امریکہ نے BRI اور سی پیک کا راستہ روکنے کے لیے IMECکی بنیاد رکھی ہے ،
امریکی سفیر کی سرکاری ملازمین سے ملاقات سے ظاہر ہوتا ہے اب امریکی ہماری
گورننس میں بھی داخل ہو گئے ہیں: ایوب بیگ مرزا
انڈیا نے کینیڈا میں سکھ رہنما کو قتل کر کے خود کو دوسرا اسرائیل ثابت
کرنے کی کوشش کی ہے: رضاء الحق
انڈیا،کینیڈا سفارتی تنازعہکے موضوع پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: ہردیپ سنگھ جو خالصتان کا حامی سکھ رہنما تھا کینیڈا میں اس کا قتل ہوا اس پرcontroversyاس حد تک بڑھی کہ کینیڈا اور بھارت نے ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو اپنے ملک سے نکال باہر کیا ۔ کینیڈین وزیراعظم نے کہا کہ میں نے جی 20اجلاس میں نریندر مودی سے بطور خاص اس معاملے کو حل کرنے کے لیے کہا تھااور ان کو تمام حقائق سے باخبر کیا تھا ۔ اب یہ سفارتی تنازعہ ایک سیاسی تنازعہ میں بدل چکا ہے ۔ آپ کو یہ معاملہ کس طرف جاتا ہوا نظر آرہا ہے ؟
رضاء الحق:18 جون 2023ء کو کینیڈا میں مقیم خالصتان تحریک کے ایک سکھ رہنما ہردیپ سنگھ کو گردوارے کے سامنے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ کینیڈا میں مقیم غیر ملکیوں میں سکھ سب سے زیادہ ہیں اور وہ خالصتان کے حق میں ریفرنڈم بھی کرواتے رہتے ہیں ۔ وہاں ان کو عوام کی حمایت بھی حاصل ہے اور وہ کینیڈا کی پارلیمنٹ کا بھی حصہ ہیں ۔ لہٰذا کافی حد تک وہ کینیڈا کی پالیسیوں پر اثر انداز ہو چکے ہیں ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ کینیڈا کے وزیر اعظم نے جی ٹونٹی کانفرنس میں نریندر مودی سے بطور خاص سکھ رہنما کے قتل کے حوالے سے بات کی ۔ یہ خبر بھی سامنے آئی کہ کینیڈین انٹیلی جنس کے سربراہ نے انڈیا کا دورہ کیا اور را کے سربراہ سے اس حوالے سے بڑی تفصیلی ملاقات کی۔ سکھ رہنما کے قتل کے حوالے سے سارے ثبوت کینیڈین وزیراعظم کو پیش کیے گئے ۔ کینیڈین وزیراعظم نے جی ٹونٹی کانفرنس سے واپس جاکر اپنی پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران باقاعدہ سکھ رہنما کے قتل کے حوالے سے پالیسی بیان جاری کیا ۔ میرے خیال میں انڈیا نے بھی اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہی کام شروع کیا ہے جو اسرائیل کرتا ہے کہ اس کی انٹیلی جنس ایجنسی دوسرے ممالک میں جاکر ٹارگٹ کلنگ کرتی ہے ۔ جیسا کہ سات سال پہلے اسرائیلی انٹیلی جنس نے فرانس میں جاکر چار لوگوں کو قتل کیا ۔ اسرائیل کا امریکہ سمیت بڑی طاقتوں پراور عالمی میڈیا پر اثر و رسوخ زیادہ ہے جس کی وجہ سے اس کے جرائم پر پردہ ڈال دیا جاتاہے ۔ اسی طرح انڈیا بھی من مانی کررہا ہے ۔لیکن انڈیا خود کوoverestimateکر رہا ہے۔ بہرحال جب کینیڈا نے احتجاجاً انڈین سفارتکاروں کو بے دخل کیا تو جواباً انڈیا نے بھی کینیڈین سفارتکاروں کو نکال دیا ۔ انڈیا اور کینیڈا کے درمیان تجارتی معاہدے بھی تقریباً معطل ہوچکے ہیں ۔ حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ کینیڈا کی حمایت میں امریکہ ، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے ملک بھی کھڑے ہوگئے ہیں ۔ امریکہ نے واقعہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واضح کہا ہے کہ ذمہ داروں کو پکڑ کر سزا دی جائے ۔ اس میں شک نہیں کہ انڈیا اس وقت عالمی طاقتوں کا چہیتا بنا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ اس واقعہ کی بنیاد پر انڈیا کے خلاف آواز ضرور اُٹھے گی اور شاید عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے حصول کے لیے انڈیا کو بلیک میل بھی کرسکتی ہیں ۔ میری رائے میں انڈیا کو سمجھ جانا چاہیے کہ مغرب کا مہرا بن کر وہ کبھی صف اول کی طاقتوں میں شمار نہیں ہو سکے گا ، مغربی طاقتیں اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہیں گی ، انڈیا اسرائیل کبھی نہیں بن سکتا ۔جہاں تک ہردیپ سنگھ قتل کا معاملہ ہے تو اندازہ یہی ہے کہ بالآخر مغرب اپنے مفادات کے تحت اس معاملے کو دبا دے گا ۔
سوال:جی20 کے سربراہی اجلاس میں بہت سے ممالک کے سربراہ شریک ہوئےجن میں مسلم ممالک کے سربراہان بھی شامل تھے ۔ کہا جا رہا ہے کہ اس اجلاس میں ایک نیا اکانومک ورلڈ آرڈر ترتیب دینے کی کوشش کی گئی ۔ آپ کے خیال میں انڈیا نے اس کانفرنس سے کیا کیا فوائد حاصل کیے ؟
ایوب بیگ مرزا: واقعتا ًایک نیا اکنامک ورلڈ آرڈر دنیا کو دیا گیا جسے IMECکہا جارہا ہے ۔یعنی انڈیا مڈل ایسٹ یورپ معاشی کوریڈور۔ پہلے اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ۔ اصل میں امریکہ اور چین کے درمیان سرد جنگ اپنے عروج پر ہے ۔ چین ہر صورت میں نمبر ون اکنامک پاور کے ساتھ ساتھ دفاعی طاقت بھی بننا چاہتا ہے ۔اس نے چند سال قبل BRI اور سی پیک جیسے اقتصادی منصوبوں کی بنیاد رکھی تھی ۔ اس کا راستہ روکنے کے لیے امریکہ اور انڈیا نے مل کر IMECکی بنیاد رکھی ہے۔ کیونکہ امریکہ سمجھتا تھا کہ BRIاور سی پیک کے ذریعے چین کے تعلقات دیگر ممالک کےساتھ مضبوط تر ہوجائیں گے اور وہ ایک بڑی اقتصادی پاور بن جائے گا ۔ لہٰذا اس کا توڑ اس انداز میں نکالا گیا کہ ایک نیا اکانومک ورلڈ آرڈر دیا جائے جو اس کے مقابلے کا ہو ۔ بھارت اس سے بہت سارے فوائد اُٹھائے گا ۔ 2024ء میں بھارت میں الیکشن ہونے جارہے ہیں لہٰذا مودی نے جی 20 کانفرنس انڈیا میں منعقد کروا کر اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط کر لی ہے جس کا فائدہ اسے الیکشن میں ہوگا ۔ جہاں تک انڈیا کے صف اول کے ممالک میں شامل ہونے کی با ت ہے تو انڈیا ابھی اس سے کافی دور ہے البتہ وہ ایسا ظاہر کر رہا ہے کہ وہ بڑی طاقت بن چکا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ اس کو بعض عالمی طاقتوں کی پشت پناہی اور مدد بھی حاصل ہے ۔ البتہ اس میں خود انڈیا کے تھنک ٹینکس کا بھی بڑا رول ہے کہ انہوں نے انڈیا کو ترقی کے راستے پر گامزن کیا ہے ۔ دنیا کی بیشتر ملٹی نیشنل اوربڑی کمپنیوں کے اعلیٰ عہدیدار ہندو ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں انڈیا تیز رفتاری کے ساتھ ترقی بھی کر رہا ہے اور اپنی پوزیشن بھی بنا رہا ہے ۔ 1970ء کی دہائی میں جب امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان مقابلہ تھا تو اس وقت امریکہ نے اپنی پوزیشن بنانے کے لیے چاند پر مشن بھیجا تھا۔ آج انڈیا نے بھی اسی طرح چاند پر اپنا راکٹ بھیجا ہے تاکہ دنیا کو بتا سکے کہ وہ ایک عالمی قوت بننے جارہا ہےلیکن میرے خیال میں ابھی اس کا طاقت بننا بہت دور کا معاملہ ہے ۔
سوال:IMEC کی پوری تفصیلات کیا ہیں اورواقعتاً BRIاور CPECکاتوڑ ثابت ہوسکتا ہے؟
رضاء الحق:IMEC کے ابتدائی مرحلے میں I2U2 کے نام سے ایک اتحاد بنا تھا ۔ اس میں انڈیا ، اسرائیل ، UAEاور امریکہ شامل تھے ۔ انہوں نے مل کر BRIاور CPECکے مقابلے میں ایک اکانومک کوریڈور کا آئیڈیا پاس کیا تھا۔ پھر مارچ2023ء ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی نے مشرق وسطیٰ میں نئے تجارتی راستے کھول دیے ۔ روس کو بھی موقع مل گیا کہ وہ بذریعہ ایران خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھائے ۔ اب IMECبھی اسی طرح کی ایک کوشش ہے ۔ مئی 2023ء میں امریکہ ، انڈیا اور متحدہ عرب امارات کے مشیران برائے قومی سلامتی نے محمد بن سلمان سے ملاقات کی جس میں یہ طے پایا کہ انڈیا اور مشرق وسطیٰ کے درمیان ایک تجارتی Link بنایا جائے ۔ اسی طرح G7ممالک اور یورپی یونین نے بھی دوسال قبل PGII(پارٹنرشپ آف گلوبل انفراسٹرکچر اینڈ انوسٹمنٹ) کے نام سے BRIکے متبادل کے طور پر ایک منصوبے کا آغاز کیا تھا جس میں 600 بلین ڈالرز افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں بندرگاہوں، ریلوے ٹریکس وغیرہ پر خرچ کیے گئے تھے کہ ایک تجارتی سپلائی لائن بنائی جائے ۔ اسی طرح کی پشت پناہی IMEC میں بھی شامل ہے ۔
IMEC کے دو حصے ہیں ۔ ایک مشرقی راہداری ہے جو بھارت کو خلیجی ممالک سے ملاتی ہے، دوسری شمالی راہداری ہے جو خلیجی ممالک کو یورپ سے ملاتی ہے۔ اس ساری صورتحال میں میرا نہیں خیال کہ آئندہ کوئی بھی ٹریڈ روٹ محفوظ رہ سکے گا۔ یہ ساری تجارتی راہداریاں کشیدگی اور جنگوں کی نذر ہو جائیں گی ۔ اس وقت روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے کشیدگی ہے ، جنوبی ایشیا میں بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی ہے ،امریکہ اور چائنا کے درمیان کشیدگی ہے، مشرق وسطی میں اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم رکھتا ہے ۔ سعودیہ ایران کشیدگی اگرچہ تھم چکی ہے لیکن کسی وقت بھی آگ دوبارہ بھڑکائی جا سکتی ہے ۔ امریکہ ہمیشہ جنگوں میں ملوث رہا ہے اور اب بھی وہ بعض جگہوں پر ملوث ہے ۔ وہ جان چکا ہے کہ مستقبل میں ایشیاء جنگوں کا مرکز بنے گا ۔ اس لیے اپنی بساط یہاں بچھا رہا ہے ۔ ان حالات میں یہ تجارتی رہداریاں مستقل نہیں چل سکتیں ۔ چین کی پالیسی یہ ہے کہ جہاں جہاں ممکن ہے وہاں انوسٹمنٹ بڑھاؤ ، زمینیں اور اثاثے خریدو ، بحری اڈے بناؤ ۔ جبکہ دوسری طرف امریکہIMECکے ذریعے چین کے راستے میں رکاوٹ بن رہا ہے کہ ایسا روڈ میپ دے جو مستقبل میں شاید مکمل نہ ہو لیکن وہ سی پیک سے متصادم ہو اور مختلف ممالک الجھن کا شکار ہو جائیں ۔ آپ نے دیکھا کہ چین سی پیک کے حوالے سے جس طرح پہلے پاکستان کو آن بورڈ لے رہا تھا اب نہیں لے رہا ۔ اگرچہ اس نے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے لیکن وہ جان چکا ہے کہ موجودہ جیو اکانومک اور جیو سٹریٹجک حالات میں طویل مدتی تجارتی منصوبہ شاید موزوں نہ ہو ۔ لہٰذا وہ جہاں جہاں سے ممکن ہے فائدہ اُٹھا رہا ہے ۔ IMEC کے ذریعے کوشش کی جائے گی کہ اس کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کی جائے۔
سوال:جی20 اجلاس سے پہلے ایک نیا شوشہ چھوڑا گیا کہ انڈیا کا نام بھارت رکھا جائے گا ۔ اس حوالے سے انڈین پارلیمنٹ کا اجلاس بھی ہوا جس میں اس حوالے سے آئینی ترمیم پر بحث ہوئی ۔ اس نئے شوشے کا انڈیا کو کیا فائدہ ہوگا اور انڈیا بھارت بن کے کیا گل کھلائے گا؟
ایوب بیگ مرزا:انڈیا کے آئین کی پہلی شق میں ہی یہ لکھا ہے کہ :India, that is Bharat, shall be a Union of Statesمیں کوئی آئینی ماہر تو نہیں لیکن میرا نہیں خیال کے اس کے بعد انڈیا کو کسی آئینی ترمیم کی ضرورت پڑے گی کیونکہ وہ پہلے سے بھارت ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ نریندر مودی ایسی اٹکھیلیاں کیوں کر رہا ہے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ بھارت میں آئندہ انتخابات چند ماہ میں ہونے جارہے ہیں اور اس مرحلے پر بی جے پی ایک مرتبہ پھر اپنے داؤ پیچ چلا رہی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ مودی نے ہمیشہ مذہبی کارڈ کھیلا ہے ۔ انڈیا میں 70 فیصد ہندو ہیں ۔ اگر 30 فیصد کو ناراض کرکے 70فیصد کی حمایت حاصل ہو جائے تو آسانی سے الیکشن جیتا جا سکتا ہے ۔ اب نریندر مودی اسی رُخ پر مزید آگے بڑھ رہا ہے اور انڈیا کو مذہبی شناخت دینا چاہتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ماضی میں بھی ہندوستان کو اس کا نقصان ہوا ہے اور مستقبل میں بھی ہوگا ۔
سوال: سیاسی طور پر ہو سکتا ہے اس کا نقصان ہو لیکن ابھی تک مودی کو حکومت کرنے کا جتنا موقع ملا ہے اس میں اس نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا ، بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنایا جس کا جنوری2024ء میں افتتاح ہونے جارہا ہے ۔ گاؤ رکھشا کے نام پر قانون سازی کی ، مسلمانوں کو کارنر کیا ، یہ سارے کام کرکے انہوں نے ہندواکثریت کے دل تو جیت لیے ہیں ؟
ایوب بیگ مرزا:بالکل ! آپ نے بالکل بجا فرمایا۔ اب آئین سے انہوںنے سیکولر اور سوشلسٹ کے الفاظ نکال دیے ہیں ۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ انڈیا ایک کٹر ہندو ریاست بننے جارہا ہے ۔ اسے سُوئے اتفاق کہیے کہ انڈیا سیکولرازم کے نعرے کی بنیاد پر بنا تھا جبکہ پاکستان مذہب کی بنیاد پر بنا تھا لیکن اب انڈیا کٹر مذہبی ریاست بن رہا ہے جبکہ پاکستان سیکولر سٹیٹ بن چکا ہے ۔ پاکستان اپنے نظریہ سے ہٹ کر نقصان میں جا چکا ہے جبکہ انڈیا بھی اپنے نظریہ سے ہٹنے کی وجہ سے جلد یا بدیر نقصان ضرور اُٹھائے گا۔
سوال:انڈیا کا رجحان اگر مذہب کی طرف بڑھ رہا ہے تو آپ کے خیال میں وہ نقصان میں جائے گا جبکہ دوسری طرف آپ کا کہنا ہے کہ ہم مذہب سے دور ہوکر نقصان اُٹھا رہے ہیں ۔ یہ کیسا تضاد ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:جو ملک بھی جس نظریہ کی بنیاد پر بنتا ہے وہ اُسی نظریہ پر چل کر قائم رہ سکتا ہے ۔ عمارت وہی مضبوط ہوتی ہے جو اپنی بنیاد پر قائم رہے ۔ ہم مذہب کی بنیاد پر ایک قوم بنے تھے ، بنیاد سے تھوڑا ہٹے تو 1971ء میں آدھا ملک کھو دیا ۔اسی طرح اگر ہندوستان بھی اپنے نظریہ سے ہٹ رہا ہے تو وہ بھی نقصان اُٹھائے گا۔ ہم اگر مذہب کی طرف لوٹیں گے تو گویا اپنی بنیاد کی طرف لوٹیں گے اور اس طرح ہم مضبوط ہوں گے ۔
رضاء الحق:ایک بنیادی فرق اور بھی ہے ۔ ہم جب مذہب کی بنیاد پر ریاست کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد اسلامی فلاحی ریاست ہوتی ہے جو کہ نظام عدل اجتماعی کی حامل ریاست ہوتی ہے ۔ اس میں تمام انسانوں کے لیے حقوق اور عدل میسر ہوتاہے ۔ ہندو جب اپنی مذہبی ریاست کی بات کرتاہے تو اس سے مراد ہندو توا کی بالادستی ہوتی ہے جس میںسارے حقوق ہندو مذہبی طبقہ کے پاس ہوتے ہیں جبکہ باقی انسانوں کو کاسٹ سسٹم کے تحت مساویانہ حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔لہٰذا مودی جو ہندو ریاست بنانے جارہا ہے وہ کبھی ہر طبقہ کو حقوق اور انصاف فراہم نہیں کر سکے گی اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا ایک مرتبہ پھر ہندوستان ٹکڑے ہو جائے گا ۔
سوال:انڈیا اس وقت نریندر مودی کی قیادت میں ایک عالمی طاقت کے طور پہ ابھر رہا ہے ، بڑا نمایاں مقام حاصل کر رہا ہےاور مختلف فیلڈز میںکافی آگے جا چکا ہے ۔ آپ یہ بتائیے کہ کیا واقعی جی 20 اجلاس مودی کا الیکشن stunt تھا اور اس کا نریندر مودی کو کوئی فائدہ ہوگا؟
رضاء الحق:نریندر مودی یقیناًفائدہ اُٹھائے گا۔اس وقت انڈیا مغربی طاقتوں کے لیے انتہائی اہم ٹُول بن چکا ہے ۔ وہ اس کو بیساکھیاں بھی فراہم کرتے ہیں ، اس کے ساتھ عالمی معاہدے بھی ہورہے ہیں ، خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھانے میں بھی امریکہ اور یورپ نے بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ اسرائیل کے ساتھ بھی بھارت کے تعلقات بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔ دنیا کے کئی اقتصادی بلاکس میں انڈیا شامل ہے ۔ اس وقت دنیا کی پانچویں بڑی اکانومی بھارت کی ہے ۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اس کی اکانومی کا حجم 3.4کھرب ڈالر ہے ۔ جبکہ چین کی اکانومی کا حجم 18.5کھرب ڈالر ہے ۔ چین اس وقت بھارت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے اور وہ عالمی پلیئر کے طور پر یہ سوچ رکھتا ہے کہ وہ ایک گلوبل پاور بن جائے ۔ جبکہ بھارت نے کبھی گلوبل پاور بننے کا دعویٰ نہیں کیا ۔ اس کا زیادہ سے زیادہ ہدف ہندو توا کا بھارت ہے۔ یہ دیومالائی تصور کبھی حقیقت میں نہیں بدل سکتا۔ کیونکہ ظلم اور ناانصافی کی بنیاد پر کوئی ریاست قائم نہیں رہ سکتی ۔ آپ دیکھ لیں 2014ء کے بعد جب سے مودی حکومت بنی ہے وہاں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں ہورہی ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتا چلا جارہا ہے ۔ آخر یہ لاوا پھٹ جائے گا ۔
سوال:پاکستان میں آج کل امریکی سفیر بہت متحرک نظر آرہے ہیں ۔ اس پر بعض تجزیہ نگار بڑی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں ، آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟
ایوب بیگ مرزا:امریکی سفیر پہلی دفعہ گوادر گیا ہے۔ حالانکہ امریکہ کا کم از کم سرکاری سطح پر گوادرمیں کوئی stakes نہیں ہے جبکہ وہاں چین نے بہت سرمایہ لگایا ہے۔ اس پر چین نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے ۔
سوال:کیا گوادر کوئی خفیہ پروجیکٹ ہے پاکستان کاکہ وہاں کوئی نہیں جا سکتا؟
ایوب بیگ مرزا:خفیہ پروجیکٹ کا سوال نہیںہے بلکہ سوال یہ ہے وہاں امریکہ کے سٹیک نہیں ہیں بلکہ اس کے مخالف چین کے سٹیکس بہت زیادہ ہیں ۔ وہاں امریکی سفیر کا بلا وجہ جانا کئی سوالات اُٹھاتاہے ۔
سوال: ہم چین کے ساتھ معاہدے کی ساری تفصیلات IMF کو دے چکے ہیں تو سفیر کے وہاں جانے پر ہمیں اعتراض کیوں ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:اعتراض اس لیے ہے کہ چین کے ساتھ پاکستان کا معاہدہ ہے اور امریکی سفیر وہاں جاکر یہ پیغام دے رہا ہے کہ اب پاکستان کی گردن امریکہ کے ہاتھ میں ہے ۔ 76 سال میں پہلی دفعہ یہ ہورہا ہے کہ امریکی سفیر سرکاری ملازمین سے مل رہا ہے ۔ حالانکہ ایک آزاد ملک کے رولز میں کوئی سفیر صرف ہیڈ آف دی سٹیٹ سے مل سکتاہے ۔ لیکن پاکستان میں امریکی سفیر آئی جی پولیس سے بھی مل رہا ہے ۔ اس کا کیا مقصد ہے سوائے اس کے کہ فلاں کو پکڑ لو ، فلاں کو چھوڑ دو ؟ صدر پاکستان نے چیف الیکشن کمشنر کو بلایا ، اُسی دن امریکی سفیر بھی الیکشن کمشنر کو ملنے جاتا ہے ۔ ہمارا چیف الیکشن کمشنر صدر پاکستان سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیتا ہے جبکہ امریکی سفیر سے ملاقات کرتا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکی اب ہماری گورننس میں بھی داخل ہو چکے ہیں ۔ وہ ظاہر کر رہے ہیں کہ پاکستان میں گورنمنٹ ہم چلا رہے ہیں ۔ یہ ہمارے لیے بہت ہی تشویش ناک بات ہے ۔
سوال: جی20 اجلاس میں شرکت کرنے والے مسلم ممالک کے رہنماؤ ں کو کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی نظر نہیں آتی ؟ پھر یہ کہ انڈیا پاکستان کو چھوڑ کر دیگر مسلم ممالک سے ہی تعلقات کیوں بڑھا رہا ہے ؟
رضاء الحق: حقیقت یہ ہے کہ جب سے مسلمانوں کی اجتماعیت ختم ہوئی ہے تو وہ تقسیم ہو کر ذاتی و ملکی مفادات کے تابع ہو گئے ہیں اور اُمت مسلمہ کے تحفظ کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں، اس وقت دنیا میں 57 مسلم ممالک ہیں ۔ سب کے اپنے اپنے معاشی اور سیاسی مفادات ہیں ۔جہاں سے بھی ان کو مفادات ملیں وہ اُسی طرف رخ کرتے ہیں چاہے اسرائیل سے ملیں ، بھارت سے ملیں یا امریکہ سے ۔ انہیں مسلمانوں کے اجتماعی مفادات سے کوئی غرض نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے آج دنیا میں جہاں بھی مسلمان ہیں وہ ظلم و ستم کا شکار ہیں ،ان کو دبایا جا رہا ہے، ان کو قتل کیا جا رہا ہے،مسلم خواتین کی عصمت دری کی جارہی ہے ، مسلمانوں کے ثقافتی ورثے کو ختم کیا جارہا ہے ۔ ان کی نسلوں کو تباہ کیا جارہا ہے ۔ مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کا تحفظ تب تک ہی ممکن تھا جب مسلمانوں کی اجتماعیت قائم تھی ۔ یعنی خلافت کا نظام موجود تھا ۔ اب صرف زبانی کلامی دعوے ہیں جیسا کہ ترکی کے صدر نے کشمیریوں کے حوالے سے بیان دیا لیکن دوسری طرف وہی ترکی کے صدر بھارت کی جی 20 کانفرنس میں شرکت بھی کر رہے ہیں ۔ اسی طرح سعودی عرب کےDefacto سربراہ نے بھی وہاں شرکت کی ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تک مسلمان اپنے اصل کی طرف نہیں لوٹیں گے تب تک ان کے مسائل کا حل ممکن نہیں ۔ ہمیں متحد کلمہ طیبہ لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ( ﷺ) نے کیا تھا ۔ دوبارہ بھی اسی بنیاد پر متحد ہو سکتے ہیں ۔ کلمہ کو بنیاد بنائیں اور اس کی بنیاد پر جو نظام تھا اسی کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کریں ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024