(کارِ ترقیاتی) یہ آندھیوں سے اندھیروں کا اتحاد ہے کیا؟ - عامرہ احسان

7 /

یہ آندھیوں سے اندھیروں کا اتحاد ہے کیا؟عامرہ احسان

 

اخباروں کی شہ سرخیوں پر مسلسل مہنگائی کی اطلاعات کا قبضہ ہے۔ قوم کے رہنما ’گرانی فری زون‘ میں رہتے ہیں ۔ خطِ غربت سے نیچے خطِ افلاسِ مزیدکی پاتالوں میں آئی ایم ایف نے لے جا پھینکا ہے۔ یہ گلوبل چودھریوں کے لیے لڑی طویل جنگ کا ماحصل ہے۔ دیدہ ودل سمیت کیا کچھ فرشِ راہ نہ کیا۔ ہوائی اڈے، سڑکیں ان کی ہمہ نوع ضروریات سے لدے ٹینکروں، ٹریلروں سے پامال ہوتی رہیں۔ اب امریکی کس سکون سے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر ہمارے حالات کی تباہی پر تبصرہ کناں ہیں۔
ٹی ٹی پی کے معاملات پر وجہ بتاتے ہوئے ٹام ویسٹ (امریکی نمائندہ برائے افغانستان):چونکہ انہیں سرحد پار دھکیلا گیا تھا تو یہ مشکل صورت حال اب درپیش ہے۔ کیوں دھکیلا تھا؟ امریکا کی خاطر! ڈیوسمتھ، اسلام آباد میں سابق امریکی سفارت کار کا ارشاد ہے کہ ’کئی سالوں تک ہم پاکستان کو افغانستان کی نظر سے دیکھتے رہے، اور اب گزشتہ دو سالوں میں زاویۂ نگاہ بدل گیا ہے۔‘ یقیناً آپ کی نگاہ کا بھینگاپن تو ہم بھگت رہے ہیں۔ یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں! ٹام ویسٹ کا کہنا یہ بھی ہے کہ ’پاکستان، افغانستان میں امریکی مقاصد کی تکمیل میں مدد دے رہا ہے۔‘ اس سب کے باوجود آئی ایم ایف ! ’تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔‘ بجلی کے پے درپے جھٹکے دے کر، گیس چڑھاکر قوم کو دم پخت کیا جا رہا ہے۔ حکومت محض مہنگائی چڑھانے کی نگرانی پر مامور ہے۔ پٹرول کی گرانی سے گاڑیاں اور بسیں خاموش کھڑی منہ تک رہی ہیں۔ اس یلغار نے ہوش گم کر رکھے ہیں۔
کراچی میں علماء کی ٹارگٹ کلنگ کا نیا سلسلہ ازسرنو شروع ہوگیا ہے۔ کشمیری مجاہدین کے بعدگزشتہ ایک ہفتے میں دو علماء شہید کیے گئے۔یہاں اور جڑانوالہ میں بھی ’را‘ کے نیٹ ورک کی خبر دی گئی۔ ایک طوفانِ عظیم برپا ہوا۔ توہین کے ملزمان پس منظر میں چلے گئے۔ مظلومیت کی گہری دھند میں حقائق چھپ گئے۔ توہین مذہب قانون پر لگے ہاتھوں بحث مباحثے کا بازار سیکولروں نے اٹھا کھڑا کیا۔ ہمارے بے شمار تفتیشی ادارے دشمن ایجنسیوں کا پیچھا کرکے مجرم کیوں نہیں پکڑتے؟
فون ڈائل کریں تو ہمیں منشیات کے حوالے سے چوکنے اور چوکس رہنے کی تلقین کی جاتی ہے کہ اپنے پیاروں پر نظر رکھیں۔ حکومتی اہلکاروں پر نظر ڈالیں تو حالیہ لرزہ خیز رپورٹ جو اینٹی نار کوٹکس یونٹ لاہور پولیس کے سابق سربراہ کی آئی ہے (ڈان۔ 13ستمبر) وہ ہمارے کرپشن زدہ گلے سڑے نظام کا ایکسرے ہے۔نوجوان ملک بھر میں طاقتور حکومتی سرپرستی میں چلتے نیٹ ورک سے جابجا منشیات کا لقمۂ تر بن رہے ہیں۔ پکڑے جانے والا ریٹائرڈ ڈی ایس پی، مظہر اقبال بھارت سے بذریعہ ڈرون منشیات (آئس) اسمگل کرنے کی دنیا کا بے تاج بادشاہ تھا۔ گزشتہ ماہ ساڑھے سات کروڑ رشوت لیتے پکڑا گیا۔ اس کے عوض اس نے احمد کی 35 کلو گرام منشیات اور تین گاڑیوں کو صرف 450 گرام ظاہر کرکے چھوڑا تھا۔ قانون کی سختی، پاسداری ملاحظہ ہو کہ اقبال، 6 مرتبہ ملازمت سے نکالا گیا، 45 مرتبہ انہی کارناموں پر معطل ہوا۔ ڈی ایچ اے لاہور میں چار کنال کے محل کا باسی وہیں مزید 7 گھروں کا مالک ہے۔ اہم سیاسی شخصیات اور پنجاب کے سینئر پولیس افسران کا منظورِ نظر رہا ہے۔ ادھر افغان حکومت نے نشیئوں (امریکی باقیات) کے لیے پرانے امریکی اڈے کو نشہ چھڑانے کا مرکز بنا دیا۔ جگہ جگہ رلتے افراد کو مضبوط ہاتھوں سے کنٹرول اور علاج کر رہی ہے۔ والدین بے غم ہیں کیونکہ حکومت دردمندی سے قوتیں اور (نہایت محدود) وسائل لگاکر انہیں بحال کر رہی ہے۔ یہی اسلامی حکومت کہلاتی ہے، عوام کی خیرخواہ۔
سرحد پار سے صرف منشیات ہی نہیں، مسلمانوں کی حالتِ زار اور ہماری بے حسی بھی اذیت ناک ہے۔ مہاراشٹرا میں ڈیڑھ دو سو ہندو تیز دھار اسلحے، آہنی ڈنڈوں، گرینائٹ سے لیس ایک مسجد میں موجود نمازیوں پر پل پڑے۔ ہجوم نے نورالحسن، 31 سالہ نوجوان انجینئر کو آہنی راڈ سر پر مار مارکر خون میں نہلاکر قتل کیا۔ 14مسلمان زخمی ہوئے۔ قرآن اور دینی کتب جلائیں۔مسلمانوں کی ریڑھیوں، گاڑیوں پر حملے توڑپھوڑ کرکے لوٹا۔دہشت گردی کی انتہا کر دی۔ یہ نفرت انگیزی، یہ نسلی منافرت! دنیا مسلمان کے لیے اندھی ہو چکی حتیٰ کہ پورے مشرق وسطیٰ میں مسلسل خوفناک مظالم پر بے حسی، بے دردی حیرت انگیز ہے۔ امت بے حس ومفلوج ہوئی پڑی ہے۔ یہ آندھیوں سے اندھیروں کا اتحاد ہے کیا! زندگی کے آثار اب کسی درجہ بھارتی اپوزیشن میں نظر آ رہے ہیں۔ یا پھر معروف انصاف پسند بھارتی صحافی، لکھاری اور مصلح اروندھتی رائے مسلم حقوق کی پامالیوں پر مضبوط، برملا آواز ہے۔ اندھے بہرے گونگے بھارت میں مظلوم اقلیتوں کے حق میںوہ سب کہہ گزرتی ہیں۔ الجزیرہ ایسے معاملات بہت عمدہ رپورٹ کرتا ہے خواہ اس خطے میں کان پر جوں رینگے نہ رینگے! G-20اجلاس انسانی حقوق کے حوالے سے نہایت مایوس کن تاثر چھوڑ گیا ہے۔
موجودہ دنیا کے 20طاقتور ترین مودی کو مضبوط کرتے ہوئے کیا نہیں جانتے کہ ان کی آمد کے لیے 3لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔ صرف ان کی شان بڑھانے کوکتنے خاندان اجڑے، بے روزگار ہوئے، ان کی دو دن کی میزبانی کی قیمت ان کو بھوکا مار کر ادا کی گئی۔جھوٹے الفاظ لکھے جگمگا رہے تھے۔ G-20: ’ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل!‘ یہ ایک خاندان، گلوبل ویلیج کے عالمی لٹیرے حکمرانوں پر مبنی (بائیڈن، میکرون، مودی جیسے) گلا سڑا نظام ہے، جس میں دنیا بھر کی دولت پر قابض ایک فیصد، 99فیصد کی گردن پر جوتا رکھ کر جمہوریت کی جھوٹی راگنی گاتے ہیں۔
اروندھتی رائے سے G-20کی میزبانی اور اقلیتوں سے بدسلوکی بارے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: ’’میرا نہیں خیال کہ کسی کو بھی اس کی پروا ہے۔ یہاں ہر کوئی مواقع کی تلاش میں ہے۔ انہیں کوئی تجارتی، فوجی ساز وسامان کا معاہدہ/ سودا میسر آ جائے۔ جغرافیائی سیاسی افہام وتفہیم ہو جائے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں آنے والوں کو یہ پتا نہیں کہ بھارت میں کیا ہو رہا ہے۔مگر حکومتوں کے اپنے ہی ایجنڈے ہیں۔ سبھی کی آنکھیں ڈالروں سے چندھیائی ہوئی ہیں۔ وہ یہاں ایک ارب انسانوں کی بہت بڑی تجارتی منڈی دیکھ رہے ہیں۔ تاہم یاد رہے کہ جب ملک جنگ اور افراتفری کا شکار ہو جائے تو تجارت یا منڈی باقی نہیں رہتی۔بھارت کی خوبصورتی اور عظمت کو گہنا کر اسے ایک کف آلود حقیر، غراتی کیفیت لیے پرتشدد شے بنایا جا رہا ہے۔ جب لاوا پھٹے گا تو کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’ ہمیں صرف لیڈر شپ نہیں متعصب ہندوتوا عقیدے والی آبادی کے اس حصے سے بھی ڈرنا ہے جس نے سڑکوں گلیوں کو اقلیتوں کے لیے خطرناک بنا دیا ہے۔ ہم یکے بعد دیگرے دیوانگی سے بھرپور بدترین مظاہر دیکھ رہے ہیں۔ (جنوںکے خون میں ڈوبے ہوئے نہائے ہوئے!) سات سالہ بچے کے منہ پر برسائے جاتے ہندو بچوں کے تھپڑ۔ منی پور کی سول وار۔ جہاں برہنہ کی جانے والی عورت کو منی پور پولیس نے خود ہجوم کے حوالے کیا۔ لرزہ طاری کرنے والی ہے یہ واردات۔ مسلمانوں کو زندہ جلانے اور تشدد سے مار ڈالنے والے ہندو، مذہبی جلوسوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ حکومت نے ان 14(ہندو) مردوں کے معافی نامے پر دستخط کردیے جنہوں نے بلقیس بانو سے اجتماعی زیادتی کی تھی اور اس کے خاندان کے 14افراد کو قتل کیا تھا۔ اب یہ (قاتل) معاشرے کے باعزت افراد ہیں! (حالانکہ انہیں ملک کی سب سے بڑی عدالت نے عمر قید کی سزا دی تھی) اروندھتی کا کہنا تھا کہ ہم بہت خطرناک صورت حال سے دوچار ہیں۔‘‘
ہمیں پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے ہندوتوا کے اس چڑھتے امڈتے سیلاب کو سنجیدگی سے دیکھنا ہے۔ G-20میں عالمی حکمرانوں کے تضاد پر نظر رہے جو سیاسی اسلام پر تو بھڑک اٹھتے ہیں، سیاسی ہندوتوا اور صہیونیت بھرا اسرائیل محبوب اور آنکھوں کا تارا ہے۔ اپنا گھر اگر ہم نے سیاسی اور معاشی طور پر نہ سنبھالا، درست نہ کیا، افغانستان سے حقیقت پسندی سے معاملات نہ سدھارے تو مستقبل خدانخواستہ اندیشوں اور خوفناک خدشات میں گھرا ہے۔ کیا عجب ہے کہ چین تو افغانستان میں اپنا سفیرمتعین کرکے اسے تسلیم کرنے میں پہل کرلے اور مسلم پاکستان بجائے (تلافیٔ مافات کے) آگے بڑھ کر سفیر متعین کرنے کے ہرجائی امریکا کی خاطر پہلوتہی کر رہا ہے؟ بھارت کے مقابل کھڑے ہونے کو یہ ازبس لازم ہے۔ کفر ملتِ واحدہ ہے۔ مشرق وسطیٰ کے امراء ڈالر پرستی میں امت اور اخوت سے بے نیاز ہو چکے ہیں۔ یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم! محبت سے ملک بھر میں، بڑی محنت سے امریکا کی خاطر مولی لی گئی دشمنیوں کی رفوگری کی ضرورت ہے۔ آپریشن در آپریشن کرکے آبادیاں ہم نے اپنے ہاتھوں اجاڑیں۔ زخم زخم اپنوں کو، اتحاد وتنظیم میں پروئیں۔ دنیا پرست، خودپرست سیکولرازم سے نکل کر ایمانی سجدۂ سہو کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے دکھوں، بربادیوں کا علاج صرف خالق کے پاس ہے، کیونکہ پاکستان کا خالق بھی بس وہی ایک ہے! رہے نام اللہ کا!