(اداریہ) امریکہ، چین سرد جنگ - ایوب بیگ مرزا

7 /

 

امریکہ، چین سرد جنگ

امریکہ چین سرد جنگ تیز سے تیز تر ہوتی ہوئی خطرناک صورتِ حال اختیار کرتی جا رہی ہے۔ مسئلہ کیا ہے؟ درحقیقت امریکہ جو 80 سال سے اقتصادی اور عسکری سطح پر نمبرون عالمی قوت ہے، وہ اگلی صدی میں بھی ہر صورت اپنی یہ پوزیشن برقرار رکھنا چاہتا ہے جبکہ چین جس نے ترقی کا سفر 1950ء سے شروع کیا تھا، انتہائی سرعت سے آگے بڑھ رہا ہے اور جلد از جلد امریکہ سے یہ پوزیشن چھین لینا چاہتا ہے۔ لہٰذا ان دوہاتھیوں کے درمیان اس حوالے سے زبردست جنگ جاری ہے اور پاکستان جیسے پسماندہ ممالک بُری طرح کچلے جا رہے ہیں۔
فی الوقت اقتصادی سطح پر صورتِ حال یہ ہے کہ امریکہ تقریباً پچیس کھرب ڈالر کی اکانومی ہے اور چین ساڑھے اٹھارہ کھرب ڈالر کی اکانومی ہے۔ اس لحاظ سے ابھی کافی فرق ہے اور عسکری لحاظ سے قوت کا فرق اس سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن یہ بھی خیال رہے کہ باریک بین تجزیہ نگاروں کو امریکہ پر بڑھاپے اور زوال کے کچھ اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔ جبکہ چین بلندیوں کی طرف سفر طے کر رہا ہے اور اُس پر تازگی کے اثرات نمایاں ہیں۔ جس سے امریکہ گھبراہٹ کا شکار ہے۔ چین کے BRI یعنی Belt & Road Initiative منصوبے نے امریکہ کی راتوں کی نیند حرام کر دی ہے۔ CPEC یعنی China Pakistan Economic Corridor اسی بڑے منصوبے کا ایک اہم حصہ ہے جس کا ایک عرصہ سے آغاز ہو چکا ہے۔ BRI اگر کامیابی کے مراحل طے کر لیتا ہے تو چین اپنے مقاصد پالے گا۔ لیکن امریکہ بڑی کامیابی کے ساتھ اُس کے راستے میں بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔ پاکستان اور چین کی دوستی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ شہد کی طرح میٹھی، کوہ ہمالیہ کی طرح بلند و بالا اور سمندر کی گہرائی جیسی گہری ہے اور پاکستان CPEC بڑی کامیابی سے آگے بڑھا رہا تھا، لیکن پھر پہلے مرحلہ میں CPEC پر کام slowdown کرایا گیا۔ بعدازاں اس گہری دوستی پر 2022ء میں ایک خوفناک شب خون مارا گیا جس سے پاکستان مشرق سے اچھل کر مغرب میں جاگرا۔ اُدھر چین اور روس جن کے درمیان دو تین دہائیاں پہلے اچھی خاصی چشمک تھی اُن میں نہ صرف دوستی ہوگئی بلکہ وہ امریکہ کے خلاف اتحادی بن گئے۔
امریکہ یوکرائن میں دخل اندازی کرکے اُسے نیٹو کارکن بنانا چاہ رہا تھا تاکہ اُسے روس کی بغل میں رسائی حاصل ہو جائے۔ روس نے چین سے طویل مشورہ کے بعد یوکرائن پر حملہ کر دیا۔ اب امریکہ روس یوکرائن جنگ کو طویل کر کے روس کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے اور روس اپنے اس حملے کو اس حوالے سے کامیاب سمجھتا ہے کہ یوکرائن کو نیٹو کارکن بنانے کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے اس ماحول اور پس منظر میں بھارت میں G-20 کانفرنس کا انعقاد ہوا ہے۔ اس کانفرنس سے درحقیقت ورلڈ آرڈر قائم کرنے والوں کا دائرہ بڑھایا گیا ہے۔ پہلے G-7 یہ کام کرتا تھا، اب G-20 کو اعتماد میں لیا گیا ہے۔ چین اور روس نے اس کانفرنس کا بائیکاٹ کرکے اس کی اہمیت اور اثرات کم کرنے کی شعوری کوشش کی ہے۔ امریکہ نے اس کانفرنس میں بھی چین کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی ہے اور چین کے BRI منصوبے کے مقابلے میں سعودی عرب کے ذریعے IMEC یعنی India Middle East Europe Economic Corridor کا منصوبہ پیش کر دیا ہے تاکہ چینی منصوبے کو ناکام بنایا جائے یا کم از کم پیچھے دھکیل دیا جائے۔
اس وقت سعودی عرب کی پالیسی خاصی ناقابل فہم ہے ایک طرف وہ چین کی وساطت سے ایران سے تعلقات بحال کر رہا ہے اور دوسری طرف چین کے مقابلے میں امریکہ کا ایک پراجیکٹ لانچ کرکے اُس کا یوں ساتھ دے رہا ہے۔ لگتا ہے سعودی عرب دونوں طرف کھیل رہا ہے۔ ہماری رائے میں سعودی عرب کو یہ طرزِ عمل مہنگا پڑ سکتا ہے۔ امریکہ کی کسی مسلمان ملک سے دوستی اُس مسلمان ملک کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ محمد بن سلمان کا فوکس نیوز کو جو خالصتاً صہیونیوں کی سرپرستی میں کام کر رہا ہے۔ انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہنا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کی بحالی میں روزانہ کی بنیاد پر پیش رفت ہو رہی ہے۔ ہماری رائے میں یہ سوچ اسلام کے نقطہ نظر سے اور فلسطین کاز سے غداری کے مترادف تو ہے ہی کیونکہ یہ خالصتاً مادی اور دنیوی سوچ ہے۔ جس کا آج کے مسلمان حکمرانوں کے ذہنوں پر غلبہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ خود سعودی عرب کی سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی خطرناک ہے۔ سعودی عرب کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسرائیل کا اصل ایجنڈا جو اُن کے ایمان کا حصہ بھی ہے، وہ گریٹر اسرائیل کا قیام ہے۔ جس میں مدینہ منورہ سمیت سعودی عرب کی اچھی خاصی سرزمین شامل ہے اور اسرائیل اپنے اس ایجنڈے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ امریکہ اسرائیل کا حقیقی سرپرست ہے۔
جہاں تک IMEC کا تعلق ہے امریکہ کا اصل مقصد چین کو آگے بڑھنے سے روکنا ہے اور چونکہ بھارت اور چین کے تعلقات بھی اچھے نہیں ہیں اور بھارت علاقے کی ایک بڑی طاقت بھی ہے لہٰذا امریکہ بھارت کو استعمال کر رہا ہے۔ لیکن بھارت اس کی پوری قیمت وصول کر رہا ہے بلکہ بھارت تو اس غلط فہمی کا شکار ہوگیا ہے کہ مڈل ایسٹ میں جس طرح اسرائیل امریکہ کے لیے ناگزیر ہے بلکہ بقول’’ امریکہ کے اسرائیل کا دفاع امریکہ ہی کا دفاع ہے‘‘ اسی طرح بھارت سمجھتا ہے کہ ایشیا میں امریکہ کے لیے وہی حیثیت بھارت کو حاصل ہے۔ ہماری رائے میں وہ خود کو over-estimateکر رہا ہے۔ امریکہ بھارت دوستی، چین سے دشمنی اور اینٹی اسلام ہونے کی وجہ سے ہے۔ کل کلاں اگر امریکہ کی ضروریات بدلتی ہیں تو وہ بھارت کو گھاس نہیں ڈالے گا۔ بھارت نے اسی زعم میں کینیڈا میں سکھ لیڈر کو قتل کروا دیا ہے۔ کینیڈا نے اس معاملے کا شدید نوٹس لیا ہے۔ وہ اسے اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت اور اپنی سر زمین پر دہشت گردی کا ارتکاب سمجھتا ہے۔ بھارت کا خیال ہے اس حوالے سے بھی امریکہ اُس کی پشت پناہی کرے گا، لیکن فی الحال بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ اگرچہ ہم سمجھتے ہیں کہ بالآخر امریکہ بھارت کو ریلیف دلا دے گا لیکن امریکہ ہرگز فری لنچ کا قائل نہیں۔ وہ وقت آنے پر بھارت کا بازو مروڑے گا اور اس فیور کی قیمت وصول کرے گا۔ اس لیے بھی کہ اگرچہ بھارت خطے میں امریکہ کے دوست اور اتحادی کا رول ادا کرتا ہے لیکن مختلف مواقع پر اڑی (نہ ماننے کی ضد) بھی کر تا ہے۔
قصۂ مختصر دنیا ایک بار پھر واضح طور پر دو (2) بلاکس میں تقسیم ہوگئی ہے۔ امریکہ اور یورپ ایک طرف ہیں اور ہمارے خطے میں بھارت اُن کے 95% ساتھ ہے۔ پاکستان پر امریکہ ویسے ہی کنٹرول حاصل کر چکا ہے بلکہ صحیح تر الفاظ میں پاکستان کو وہ گردن سے دبوچ چکا ہے۔ ہمیں تشویش ہے کہ پاکستان کی صورتِ حال بڑی خطرناک ہے۔ اس وقت جبکہ ہم اقتصادی طور پر مفلوج ہو چکے ہیں اگر ہم یونہی امریکی سپردگی میں رہے تو چین کسی بھی وقت تیور بدل سکتا ہے۔ ہم پر سب سے زیادہ قرضہ چین کا ہے اگر چین کسی انتہائی قدم پر اتر آیا تو ہمارے لیے بڑی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ ہمارے فیصلہ سازوں اور کار پردازوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ نیوٹرل رہنے کے لیے بھی کوئی پوزیشن، کوئی حیثیت اور کچھ طاقت ہونی چاہیے۔ لہٰذا سعودی عرب تو دونوں طرف کھیل کر عارضی طور پر کچھ فوائد حاصل کر لے گا۔ کیونکہ وہ ایک مضبوط اقتصادی قوت ہے، لیکن ہم جب تک آزاد خارجہ پالیسی اپنانے کے قابل نہیں ہوتے، ہمیں اپنے خطے کی بڑی قوت کے ساتھ چلنا ہوگا۔ اور مغرب کی بجائے مشرق کی طرف دیکھنا ہوگا وگرنہ ہم نہ گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے۔