(کارِ ترقیاتی) خواہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے - عامرہ احسان

8 /

خواہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرےعامرہ احسان

مبارک ہو! آپ زمینی خبریں پڑھ کر کڑھنا چھوڑ دیں۔ اوپر دیکھیں۔ ہم چین کی گود میں بیٹھ کر چاند فتح کرنے جا رہے ہیں۔ چین کا نیا مشن ہمارے 6سائنسی بچونگڑے لے کر چاند کو جائے گا! چینی مشن فرانس، اٹلی اور یورپ خلائی ایجنسی کے آلات بھی ہمراہ لے جا رہا ہے۔ ہمارا سیٹلائٹ بھی چاند کے مدار میں پہنچایا جائے گا۔ یورپی ممالک تو کرایہ دیں گے۔ ہماری خبر نہیں کہ آیا جھونگے میں جا رہے ہیں یا آدھا کرایہ لگے گا؟ چین سے ہمارا مامتائی تعلق ہے، ذرا ہمارے والوں کے ناک منہ دھلا کر (سائنسی جانچ پڑتال کرکے) لے جائے۔ چاند پر پہنچ کر کوئی گل نہ کھلا دیں۔ (چاند کے مدار سے ہمارے سر پر ہی نہ آ پڑیں۔ ان دنوں اوپر دیکھنے رات کو باہر نکلنے سے احتراز کریں! شکوک وشبہات بلاوجہ تو نہیں۔ ہمارے ہر شعبے کے فنکاروں، ان کے پشت پناہوں کا حال دیکھ لیں تو خود ہی محتاط ہو جائیں گے! مثلاً ابھی منشیات والے ڈی ایس پی کی خبر کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ گردہ فروشوں کی کہانی کھل گئی۔ اول الذکر مجرم 6 مرتبہ ملازمت سے نکالا (اور بحال کیا) گیا۔ 45 مرتبہ معطل ہوکر پھر رواں دواں رہا محکمے میں! دھندا عروج پر چلا۔ اربوں لوٹے اور حصہ داروں (بحال کرنے والوں) کو دیے۔ اب گردے نکال کر بیچنے والے گروہ کا سرغنہ چھٹی بار گرفتار ہوا ہے!
(مذکورہ واردات کے حساب سے ابھی 45 باریاں باقی ہیں، حصہ داروں کے ذریعے!) 328 غیرقانونی آپریشن کیے۔ یہ گردے ایک کروڑ تک میں فروخت کیے گئے! جرائم پیشہ افراد اور پشت پناہ سرکاریوں کا دل گردہ تو دیکھیں۔ کمائی، منشیات اور گردہ فروشی جیسی ہولناک، گھر، افراد، خاندان اجاڑکر ہو رہی ہے! سبھی آتی جاتی حکومتوں کی ناک تلے! ڈاکٹر فواد مشتہر کیوں نہ ہوا؟ اس گروہ کے وسیع کاروبار میں کئی افراد ملوث ہیں۔ موٹر مکینک مریض بے ہوش کرتا تھا۔ (انسان کو بے دردی سے ٹین کی بنی گاڑی پر قیاس کرکے!) پاکستانی خود بھی تو ہوش گنوانے پر تلے بیٹھے رہتے ہیں۔ دل دماغ آنکھیں بند کیے۔ قوم کے بھلے چنگے حصے کو بے ہوشی لاحق رہی۔ 9 مئی کو آنکھ کھلی تو آدھا دماغ چوری ہو چکا تھا! بے ہوش کرنے کی تکنیک آتی ہو، بھلے موٹر مکینک ہو یا کھلاڑی! ابھی تو آنکھوں کے جعلی ٹیکوں کا غم ہی نہ اترا تھا کہ اب گردے بِک گئے! ’تجارت‘ میں اشتراک کی ایک صورت یہ بھی سامنے آئی کہ بھکاری عمرے کی آڑ میں جاتے ہوئے پکڑے گئے۔ ایجنٹوں سے طے تھا کہ وہاں کی مبارک بھیک میں آدھا حصہ ایجنٹ کو ملے گا۔
مسئلہ بدعنوانی سے گلے سڑے، ایمان سے عاری نظام کا ہے۔ آنکھ کے بدلے آنکھ اور گردے کے بدلے گردہ کا قانون ہو، لنڈے کے انگریزی قانون کی جگہ تو زمین چار دن میں ان جرائم سے پاک ہو جائے۔ پھر آپ پاک سرزمین شاد باد کہتے جچیں گے! امریکی دوستی میں 21 ویں صدی تو اول دن سے ہم نے ملک کو اسلام سے بچا بچا رکھنے میں لگا کھپا دی۔ ایک مسکین سا، سطحی بیانات والا بے دانت، بے دل وگردہ سا اسلام رہ جائے۔ اسی تسلسل میں اب پاکستان میڈیکل ڈینٹل کونسل نے پنجاب حکومت سے مل کر داخلہ پالیسی میں ’اصلاح‘ فرمائی ہے کہ حافظِ قرآن کو (احتراماً) جو 20 اضافی نمبر سرکاری میڈیکل ڈینٹل کالجوں میں دیے جاتے تھے، اب نہیں ملیں گے۔ (ایسے لوگ گردے نکالنے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔) تاہم عجب تو یہ ہے کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے 6 رکنی بینچ سے آیا تھا جسے انہوں نے سر آنکھوں پر لیا۔ ’توہینِ عدالت‘ کا خدشہ مول لیتے ہوئے ہم بہرطور پوچھنا چاہتے ہیں کہ حفاظ کرام ان 20 نمبروں کی خیرات آپ سے کیوں مانگیں گے، مگر فیصلہ لکھتے ہوئے 6 ہاتھوں میں سے کوئی ہاتھ کپکپایا تو نہ تھا؟ معاملہ قرآن کا تھا، حافظ صاحب کا نہیں!ویسے حالیہ ایم کیٹ میںہائی ٹیک نقل والوں کی صلاحیت پر یہ 20اعزازی نمبرانہیں دیدیتے۔
آئیے پاکستان کے زمینی معاملات بھلانے کو پھر ذرا چینی چاند مشن، اس کی غرض وغایت، (جس میں ہم بھی ترقی کرتے شامل ہو گئے ہیں۔) ملاحظہ فرما لیں۔ یہ مشترکہ چاند پر بین الاقوامی تعاون کی صورت ہے۔ یہ مشن چاند کے تاریک حصے میں جاکر وہاں سے نمونے اکٹھے کرکے زمین پر لائے گا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ زمین کے تاریک حصوں کے کچھ نمونے بھی اکٹھے کرکے باندھ کر چاند پر رکھ آئے ہوتے، مثلاً LGBTQ ، یا ہندوتوا والے۔ (اب امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے امریکا، کینیڈا، برطانیہ کی یونیورسٹیوں، سٹی کونسلوں، ثقافتی حلقوں میں ہندو انتہاپسندی اور عدم برداشت کلچر وبا بن کر پھیل جانے کی خبر دی ہے۔ مغربیوں کے اب ہاتھ پاؤں اس بلا پر پھول گئے ہیں!) یہ بین الاقوامیے، اتنا بے پناہ سرمایہ چاند کی تانک جھانک میں لٹانے والے، زمین والوں کا مقدر سنوارنے پر ہی یہ مال لگا دیتے۔ صرف اس سال کے 9 ماہ میں روزگار کی تلاش میں ان امیر ممالک کے در پر سمندروں میں ڈوب کر (یا دیگر واقعات میں) مر جانے والے 2 ہزار 762 افراد ہیں۔ اور جو غربت وافلاس کی چکیوں میں امریکا یورپ کے انگوٹھے تلے دبے شمالی افریقہ یا آئی ایم ایف زدہ ممالک میں بھوک یا خودکشی سے مرنے والے لاکھوں میں ہیں۔ اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی!
یہ بھی چاند مشن بارے آیا کہ وہ چاند کے قطب جنوبی پر خطے کے ماحول اور موسم کی جانچ پڑتال کرے گا۔ ہماری زمین کے قطبوں کی برف تو ہماری گناہوں کی تپش سے پگھل کر موسمیاتی بحران اٹھا رہی ہے۔ اب چاند پر امکانات کی تلاش ہے؟ حرمین شریفین کی پاک سرزمین میلی کرنے کی بجائے یہ اپنے میوزک فیسٹول والے/ والیاں بھی یہاں کی بجائے وہاں ہمراہ لے جاتے تو بہتر تھا۔ کورین بینڈ (بی ٹی ایس) نے تو اسکولوں کی بچیوں تک کو گدلا کر دیا، یہ بین الاقوامیت کی سوغات بھی وہاں غل مچاتی تو آواز بلامبالغہ چاند سے زمین تک آتی مگر آپ نے مشن تیار کرتے مشورہ ہی نہ کیا!
ہفتۂ رفتہ میں امریکا کے سب سے بڑے شہر نیویارک میں 140 سالہ ریکارڈ توڑکر، ایک مہینے کی بارش چند گھنٹوں میں برس گئی۔ 85 لاکھ لوگ تو صرف اس ایک شہر میں ہیں۔ دیگر ملحقہ لاکھوں کی آبادیاں بھی شدید متاثر ہیں۔ سڑکیں ندیوں کا سماں پیش کر رہی تھیں۔ زیرزمین ٹرین کا نظام ڈوبا پڑا تھا۔
بنیادی ڈھانچہ ہی بیٹھ گیا شہر کا۔ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ’نیویارک شہر اتنی بے پناہ بارش سمونے کے لیے نکاسیٔ آب کا نظام نہیں رکھتا۔ موسمیاتی تبدیلیاں جس برق رفتاری سے آ رہی ہیں (وہی رفتار ہے جو ان کے ہاں اخلاقی زوال کی ہے!) ہم اس پر پورے نہیں اتر پا رہے۔‘ حکومت ہانپتی کانپتی عوام کو قرار اور وقار سے اب ٹک کر گھروں میں بیٹھ رہنے کی تاکید کر رہی ہے۔ آسمانوں سے باتیں کرتی بلڈنگیں منہ لٹکائے کھڑی ہیں۔ رپورٹ یہ بھی کہہ رہی ہے کہ نیویارک آسمان سے باتیں کرتی بلڈنگوں کے بوجھ تلے دب رہا ہے۔ گناہوں کا بوجھ اس سے شدید تر ہے۔ شادی کا تصور ختم ہو چکا ہے۔ قوم حرام کاری میں سر تا پا غرق ہے۔ دور دور تک پیدا ہونے والے بچے نسب اور ولدیت سے لاعلم/ محروم۔ عورت جنسِ بازار بنی رُل رہی ہے۔ اسے فیمینزم (نسوانیت پرستی) کا نشہ پلاکر مدہوش کیا گیا ہے۔
والدین اولادوں کی توجہ سے محروم، اولڈ ہومز میں موت کے منتظر! پاگل پن کی علامات سب پوری ہوچکیں۔ دیوانہ رشتے نہیں پہچانتا۔ کپڑے پھاڑتا، برہنگی سے پہچانا جاتا ہے۔ لوگ اس کی حرکات وسکنات، اول فول سے منہ چھپاتے ہیں، اسے خبر ہی نہیں ہوتی! بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ، کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی، شراب یا منشیات کے نشے میں دھت! امریکا میں نشے کی حالت میں صرف ڈرائیونگ میں سالانہ حادثات 20 لاکھ ہوتے ہیں۔ شراب کی مارکیٹ ایک کھرب ڈالر سے زیادہ کی ہے۔ فحش لٹریچر/ تصاویر/ وڈیوز کی بزنس 15 ارب ڈالر کی ہے۔ کم وبیش یہی حالات سبھی مغربی ممالک کے ہیں۔ عذاب کے کوڑے برس رہے ہیں۔ اسے سائنسی زبان میں لپیٹا چھپایا جا رہا ہے۔ نیویارک شہر میں 2 ہزار چرچ اور غیررسمی عبادت گاہیں (گھروں، ہالوں میں) 4 ہزار ہیں۔ صوامع (یہودی عبادت گاہیں) ایک ہزار ہیں، ان سب میں رکھی تورات، انجیل طوفان نوح اور قوم لوط و دیگر (عاد، ثمود، فراعنہ، نمردو) کے عذاب بیان کرتی ہے۔ تجاہلِ عارفانہ کرتے انجان بنے بیٹھے ہیں: ’بلکہ انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے، خواہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے۔‘ (القیامۃ: 14،15 )