رسول اللہﷺ سے تعلق کے تقاضے
مسجدجامع القرآن، قرآن اکیڈمی، کراچی میں امیرتنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے22 ستمبر2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص
خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
ربیع الاول کے مہینے کی مناسبت سے بعض باتوں کی یاددہانی ہم سب کے لیے ضروری ہے ۔ چنانچہ اس ضمن میں آج ان شاء اللہ ہم سورۃ الاعراف کی آیت 157 کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ رسول اللہﷺ سے ہمارا تعلق کیسا ہونا چاہیے ،اس تعلق کے تقاضے کیا ہیں اور ان تقاضوں کو ہم کیسے پورا کر سکتے ہیں؟ فرمایا:
{فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٓٗ لا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(157)}(الاعراف) ’’تو جو لوگ آپ (ﷺ )پر ایمان لائیں گے‘اور آپ (ﷺ) کی تعظیم کریں گے اور آپ (ﷺ)کی مدد کریں گے‘ اور پیروی کریں گے اُس نور کی جو آپ(ﷺ )کے ساتھ نازل کیا جائے گا‘وہی لوگ ہوں گے فلاح پانے والے۔‘‘
اس آیت میں رسول اللہ ﷺسے ہمارے تعلق کے چار تقاضے بیان ہوئے ہیں ۔
(1)اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان
اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان کی ایک technical تعریف اہل علم نے یہ بیان فرمائی ہے: تصدیق بما جا ء بہ النبی ﷺ!’’ہر وہ خبر جو رسول اللہﷺ لے کر آئےاس کی تصدیق کرنا۔‘‘یہ ایمان ہے۔بحیثیت اُمتی اس کیفیت کی معراج پر صدیق اکبر ؓ ہیں ۔ معراج کے واقعہ پر مشرکین نے جاکر صدیق اکبر سے یہ پوچھا کہ بتاؤ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ رات کے قلیل عرصہ میں کوئی مکہ مکرمہ سے فلسطین چلا جائے اور پھر وہاں سے ساتوں آسمانوں کی سیر بھی کر کے آجائے ۔ آپ نے فرمایا : اگر رسول اللہ ﷺایسا فرما رہے ہیں تو یہ بالکل ممکن ہے ۔ اگرچہ آج کے جدید سائنسی دور میں ممکن ہے ہم اس واقعہ کی کچھ سائنسی توجیہات پیش کر سکیں لیکن اُس وقت تک ایسا کوئی تصور نہیں تھا ۔ مگر صدیق اکبر کو تصدیق کرنے میں کوئی ایشو نہیں تھا کیونکہ وہ اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان لا چکے تھے ۔ بہرحال ایمان کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی لائی ہوئی ہر خبر پر ایمان ہو ۔ آپﷺ جو خبر لے کر آئے اس میں قرآن مجید اور احادیث شامل ہیں ۔ ان کی تصدیق کرنا ایمان ہے ۔
ایمان کا دوسرا جز یہ ہے کہ آپ ﷺ کو خاتم النبیین مانا جائے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ط}(الاحزاب:40)
’’(دیکھو!)محمد (ﷺ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں‘بلکہ آپؐ اللہ کے رسولؐ ہیں اور سب نبیوں پر مہر ہیں۔‘‘
اس آیت کی رو سے وہی شخص مسلمان کہلائے گا جس کا اس بات پر ایمان ہو کہ آپ ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں ۔ ورنہ کوئی شخص بے شک اللہ پر ، اللہ کے رسولوں پر ، اللہ کی کتابوں پر ، آخرت پر ایمان کیوں نہ رکھتا ہو وہ مسلمان نہیں ہے جب تک کہ آپ ﷺ کو خاتم النبیین نہ مانے ۔ جیسا کہ یہود کے بارے میں فرمایا:
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّـقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ(8)} (البقرۃ)’’اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے تو یہ ہیں کہ ہم ایمان رکھتے ہیں اللہ پر بھی اور یومِ آخر پر بھی‘ مگر وہ حقیقت میں مؤمن نہیں ہیں۔‘‘یہود کا بھی اللہ اور آخرت پر ایمان تھا لیکن رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہیں لائے تو اللہ فرماتا ہے کہ وہ اہل ایمان نہیں ہیں ۔ پھر یہ کہ ایمان کادعویٰ محض زبانی کلامی نہ ہو بلکہ دل سے اس کی تصدیق بھی ہو ۔ قرآن کریم میں فرمایا:
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ } (النساء:136) ’’اے ایمان والو! ایمان لائو اللہ پر‘ اُس کے رسولؐ پر ۔‘‘
زبان سے اقراربھی ضروری ہے مگردل میں یقین ہوگا تو ہمارا عمل اس کا ثبوت پیش کرےگا ۔ پروفیشنل سٹڈیز میں ہم سب 16،16 گھنٹے پڑھ رہے ہوتے ہیں ، گھروالوں کو بھول جاتے ہیں ، گھومنا پھرنا ، کرکٹ ، دوست ، سمارٹ فون سب کچھ بھول جاتے ہیں اس لیے کہ یہ یقین ہوتا ہے کہ سٹڈی مکمل کروں گا تو پروفیشن میں جا پاؤں گا ۔ اسی طرح دل میں یقین ہے کہ کاروبار نہیں کروں گا تو بھوکا مر جاؤں گا ۔ جس چیز کی بھی قدر دل میں ہوگی تو عمل ثبوت پیش کرے گا ۔ ہم اپنے دل سے پوچھیں کیا محمد رسول اللہ ﷺ کی قدر دل میں ہے؟اگر محمد مصطفیﷺ کی قدر دل میں ہو گی تو عمل بتائے گاکہ یہ محمد رسول اللہﷺ کا امتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن وہ ہے جسے دیکھ کر اللہ یاد آ جائے۔ (جامع ترمذی )یعنی اس کی ترجیحات ، اعمال ، کردار اور اخلاق بتائے گا کہ یہ اللہ کو ماننے والا ہے ۔ کیا آج ہمیں دیکھ کر لوگوں کو اللہ یاد آتا ہے ؟اسی طرح اُمتی وہ ہوگا جسے دیکھ کر محمد مصطفیٰ ﷺیاد آئیں۔ کیا آج ہمارے کردار ، اعمال ، اخلاق دیکھ کرایسا لگتا ہے کہ محمد مصطفیﷺ کے اُمتی ہیں ۔ جھوٹ ہم بولیں، وعدہ خلافی ہم کریں، خیانت ہم کریں، ملاوٹ ہم کریں، دھوکہ ہم دیں، سود خوری ہم کریں، گھروں میں بے پردگی ، معاشرے میں بے حیائی ہو ، جہاں کسی کو موقع ملے وہ دوسرے کا حق مارنے کو تیار ہو ، کیا اُمتیوں والی کوئی صفت بھی ہم میں ہے کہ ہمیں دیکھ کر دنیا کو محمد مصطفیﷺ یاد آئیں؟لہٰذا محض زبان سے نہیں بلکہ دل سے بھی محمد مصطفی ﷺ پر ایمان ہو جس کا ثبوت ہمارا عمل پیش کرتا ہو ۔ پھر ایمان کا تقاضا ہے کہ ہمارے دل میں رسول اللہﷺ کی محبت بھی ہو ۔ قرآن مجید میں اللہ فرماتا ہے :{اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ} (الاحزاب:6) ’’یقیناً نبیؐ کاحق مؤمنوں پر خود اُن کی جانوں سے بھی زیادہ ہے‘‘
ہمیں جس سےمحبت ہوتی ہے اس کی قدر بھی ہوتی ہے ،اس کے ساتھ لحاظ اور مروت کا معاملہ بھی ہوتا ہے۔ اس کو کوئی برا بھلا کہے تو ہمیں غصہ بھی آتا ہے۔ ماں کو کوئی گالی دے تو ہم مرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں ۔ رسول اللہﷺ سے اگر واقعتاًمحبت ہو گی اور ان کی شان میں کوئی گستاخی کرے تو ہمیں غصہ ضرور آئے گا ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہمیں اپنے ایمان پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔ ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺسے محبت اپنی جان سے بڑھ کر ہو ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد ین، اس کی اولاد اور سارے انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘(بخاری شریف) دوسری روایت میں ہے کہ جب تک تمہاری جان سے بڑھ کر میں تمہارے نزدیک محبوب نہ ہو جاؤں تمہارا ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔ سورۃ التوبہ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
’’ (اے نبی ﷺ !ان سے)کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ ‘تمہارے بیٹے‘تمہارے بھائی‘تمہاری بیویاں (اور بیویوں کے لیے شوہر)‘تمہارے رشتہ دار اور وہ مال جو تم نے بہت محنت سے کمائے ہیں ‘اور وہ تجارت جس کے مندے کا تمہیں خطرہ رہتا ہے ‘اور وہ مکانات جو تمہیں بہت پسند ہیں ۔( اگر یہ سب چیزیں) تمہیں محبوب تر ہیں ‘اللہ‘اُس کے رسول (ﷺ) اور اُس کے راستے میں جہاد سے ‘تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ سنا دے۔اور اللہ ایسے فاسقوں کو راہ یاب نہیں کرتا۔‘‘(آیت:24)
ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرماتے تھےکہ یہ آٹھ محبتیں ایک پلڑے میں رکھیں اور دوسرے پلڑے میں یہ تین محبتیں رکھیں اور پھر اپنا جائزہ لیں ۔ کہیں مال ، اولاد ، دنیا کی محبت میں ڈوب کر ہم اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ بے وفائی تو نہیں کررہے ۔ ان کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات تو نہیں توڑرہے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اللہ ایسے فاسقین کو ہدایت نہیں دیتا۔پھر ہمیں اللہ کے عذاب کا انتظار کرنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((من احب سنتی فقد احبنی ومن احبنی کان معی فی الجنۃ))’’جس نے میری سنت سے میرے طریقے سے محبت کی یقیناً اس نے مجھ سے محبت کی۔ اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہو گا۔‘‘(جامع ترمذی)
لہٰذا حضور ﷺ پر ایمان کا تقاضاہے کہ آپﷺسے محبت بھی ہو اور حضورﷺ کی محبت کاتقاضاہے کہ آپﷺ کی اتباع بھی ہو۔ قرآن کریم میں ابراہیم ؑ کے تعلق سے اللہ نے ایک بات ارشاد فرمائی:
{اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰہِیْمَ لَـلَّذِیْنَ اتَّــبَعُوْہُ} (آل عمران:68)’’یقیناً ابراہیم ؑ سے سب سے زیادہ قربت رکھنے والے لوگ تو وہ ہیں جنہوں نے اُن کی پیروی کی‘‘
یہود و نصاریٰ اور مشرکین مکہ کا دعویٰ تھا کہ وہ ابراہیم ؑ کے چاہنے والے اور ماننے والے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا : ابراہیم ؑ کا دین تو توحید پر مبنی تھا تم بت پرستی اور شرک میں کیوں پڑے ہو ؟ ابراہیم dکے اصل پیروکار تو وہ ہیں جو اُن کی اتباع کریں گے ۔ اسی طرح حضورﷺکے چاہنے والے اور ماننے والے تو وہ ہوں گے جو آپ ﷺ کی پیروی کریں گے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ گیارہ مرتبہ فرماتاہے :{وَاَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ج} (التغابن:12)’’اور اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول(ﷺ) کی۔‘‘
ایک اطاعت ہے اور ایک اتباع ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات پر عمل کرنا اطاعت ہے اور رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم کی پیروی کرنا اتباع ہے ۔ اللہ نےنماز کا حکم دیا لیکن طریقہ رسول اللہﷺ بتائیں گے۔ پھر اللہ فرماتا ہے : {مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ ج}(النساء:80) ’’جس نے اطاعت کی رسو ل کی اُس نے اطاعت کی اللہ کی۔‘‘
اللہ کی اطاعت کا نمونہ رسول اللہﷺ سے ملے گا ۔ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی اطاعت سے آگے بڑھ کر آپ ﷺ کی اتباع کا مطالبہ کرتا ہے یہاں تک کہ آپ ﷺ کی اتباع کو اللہ اپنی محبت کا لٹمس ٹیسٹ قرار دیتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:{ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ}(آل عمران:31) ’’( اے نبیﷺ) کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔‘‘
اتباع زندگی کے تمام گوشوں میں ضروری ہے۔ ایک ایک گوشے میں بندہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع کی کوشش کرے ۔ یہ رسول اللہ ﷺاور اللہ سے محبت کا تقاضا ہے۔آج معاشرے میں بے حیااور بدکار قسم کے اداکاروں اور اداکاراؤں اور ماڈلز وغیرہ کو رول ماڈل بناکر ان کے ہر ہر عمل کی پیروی کو جدت پسندی سمجھ لیا گیا ہے۔ اُمت مسلمہ کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ جس ہستی کو رب کائنات نے اُسوئہ حسنہ بنایا اُن کی اتباع ہم کتنی کررہے ہیں ؟ارشاد ہوتاہے :{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ}(الاحزاب:21)’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐمیں ایک بہترین نمونہ ہے ‘‘
اگر ہمارے دل میں رسولﷺ کی محبت ہوگی تو ہم لازماً آپ ﷺ کی پیروی کر رہے ہوں گے ۔ ورنہ معاملہ برعکس ہو گا ۔
(2)رسول اللہ ﷺ کی توقیر وتعظیم
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے :
’’اے اہل ِایمان! اپنی آواز کبھی بلند نہ کرنا نبی(ﷺ) کی آواز پر اور نہ انہیں اس طرح آواز دے کر پکارنا جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو بلند آواز سے پکارتے ہو‘مبادا تمہارے سارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘(الحجراتـ:2)
یہ قرآن کریم کا حساس ترین مقام ہے جو سختی سے جھنجوڑ رہا ہے کہ دنیا کے کسی بھی شخص کے متعلق کلام کریں مگر جب انبیاء کی بات آئے تو احتیاط کریں اور جب حضور ﷺ کی بات آئے تومعاملہ اور بھی حساس ہو جاتا ہے۔ تمہاری آواز بھی حضورﷺ کی آواز سے بلند نہ ہونے پائے ۔ یہ آپ ﷺ کے ادب کا تقاضا ہے ۔ اگر اس کا خیال نہیں رکھا تو تمام نیکیاں برباد ہو جائیں گی ۔ کہاں یہ کہ کوئی آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرے اُس کے لیے تو اللہ کا سخت ترین عذاب ہوگا ۔ آج ہمارے معاشرے میں بڑے عامیانہ انداز میں اللہ کے رسول ﷺ کی سنتوں کا مذاق اُڑا دیا جاتاہے ۔ خدارا! ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے گھروں میں اپنے بچوں کی اس حوالے سے تربیت کریں، حضورﷺ کی محبت اور آپ ﷺ کے احسانات کو اُن کے دلوں میں اجاگر کریں تاکہ وہ ان گستاخیوں سے بچیں جن کی وجہ سے آج بچے اپنے عقیدہ اور ایمان سے بھی ہاتھ دھو رہے ہیں ۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے ۔
(3) رسول اللہ ﷺ کی نصرت
آپ ﷺ کی نصرت یہ ہے کہ جس مقصد اور مشن کے لیے آپ ﷺ نے اپنی زندگی لگادی ، قربانیاں پیش کیں ، اپنے پیاروں کو کھویا ، اپنا خون بہایا ، اذیتیں اور تکلیفیں برداشت کیں اُس کے لیے اُمتی اپنی جان ،مال اور وقت لگائیں ۔ صاف لفظوں میں اللہ کے دین کی مدد آپ ﷺ کی مدد ہے اور ہم اللہ کے دین کی مدد کریں گے تو اللہ کی مدد ہمارے بھی شامل حال ہوگی ۔ آج اس مملکت خداداد پاکستان کے مسائل کیوں حل نہیں ہو رہے ؟ صرف اس لیے کہ اللہ کی نصرت ہمارےساتھ نہیں۔کوئی کافر بن کر دنیا لینا چاہے تو لے لے ، مل جائے گی ، فرعون اور قارون کو بھی مل گئی تھی ۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ؐمسلمان کو دنیا تب ملے گی جب وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ وفاداری نبھائے گا ۔ اللہ بے نیاز ہے ۔ جب چاہے دین کو غالب کردے مگر اُس نے یہ دنیا ہمارے امتحان کے لیے بنائی ہے کہ ہمارا دعویٰ ایمان سچا ہے یا جھوٹا ، اللہ کے رسول ﷺ سے محبت کے ہمارے دعوے سچے ہیں یا جھوٹے۔اللہ پکارتا ہے:
’’اے اہل ِایمان! تم اللہ کے مددگار بن جائو‘جیسے کہا تھا عیسیٰ ؑابن مریم نے اپنے حواریوں سے‘کون ہے میرا مددگار اللہ کی طرف؟ حواریوں نے کہا کہ ہم ہیں اللہ کے مددگار!‘‘(الصف:14)
اللہ کو کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے وہ تو صرف ہمیں آزمارہا ہے ۔ اللہ کے رسولﷺ کےمشن میں شامل ہونا رسول اللہ ﷺ کی نصرت ہے ۔ دنیا کے اس امتحان میں کامیاب وہی ہوں گے جو اس مشن کا ساتھ دیں گے ۔ آج بحیثیت اُمتی یہ ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ہے ۔ کل قیامت کےدن اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے ، کیا جواب دیں گے ؟بقول الطاف حسین حالی؎
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہےآج ہمیں ہر بات کی فکر ہے لیکن کیا اللہ کے رسولﷺ کے مشن کی بھی فکر ہے ؟ حالانکہ اس مشن کی کامیابی پر اللہ کا وعدہ یہ ہے :
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(7)} (محمد)’’اے اہل ِایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔‘‘
آج ہمارے قدم کیوں اُکھڑچکے ہیں ، معاشی اور سیاسی لحاظ سے ستیاناس کیوں ہے ؟ ملکی سلامتی کیوں داؤ پر لگی ہوئی ہے ؟
یہی بات دوسرے مقام پر اللہ فرماتا ہے:{اِنْ یَّـنْصُرْکُمُ اللہُ فَلَا غَالِبَ لَـکُمْ ج}(آل عمران:160) ’’(اے مسلمانو! دیکھو) اگر اللہ تمہاری مدد کرے گا تو کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا۔‘‘
آج پوری دنیا میں ہم مسلمان مغلوب ہیں ۔ کیونکہ ہم نے اللہ کے دین کو بے سہارا چھوڑ دیا ہے ۔ ہم نے امریکی امداد کے سہارے چل کر بھی دیکھ لیا ، چین ، سعودی عرب سب کے سامنے ہاتھ پھیلا لیے لیکن کیا ہوا؟ جب اللہ کی نصرت ہی منہ موڑ لے تو کون ہماری مدد کرسکے گا ؟لیکن اگر ہم اللہ کے دین کی مدد کریں گے تو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ہماری مدد کرے گا ۔ اللہ کے دین کی صرف دعوت دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے نفاذ کی کوشش کرنا ہر امتی کے فرائض میں شامل ہے ۔ سورۃا لشوریٰ کی آیت کاحوالہ بھی بار بار آتاہے :{اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط} (آیت:13) ’’کہ قائم کرو دین کو۔اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘
اس نصرت کے تناظر میں اللہ کے رسول ﷺکی بڑی پیاری حدیث ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا: اےکاش میری ملاقات میرے بھائیوں سے ہو جائے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں؟ فرمایا:کیوں نہیں ، تم میرے اصحاب ہو ، لیکن میں ان سے ملنا چاہتا ہوں جو تمہارے بعد آئیں گے، مجھ پر ایمان لائیں گے جیسے تم ایمان لائےہو۔ میری تصدیق کریں گے جیسے تم نے میری تصدیق کی ہےاور وہ میری اسی طرح مدد کریں گے جیسے تم نے میری مدد کی ہے ۔ ‘‘
ہم دعا کرتے ہیں اللہ کے رسول ﷺ کا دیدار اور شفاعت نصیب ہو ۔ وہاں حضور ﷺ تمنا کررہے ہیں ہم سے ملاقات کی ۔ لیکن شرائط کیا ہیں؟ ہم ایسے ایمان لائیں ، ایسے تصدیق کریں ، ایسے آپ ﷺ کی مدد کریں جیسے صحابہ کرامؓ نے کی تھی ۔ صحابہ کرامؓ نے تو اپنی زندگیاں آپ ﷺ کے مشن کے لیے کھپا دی تھیں ، گھر بار کھپا دیے تھے ۔ آج ہم آپ ﷺ کی مدد اور نصرت کے لیے کیا کررہے ہیں ؟کیا آج رسول اللہ ﷺسے ملاقات اور آپ ﷺ کی شفاعت ہماری ترجیحات میں شامل ہیں؟ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت ثوبان h کو غم زدہ دیکھاتو پوچھا : کیوں روتے ہو ؟ عرض کی : یا رسول اللہﷺ یہ بات پریشان کرتی ہے پتا نہیں جنت ملے گی یا نہیں ملے گی اور اللہ نے فضل فرما کر جنت عطا فرمادی تو پتا نہیں آپﷺ کا ساتھ نصیب ہوگا یا نہیں ہوگا ۔ آپ ﷺ تو بلند مقام پر فائز ہوں گے ۔ تب قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی:
’’اور جو کوئی اطاعت کرے گا اللہ کی اور رسولؐ ‘کی تو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہیں معیت حاصل ہو گی اُن کی جن پر اللہ کا انعام‘ہوا‘یعنی انبیاء کرام‘ صدیقین‘ شہداء اورصالحین۔ اور کیا ہی اچھے ہیں یہ لوگ رفاقت کے لیے۔‘‘ (النساء:69)
صحابہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نزول پر جتنی خوشی ہمیں ہوئی اتنی پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی ۔ اس لیے کہ اگر اس دنیا میں ہم رسول اللہ ﷺ کی مدد دین کے معاملے میں کریں گے تو آخرت میں آپ ﷺ کی رفاقت نصیب ہوگی ۔ کیا آج ہماری یہ ترجیح ہے؟
(4)اتباع قرآن
چوتھی بات زیر مطالعہ آیت میں یہ بیان ہوئی کہ وہ قرآن کی اتباع کریں گے ۔ یعنی قرآن کے احکامات کا نفاذ کریں گے ، قرآن کی تعلیمات پر خود بھی عمل پیرا ہوں گے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیں گے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اسی قرآن کے ذریعے تذکیر و تبلیغ کا اہتمام کیا تھا ، اس کے نفاد کے لیے جدوجہد کی تھی ، یہی آپ ﷺ کی زندگی کا مشن تھا ۔ ختم نبوت کے بعد یہ ذمہ داری اس اُمت کے کندھوں پر ہے ۔ لہٰذا جو بھی اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان لانے اور آپ ﷺ سے محبت کے دعویدار ہیں وہ اس مشن میں آپ ﷺ کی مدد کریں گے ۔ آخر میں فرمایا :
{اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(157)} (الاعراف)’’وہی لوگ ہوں گے فلاح پانے والے۔‘‘
اللہ کی جنت سستی نہیں ہے۔ محض گھر بیٹھے آن لائن آرڈر پہ نہیں ملے گی۔ رسول اللہﷺ کے اُمتی ہیں تو آپ ﷺ سے تعلق کے ان تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے تب اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو یہ کریں گے وہی فلاح پانے والے ہیں۔ اللہ تعالی انہی لوگوں میں ہم سب کو شامل فرمائے۔آمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024