(دعوت و تحریک) احیائی تحریکات کی عمراور تنظیم اسلامی - عبدالروف

8 /

احیائی تحریکات کی عمراور تنظیم اسلامی

عبد الرؤف

بر عظیم پاک و ہند میں کم و بیش چارسو سال قبل احیائی مساعی کا آغاز مجدد الف ثانی ؒکے ذریعہ ہوا ۔ گزشتہ صدی کے دوران میں اسی جدوجہد کو علامہ اقبال کی انقلابی شاعری‘ ابوالکلام آزاد کی گھن گرج والی تقاریر اور مولانا مودودی کی شستہ تحریروں نے آگے بڑھایا۔ سوچنے سمجھنے والوں کی ایک بڑی تعداد اس انقلابی فکر سے متاثر ہو کر اس کے لیے اپنی ذہانت ‘ فطانت ‘ قوت اور صلاحیت لگانے پر آمادہ ہوگئی جس کے نتیجہ میں اس احیائی اور انقلابی فکر کی جڑیں مضبوط ہونا شروع ہوئیں ۔ اسی دوران دنیا کے دیگر مسلمان ممالک میں اسی فکر پر مبنی بہت سی تحاریک نے جنم لیا۔ البتہ بعض وجوہات کی بنا پر جب یہ تحریکیں وقتی طور پر ناکام ہوئیں تو کچھ عناصر نے اس فکر کو ع ’’ کہتے ہیں جسے عشق خلل ہے دماغ کا‘‘ کے مصداق غلط قرار دے دیا اور اپنے ذہن وفکر کی پوری قوت کے ساتھ اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے۔ خدا کا دین انسانوں کا محتاج نہیں ‘اس لیے باقی ممالک کو ایک طرف رکھتے ہوئے بر عظیم پاک و ہند کے تناظر میں دیکھا جائے تو حزب اللہ اور جماعت اسلامی کے بعد یہ جھنڈا تنظیم اسلامی نے تھاما ۔محترم ڈاکٹر اسرار احمد ؒ جیسی انقلابی شخصیت نے نہ صرف مسلمانانِ پاکستان بلکہ دنیا کے دیگر خطّوں سے تعلق رکھنے والی عظیم مسلم اکثریت تک اسلام کا انقلابی پیغام پہنچایا ۔ دین حق کے غلبہ کےلیے ’’تنظیم اسلامی‘‘ کی شکل میں ایک مضبوط اور منظم جماعت بھی قائم کی جو بانیٔ تنظیم کے دنیا سے چلے جانے کے بعدبھی غلبۂ دین ِ حق کے علم کوتھامے ہوئے اپنی مخصوص اور فطری رفتارکے ساتھ گامزن ہے۔ جس طرح پہلے کچھ لوگوں نے اس فکر سے انحراف کر کے اسے مجروح کرنے کی کوشش کی تھی اسی طرح آج بھی کچھ عناصر بانیٔ تنظیم کی تقاریر کے مختلف کلپس (clips) کا سہارا لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ احیائی تحریکیں کچھ عرصے بعد اپنے اصل مقصد سے ہٹ جاتی ہیں۔ ذیل میں اس حوالے سے ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے بیان کردہ وہ الفاظ تحریر کیے جارہے ہیں جو ایک کلپ کی شکل میں سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں:
’’ انقلابی تحریکوں کے بارےمیں یہ قانونِ فطرت ہے کہ یہ یا تو تیس چالیس سال کے اندر اندر کامیاب ہو جائیں تو ہوجائیں ورنہ پھر بوڑھی ہوکر اُن کا وہ جوش و خروش ‘ جذبہ قربانی‘ جوشِ عمل اور پھر یہ کہ ان چیزوں میں کمی آکرمفاہمت اور مصالحت کا راستہ اختیار کر لیتی ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک آدمی پر جوانی کے بعد بڑھاپے کا دور آتا ہے۔جوانی سدا تو نہیں رہتی‘ بڑھاپاآتا ہے۔ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ انقلابی (radical) تحریک جوش و جذبے کے ساتھ اُٹھےگی ‘ لوگوں کو لے گی‘ لوگوں میں ایثار ‘ قربانی سب کچھ ہوگا۔ تیس چالیس سال کے اندر یا تو کامیابی یا پھربڑھاپا شروع ہوجائے گا ۔ بڑھاپےکا مطلب کیا ہوتا ہے؟ اب مفاہمت اور مصالحت شروع ہوجاتی ہے اور نتیجہ یہ کہ انقلابیت کا ڈنگ ٹوٹنا شروع ہوجاتا ہے۔ کوئی انتخابی میدان میں چلو‘ کہیں کوئی خاص اپنی مسجدیں بناؤ‘ اپنے مراکز بنا لو۔ اس قسم کے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ بچائے اس کاسب سے بُرا نتیجہ نکلتا ہے فرقہ واریت کی شکل میں۔ اس طرح وہ تحریک ایک فرقہ بن جاتی ہے۔ ایک نسل نے تو اُس تحریک کی دعوت کو قبول کیا تھا ذہناً شعوری طور پر (consciously)۔ اب اُس کی اگلی نسل کاتعلق اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ یہ ہمارے باپ کا مسلک ہے ۔تیسری نسل میں آکر یہ بالکل ایک فرقہ بن کر رہ جاتی ہے اور اُس کے بعد اُس کی حیثیت یہ ہوجاتی ہے کہ شخصی عقیدتیں تو باقی رہ جاتی ہیں لیکن وہ جذبہ ‘ جو شِ عمل ‘ قربانی اپنے آپ کو بدلنا اور اپنی زندگی میں کوئی انقلاب لانا اُس کے لیے آدمی تیار نہیں ہوتا۔ یہ اُس کا بدترین انجام ہوتا ہے اور فرقے وجود میں آتے ہی اسی طریقے سے ہیں۔ ہر فرقے کی آپ تاریخ اٹھائیں تو معلوم ہوگا کہ شروع میں تو صاحب عزیمت انسان اُٹھے تھے اور انہوں نے اصلاحی کام کا بیڑا اٹھایا تھا۔ شرکیہ عقائد اور بدعات کے ردّ میں مختلف غلط چیزوں کے خلاف ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ ایک یا دو نسل کے بعد اب چند شعائر رہ گئے ہیں جن کے حوالے سے وہ فرقہ پہچانا جاتا ہے‘ باقی ساری چیزیں ختم۔ یہی ہے درحقیقت جس کو میں نےتعبیر کیا ہے کہ تیس چالیس سال میں یا کوئی انقلابی تحریک کامیاب ہوگی اور اگر کامیاب نہ ہوگی تو اُس پربڑھاپے کے آثار طاری ہوجائیں گے۔ نام پوجے جائیں گے‘ شخصیتیں پوجی جائیں گی اور اُن کے حوالے سے دکانیں چمکائی جائیں گی۔ کیرئیر بنائے جائیں گے۔ وہ سب کچھ ہوگا لیکن وہ اصل انقلابی (radical) تصّور گم ہوجائے گا۔ ‘‘
درج بالا اقتباس میں سے تیس چالیس سال کے عرصہ والی بات کوفی الحال ایک طرف رکھیے دیگر وجوہات جو بیان کی گئی ہیں کہ اگر کسی تحریک میں اُن کا ظہور ہوجائے ‘جیسا کہ بعض تحاریک میں نظر بھی آتا ہے کہ اصل مقصد سے ہٹ کر کچھ دوسرے امور پر توجہ کا ارتکاز ہوگیا‘ جماعت جس مقصد کے تحت بنی تھی وہ پسِ پشت چلا گیا اور جماعت ہی اصل فرقہ کی شکل اختیار کرتی چلی گئی تو اس حد تک اُن کےموقف سے اختلاف کی گنجائش نہیں۔ جہاں تک تنظیم اسلامی کا تعلق ہے ‘ اُس کے متعلق بانیٔ تنظیم نے اپنی زندگی میں ہیبہت مواقع پر یہ بات بیان کی ہے کہ جن معنوں میں کوئی جماعت اپنی وسعت اور عوام کے اندر پزیرائی کے لحاظ سے جماعت کہلاتی ہے ابھی تک تنظیم اسلامی ان معنوں میں جماعت نہیں ہے بلکہ ہم اسے ایک جماعت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔اس اعتبار سے اُن کی بات صد فیصد درست ہے کہ جس طرح جماعت اسلامی ‘ جمعیت علماء اسلام یا اسی طرح کچھ اور بڑی جماعتیں ہیں‘ تنظیم اسلامی اُن کا عشر عشیر بھی نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ بانی ٔ تنظیم اپنی ایک اہم تحریر ’’تنظیم اسلامی کا تاریخی پس منظر ‘‘میں موجود ہ احیائی مساعی کے تناظرمیں تنظیم اسلامی کا محل ومقام ‘‘کے عنوان کے تحت احیائی عمل کے تین اہم گوشوں کا ذکر کرتے ہوئے واضح کرتے ہیں :
’’ اس احیائی عمل کے بارے میں بعض بنیادی حقائق ذہن نشین رہنے چاہئیں۔ مثلاًایک یہ کہ یہ کوئی سادہ اور بسیط عمل نہیں ہے بلکہ اس کے متعدد گوشے ہیں‘ جن میں سے ہر ایک میں اولوالعزم افراد اور جماعتیں برسرِکار ہیں۔ بظاہر ایک دوسرے سے جدا اور مختلف بلکہ بعض پہلوؤں کے اعتبار سے متضاد ہونے کے باوجود اس وسیع تر احیائی عمل کے اعتبار سے وہ ایک دوسرے کے لیے باعث تقویت ہیں۔ دوسرے یہ کہ اسلام کی نشا ٔۃِ ثانیہ اور ملت ِاسلامی کی تجدید کا یہ کام بیس بر س میں مکمل ہونے والا نہیں ہے بلکہ {لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍS} (اَلْاِنْشِقَاق)کے مصداق درجہ بدرجہ بہت سے مراتب و مراحل سے گزرکر ہی پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ لہٰذا اس ارتقائی عمل کا ہر درجہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے اور چاہے بعد کے مراحل سے گزر کر پہلوں کا کام بہت حقیر بلکہ کسی قدر غلط بھی نظر آئے‘ اپنے اپنے دور کے اعتبار سے اس کی اہمیت و وقعت سے بالکلیہ انکار ممکن نہیں۔ تیسرے یہ کہ اس ہمہ گیر تجدیدی جدوجہدمیں اگر چہ افراد کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے تاہم جماعتوں اور تنظیموں کے مقابلے میں کم تر ہے۔ پھر جماعتیں بھی تحریکوں کی وسعت میں گم ہوجاتی ہیں اور بالآخرتمام تحریکیں بھی اس وسیع احیائی عمل کی پہنائیوں میں گم ہوجاتی ہیں جو ان سب کو محیط ہے۔‘‘
درج بالااقتباس میں بانی تنظیم خود واضح کر رہے ہیں کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور ملّت اسلامی کی تجدید کا یہ کام دس بیس برس میں مکمل ہونے والا نہیں اور اختتام اس جملہ سے کر رہے ہیں کہ تمام تحریکیں بھی اس وسیع احیائی عمل کی پہنائیوں میں گم ہو جاتی ہیں جو ان سب کو محیط ہے۔ لہٰذا ثابت ہو ا کہ احیائی عمل چند برسوں تک محیط نہیں ہوتا بلکہ اس کو آخری منزل تک پہنچانے کےلیے کئی نسلوں کی محنت درکار ہوتی ہے۔ اگر اس احیائی عمل کے لیے قائم کی جانے والی جماعت اپنے فکر کی صحت وسلامتی ‘ کارکنوں کے خلوص و اخلاص اور انقلابی جذبے کے ساتھ اپنے مشن سے تعلق استوار رکھے تو وہ کبھی بھی بوڑھی نہیں ہو سکتی ۔ اس حوالے سے محترم محی الدین غازی کی تحریر ’’جوان اسلامی تحریک کے خدوخال‘‘ سے ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’جوان تحریک ناسٹلجیا (nostalgia) سے دور رہتی ہے۔ ناسٹلجیا اس کیفیت کو کہتے ہیں جب آدمی حال سے غیر مطمئن اور مستقبل سے مایوس ہو کر ماضی کی حسین یادوں سے دل بہلاتا ہے۔ ناسٹلجیابوڑھی تحریک کی علامت ہے۔ جوان تحریک اپنے موجو د افراد میں خوبیوں کوتلاش کرتی ہے۔ناسٹلجیا میں اچھے افراد ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آتے یا نگاہ کو نہیں بھاتے۔ اسلا می تحریک میں ایسی کیفیت کا پیدا ہونا اچھی علامت نہیں ہے۔ ماضی کی تابناک شخصیتوں اور کارناموں کا تذکرہ حال سے مایوس کرنے کے لیے ہرگز درست نہیں ہے ‘ وہ حال کو جوش اور توانائی سے بھرنے کے لیے ہی درست ہو سکتا ہے۔ ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے ایک اور نکتہ کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ تحریک کو ویسا بنانا مطلوب نہیں ہے جیسا بانی تحریک نے بنایا تھا ‘ بلکہ وہاں پہنچانا مطلوب ہے جہاں پہنچانے کا بانی تحریک نے خواب دیکھا تھا ‘ یا اس سے بھی آگے ‘ جہاں پہنچانے کا خواب آپ دیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر تحریک کے سابقین سینماکےقریب نہیں پھٹکتے تھے لیکن ان کا خواب یہ تھا کہ سینما کو اسلام کے رنگ میں رنگ دیا جائے اور اسلام کی خاطر اس کااستعمال کیا جائے ۔ اس لیے مطلوب وہ نہیں ہے جو وہ کرتے تھے بلکہ وہ ہے جس کا وہ خواب دیکھتے تھے‘ یا اُن کے خواب سے بھی آگے بڑھ کر جس کا خواب آپ دیکھتے ہیں۔ اِسی طرح ماضی کی وہ روایات جن کا تعلق وسائل اور طریقہ کا رسے ہےا ُن کا زمانے کے ساتھ تبدیل ہونا فطری بات ہے ۔ ٹھوس اصول اور ابدی اقدار کی پابندی پر اُکسانے والی روایات کو سینے سے لگانا مطلوب ہے۔‘‘
اس تحریر کی روشنی میں اگر تنظیم اسلامی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات مزید مبرہن ہوجاتی ہے کہ اس پر بڑھاپے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ ایک پُر عزم اور جوان تحریک کی مانند وہ اپنے مشن کے ساتھ تعلق جوڑتے ہوئے بانی ٔتنظیم کے خواب کو عملی شکل دینے کے لیے کوشاں ہے۔وہ اپنے حال سے بھی پوری طرح مطمئن ہے اور مستقبل کے حوالے سے بھی کسی قسم کی مایوسی کا شکار نہیں ۔ اسلام کے انقلابی فکر کو’’عضوا علیھا بالنواجذ‘‘ کے مانند اپنے دانتوں کے ساتھ مضبوطی سے تھام کر روایت اور جدیدیت میں اعتدال رکھتے ہوئے اپنے مشن پر جوان قائد کی قیادت میں رواں دواں ہے ۔جو چیزیں ۴۸ سال قبل طے کی گئی تھیں انہی کے ساتھ جڑ کر موافق و ناموافق ہر طرح کے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنا سفر طے کر رہی ہے۔ گوکہ رفتار اتنی تیز نہیں جتنی ایک احیائی تحریک کی ہونی چاہیے لیکن جب حالات ہر اعتبار سے نا موافق ہوں اور اس احیائی فکر کو نہ جامد مذہبیت قبول کرے اور نہ ہی مادہ پرستانہ الحاد کے علمبردار کوئی راستہ دینے کے لیے تیار ہوں تو پھریہ سُست رفتار بھی غنیمت ہے۔ بقول اقبال: ؎
مایوس نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی
جس طرح کسی کرکٹ یا فٹ بال کے میچ کے دوران تماشائی کھلاڑیوں پر تنقید کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ انہیں تو اس صورتحال سے واسطہ ہی نہیں پڑا ہوتاجس سے وہ کھلاڑی دوچار ہوتے ہیں ‘بالکل اسی طرح جو افراد کسی احیائی تحریک کا حصّہ نہیں بنے اور اس راستے میں آنے والی مشکلات ‘ مصائب اور رکاوٹوں سے اُن کا واسطہ نہیں پڑا ہوتا وہ بڑےپُر زور انداز میں تنقید کر رہےہوتے ہیں کہ۴۵ سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے لیکن آپ لوگوں نے ابھی کوئی واضح کامیابی حاصل نہیں کی۔ ایسے حضرات کے لیے بانی تنظیم ڈاکٹراسرار احمدؒ کی کتاب’’ برعظیم پاک وہندمیں اسلام کے انقلابی فکر کی تجدید و تعمیل اور اُس سے انحراف کی راہیں‘‘کے درج ذیل الفاظ میں بہت اہم رہنمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اس سلسلے میں فی الوقت کرنے کا اہم ترین کام یہ ہے کہ دین کے ان اجتماعی اورتحریکی‘ یا بالفاظ دیگر ’’ انقلابی‘‘ تصورات کو برقرار رکھا جائے جو بہت طویل عرصے کے بعد از سر نو اجاگر ہوئے ہیں ۔ اس لیے کہ ایک جانب تو وقت کا ماحول اس کے ساتھ مطابقت اور موافقت نہیں رکھتا اور ؎
آرزو اوّل تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
اور ہوجائے تو مرجاتی ہے یا رہتی ہے خام!
کے مصداق نہ زمین اسے غذا دیتی ہے نہ فضا‘ جبکہ دوسری جانب نہ صرف یہ کہ مختلف احیائی تحریکوں کی وقتی اور فوری ناکامیوں کے طبعی نتیجے کے طور پر ان افکار اور تصورات کی کریڈیبلٹی کو خطرہ لاحق ہے‘ بلکہ بعض شکست خوردہ ذہنیت کے حامل لوگ جو کسی داخلی یا خارجی سبب کے باعث ان تحریکوں کے ساتھ نہیں چل پائے اور یا خود علیحدہ ہوگئے یا نکال دیےگئے‘ ایک مریضانہ نفسیاتی ردّ عمل کے تحت اس فکر ہی کو مجروح کرنے پر تل گئے ہیں۔
اوپر دین کے اجتماعی اور عمرانی فکر‘ اور فرائض دینی کے تحریکی انقلابی تصور کے فروغ کی راہ کےموانع کے ضمن میں زمین اور فضا دونوں کی عدم موافقت کا جوذکر آیا ہے وہ محض روا روی یا قلم کی روانی میں نہیں ہے‘ بلکہ ایک سوچی سمجھی تشبیہ ہے۔ اس لیے کہ ایک جانب مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے ذہنوں میں دین کا جو محدود اور جامدمذہبی تصور صدیوں کے تعامل کے باعث راسخ ہوچکا ہے ‘فی الواقع اب بنجر اور سنگلاخ زمین کے مانند ہے جو کسی حر کی اور انقلابی تصور کو غذا دینے سے انکاری اور اس کے فروغ کی راہ کا سب سے بڑا پتھر ہے‘ جبکہ دوسری جانب مادہ پرستانہ افکار و نظریات‘ سیکولر نظام ریاست و سیاست ‘ مخلوط اور اباحیت پسندانہ معاشرت و ثقافت جو اس وقت پورے کرۂ ارضی کو اپنے لپیٹ میں لیے ہوئے ہے‘ یقیناًاس آسمان کے مانند ہے جو اسلام کے حقیقی اور جامع تصور کے ’’شجرہ طیبہ‘‘ کو پنپنے کی اجازت دینے سے انکاری ہے (یہ دوسری بات ہے کہ اسلام کے عالمی غلبے کی’’تقدیر مبرم ‘‘ {وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ }اور{وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ } کے علی الرغم پوری ہوگی)۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جیسے ہر چہار جانب افق پر زمین اور آسمان باہم بغلگیر نظر آتے ہیں‘ بالکل اسی طرح دین کا محدود مذہبی تصور اور عالمی سیکولر تہذیب بھی ایک دوسرے کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ اور ہم آغوش ہیں۔ اس لیے کہ سیکولر نظام کا تو اصل الاصول ہی یہ ہے کہ مذہب انسان کا انفرادی معاملہ ہے۔ چنانچہ اس اعتبار سے وہ کامل ’’رواداری‘‘کا مظاہرہ کرتا ہےکہ جملہ مذاہب کو تسلیم کرتے ہوئے ان سب کو اپنے پہلو میں جگہ دینے کے لیے تیار ہے۔ اسے کوئی خطرہ اور اندیشہ اگر ہے تو اسلام کے صرف اس اجتماعی تصورسے جو پوری زندگی پر اپنا غلبہ چاہتا ہے۔اس کی جنگ اگر ہے تو صرف ان ’’بنیاد پرست‘‘ (fundamentalist) قوتوں سےجو اسلام کو دین و دنیا اور عبادت و سیاست دونوں دائروں میں حکمران کرنا چاہتی ہیں۔ رہا دین کا وہ محدود مذہبی تصور جو عبادات و رسومات ‘ مسجدو مدرسہ اور خانقاہ تک محدود رہے اورPolitico-Socio-Economic System سے بحث نہ کرے تو اس کی تو وہ پوری طرح سرپرستی کرنے پر ہمہ وقت آمادہ اور تیار ہے۔‘‘
درج بالا اقتباس اس حقیقت کی نشاندہی کررہا ہے کہ جس فکر کے راستے میں زمین اور آسمان سب سے بڑی رکاوٹ بن جائیں‘کیونکہ گزشتہ چار سو سال سے دین کا اصل ڈھانچا نگاہوں سے اوجھل ہے اوراُس کی جگہ مادہ پرستانہ الحاد اور جامدمذہبیت نے نہ صرف بر عظیم پاک وہند بلکہ پوری دنیا میں اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہوں تو اُس کا مقابلہ نہایت مشکل کام ہے۔ جس عمارت کو شکستہ اور بوسیدہ ہونے میں کم و بیش چار سوسال کا عرصہ لگا اور بالآخر بیسویں صدی کے آغاز میں ملّتِ اسلامیہ کا بوسیدہ قصرگویا دفعۃً زمین پر آرہا اور اسلام اور مسلمان دونوں اپنے انحطاط کی آخری حدود کو پہنچ گئے تواُس کی تعمیر یکدم کیسے ممکن ہے ! یہ ایک آفاقی سچائی ہے کہ تخریب کا کام آسان ہے جبکہ تعمیر کا کام مشکل ترین ہے۔
عالمی سطح پر غلبہ دین کی جو خوشخبری احادیث مبارکہ میں دی گئی ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس وقت اسلامی احیائی تحریکوں کے لیےگو کہ حالات بہت مشکل ہیں ‘ نائن الیون کے بعد سامراجی قوتوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کےساتھ ان تحاریک کو بدنام کرنے کے لیے دہشت گردی کا ہوا کھڑا کرنے کی کوشش بھی کی لیکن دوسال قبل افغانستان میں ان قوتوں کی ہزیمت ناک شکست نے احیائی تحاریک کامورال جس طرح بلند کیاہے اسی طرح آئندہ اس میں مزید بہتری آنے کے امکانات بھی ہیں ۔ البتہ احیائی تحریکوں کو بھی اپنی کمزوریوں کا جائزہ لیتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔اس حوالہ سے ڈاکٹر محمد شفیق اپنی تحریر بعنوان ’’ اسلامی تحریکیں : حال اور مستقبل‘‘ کے آخری پیراگراف میں لکھتے ہیں :
’’اسلامی تحریکات کا مستقبل کیا ہے؟ اس سوال کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اپنے ادھورے کاموں کو مکمل کرنے اور عصرِ حاضر میں اسلامی تعمیر نو کے تقاضوں کو پہچان کر انہیں پورا کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی فیصلہ کن ہوگی کہ گزشتہ نصف صدی کی تاریخ نے تحریک کے فرد اور لائحہ عمل میں جن نقائص اور کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے‘ اُن کو پہچاننے اوردور کرنے میں تحریک کی نئی قیادت کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔ یہ نئی قیادت بانیانِ تحریک کی مقلد محض ثابت ہوتی ہے یا انہی کی طرح اجتہادی فکر سے کام لیتی ہے۔ مستقبل کی تعمیر میں اس کی نگاہیں اپنے ماضی کی طرف رہتی ہیں اور وہ اس سے رہنمائی حاصل کر نا چاہتی ہے یا معاصر حالات کے تجزیے اور مستقبل کے بارے میں مبنی بر بصیرت اندازوں کی روشنی میں لائحۂ عمل اختیار کرتی ہے۔ تحریکات کے لیے ایک راہ ‘راہِ جمود ہے ‘ دوسری اقدام واجتہاد کی۔ یہی دوسرا راستہ کامیابی کا ضامن ہو سکتا ہے۔‘‘
اس تحریر کی روشنی میں تنظیم اسلامی کا لائحہ عمل واضح ہے کہ بانی تنظیم کے دیے ہوئے فکر پر مضبوطی سے قائم رہنے کے ساتھ ساتھ اُن کی تقلید ِمحض نہیں کی جائے گی بلکہ حالات کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اجتہاد بھی کیا جائے گا۔بانیٔ تنظیم کے علمی تفردات یا سیاسی آراء سے بھی جہاں ممکن ہوا ‘اختلاف کیا گیا البتہ بنیادی اصولوں سے تعلق کبھی بھی منقطع نہیں کیا گیا ‘چاہے وہ عقائد دینی نظریات ہوں یا تنظیم کا اساسی فکر ۔
بعض ایسے عناصرہیں جو وقتاً فوقتاً مختلف انداز سے افواہیں پھیلا کر رفقاء واحباب کے اذہان کو مسموم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ ڈاکٹر اسرار احمد ؒ عمر کے آخر ی حصہ میں تنظیم سے مایوس ہوچکے تھے اور یہ سمجھنے لگ گئے تھے کہ تنظیم اسلامی اب اپنے اصل فکر پر نہیں رہی۔ایسے لوگ چاہتے ہیں کہ رفقاء تنظیم تذبذب کا شکار ہوجائیں اور جم کر دین کا کام نہ کر سکیں۔ اُن کی تشفی کے لیے بانی تنظیم کی وفات سےچند روز قبل فیصل آباد میں سوال و جواب کی آخری نشست کے موقع پر ایک سوال کے جواب میں بیان کیے گئے یہ الفاظ کافی ہیں:
’’میرےدل سے تو یہی دعا نکلے گی کہ یہ تحریک پھلے پھولے ‘ برگ وبار لائے اور امید ہے اس لیے کہ جہاں تک معلوم ہے پوری دنیا میں اتنی صحیح کوئی تحریک ِ اسلامی موجود نہیں۔ یہ بات میں نے جماعت اسلامی کے بارے میں لکھی تھی اور آج بھی سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی ۱۹۴۰ء سے ۱۹۵۰ء تک دورِ صحابہؓ کے بعد کی بہترین اسلامی تحریک تھی‘ کوئی تحریک بھی اس کے قریب نہیں تھی لیکن افسوس جو انہوں نے انتخابی سیاست کی طرف رخ موڑا ہے وہ بہت بڑی غلطی تھی جس کا احساس بہت دیر میں ہوا۔ آج میں علیٰ وجہ البصیرت کہہ رہا ہوں کہ تحریکیں تو بہت سی ہیں لیکن خالص منہج انقلابِ نبویﷺ پر کوئی اور تحریک نہیں سوائے تنظیم اسلامی کے۔‘‘
تنظیم اسلامی کا قیام ۱۹۷۵ء میں عمل میں آیا تھا اور بانیٔ تنظیم کے مذکورہ بالا الفاظ ۲۰۱۰ء کے ہیں جب تنظیم کو قائم ہوئے ۳۵ برس ہوچکے تھے۔ مضمون کے آغاز میں بانی تنظیم کے جس ویڈیو کلپ کا حوالہ دیا گیاہے وہاں انقلابی تحریکوں کی کامیابی کے تیس یا چالیس کے عرصہ کا ذکر تھا جسےبنیاد بنا کر یہ پراپیگنڈہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ تنظیم اسلامی بھی اب اپنی عمر پوری کر چکی ہے۔ یہاں بانی تنظیم خو د تنظیم کے قیام کے ۳۵ برس بعد بھی یہ فرمارہے ہیں کہ دنیا میں اور بہت سی تحریکوں اور جماعتوں کے باوجود صرف تنظیم اسلامی ہی ایک ایسی جماعت ہے جو خالصتاً منہج انقلابِ نبویﷺ پر عمل پیرا ہے اور اتنی صحیح کوئی تحریک اسلامی موجود نہیں ہے۔ پھر اس کے پھلنے پھولنے اور برگ و بار لانے کے لیے خلوصِ دل سے دعا بھی فرمارہے ہیں۔اپنی ہی زندگی کے آخری ایام میں تنظیم اسلامی کے متعلق ان مثبت خیالات اور دعاؤں کے بعد بھی اگر کسی کے ذہن میں تنظیم ‘ اس کی قیادت اور رفقاء کے بارے میں منفی خیالات ہیں تو اسے اپناجائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ یہ تنقید داخلی احساس اور شعوری تنبیہہ کے ساتھ نصح و خیر خواہی کے جذبہ کے تحت کرر ہا ہے یا صرف تو ہین و تذلیل اور تمسخر و استہزا پیشِ نظر ہے!
دونوں صورتوں میں بہر حال اُس نے ایک دن اپنے رب کے ہاں جواب دہی کے لیے پیش ہونا ہے ۔وہاں احکم الحاکمین کی عدالت میں تمام فیصلے عدل پر مبنی ہوں گے اور نیتوں کے بھید کھل جائیں گے۔ اگر نیت میں اخلاص ہوگا تو اُس کا اچھا بدلہ مل جائے گا جبکہ نیت میں فتور کا نقصان بہت زیادہ ہوگا۔ اگر ہمارے اندر آخرت پر صحیح معنوں میں یقین قلبی والا ایمان پیدا ہوجائے توکسی شخصیت ‘ ادارے یا جماعت پر تنقید کرنے سے پہلے تمام امور کو سامنے رکھ کر اپنا جائزہ لیتے ہوئے یہ خدمت سر انجام دے سکیں گے تاکہ ہمیشہ والی ناکامی سے بچ سکیں۔