(تذکرۂ سیرت) حضور اکرمﷺ کا انقلاب اور معاشرتی مساوات - سید اسعد گیلانی

5 /

تذکرۂ سیرتحضور اکرمﷺ کا انقلاب اور معاشرتی مساواتسید اسعد گیلانی

حضور اکرمﷺ کے برپاکردہ اسلامی انقلاب نے تمام انسانوں کو ایک سطح پر لا کر کھڑا کر دیا اور وہ سطح تھی انسانیت کی مساوی سطح، ابن آدم ہونے کی حیثیت سے آدمی کی سطح اور اللہ کا بندہ ہونے کی حیثیت سے بندگی کی سطح۔ یہ وہ مساوی اور برابری کی سطح تھی جس پر اس سے پہلے سارے انسانوں کو کبھی کھڑا نہیں کیا گیا تھا۔ حضور ﷺ کے انقلاب کا یہ حیرت انگیز معاشرتی اور انسانی پہلو تھا۔ پہلی بار آدم کے بیٹوں کو مساوی انسانی حقوق ملے تھے۔
جب سے انسان زمین پر آیا تھا، اس نے اپنی امتیازی شان بنانے کے لیے بیسیوں وجوہ امتیاز پیدا کر لیے تھے۔ سارے انسانوں کے پاس یکساں اعضائِ انسانی تھے۔ ان کی عمومی قوتیں اور صلاحیتیں بھی برابر سی تھیں۔ عام حالات میں جس طرح کسی بکری کو دوسری بکریوں پر اور کسی شیر کو دوسرے شیروں پر فضیلت دینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہوسکتی اسی طرح انسانوں میں بھی ایک انسان کو دوسرے انسان پر ترجیح و فضیلت کی بظاہر کوئی وجہ نہ ہو سکتی تھی۔ لیکن اشرف المخلوقات انسان نے جہاں اور بہت سی پستیاں اپنے اندر قبول کیں، ان میں ایک یہ بھی تھی کہ وہ بتدریج ایک دوسرے کے مقابلے میں بلندی و پستی، فضیلت و عدم فضیلت اور امتیازات اعلیٰ و ادنیٰ کا شکار ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ بعض انسان دوسرے انسانوں کے مقابلے میں اپنی خدائی کے دعوے کرنے لگے۔ ذرا سی اجتماعی قوت و اختیار نصیب ہوا اور ذرا سا حکم چلنے کا امکان پیدا ہوا تو انسان اپنے بارے میں اس غلط فہمی میں پڑ گیا کہ وہ عام انسانوں سے فائق تر کوئی بہت بڑی شے تھا۔ وہ محسوس کرنے لگا کہ دوسرے انسان اس کے مقابلے میں بہت پستی اور ذلّت کے مقام پر کھڑے تھے۔ پھر دوسرے انسانوں نے بھی اسے یہی یقین دلایا کہ واقعی اس میں ایسی خوبیاں موجود تھیں کہ دوسروں کے مقابلے میں اسے اشرف و اعلیٰ و رافع قرار دیا جائے۔
بتدریج اس شرف و رفعت کے لیے کئی پیمانے وضع ہوتے چلے گئے۔ خاندانی نسب کا شرف، نسل و خون کی رفعت، رنگ کی خوبی، قبیلہ کی بلندی، عہدہ و منصب کا امتیاز اور ان امتیازات کے زینے لگا لگا کر انسان نے بناوٹی طور پر اپنے آپ کو دوسروں سے بلند ثابت کرنے کی ہمیشہ کوشش کی۔ یہ شیطانی جاہلی جذبہ اس قدر قوی نکلا کہ انسان میں اوّل روز سے اس کے ساتھ ساتھ چلا آتا ہے اور جو بات ابلیسِ لعین آدم کے مقابلے میں کہہ کر مستقل طور پر راندا گیا تھا اُسی بات کی توقع انسان بھی رکھتا ہے کہ اس کی فضیلت کو تسلیم کیا جائے حالانکہ اپنی فضیلت کا ایسا ہی جھگڑا ابلیس نے بھی آدم کے بارے میں اپنے رب کے سامنے کیا تھا اور اس کی ابدی سزا بھگتی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کیا تو فرشتوں سے کہا کہ اس نئی مخلوق کو جو مٹی سے بنائی گئی تھی، سجدہ کرو۔ اس حکم پر سارے ہی فرشتے سجدہ ریز ہو گئے۔ مگر اپنی بڑائی اور فضیلت کے گھمنڈ میں مبتلا ابلیس سجدے سے باز رہا اور انکار کر بیٹھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اے ابلیس تجھے کیا چیز اس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ کیا تو بڑا بن رہا ہے یا تو ہے ہی کچھ اونچے درجے کی ہستیوں میں سے۔‘‘ (ص: 75)
اللہ تعالیٰ کے اس سوال کے جواب میں جو بات ابلیس نے کہی، وہی اس کائنات کی سب سے پہلی اور مہلک بیماری قرار پائی۔ یعنی تکبر و غرور۔
اس نے کہا ’’میں اس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے ۔‘‘(آیت: 76)
اس نسلی اظہار فضیلت کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اسی وقت جو فیصلہ فرمایا وہ یہ تھا:
اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا ’’اچھا تو یہاں سے نکل جا، تو مردود ہے اور تیرے اوپر یوم الجزا تک میری لعنت ہے۔‘‘ (ص:77)
اسلامی معاشرے میں سب انسان معاشرتی اور انسانی سطح پر برابر ہوتے ہیں اور کسی کو کسی دوسرے پر کوئی وجۂ امتیاز و فضیلت نہیں ہوتی ۔ اس لیے کہ وہ الٰہی تعلیمات پر مبنی معاشرہ ہے۔ یہ وہ انقلابی تصورِ مساوات ہے جو حقیقی انسانی مساوات پر مبنی ہے۔ قرآن کی آمد سے پہلے کسی دیگر معاشرے کو مساواتِ انسانی کا یہ انقلابی تصور نصیب نہیں ہوا ہے۔
حضور اکرمﷺ نے اسلامی انقلاب کے ذریعے جو معاشرہ برپا کیا اس میں بنیادی حقوق کے اعتبار سے بھی تمام باشندوں میں مساوات تھی۔ نسل، رنگ، خون، زبان، خاندان یا ذات برادری کی بنا پر کوئی برتر یا کم تر نہ تھا۔ سب کے سب افراد مساوی حقوقِ انسانی سے بہرہ ور تھے۔حق ِنصیحت سب کو حاصل تھا۔ تحریر، تقریر، اجتماع، ملکیت، کَسب، تجارت، آبادکاری، سفر، عزت و آبرو، خلوت غرض وہ تمام انسانی حقوق جو انسان کو انسان ہونے کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ودیعت فرمائے ہیں حضورﷺ کے برپاکردہ اسلامی معاشرے میں سارے باشندوں کو مساوی طورپر حاصل تھے۔
دوسروں کے مقابلے میں کسی کے بھی مفادات مخصوص اور محفوظ نہ تھے۔ سب افراد ریاست کے نزدیک برابر اور محترم تھے۔ سب کی ذمہ داریاں، صلاحیت اور اہلیت کے تناسب سے مساوی تھیں۔ بنیادی ضروریات کے لیے روز گار کے بنیادی حقوق بھی سب کو میسر تھے۔ اور سب کو ان حقوق کی ضمانت بھی حاصل تھی۔ کوئی شخص بھی کسی دوسرے شخص سے دین و اخلاق کی فضیلت کے سوا کسی دوسری فضیلت کے سبب برتر و محترم نہ تھا۔ سوائے اس معیارِ فضیلت کے جو اسلام نے اپنے معاشرے میں خود مقررفرما دیا ہے۔
یہ بالکل ایک نیا اور انقلابی تصورِ فضیلت ہے جو اسلام نے پیش فرمایا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا:
’’پرہیزگاری کے سوا اور کسی چیز کی بنا پر ایک شخص کو دوسرے شخص پر فضیلت نہیں ہے۔ سب لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے تھے۔‘‘
مزید فرمایا:
’’نہ کسی عربی کو عجمی پر فضیلت ہے اور نہ عجمی کو عربی پر، تم سب آدم کی اولاد ہو۔‘‘
نیز فتحِ مکہ کے موقع پر فرمایا:
’’سن رکھو کہ فخر و ناز کا ہر سرمایہ، خون اور مال کا ہر دعویٰ آج میرے ان قدموں کے نیچے ہے۔‘‘
پھر فرمایا:
’’اے لوگو تم سب آدم کی اولاد ہو، اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ نسب کے لیے کوئی فخر نہیں ہے۔ عربی کو عجمی پر، عجمی کو عربی پر کوئی فخر نہیں ہے۔ تم میں سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘
حضورﷺ کے پیش کردہ اس معیارِ فضیلت نے تمام غیر الٰہی نظریات کے معیارات کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ نسل کے بت پر اسلام نے یہ کہہ کر ضرب لگائی ۔
’’اللہ نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا، پھر اس سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو دنیا میں پھیلا دیا۔ ‘‘ (النساء:1)
مزید ارشاد ہوا:
’’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تم کو گروہ اور قبائل بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، درحقیقت تم میں سب سے معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔‘‘ ( الحجرات:13)
حضورﷺ نے فرمایا:
’’جس نے عصبیت پر جان دی وہ ہم میں سے نہیں، جس نے عصبیت کی طرف بلایا وہ ہم میں سے نہیں، جس نے عصبیت پر جنگ کی وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
نیز فرمایا:
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو لوگوں کو عصبیت کی طرف بلاتا ہے۔‘‘
غرض اولادِ آدم کی حیثیت سے اسلام میں کسی شخص کو کسی دوسرے شخص پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ اسلامی معاشرے میں انسان کے بنیادی حقوق سب کے لیے مساوی اور برابر ہیں۔ اسلامی نظام میں کسی کے بچوں کو اس لیے بہترین تعلیمی اور رہائشی سہولتیں میسر نہیں آ سکتیں کہ وہ بچے امیرالمومنین کے بچے ہیں اور کسی کے بچے صرف اس لیے گلیوں میں خاک چھانتے نہیں پھر سکتے کہ وہ کسی غریب کی اولاد ہیں۔ اسلام میں ہر فرد کو پورا پورا حق حاصل ہے کہ وہ تمام امتیازات سے قطع نظر اپنا انسانی حصہ وصول کرے اور اپنے طبعی جسم کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی ضروریات کو حاصل کرے۔ ریاست کے قانون میں دونوں کی حیثیت یکساں ہے۔
خاندانی اور نسلی افتخار سے منع کر دیا گیا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اے محمدﷺ کی بیٹی فاطمہ دوزخ سے چھٹکارا پانے کی کوشش کر، کیونکہ میرا رشتہ تجھ کو اللہ کے ہاں مفید نہیں ہو سکتا۔‘‘
لیکن اگر کوئی چیز کسی کے لیے وجۂ فضیلت بن سکتی ہے تو وہ ’’تقویٰ‘‘ ہے۔ چنانچہ اسلام کے تمام داعیوں نے اپنے اپنے دور میں اپنی اپنی قوم کو اللہ کی عبادت اور اس کے تقویٰ کی طرف ہی بلایا۔
’’اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارے لیے اور کوئی معبود نہیں۔‘‘
چنانچہ نبیﷺ کو بھی یہی حکم ہوا:
’’اے چادر لپیٹنے والے کھڑا ہو اور لوگوں کو ڈرا۔‘‘
غرض اللہ کی عبادت اور بندگی ہی وہ ایک معیار ہے جو انسان اور انسان میں فرق پیدا کرتی ہے۔ بحیثیت انسان کے ایک کافر بھی اور ایک مومن بھی، ایک سرکش بھی اورایک اطاعت گزار بھی، دونوں اللہ کے بندے ہیں۔ لیکن بحیثیت بندگی کے ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ عبادت کا مطالبہ صرف رکوع و سجود اور تسبیح و تہلیل تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اللہ کا مطالبہ ہے کہ انسانی زندگی کا کوئی گوشہ بھی اللہ کی اطاعت اور بندگی سے باہر نہ ہو اور وہ اللہ کی عین مرضی کے مطابق کام کرے، انفرادیت اور شخصیت ہی نہیں بلکہ اجتماعیت میں بھی انسان کی سیاست اور معاشرت کی گاڑی اسی کی اطاعت کی پٹڑی پر چلے۔
اس انفرادی اور اجتماعی عبادت کو بجا لانے کے سلسلے میں جس سعی و جہد جس ذوق و شوق، جس عشق و محبت، جس وارفتگی اور جاںنثاری کا اظہار کسی شخص سے ہو گا، اسی قدر فضیلت کے ترازو میں اس کا وز ن زیادہ نکلے گا۔
لیکن عبادت کو خالص اور زندگی کے ہر پہلو پر صبر و ثبات سے حاوی کرنے کے لیے جس چیز کی حقیقی ضرورت ہے وہ ایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات پر پورا ہونا اس کی رزاقی پر مکمل بھروسہ ، اس کے عالم الغیب ہونے پر کامل یقین،اس کے رحیم و کریم ہونے پر اعلیٰ درجے کا توکل، اس کے مالکِ یوم الدین ہونے پر سچے دل سے پختہ یقین، اس کے احکام پر عمل کرنے کا انتہائی ذوق و شوق اور ان سے انحراف کرنے سے شدید خوف و ہراس، اس کی حرام کردہ چیزوں سے کلی اجتناب اور اس کے اوامر پر عمل کرنے کی بے انتہا سعی، اس کی پسند کو دل سے اپنی پسند سمجھنا اور اس کی ناپسند کو اپنی روح کی گہرائیوں سے ناپسند کرنا، اس کی وفاداری کے مقابلے میں دوسری تمام وفاداریوں کو ہیچ سمجھنا اور اس کی اطاعت کو تمام اطاعتوں پر حاوی کر دینا۔ غرض ایمان کی ان ٹھوس بنیادوں پر عمل کو استوار کرنا ہی حقیقی مسلم ہونا ہے۔ اللہ کے حکم کے تحت ہی کسی سے جڑ جانا اور اسی کے حکم کے تحت کسی سے کٹ جانا اور انسانی عمل کے ہر گوشے سے اس بات کا اظہار ہونا کہ اس کے دل و دماغ کے کسی کونے میں بھی غیر اللہ کی محبت اور اطاعت کا کوئی بت باقی نہیں رہا ہے۔ مسلم ہونے کی ان ضروری شرائط کے ساتھ جب اللہ کے ڈر اور خوف کا اضافہ ہو جائے کہ انسان ہر دم اس کے احکام پر عمل کرنے کے لیے کمر بستہ رہے۔ اس کے ہر فعل سے مکمل اطاعتِ الٰہی کا اظہار ہو، اس میں اللہ کے ہاں جواب دہی کا احساس ایک جیتا جاگتا جذبہ اور منہ بولتی حقیقت بن جائے۔ اس کی حِس اتنی تیز ہو کہ وہ اللہ کے حکم سے خفیف سے خفیف غیر شعوری انحراف کو بھی اپنے نفس کی تہہ میں جانچ لے اور اسے وہیں ختم کر دینے پر آمادہ رہے۔ وہ پوری ذمہ داری سے اپنی زندگی کا بار بار جائزہ لے اور ہر گھڑی محاسبہ کرے کہ اس کی کوئی حرکت منشائے الٰہی کے خلاف نہ ہو تو اسی کیفیت کا نام تقویٰ ہے اور اسی کیفیت میں اضافے کے لیے فرمایا گیا ہے۔ ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم۔ اسی تقویٰ کو اللہ تعالیٰ نے بندوں کے لیے معیارِ فضیلت قرار دیا ہے اور اسی کیفیت کو سند بزرگی عطا کی گئی ہے۔ چنانچہ حضورﷺ نے فرمایا:
’’اللہ کی ناراضی سے بچو، جو اللہ کے غضب سے ڈرتا ہے وہ پورا پورا کامیاب ہوا۔ پرہیزگاری مراتب کو بلند کرتی ہے۔‘‘
حضورﷺ کے برپاکردہ اسلامی انقلاب کے پیشِ نظر صالح افراد کو چن چن کر اوپر لانا ضروری تھا تاکہ وہ دنیا میں اصلاح کریں، امن قائم کریں اور انسانوں کو انسانیت کاسبق دیں۔ تقویٰ کے اس معیار پر اگر ایک حبشی بھی پورا اترتا تھا تو وہی اوپر آنے کا حقدار قرار پاتا تھا۔حضور ﷺ نے فرمایا:
’’سنو! اگر تم پر نکٹا حبشی بھی امیر بنادیا جائے اور وہ کتاب اللہ کے مطابق تمہیں چلائے تو اس کی بات ماننا اور اطاعت کرنا۔‘‘
اسی معیار کے پیش نظر آپؐ نے کسی فاجر کی قیادت قبول کرنے سے منع فرما دیا:
’’کوئی اُجڈ گنوار کسی مہاجر کا امام نہ بنے اور نہ کوئی فاجر شخص کسی پارسا مومن کا۔‘‘
قرآن میں فرمایا:
’’اے اہل ِایمان! اپنے باپوں اور بھائیوں کو دلی دوست اور حمایتی مت بنائواگر انہوں نے ایمان کے مقابلے میں کفر کو پسند کیاہے۔اور تم میں سے جو کوئی بھی اُن کے ساتھ ولایت (دوستی) کا تعلق رکھیں گے تو ایسے لوگ (خود بھی) ظالم ٹھہریں گے۔‘‘(التوبۃ:23)
مزید فرمایا گیا:
’’کیوں نہیں! جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے اپنے عہد کو پورا کرے گا اور تقویٰ کی روش اختیار کرے گا تو بے شک اللہ تعالیٰ کو اہل تقویٰ پسند ہیں۔‘‘ (آل عمران:76)
مزید فرمایا گیا:
’’اے محمد! کہو، میری نماز اور میرے تمام مراسم عبودیت، میرا مرنا، میرا جینا سب کچھ اللہ کے لیے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی کا حکم ہوا ہے۔ ‘‘
اور سب سے پہلے میں اس کی اطاعت میں سرِ تسلیم خم کرتا ہوں۔‘‘ (الانعام:162،163)
مالک نے مزید حکم دیا:
’’اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور یاد رکھو کہ تمہیں اس سے ملنا ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ)
حضورﷺ کی معرفت ملنے والے یہ احکام انسان کو اس کے حقیقی معیارِ فضیلت سے آگاہ کرتے ہیں۔ چنانچہ اس معیار سے ہٹ کر اگر کوئی شخص یہ سمجھے بیٹھا تھا کہ وہ فلاں خاندان سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے اسے جہنم کی آگ نہ چھوئے گی یا فلاں بزرگ سے اس کا رشتہ ہے اس لیے وہ اسے چھڑا لیں گے تو اس قسم کا فالج زدہ تقویٰ شاید ہی اللہ کی میزانِ عدل میں کوئی وزن پا سکے۔ اصل تقویٰ تو وہی ہے کہ انسان کی زندگی کا اندر اورباہر ان حدود کے اندر رہے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے مقرر فرما دی ہیں۔ اور ایسا ہی تقویٰ آپؐ نے اپنے صحابہؓ کو سکھایا تھا۔
چنانچہ ایک بار حضرت عمر ؓ نے حضرت ابی ؓ بن کعب سے تقویٰ کا مفہوم پوچھا، انہوں نے فرمایا:
’’امیرالمومنین آپ کسی ایسے راستے سے گزرے ہیں جس کے دونوں طرف خاردار جھاڑیاں ہوں؟‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا:’’ہاں‘‘
حضرت ابیؓ نے پوچھا:’’آپ وہاں سے کیسے گزرتے ہیں؟‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا:’’دامن کو سمیٹ کر اور بچا کر گزر جاتا ہوں۔‘‘
حضرت اُبیؓ نے فرمایا:’’بس یہی تقویٰ ہے۔‘‘
گویا تقویٰ یہ ہے کہ انسان اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے بچ بچ کر حدودِ شریعت کے اندر رہتا ہوا زندگی گزارے۔ اس طرح اسلام نے اپنے نئے معیار فضیلت پر جو سوسائٹی تعمیر کی، اس میں ایران کے سلمانؓ بھی تھے جو اپنے آپ کو ابن اسلام کہتے تھے اور جن کے متعلق حضرت علی کرم اللہ وجہہ، فرمایا کرتے تھے کہ سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں۔ ان میں بازانؓ بھی تھے جن کا نسب شاہان ایران سے جاملتا تھا۔ ان میں حبشہ کے بلالؓ بھی تھے جن کے متعلق حضرت عمر h فرمایا کرتے تھے کہ :
’’بلالؓ ہمارے آقا کے غلام اور ہمارے آقا ہیں۔‘‘
ان میں روم کے صہیبؓ بھی تھے جنہیں حضرت عمر h نے اپنی جگہ امامت کے لیے کھڑا کیا تھا۔ ان میں حضرت ابوحذیفہؓ کے غلام حضرت سالمؓ بھی تھے جن کے متعلق حضرت عمرؓ نے اپنے انتقال کے وقت فرمایا تھا :
’’ آج وہ زندہ ہوتے تو میں انہیں خلافت کے لیے نامزد کرتا۔‘‘
ان میں زیدؓ بن حارثہ ایک غلام بھی تھے جن سے رسول کریمﷺ نے اپنی پھوپھی کی لڑکی کو بیاہ دیا تھا۔ ان میں حضرت زیدؓ کے بیٹے حضرت اسامہؓ بھی موجود تھے جنہیں رسول کریمﷺ نے ایسے لشکر کا سردار بنایا تھا جس میں حضرت ابوبکر صدیق h اور حضرت عمر فاروق h جیسے صحابہِؓ کبار موجود تھے، جن کے متعلق حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے سے فرمایا تھا کہ:
’’اسامہ تجھ سے اور اس کا باپ تیرے باپ سے افضل ہے۔‘‘
یہ تھا وہ معاشرہ جو اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ ا اللّٰہِ اَتْقٰىکُمْکے اصول پر تعمیر ہوا تھا۔ اس اصول پر جب ایک سٹیٹ وجود میں آئی تھی، تو اس کے کارکن، اس کے جج، اس کے حاکم اور اس کے چپڑاسی تک بالکل مختلف نوعیت کے تھے۔ آج کا ایک بڑے سے بڑا جج بھی اپنے موجودہ اخلاق کے ساتھ اُس اسلامی عدالت کا کلرک اور چپڑاسی بننے کا اہل نہیں ہو سکتا۔ اسلام جانی بوجھی اچھائیوں اور نیکیوں کو معروف کا نام دے کر ان پر انسان کو اُکساتا ہے اور جو لوگ اس مقصد کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں، انہیںبھلے آدمی اور متقی قرار دیتا ہے۔ اسی طرح وہ جانی بوجھی برائیوں کو منکر کا نام دے کر انسانوں کو ان سے روکتا ہے اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کو بُرے لوگ اور فاسق و فاجر قرار دیتا ہے۔ یہی وہ میزانِ فضیلت ہے جو اسلام نے زمانے کے سامنے پیش کی تاکہ بنی نوع انسان اس میں اپنے آپ کو تول سکیں۔ اسی میں تول کر وہ اپنے حاکموں اور نمائندوں کو مقرر کریں اور اسی میں تول کر وہ کسی کو معزز قرار دیں اور کسی کو گرا ہوا سمجھیں۔ یہ میزان ہی مساواتِ انسانی کی بہترین ضمانت ہے۔
اسلام نے یہ اصول ہمیشہ کے لیے مقرر کر دیا کہ دنیا کے امن اور فلاحِ انسانیت کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اللہ سے ڈرنے والے اور آخرت میں جوابدہی کا پورا پورا احساس رکھنے والے لوگ سامنے آئیں۔ اور وہ لوگ پیچھے ہٹ کر رہیں جن کی ہوس کے سامنے فتنوں کے سارے دروازے کھلیں اور جن کے دماغ شیطان کا گھونسلا ہوں۔ حضورﷺ نے دنیا کو تباہی سے بچانے کی یہی عملی تدبیر پیش فرمائی اور اس پر عمل کر کے دکھایا۔
حضورﷺ کے اپنے قائم کردہ معاشرے میں عزت و ذلت اور فضیلت و مسکنت کے یہی پیمانے مقرر تھے اسی بدلے ہوئے معیار نے انسانیت کا معیار بدل ڈالا تھا اور لوگ معیارِ زندگی کی بجائے معیارِ اخلاق اور معیارِ انسانیت تلاش کرنے لگے تھے۔
(کتاب ’’رسول اکرمؐ کی حکمت انقلاب‘‘ سے انتخاب)