اداریہ
ایوب بیگ مرزاآہ! ہمارا معاشرہ
ہمارا معاشرہ جس تیزی سے گراوٹ اور پستیوں کی طرف رواں دواں ہے اس صورتِ حال کو بیان کرنے کے لیے اپنی ذہنی استعداد کے علاوہ لغت کا بھی سہارا لیں تب بھی مشکل نظر آتا ہے کہ حالات کی صحیح ترجمانی کے لیے موزوں الفاظ مل سکیں گے۔ معاشرہ اکائیوں کے مجتمع ہونے سے تشکیل پاتا ہے ہم بھی اس معاشرہ کی اکائی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے ایسے واقعات ہو رہے ہیں کہ صرف سر ہی شرم سے نہیں جھک رہا بلکہ سر تاپا شرمساری ہے، ندامت اور بے حسی ہے۔ جنہیں دنیا کو عدل دینا تھا اور جنہیں اس حوالے سے اپنوں اور بیگانوں کا فرق کرنے کی بھی اجازت نہ تھی وہ یا بدترین ظالم ہیں یا بدترین ظلم کا شکار ہیں۔ مغرب جو جھوٹا سچا مہذب تہذیب کا دعویدار ہے کم از کم ہم سے اس لحاظ تو بہتر ہے کہ سب کو نہ سہی اپنوں کو تو انصاف دیتا ہے۔ غیروں پر جو چاہے اور جتنا چاہے ظلم ڈھائے اپنوں کی حفاظت کرنا اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھتا ہے اور اس حوالے سے ہرگز غفلت کا شکار نہیں ہوتا۔ ہم پاکستانی مسلمانوں کا معاشرہ جسے اولاً اور اصلاً تو اسلامی روایات کا حامل ہونا چاہیے تھا لیکن یہ تو اب بڑی دور کی بات لگتی ہے یہ تو انہونی لگتی ہے۔ حال ہی میں وطن عزیز میں چند ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم تو عام انسانی اخلاقی اقدار سے بھی کوسوں دور ہو چکے ہیں۔ دولت اور اقتدار کا حصول انسانی جبلت کا حصہ ہے لیکن دنیا نے اس کے لیے کچھ قواعد و ضوابط وضع کیے ہیں، کچھ قانون بنائے ہیں۔ اگرچہ ان کی خلاف ورزی بھی ہوتی رہتی ہے لیکن اندھیر نہیں مچا ہوا۔ بحیثیت مجموعی معاشرے زیادہ تر ان قواعد و ضوابط کی پابندی کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارا دلچسپ اور شرمناک رویہ یہ ہے کہ ہم غیروں سے تو کچھ رعایت برت لیتے ہیں، خاص طور پر ’’ چِٹی چمڑی‘‘ تو دیکھتے ہی ہمارے اوسان خطا ہو جاتے ہیں اور ہم اُن کے آگے بچھ جاتے ہیں لیکن اپنوں کے لیے تو فرعونیت عود آتی ہے۔ حال ہی میں ہم نے دولت اور اقتدار کے لیے لوگوں کی زندگیوں کو تاریکی سے بھر دیا، اُن کی دنیا اندھیر ہوگئی۔ ایواسٹین (Avastin) نامی ایک انجکشن تھا (جو بنیادی طور پر AMD بیماری، شوگر کے مریضوں میں آنکھوں کے مسائل اور retina کے دیگر امراض کے لیے استعمال ہوتا ہے)! جس سے درجنوں لوگوں کی آنکھیں ضائع ہوگئیں بے شمار کی آنکھیں متاثر ہوئیں۔ ہم مردہ جانوروں کا گوشت بیچ کر پیسے کماتے ہیں، ہم گدھے کو ہلاک کرکے مسلمانوں کو کھلا دیتے ہیں جس کا کھانا مسلمان کے لیے جائز نہیں، ہم جعلی دوائیاں بنا کر لوگوں کی جانوں سے کھیلتے ہیں۔
دوسرا واقعہ ایک دینی مدرسہ کا ہے جس میں اُستاد نے شاگرد کے چھٹی کرنے پر اُسے ڈنڈے کے ساتھ وحشیانہ انداز میں خوب پیٹا پھر اُسے کمرے میں بند کر دیا اور جب معلوم ہوا کہ یہ شاید جان سے ہی چلا جائے تو خود کو کسی سزا سے بچانے کے لیے اُسے ہسپتال میں داخل کرا دیا لیکن ظالم اور شقی القلب انسان نے (جسے اُستاد کہنا اس قابل احترام منصب کی توہین ہے) ایسی خوفناک ضربیں لگائی تھیں کہ یہ چودہ سالہ بچہ جانبر نہ ہو سکا۔ یہ صرف اس قابلِ احترام منصب کی ہی نہیں انسانیت کی توہین و تذلیل ہے اگر قانون اجازت دے تو اس انسان نما درندے کو اسی مدرسے کے باہر تختہ دار پر چڑھایا جا ئے جس نے ایک معصوم بچے کی کتنی اذیت ناک طریقہ سے جان لی۔ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ مدرسہ کی انتظامیہ یا کسی دوسرے اُستاد نے اس بدبخت کا ہاتھ کیوں نہ روکا۔ بہرحال ایسا انسان جو خود جہالت کا سمبل ہے، جس کا دل و دماغ جہالت کی آماجگاہ ہے اور انسانیت سے قطعاً کوئی تعلق نہیں رکھتا وہ کسی کو کیا اور کیسی تعلیم دے گا۔ اللہ تعالیٰ اُس قوم پر رحم کرے جس کے اُستاد بھی اتنی گھٹیا اور پست ذہنیت کے حامل ہیں۔ درحقیقت یہ بھی اقتدار اور اظہارِ اقتدار کے شوق کا نتیجہ ہے کہ اتنی محدود سطح پر اتھارٹی رکھتے ہوئے فرعونیت کا اظہار کیا گیا۔
تیسرا واقعہ بھی دردناک ہونے کے حوالے سے کسی طرح کم نہ تھا۔ یہ بھی اپنی فرعونیت کا عروج اور کمال تھا، یہ بھی اقتدار کے نشہ کا غلیظ ترین مظہر تھا۔ پولیس کو عباد فاروق نامی تحریک انصاف کے ایک کارکن پر 9 مئی کے واقعہ میں ملوث ہونے کا شبہ تھا۔ اُس کے گھر پر بار بار دیوار توڑ چھاپے مارے گئے، چادر اور چار دیواری کے تحفظ کو بُری طرح روندا گیا، اُس کا سات آٹھ سالہ عمار نامی بچہ بار بار کی پولیس گردی سے خوف زدہ ہوگیا اور ایسا خوف زدہ ہوگیا کہ بالآخر موت کے منہ میں چلا گیا۔ ویسے تو ہمارے ہاں مشہور ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار کی خواہش اور اُس کا تحفظ انسان کو درندوں سے بدتر کر دیتا ہے۔ بچے کی موت کے بعد پہلے یہ کہانی تراشی گئی کہ بچہ پہلے سے بیمار تھا لیکن جب بچے کی ایسی تازہ ویڈیو سامنے آئی جس میں بچہ گراؤنڈ میں کھیل رہا ہے اور پھر یہ کہ ڈاکٹر کے نسخہ پر لکھا ہوا تھا "acute grief attack"۔ ظلم کی یہ داستان یوں شروع ہوتی ہے کہ پہلے باپ کو پکڑا گیا، پھر ماں کو پکڑ کر لے گئے، پھر بوڑھی دادی کو بھی لے گئے۔ اس مسلسل دہشت گردی نے بچہ کے ذہن کو بُری طرح متاثر کیا۔ جب بچہ بستر پر پڑ گیا تو اُس کے چچا نے ہر حکومتی دروازہ کھٹکھٹایا کہ باپ کو بچے سے ملا دیں لیکن انتظامیہ میں شاید سب بے اولاد تھے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اولاد کا دکھ کیسا دکھ ہوتا ہے۔ بچہ بالآخر کوما میں چلا گیا تب کہیں تھوڑی دیر کے لیے اُس کے والد کو لایا گیا جب والد نے بچے کو دیکھا تب بھی اُس معصوم کے پیارے پیارے رخساروں پر آنسو تھے اُس کا بھائی جو اُس سے کچھ بڑا ہے کوما میں جانے سے پہلے اُسے یہ جھوٹی تسلی دیتا رہا کہ ابو آ رہے ہیں تم ٹھیک ہو جاؤ گے اور ہم پھر اکٹھے کھیلیں گے۔ جب بہت سے شواہد نے اور ڈاکٹروں کی تشخیص نے یہ ثابت کر دیا کہ ’’بچہپہلے ہی بیمار تھا‘‘ کا بیانیہ جھوٹا ہے تو پھر یہ کہا جانے لگا کہ اُس کے باپ نے جناح ہاؤس پر حملہ کرکے ریڈ لائن کیوں کراس کی۔ عذر گناہ بدتر از گناہ۔ ضلع کچہری سے لے کر کس سپریم کورٹ میں یہ بات ثابت ہوئی تھی کہ الزام درست ہے۔ اور آئیے فرض کر لیں کہ یہ ثابت ہو جائے کہ عمار کے باپ نے جناح ہاؤس کو نقصان پہنچایا تھا تو سزا جرم کے مطابق ہونی چاہیے یا ملزم کی سیاسی شناخت کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
ایک حدیث شریف کا ترجمہ ذمہ داران کو پیش کر دیتے ہیں ’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضورنبی اکرم ﷺ کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کی جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔‘‘ (ابن ماجہ) ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اقتدار تو دھوپ اور چھاؤں کی طرح ہوتا ہے اور موت بہرحال سب کو آنی ہے اور اقتدارِ مطلق تو صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024