(امیر سے ملاقات ) امیرسے ملاقات قسط 19 - محمد رفیق چودھری

7 /

عام آدمی اشارہ بھی توڑ دے توفوراًدوہزار کا چالان بھگتتا ہے جبکہ اربوں

کھربوں کی کرپشن کرنے والوں کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے ۔

لوگ بجلی کے بل ادا کریں ، پٹرول ڈلوائیں یا روٹی کا بندوبست کریں ۔

بالواسطہ ٹیکسز کے نتیجے میں سارا بوجھ عوام اُٹھا رہے ہیں جبکہ اشرافیہ

کے لیے ساری مراعات ہیںاور ان پر کوئی ٹیکس نہیں ہے ۔

بظاہر کرپشن ، ناانصافی ، آئی ایم ایف کی غلامی ، Badگورننس

ہماری تباہی کی وجوہات ہیں لیکن اگر ہم وحی کی نظر سے دیکھیں تو جس

وجہ سے ہم نے اللہ کے غضب کو دعوت دی ہے وہ اللہ کی نافرمانی ہے ۔

امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات

میز بان :آصف حمید

سوال: مہنگائی کا طوفان ہے ، بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور مزید بڑھیں گی ، یہ معاملہ ہمیں کہاں تک لے کر جائے گا اور کوئی نجات بھی ممکن ہے یا نہیں ہے ؟ کوئی بھی یہ خوشخبری نہیں سنا رہا کہ یہ سب کیسے کنٹرول ہوگا ۔ مزید قرض لیں گے تو مہنگائی مزید بڑھے گی ۔ کیا ہماری حالت اس نشئی کی نہیں ہے جو نشے میں اضافہ کرتا ہے، پھرپیسے مانگتا ہے، چوری کرتا ہے،گھر کے برتن اور چیزیں بیچتا اور نشہ لیتا ہے ۔ اس سے زیادہ ہم کچھ کر سکتے ہیں ؟
امیر تنظیم اسلامی: ہم نے تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے’’ بقائے پاکستان : نفاذِ عدل اسلام‘‘ کے عنوان سے تین ہفتے کی مہم 11 اگست سے 3 ستمبرتک چلائی ہے ۔ اس میں ہم نے اسی بات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام کے نظام عدل کو قائم کیا جائے ۔ عدل اسلام کا کیچ ورڈ ہے اور اللہ کے رسولﷺ کی تعلیمات میں بھی اس کی تعلیم کثرت سے ملتی ہے ۔ اگر آپ اس وقت ہمارے معاشرے کی صورت حال دیکھیں تو ایک طرف وہ لوگ ہیں جو ہمیں آٹے کی لائن میںمرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، بجلی کے بلوں کی وجہ سے ہارٹ اٹیک ہو رہے ہیں ، ایک بندہ بجلی کا بل دے یا اپنے بچوں کو روٹی کھلائے ۔ لوگ اس وجہ سے پریشان ہو کر خودکشیاں کر رہے ہیں ۔ اب معاملہ اس سے بھی آگے بڑھ گیا کہ لوگ بجلی کے بل ادا کریں یا پٹرول ڈلوائیں یا روٹی کا بندوبست کریں ۔ ستر اسی فیصد آبادی تو اسی کشمکش میں پڑ چکی ہے۔ دوسری طرف طبقہ اشرافیہ ہے جس کے لیے ساری مراعات ہیں ، حالات جیسے بھی ہوں ان کے لیے فوائد ہیں ۔ یہ عدم توازن ناانصافی اور ظلم ہے اور ظاہر ہے اس ظلم اور زیادتی کے نتائج بھی ہم پر مسلط ہیں ۔ اشرافیہ کی لوٹ مار اور کرپشن پر اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ عام آدمی اشارہ بھی توڑ دے تو دوہزار کا چالان فوراً ہو جائے گا لیکن اربوں کھربوں کی کرپشن کرنے والوں کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے ۔ پھر ان کو پلی بارگین کی سہولت بھی دے دی گئی ۔ اس کا سارا بوجھ عوام پر آتاہے ۔ بڑے بڑے جاگیر دار ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ زراعت پر کوئی ٹیکس نہیں ہے ۔یہ طبقاتی کشمکش بھی ہمارے ملک میں ہے ۔ بظاہر کرپشن ، ناانصافی ، آئی ایم ایف کی غلامی ، Badگورننس یہ سب ہماری تباہی کی وجوہات ہیں لیکن اگر ہم وحی کی نظر سے دیکھیں تو جس وجہ سے ہم نے اللہ کے غضب کو دعوت دی ہے وہ اللہ کی نافرمانی ہے ۔ سود کی وجہ سے ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺسے حالت جنگ میں ہیں۔ ہمیں  ظاہری اسباب تو نظر آتے ہیں ،بقول استاد محترم بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹراسرار احمدؒ ہماری ایک آنکھ کھلی ہوئی ہے اور وہ مادہ پرستی والی ،ظاہر کی چیزوں کو دیکھنے والی آنکھ ہے۔ ظاہر کی نفی ہم نہیں کرتے مگر اصل دیکھنے والی وحی کی آنکھ ہے ، وہ نگاہ اکثر و بیشتر ہماری بند ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںبتاتا ہے:
{ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ}(الروم:41) ’’بحر و بر میں فساد رونما چکا ہے‘لوگوں کے اعمال کے سبب‘‘
ایک اور جگہ فرمان الٰہی ہے:
{وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰی(124)} ’’اور جس نے میری یاد سے اعراض کیا تو یقیناً اُس کے لیے ہو گی (دنیا کی)زندگی بہت تنگی والی‘اورہم اٹھائیں گے اسے قیامت کے دن اندھا (کرکے)۔‘‘
اگلی آیات میں ہے کہ بندہ پوچھے گا کہ اے رب ! تونے مجھے اندھا کرکے کیوں اُٹھایا حالانکہ دنیا کی زندگی میں میں سب کچھ دیکھتا تھا۔اللہ فرمائے گا اسی طرح تیرے پاس ہماری آیتیں پہنچی تھیں پھر تو نے انھیں بھلا دیا تھا، اور اسی طرح آج تو بھی بھلایا گیا ہے۔ لہٰذا وحی کی آنکھ کہتی ہے کہ دنیا میں معیشت کی تنگی قرآن سے اعراض کی وجہ سے ہے۔ قرآن کی تعلیمات اپنا نفاذ چاہتی ہیں ۔ ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا ۔ اگر ہم قرآن کے احکام یہاںنافذ نہیں کرتے تو پھر ذلت و رسوائی ہمارا مقدر ہوگی ۔ اللہ فرماتا ہے سود کو چھوڑ دو لیکن ہم ڈنکے کی چوٹ پر سود کا دھندہ بڑھا رہے ہیں ۔ اللہ فرماتا ہے بے حیائی کو چھوڑ دو، ہم بے حیائی اور زنا کے نئے سے نئے راستے کھولتے چلے جارہے ہیں ۔ اللہ فرماتا ہے کہ پردے کے احکامات پر عمل کرو ،ہم دن بدن لباس سے اپنے آپ کو آزاد کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے نماز مقرر اوقات میں فرض ہے ہم گن کر پانچ کی پانچ ضائع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو، اللہ فرماتا ہے رشتہ دارکے ساتھ بھلا سلوک کرو، ملاوٹ نہ کرو ، حقوق العباد کو ادا کرو ۔ لیکن ہم ہر حکم کی خلاف ورزی کرتے چلے جارہے ہیں ۔ اسی خلاف ورزی کی وجہ سے اللہ نے پرانی قوموں کو سزائیں دی تھیں ۔ فرعون نے اسی طرح بنی اسرائیل کو معاشی ، سیاسی اور سماجی غلام بنایا ہوا تھا لہٰذا اللہ کا عذاب آیا ، شعیب ؑ کی قوم اسی طرح ناپ تول میں کمی کرتی تھی ، لوط ؑ کی قوم بے حیائی کے کاموں میں ملوث تھی تو اللہ نے عذاب بھیجا ۔ وحی کی نگاہ سے ہم دیکھیں گے تو ہمیں اپنی تباہی کی وجوہات نظر آجائیں گی ۔ لیکن ہم دیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ پھر اللہ کا کلام عوام کی کفالت کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیتاہے، جرائم کے خاتمے کے لیے سزاؤں کا حکم دیتا ہے، سود ، جوئے ، سٹے اور حرام کمائی کے تمام ذرائع کو حرام قرار دیتاہے ۔ اللہ کا کلام زکوٰۃ اور عشر کا حکم دیتاہے ، وراثت کی تقسیم میں عدل کا حکم دیتاہے ۔ اللہ کا کلام زر کے بارے میں کہتا ہے:
{کَیْلَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً م بَیْنَ الْاَغْنِیَـآئِ مِنْکُمْ ج} (الحشر:7) ’’تاکہ وہ تم میں سے مال داروں ہی کے درمیان گردش میں نہ رہے۔‘‘
اگر ہم ان احکامات پر عمل کرتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی ،قرآنی تعلیمات سے اعراض کرنا بلکہ اس کے خلاف کرنا یہ ہمارے وہ اجتماعی جرائم ہیں جن کی وجہ سے آج ان مصائب میں ہم مبتلا ہیں۔ آج ہم یہ تو دیکھتے ہیں کہ اگر آئی ایم ایف کو ناراض کر دیا تو مسئلہ خراب ہو جائے گا، اگر تین ارب ڈالر نہیں ملیں گے تو ہماری معیشت بیٹھ جائے گی ، اگر ہم نے ان کی ہاں میں ہاں نہ ملائی تو ہمارے بچے بھوکے رہ جائیں گے، ان کی ساری باتیں ماننے کے بعد کیا پاکستان میں دودھ کی نہریں بہہ گئی ہیں؟ کیا ہمارے بچوں کے منہ میں سونے کا نوالہ آ چکا ہے؟ کیا ہمارے گھروں کے اندر اے ٹی ایم مشینیں لگ گئی ہیں کہ جو پیسہ اُگل رہی ہیں ؟
وہ ایک سجدہ جیسے تو گراں سمجھتا ہےہزار سجدے سےدیتا ہے آدمی کو نجاتپھر اصل مسئلہ کیا ہے اس مملکت خداداد کو ہم نے لیا اللہ تعالیٰ کے نام پر ،بانی تنظیم اسلامیؒ فرماتے تھےکہ بقیہ اقوام میں سے کسی کی زبان ایک ہے ، کسی کا خطہ ایک ہے ، کسی کی نسل ایک ہے ، وہ ان بنیادوں پر کھڑی رہ جائیں گی مگر ہماری نہ تو زبان ایک ہے ، نہ نسل ایک ہے ، نہ کوئی تاریخی پس منظر ہے ، ان سب بنیادوں سے بالا تر ہو کر ہم نے کلمے کی بنیاد پر اس مملکت کو حاصل کیا تھا، جس کا نام رکھا اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ جب تک اس اصل کی طرف نہیں لوٹیں گے ہمارے حالات سدھرنہیں سکتے۔اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کی بڑی پیاری حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: تمہارے اول اور آخر، تمہارے جنات اور انسان تمام کے تمام کسی چٹیل میدان میں کھڑے ہوں اور مجھ سے مانگیں،میں ہر ایک کو اس کے مانگنے کے مطابق سب کچھ عطا بھی کر دوں تو میرے خزانوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی بس اتنی کہ کوئی سمندرمیں سوئی ڈبو کرباہر نکال لے ۔ ( مسلم شریف) اللہ کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں، اللہ کے لیے پاکستان کے چوبیس کروڑعوام کے مسائل کو حل کرنا کوئی مسئلہ نہیں ۔ایشویہ ہے کہ ہم پلٹنے کو تیار ہیں کہ نہیں، ہم اللہ کی طرف رجوع کرنے کو تیار ہیں کہ نہیں۔ ظاہر کے اسباب بجا ہیں لیکن ان اسباب میں کوئی تاثیر نہیں جب تک کہ مسبب الاسباب کی اجازت نہ ہو، جس نے آج یہ حالات ہم پر مسلط کیے ہمارے گناہوں کی وجہ سے وہ اللہ ان حالات کو بدل دینے پر بھی قادر ہے مگر اُس اللہ کی طے کردہ کچھ شرائط ہیں۔ ۔ پہلی شرط اجتماعی توبہ ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ہم نے76 برس پہلے وعدے کیے تھے کہ اللہ تیری زمین پر تیرے کلمے کو سر بلند کریں گے ۔ اگر ہم اللہ کے دین کی نصرت کی طرف آتے تو ہمارے حالات سدھر جاتے ۔ تواللہ قرآن میں فرماتا ہے:
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(7)} (محمد)’’اے اہل ِایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔‘‘
آج سیاست کا بیڑا غرق، معیشت کا ستیاناس ،معاشرت کا بگاڑاپنی انتہا پر ہے ۔ اللہ کہتا ہےمیںتمہارے قدموں کو مضبوطی سے جما دوں گا اگر تم میرے دین کی نصرت کی طرف آؤ اور اللہ تعالیٰ اس کی برکات بھی بیان فرماتا ہے:
’’اور اگر انہوں نے قائم کیا ہوتا تورات کو اور انجیل کو اور اس کو جو کچھ نازل کیا گیا تھا ان پر اِن کے رب کی طرف سے‘تو یہ کھاتے اپنے اوپر سے بھی اور اپنے قدموں کے نیچے سے بھی۔‘‘ (المائدہ:66)
آج تورات اور انجیل تو مستند کتابیں نہیں، قرآن آج مستند کتاب ہے ۔ اللہ کہتا ہے آسمان سے بھی برکتیں عطا کروں گا، زمین سے بھی برکتیں عطا کروںگا اگر تم الکتاب کے نفاذ کی طرف آؤ ۔ پھر ہم مسلمان ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بھئی کافروں کو بھی تو ملا ہوا ہے۔ بھئی کافروں کے لیے شرائط الگ ہیں ان کے لیے دنیا ہے ، آخرت نہیں ۔ تم مسلمان ہو ، قرآن کریم کو ماننے کے دعویدار ہو ،محمد مصطفیٰ ﷺ کے نام لیوا ہو تو اگر واقعی ایمان ہے تو اس کا عمل سے ثبوت پیش کرو ۔ اللہ کے دین کے ساتھ ہم مخلص ہوں گے تو ہمارے مسائل حل ہو ں گے ،اس سے کمتر پر نہیں ہوں گے۔ اللہ نے دنیا کانظام کچھ اسباب پر رکھا ہے ، عربی میں کہتے ہیں: (مَنْ جَدَّوَجَدَ)’’جس نے محنت کی اس نے پا لیا ۔‘‘ کچھ بنیادی اخلاقیات ہیں۔ جن کے فوائد دنیا لیتی ہے۔ لیکن عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس جو تعلیمات ہیں ان پر عمل کریں ۔
سوال: ڈاکٹر اسراراحمد صاحبؒ نے اپنی زندگی میں اپنے بیٹے حافظ عاکف سعید کو امیر کیوں بنایا؟(زبیر عالم ، کراچی)
امیر تنظیم اسلامی:اس کا جواب ہماری ویب سائٹ پر آپ کو مل جائے گا ان شاء اللہ ۔ اصل میں اس سوال کے پیچھے عام سوال یہ اٹھتا ہے کہ بھائی آپ بات کرتے ہیں خلافت کی اور آپ کے ہاں تو ملوکیت آگئی کہ والد کے بعد بیٹا امیر بن گیا۔ماضی میں جو ملوکیت اور بادشاہت کے تصورات مسلمانوں کی تاریخ میں رہے اس کے تناظر میں یہ بات آتی ہے۔ اس میں پہلی بات یہ ہے کہ تنظیم اسلامی غلبہ دین کی جدوجہد کی کوشش کر رہی ہے،کوئی بادشاہت یہاں پر نہیں ہے، وہ تو کوئی امیر سے پوچھے نا کہ اس بیچارے پر کیا کچھ بیت رہی ہوتی ہے ۔ دوسری بات یہ کہ ڈاکٹر اسرار صاحبؒ نے تنظیم کے سینئر ترین رفقاء سے برسوں کی مشاورت کے بعد ، استخارہ کرنے کے بعد2002ء میں اپنے عوارض اور دیگر وجوہات کی بناء پر محترم حافظ عاکف سعید صاحب کو تنظیم اسلامی کا امیر مقرر کیا اورخود وفات (2010ء)تک ان کی زیر امارت رہے۔تیسری بات یہ ہے کہ محترم عاکف سعید صاحب ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے صاحبزادےنمبر دو ہیں لہٰذا بادشاہت والا تصور تو ہٹا دیجیے ۔ چوتھی بات یہ ہے کہ اگر باپ نیکی پر ہو تو کیا وہ نہیں چاہے گا کہ اولاد بھی نیکی پر ہو، بلکہ اس سے آگے بڑھے اور اس کے لیے صدقہ جاریہ بنے۔ اللہ کے پیغمبروں نے تو اولاد مانگی ہے ، حضرت زکریا  ؑ نے اولاد مانگی تاکہ نبوت کا جو نوراللہ نے عطا فرمایا وہ جاری رہے۔ ابراہیم ؑ اور دیگر انبیاء کرام ؑ نے دعائیں کیں ۔ اگلی بات ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ہمیں مشاورت کی تعلیم فرمائی ۔ ہماری تنظیم کے دو بہت ہی بزرگ اور سینئر ساتھیوںنے یہ بات ڈاکٹر صاحبؒ کے سامنے رکھی کہ اگر تو آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا یہ بیٹا اہل ہے تو اللہ پر توکل کریں، مشاورت کریں، استخارہ کریں اور فیصلہ کردیں ، اس کے علاوہ تنظیم کے دیگر رفقاء سے بھی رائے لی گئی ۔ بعدازاں ثابت بھی ہوگیا کہ یہ فیصلہ درست تھا اور تنظیم کے حق میں موزوں تھا ۔ اس کے بعد آپ کے علم میں ہے کہ یہ ذمہ داری پھرگزشتہ تین برسوں سے میرے کاندھوں پر ہے ۔
سوال: کیا تنظیم اسلامی کی بیعت میں کل اختیار امیر کے پاس ہوتا ہے اور وہ شوریٰ کےمشورے کو ایک طرف رکھ کر اپنا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ ایسا ہے تو شوریٰ کیوں قائم کی گئی ہے؟ اور یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ جواختیار امیر تنظیم کو حاصل ہے وہی اختیار مقامی امیر کو بھی حاصل ہے؟
امیر تنظیم اسلامی: امیر تنظیم کے بعد ایک سینٹرل ایگزیکٹیو باڈی ہوتی ہے جسے ہم مرکزی عاملہ کہتے ہیں ۔ اس کے بعد پورے پاکستان میں بیس حلقہ جات ہیں ، ہر حلقے کا ایک امیر ہوتا ہے۔ حلقہ کے تحت پھر مقامی تناظیم ہوتی ہیں جن کے امیر کو مقامی امیر کہا جاتاہے ۔ امیرجب کوئی فیصلہ کرتاہے تو وہ پہلے سب سے مشاورت کرتاہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نےحضور ﷺ کو بھی مشاورت کا حکم دیا ہے ۔
{وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِج}(آل عمران:159) ’’اور معاملات میں ان سے مشورہ لیتے رہیں۔‘‘
حالانکہ حضورﷺ پر تو وحی آتی تھی ۔ آپﷺ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں تھے لیکن چونکہ اُمت کے اجتماعی نظم کو ایک بنیادی اُصول دینا مقصود تھا اس لیے یہ حکم دیا گیا ۔ لہٰذا اب قیامت تک جو بھی امیرہو گا تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا لازم ہے کہ وہ مشاورت سے معاملات کو لے کر چلے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : {وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ ص}(الشوریٰ:38) ’’اور ان کا کام آپس میں مشورے سے ہوتا ہے۔‘‘
مشورہ دینے والے مشورہ دیں گے جب ان سے مشورہ مانگا جائے البتہ آل عمران کی آیت159 میں ہی یہ ذکر ہے:
{فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط} ’’پھر جب آپ ؐفیصلہ کر لیں تو اللہ پر توکل کریں۔‘‘
یعنی امیر مشورے کی سنت پر عمل کرےالبتہ فیصلے کا اختیار امیر کا ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا تنظیم کے امیر کو یہ اختیار ہے کہ پوری شوریٰ کو ایک طرف رکھ کر وہ فیصلہ کر لے؟ اس حوالے سے بھی ہمارے لیے اُسوئہ رسول اللہ ﷺ کی سنت میںہے ۔ حضور ﷺ صحابہ کرامj سے رائے لیتے تھے ، جو رائے زیادہ بھلی معلوم ہوتی تھی اس پر عمل کرتے۔ یہ منطقی بات ہے کہ پچاس افراد جب کوئی رائے دیں گے تو ان میں سے کسی ایک رائے پر ہی فیصلہ ہوگا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امیرمشاورت کے بعد اپنی کسی بہتر رائے پر پہنچ جائے ۔ اس کے بعد رفقاء کے لیے لازم ہوگا کہ وہ امیر کی اطاعت کریں ۔فیصلہ وہاں نہیں مانا جائے گا جہاں معصیت کا حکم ہو۔ مشاورت میں خیر و برکت ہے، مشاورت ہونی چاہیے لیکن امیر کو فیصلے کا اختیار شریعت نے دیا ہے ۔دنیا کے ہرادارے میں یہی اصول ہے ۔ اجلاس ہوتے ہیں ، مشاورت ہوتی ہے لیکن فیصلہ بہرحال ٹاپ اتھارٹی کا ہی مانا جاتاہے ۔ اگر ہر کوئی اپنا فیصلہ نافذ کرنے لگ جائے تو پھر دنیا کا نظام تلپٹ ہو جائے گا ۔ آپ نماز کی مثال لیجیے۔ ایک امام مقرر ہوتا ہے اور باقی اس کی اقتداء  کرتے ہیں ۔ اگر وہ غلطی بھی کرتا ہے تو غلطی میں شامل رہتے ہیںاور سجدہ سہو بھی آخر میں کرتے ہیں۔ اب کوئی کہے نہیں جی اس نے غلطی کی میں تو جا رہا ہوں تو یہ بات نہیں ہوتی ۔
سوال: تنظیم اسلامی نظام خلافت کی بات کرتی ہے اور تبدیلی کے لیے انتخاب کی جگہ انقلاب کا نعرہ لگاتی ہے۔ اس کے باوجود تنظیم اسلامی الیکشن اور جمہوریت کی حمایت کیوں کرتی ہے؟( ابو عبدالاحد،لاہور)
امیر تنظیم اسلامی: بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسراراحمد ؒ نے تبدیلی یا انقلاب کے لیے منہج انقلاب رسول ﷺکاانتخاب کیا ہے ۔ اس حوالے سے ان کا کتابچہ بھی موجود ہے جس کا عنوان ہے رسول انقلاب ﷺ کا طریق انقلاب ۔ اس منہج کے مطابق ہم انتخاب کی بجائے انقلابی تحریک کی بات کرتے ہیں ۔ البتہ تحریک چلانے والے منظم ہوں ،ایک امیر کی اطاعت پر کاربند ہوں اور اپنی ذات کی حد تک ممکنہ حد تک وہ شریعت پر عمل پیرا ہوں۔ وہ صبراور تربیت کے مراحل سے گزرے ہوں ۔ یہ منظم جماعت ایک تحریک برپا کرنے کے لیے آگے بڑھے ۔تنظیم اس بات کی داعی ہے لیکن سوال آپ نے کیا کہ پھر تنظیم الیکشن اور جمہوریت کی بات کیوں کرتی ہے ۔ اس حوالے سے بھی محترم ڈاکٹر اسراراحمدؒ  کا ایک کتابچہ اسلام اور پاکستان کے عنوان سے موجود ہے۔اس میں  ڈاکٹر صاحب نے واضح کیا ہے کہ جب تک انقلاب برپا نہیں ہوجاتا تب تک پاکستان میں جمہوریت رہنی چاہیے ، الیکشن ہوتے رہنے چاہئیں تاکہ نظام چلتا رہے ۔ نظام کو چلانے کے لیے ہمارے پاس دو ہی طریقے ہیں یا تو آمریت ہے یا پھر جمہوریت ہے ۔ ڈاکٹر صاحبؒ یہ کہتے تھے کہ بد سے بد تر جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے ۔ اس لیے کہ الیکشن ہوں گے عوام اپنے نمائندے منتخب کریں گے تو عوام کا اعتماد بنا رہے گا ۔ ورنہ آمریت کے ذریعے عوام کا گلا گھونٹا گیا تو لاوا پھٹ سکتا ہے ۔ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے تھے کہ آمریت میں نفرت اور غصہ جنم لیتا ہے ، چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے ، تعصبات سر اُٹھاتے ہیں ۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ جب تک انقلاب برپا نہیں ہوجاتاہے ، نظام بہتر طریقے سے چلتا رہے اور اس دوران ہمیں اقامت دین کی دعوت کو پھیلانے کا موقع ملتا رہے گا ۔ جمہوریت ہوگی تو ہمیں بھی اپنی بات کھل کر عوام تک پہنچانے کا موقع زیادہ ملے گا ۔ ہم انقلابی جدوجہد کے لیے لوگوں کی ذہن سازی کر سکیں گے ۔ لیکن ہمارا اصولی مؤقف یہ ہے کہ انتخابی سیاست کے ذریعے چلتا ہوا نظام چل تو سکتا ہے لیکن بدل نہیں سکتا۔نظام کو بدلنے کے لیے انقلاب کا راستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔ ڈاکٹر صاحبؒ یہ بھی فرماتے تھے کہ پاکستان بچے گا تو انقلاب بھی آئے گا، اگر پاکستان ہی نہ رہا تو ہم انقلاب کہاں لائیں گے ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سالمیت کے لیےآمریت کے مقابلے میں جمہوریت بہتر ہے ۔ ہم یہ تجزیہ ضرور کرتے ہیں مگر ہمارا اصل مقصد اقامت دین کی جدوجہد ہے ۔
سوال: ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے تھے کہ جب ایک منظم جماعت تیار ہو جائے تو اس کے بعد باطل نظام کے خلاف کھڑے ہونا فرض ہے ، کیا تنظیم اسلامی ابھی اس درجےکو نہیں پہنچی؟ اس سے میرا مقصد تنقید ہرگز نہیں ہے، تنظیم میں شمولیت کے لیے اپنی تسلی چاہنا ہے ( عظمت ، فیصل آباد)
امیر تنظیم اسلامی:بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹراسراراحمد ؒ اپنے خطبات میں کم و بیش دو لاکھ کی تعداد کا ذکر کرتے تھے کہ اتنے تربیت یافتہ اور منظم افراد تیار ہو جائیں تو اس کے بعد تحریک برپا ہو سکتی ہے ۔ اس قدر تعداد اس لیے ضروری سمجھی گئی تاکہ وقت کے حکمران ان کو مارنے یا گرفتار کرنے سے پہلے سوچیں کہ ہم کتنوں کو ماریں گے اور کتنوں کو گرفتار کریں گے ۔ البتہ سچی بات یہ ہے کہ یہ تعداد کوئی قرآن میں مقرر تو نہیں کی گئی کہ اتنی ہی تعداد ہوگی تو ہم تحریک برپا کریں گے ۔ اصل مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے حصے کا کام کریں ، عیسیٰ ؑ نے فرمایا تھا کہ میں آنے والے دور ( نبی اکرم ﷺکے دور ) کے لیے راستے کو صاف کررہا ہوں ۔ لہٰذا تعداد کو ایک طرف رکھ کر ہمیں سوچنا چاہیے کہ اللہ کا بندہ ہونے کے ناطے ، رسول اللہ ﷺ کا امتی ہونے کے ناطےاللہ کے دین کے قیام کے لیے میں کیا کررہا ہوں ؟کیا اقامت دین کی جدوجہد مجھ پر فرض نہیں ہے ؟ اس فرض کی ادائیگی کے لیے ہمیں ایک جماعت کی ضرورت ہوگی کیونکہ اکیلے ہم یہ کام نہیں کر سکتے ۔ وہ جماعت بیعت کی بنیاد پر ہو تو پھر مجھے نہ دس ہزار کی فکر کرنی ہے ،نہ دو ہزار کی فکرکرنی ہے، نہ دو لاکھ کی فکر کرنی ہے ، مجھے یہ فکر کرنی ہے کہ اگر آج میری موت واقع ہوگئی تو میں کل اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا۔
سوال:جب تنظیم کے ارکان اور رفقاء کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو جائے گا اور یہ جماعت اس قابل ہو جائے گی کہ منکرات کو روکے اوریکون الدین کلہ للہ پر عمل کر سکے تو کیا باطل حکومت اپنی حفاظت کے لیے تنظیم کو کالعدم نہ کر دے گی ؟(محمد بن حامد،انڈیا)
امیر تنظیم اسلامی: اللہ تعالیٰ قرآن میں  فرماتا ہے: {وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہُ طوَاللہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ(54)} (آل عمران) ’’اب انہوں نے بھی چالیں چلیں اور اللہ نے بھی چال چلی۔اور اللہ تعالیٰ بہترین چال چلنے والا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کیا کہ نبی اکرم ﷺ کو ہر ہر لمحے کی خبردے دی کہ فلاں دن یہ ہوگا ، فلاں دن یہ گا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ضروری اور بنیادی ہدایت دے دی اور اس کے بعد حضورﷺ نے خود بھی اجتہادات کیے ۔ ان کی توثیق اللہ کی طرف سے بھی آتی رہی ۔ہم واقعات پڑھتے ہیں کہ حضورﷺ پر طائف والے اپنا دروازہ بند کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ یثرب کا دروازہ کھول دیتاہے ۔ آج ہم بھی سیرت النبی ﷺ سے روشنی لیتے ہوئے ممکنہ حد تک اپنے فہم کو استعمال کریں گے ، اللہ پر توکل کریں گے اور پھر اگر باطل کی طرف سے کچھ تکالیف آنا ہمارے مقدر میں لکھا ہے تو اس کو کوئی روک نہیں سکتا۔ حضور ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے ۔
((اللهم لا مانع لما أعطيت،‏‏‏‏ ولا معطي لما منعت،‏‏‏‏ ولا ينفع ذا الجد منك الجد)) ’’اے اللہ جو تو عطا کرے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو روکے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی نصیبہ ور کا نصیبہ تیرے مقابلہ میں اسے نفع نہیں پہنچا سکے گا ۔ ‘‘
ہم اولاً پاکستان میں محنت کرنا چاہتے ہیں ۔ یہاں ایک عظیم اکثریت مسلمانوں کی ہے اور جن کے ہاتھ میں اختیار اور اقتدار ہے وہ بھی کلمہ گو مسلمان ہیں۔ کیوں نہ ہم ان کو ہی دعوت دیں جن سے ہمیں خطرہ ہے کہ وہ ہمارا راستہ روکیں گے ۔ جس طرح نبی اکرم ﷺ نے حضرت عمرؓ کو مانگا تھا ۔وہی تلوارجو اسلام کی دشمنی میں نکلی تھی وہ اسلام کے دفاع میں استعمال نہیں ہوئی ؟ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے دعوت کے پیش کرنے میں کمی ہے اور جتنا دین ہمیں معلوم ہے اور جتنے دین پر ہم عمل کر سکتے ہیں خدا کی قسم اس پر عمل کرنے میں ہماری کوتاہی ہے اس لیے اللہ کی نصرت شامل حال نظر نہیں آ رہی۔لہٰذا دعوت کا کام بھی کیجئے اور اپنے عمل اور کردار کی گواہی بھی پیش کیجئے ،دلوں کو بدلنے والی ذات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ہے، جب تک کوئی بالفعل اقدام کا مرحلہ نہیںآتا تب تک یہ دعوت کا عمل، دلوں کو اللہ کی طرف متوجہ کرنے کا عمل، قرآن حکیم سے جوڑنے کا عمل تسلسل کے ساتھ جاری رہنا چاہیے ۔ یہ ہم نے پاکستان کے معروضی حالات کےتناظر میں تجزیہ کیا ہےالبتہ ایسے ممالک جہاں مسلمان آباد ہیں اور وہاں اکثریت غیر مسلموں کی ہے اقتدار غیر مسلموں کے ہاتھ میںہے وہاں تجزیہ مختلف ہوگا۔کسی اور موقع پراس حوالے سے تجزیہ کریں گے ان شاءاللہ ۔
سوال:توہین صحابہ ؓ کیا ہے وضاحت فرمائیے ؟ ( محمد عبداللہ ، سیالکوٹ)
امیر تنظیم اسلامی:یہ ایک تفصیل طلب مسئلہ ہے ۔ حال ہی میں اس حوالے سے ایک بل بھی اسمبلی میں آیا ہے ۔ صدر مملکت نے اس کو واپس کر دیا ۔ اس پر کچھ لوگوں کی طرف سے کچھ اعتراضات پیش کیے گئے ہیں۔ حالانکہ اس بل کا اصل مقصد یہ تھا کہ مقدسات کی توہین نہ ہو۔ آئین کے آرٹیکل 295 میں اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں اور کتابوں کے تقدس کے تحفظ کی بات تو پہلے سےموجود ہے۔ انبیاء کرام ؓ کے بعد افضل ترین جماعت صحابہ کرام ؓ کی ہے جن میں اہل بیت بھی شامل ہیں ۔ ان کے احترام و ادب کا معاملہ بھی ایمان کا حصہ ہے ۔ ہر جمعہ کے خطبہ میں ہم پڑھتے اور سنتےہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تم میں سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں،پھروہ جوان کے قریب ہوں،پھر وہ جوان کے قریب ہوں۔اس کے بعد ایک اور حدیث میں فرمایا : ’’میرے بعد میرے صحابہ کرام ؓ کے بارے میں اللہ سے ڈرنا اور ان کو ہدفِ ملامت نہ بنانا‘اس لیے کہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھنے کی وجہ سے ان سے بغض رکھا۔
ماضی میں ہم نے دیکھا کہ پاکستان کے اندر کچھ شریر قسم کے لوگوں کی طرف سے مقدسات کی توہین کی گئی اور مقدسات سے اس وقت میری مراد صحابہ کرام ؓ ہیں ۔ یہ ہمارے لیے انتہائی ناقابل برداشت ہے۔ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ط} (البینہ:8) ’’اللہ ان سے راضی ہو ا اور وہ اس سے راضی ہوئے ۔‘‘
جن ہستیوں کےبارے میں اللہ سابقون الالون کے الفاظ استعمال فرماتا ہے۔ جن ہستیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :{فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اہْتَدَوْاج }(البقرۃ:137) ’’پھر (اے مسلمانو!) اگر وہ (یہودو نصاریٰ) بھی اُسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لائے ہو‘تب وہ ہدایت پر ہوں گے۔‘‘
جن کے ایمان کو اللہ معیار قرار دیتاہے۔ قرآن حکیم اور احادیث میں جا بجا صحابہ کرام ؓ کی عظمت کا بیان ہے ۔ تمام صحابہ ؓ کے بارے میں اہل سنہ والجماعت کا عقیدہ ہے کہ سب کے سب برابر ہیں ۔ اگرچہ وہ انبیاء کرامf کی طرح معصوم نہیں ہیں ، ان سےاگر خطا ہوئی بھی تو وہ اجتہادی نوعیت کی خطا ہےاور اجتہادی نوعیت کی خطا پر بھی اللہ کی طرف سے ان کے لیے معافی کا اعلان ہے ۔ پھر ان کے درمیان اگر کوئی تنازع کا معاملہ ہوا تو اس کے بارے میں اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ اس پر خاموشی اختیار کی جائے ۔عقائد کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ان پر لعن طعن کرنا ،ان کے لیے برے الفاظ استعمال کرنا حرام ہے ۔ تنظیم اسلامی کےتحت تعارف تنظیم اسلامی کے عنوان سے ایک معروف کتابچہ شائع ہوتاہےجس میں  عقائدکے بیان میں توحید ،رسالت ،آخرت، فرشتوں اور کتابوں پر ایمان کا ذکر ہے اور اسی کے ذیل میں تقدیر کا مسئلہ اور صحابہ کرام ؓ کے تعلق سے کلام ہے ۔ ہماری ویب سائٹس پر بھی اس حوالے سے تفصیلات مل جائیں گی ۔ اللہ کے رسول ﷺنےفرمادیا کہ جس نے میرے صحابہؓ سے بغض رکھا اس نے گویا مجھ سے بغض رکھا تو آپ ﷺ سے بغض رکھنے والے کا انجام واضح ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ تم میری سنت پر عمل کرنا ، اس کے بعد میرے خلفاء راشدین اور میرے صحابہؓ کی سنت پر عمل کرنا۔ مولانا ابو الکلام آزادؒ نے بڑی پیاری بات کہی تھی کہ اگر آپ نے کتاب و سنت کو سمجھنا ہے ، اس کی عملی شکل دیکھنی ہے ، کتاب وسنت کی تعلیم پر مبنی معاشرہ کو دیکھنا ہے تو صحابہ کرام ؓ کی شاگردی اختیار کر لو۔