الہدیٰ
قوم ثمود کے نوسر داروں کا حضرت صالح ؑ پرحملہ کا پروگرام
آیت 48{وَکَانَ فِی الْمَدِیْنَۃِ تِسْعَۃُ رَہْطٍ یُّفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ(48)} ’’اور اُس شہر میں نو(9) بڑے بڑے سردار تھے‘وہ زمین میں فساد مچاتے تھے اوراصلاح نہیں کرتے تھے۔‘‘
آیت 49{قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللہِ لَنُبَیِّتَنَّہٗ وَاَہْلَہٗ} ’’انہوں نے کہا کہ تم سب آپس میں اللہ کی قسم کھا کر عہد کرو کہ ہم لازماً رات کو حملہ کریں گے اس پر اور اس کے گھر والوں پر ‘‘
ان سب سرداروں نے مل کر حضرت صالح ؑ کو قتل کرنے کی سازش کی۔ ان میں سے کوئی اکیلا یہ اقدام کر کے حضرت صالحd کے قبیلے کے ساتھ دشمنی مول نہیں لے سکتا تھا ‘اس لیے انہوں نے حلف اٹھوا کر سب کو اس پر آمادہ کیا۔ سب کو اس طرح اس مہم میں شامل کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ان میں سے کوئی شخص راز فاش نہ کر سکے۔ قبائلی روایات و قوانین کے تحت پورا قبیلہ بحیثیت مجموعی اپنے تمام افراد کے جان و مال کے تحفظ کا ذ مہ دار ہوتا ہے اور اپنے کسی فرد کو کوئی گزند پہنچنے کی صورت میں پورا قبیلہ یک جان ہو کر اس کے بدلے کا اہتمام کرتا ہے۔ سورۂ ہودؑ میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ حضرت شعیب ؑ کی قوم کے لوگ بھی آپؑ کے خلاف ایسا ہی اقدام کرنا چاہتے تھے لیکن آپؑ کے قبیلے کے ڈر کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکے۔ اپنی اس مجبوری کا اقرار انہوں نے ان الفاظ میں کیا تھا:{وَلَوْلَا رَہْطُکَ لَرَجَمْنٰکَ ز} (آیت91)’’اور اگر تمہارا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم تمہیں سنگسار کر دیتے۔‘‘
خودحضرت محمدرسول اللہﷺ کے خلاف بھی مکّہ میں ایک وقت ایسا آیا کہ سب مشرکین آپؐ کے قتل کے درپے ہوگئے‘ مگر اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ڈرتے تھے کہ ان کا یہ اقدام ان کے قبائل کے درمیان کہیں خانہ جنگی کا باعث نہ بن جائے۔ چنانچہ انہوں نے بھی بعینہٖ وہی منصوبہ بنایاجو حضرت صالحd کی قوم کے سرداروں نے بنایا تھا کہ ہر قبیلے سے ایک ایک نوجوان اس عمل میں شریک ہو اور سب مل کر آپؐ پر حملہ کریں۔ اس طرح نہ تو یہ پتا چل سکے گا کہ اصل قاتل کون ہے اور نہ ہی بنو ہاشم سب قبائل سے بدلہ لینے کی جرأت کر سکیں گے۔
بہر حال حضرت صالحd کی قوم کے ان نو سرداروں نے باہم حلف اٹھا کر منصوبہ بنایا کہ وہ سب مل کر رات کو آپؑ کے گھر پر دھاوا بول دیں گے اور:
{ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِیِّہٖ مَا شَہِدْنَا مَہْلِکَ اَہْلِہٖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ(49)} ’’پھر ہم اُ س کے وارث سے کہہ دیں گے کہ ہم تو اس کے گھر والوں کے قتل کے وقت موجود ہی نہیں تھے اور ہم بالکل سچّے ہیں۔‘‘
درس حدیث
دین اور اخلاق
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ؓ قَالَ : قَالَ رَسُوْلَ اللہِﷺ(( اِ نَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ صَالِحَ الْاَخْلَاقِ )(مسند احمد)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔‘‘
تشریح: دین میںاگرچہ عبادات بھی ہیں اور تطہیر بدن اور تطہیر خوردو نوش کے احکام بھی مگر سب سے زیادہ اہمیت تطہیر اخلاق کی ہے۔ ایمان کا حسن اخلاق کے بغیر درجہ ٔ کمال کو نہیں پہنچ سکتا۔ قرآن مجید نے جگہ جگہ اس کی تصریح فرمائی ہے۔ یہ حدیث اسی کی وضاحت ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024