک وقت اس قدر جامع اور متنوع اوصاف آپؐ میں نظر آتے ہیں جو کسی ایک انسان میں تاریخ نے کبھی یکجا نہیں دیکھے اور یہ کمالات اور اوصاف کسی میں کبھی یکجان نہ ہوئے ہیں اور نہ ہوسکتے ہیں۔
حسن یوسف، دم عیسیٰ ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
آپؐ نے نہ کبھی اپنے برا کہنے والوں سے بدلہ لیابلکہ اپنے ذاتی دشمنوں کے حق میں ہمیشہ دعائے خیر کی لیکن دین کے دشمنوں کو انہوں نے کبھی معاف نہیں کیا اور حق کا راستہ روکنے والوں کو ہمیشہ جہنم اور عذاب الٰہی سے ڈراتے رہے۔
ایک شخص حضور اکرم ﷺ سے ملاقات کرنے آیا لیکن رعب نبوت سے کانپنے لگا حضور ﷺنے فرمایا گھبرائو نہیں میں بادشاہ نہیں ہوں میں تو ایک قریشی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت پکا کر کھایا کرتی تھی۔ الغرض اخلاق کی تمام اعلیٰ خوبیاں اور اوصاف حضور ﷺ کی ذات بابرکات میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں اور آپؐ کی سیرت مطہرہ ان تمام اخلاقی صفات کا جامع پیکر نظر آتی ہیں جو تاریخ میں کسی ایک انسان میں کبھی یکجا نہیں دیکھے۔
یہ حضور اکرم ﷺ کی ذات مبارک ہی ہے کہ جس کے توسل سے انسان ظلمتوں اور تاریکیوں میں بھٹکنے کی بجائے صراط مستقیم پر آئے اور روشن منور راہوں پر گامزن ہوکر معرفتِ الٰہی کے جام پیئے جس کے ذریعے دولت ایمان ملی اور جس کے ذریعے عرفان حق نصیب ہوا۔ جس کا وجود ہر نعمت کی تخلیق اور فروغ کا باعث بنا آپ ﷺ کی ذات کو اللہ تعالیٰ نے{وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ(107)} (الانبیاء)کہہ کر سارے جہانوں کے لیے سراپا رحمت قرار دے دیا۔ آپؐ تاجدار ختم نبوت کا تاج پہن کر آئے اور لانبی بعدی کا مژدہ جانفزا سنادیا۔ آپؐ کو اللہ رب العزت نے {اِنَّآاَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ (1)} (الکوثر) کہہ کر سارے خزانوں کی کنجیاں تھمادیں آپ ؐکا سینہ الم نشرح ہے تو چہرہ والضحیٰ اور زلفیں واللیل ہیں اور محبوبیت کا عالم یہ ہے کہ خود رب کائنات اس کے سارے فرشتے آپ پر درود و سلام بھیجتے ہیں۔ ہمارے نبی اکرم ﷺ وہ نبی ہیں کہ جن کا مقام مقامِ محمود ٹھہرا۔ جن کے ذکر کی رفعتوں کا عالم یہ ہے کہ {وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ} کہہ کر جس کا ذکر ہر شے سے بلند کردیا جس کی نبوت و رسالت کو اتنی فضیلت عطا ہوئی کہ { اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَـیْکُمْ } (الاعراف:158) تمام کائنات ارض و سماں کے لیے جو ہر زمانے اور دور کے انسانوں کے لیے پیغمبر آخرالزماں بن کر آئے، جن کی اطاعت اللہ کی اطاعت قرار پائی جن کی ہر ہر ادا اللہ کا امر اور فعل قرار پائی اورجن کے اخلاق کی بلندیو ںکی گواہی خود رب کائنات نے {وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (4)} (القلم) کہہ کر قرآن میں بیان فرمادی۔ آپ ؐکی سیرت اور حیات مبارکہ کا ہر لمحہ پیغمبرانہ ہے۔ اللہ نے اپنی ذات کی اپنی توحید کی دلیل اگر کسی کو قرار دیا تو حضور ﷺ کی حیات مبارکہ ہے۔ سیرت محمدی سچائی اور دیانت داری کا ایسا پیکر کہ ہے دشمن بھی صادق اور امین کہنے پر مجبور ہوجائیں۔
مگر صد حیف کہ جس امت کے نبی کی بعثت کا مقصد ہی مکارم اخلاق کی تکمیل قرار پایا ہو جس نے اخلاق کو اعلیٰ ترین اخلاقی اور روحانی اقدار سے نوازا ہو اس کی امت کا اخلاق و احوال نہایت پستی کی حالت اختیار کرچکا ہے۔ آج اغیار نے ہمارے نبی کے اسوئہ حسنہ پر عمل پیرا ہوکر انسانیت اور اخلاق کی عظیم مثالیں قائم کررہے ہیں۔ آپ اقوام مغرب کو دیکھ لیجئے سچائی، راست بازی، محنت، عدل و انصاف اور اخوت و ہمدردی جیسے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کسی کی ذاتیات میں دخل اندازی ہرگز نہیں کرتے محنت کو عار نہیں سمجھتے، اپنے کام کاج اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔ چوری، غیبت بلا اجازت کسی چیز کو استعمال کرنے کی عادت ہی ان میں نہیں پائی جاتی۔
آج اگر وہ دنیا میں کامیاب اور ترقی یافتہ ہیں تو یقینا ًیہ وہی اصول و ضوابط ہیں جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں جو قرآن نے بتائے تو رسول اللہﷺ نے عملی زندگی میں کرکے دکھائے۔
آج بھی ترقی و کامرانی کا راز سیرت نبوی ﷺ کی پیروی میں ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے نظام تعلیم، نظام معیشت و معاشرت الغرض زندگی کے تمام پہلوئوں کو حضور اکرمﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں سے ہم آہنگ کریں اور سیرت محمدی ﷺ کو کامل اسوئہ حسنہ اور اپنے لیے بہترین ماڈل بناکر اپنی سیرت و کردار پر مصطفویت کی چھاپ لگاکر غلامانِ مصطفیٰ ﷺ بن کر اپنی زندگیاں گزاریں۔