اسرائیل کے حوالے سے تنظیم اسلامی کا مؤقف اسلامی تعلیمات اور بانیانِ پاکستان
کی پالیسی کی بنیاد پر ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا اسلام، فلسطینی مسلمانوں
اور نظریہ ٔ پاکستان سے غداری ہے: رضاء الحق
اسرائیل کے ساتھ معاہدے امن نہیں بلکہ صہیونی ریاست کی فتح کی راہ ہموار
کرنے کے لیے ہوں گے: ڈاکٹر انوار علی
سعودی عرب اسرائیل تعلقات کا فروغ اور امت مسلمہ کا رد عملکے موضوع پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
مرتب : مرتضیٰ احمد اعوان
سوال:فلسطینی مسلمانوں اور اسرائیل کے یہودیوں کے درمیان بنیادی طورپر دینی، سیاسی اورمعاشرتی کیامسائل اوراختلافات ہیں ؟
رضاء الحق:ہمارے نزدیک اسرائیل کی ناجائز ریاست کو قائم کرنے کاپورا ایک تاریخی پس منظر ہے کہ یہ کن مقاصد اورعزائم کے ساتھ قائم کی گئی ۔ اس کی بنیاد صہیونی یہودیوں نے رکھی۔1917ء میں جب بالفورڈیکلریشن کیا گیا اس سے تقریباً بیس سال قبل 1895ء میں ورلڈ جیوش کونسل اور ورلڈ ذائنسٹ آرگنائزیشن نے سوئزرلینڈ کے شہر باصل میں ایک اجلاس منعقد کیا جس میں باقاعدہ اگلی صدی میں یہودیوں اور صہیونیوں کے اہداف کوبلیوپرنٹ کی شکل دی جسے پروٹوکولز آف دی ایلڈر آف زائن کہتے ہیں ۔ اسرائیل اور فلسطینی مسلمانوں کے تنازع کوتین جہتوں میں سمجھ سکتے ہیں:
1۔اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے۔ عالمی قانون کی کوئی بھی ٹیکنیکل ٹرم کوسامنے رکھیں تواسرائیل کو قائم رہنے کاجواز حاصل نہیں ۔اس کی بنیادی وجوہات میں بالفورڈ یکلریشن ، پہلی جنگ عظیم کروانا اورپھرخلافت عثمانیہ کاخاتمہ تاکہ مسلمانوں کوچھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کروا دیاجائے ۔ اس کے بعد یہودیوں کو فلسطین لاکرآباد کیاجائے اورپھرچلتے چلتے1948ء میں وہ ناجائز ریاست قائم کردی گئی ۔ جوبڑھتے بڑھتے آج اس پوزیشن میں پہنچی ہوئی ہے ۔
2۔ فلسطینیوں سےا ن کی زمینیں چھین کران کے مقامات کو مسمار کرکے باہر سے یہودیوں کولا کروہاں پربسایا گیا ۔یعنی وہاں موجود ایک قوم کوزور وزبردستی displaceکیاگیا اور آبادکاروں کوآباد کیاجارہا ہے ۔لہٰذا فلسطینیوں کااس پرحق موجود ہے ۔
3۔ اسلامی تناظر میں دیکھیں توکسی عام جگہ کے مقابلے میں فلسطین اوربالخصوص یروشلم میں مسجد اقصیٰ ہے جو مسلمانوں کاتیسرا اہم ترین مقدس مقام اور قبلہ اول ہے ۔خلافت راشدہ میں جب مسلمانوں نے یروشلم شہر کاگھیرائو کیا ہوا تھا اور عیسائی سرنڈر نہیں کررہے تھے ۔ اورعیسائی پادریوں نے دیواروں پہ کھڑے ہوکراعلان کیا اے مسلمانو! تم قیامت تک اس شہر کو فتح نہیں کرسکتے البتہ ہماری کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ اس شہر کو ایک در ویش بادشاہ فتح کرے گا اور تم میں وہ ہمیں دکھائی نہیںدے رہا ۔ چنانچہ مسلمانوں کے کمانڈر سمجھ گئے کہ یہ امیرالمومنین حضرت عمر ؓ کی طرف اشارہ ہے توانہوں نے خط کے ذریعے حضرت عمر ؓ کو بلایا۔ وہ آئے اورانہوں نے پھر آپؓ کو دیکھ کر یروشلم کے دروازے کھول دیے ۔وہاں جب عیسائیوں نے شہر کی چابیاں حضرت عمرؓکے حوالے کیں توایک شرط یہ رکھی گئی کہ جس کو عمرؓ نے قبول کیااورخلافت عثمانیہ تک وہ شرط برقرار رہی کہ یہودیوں کو وہاںپرآکراپنے مقدسات کی وزٹ کرنے کی تو اجازت ہوگی لیکن وہاں آباد ہونے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ یعنی اس چیزپر امت ِ مسلمہ کا کم وبیش چودہ سو سال کا ہمارا دینی اجماع بھی ہے۔رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں بڑاواضح نقشہ ملتا ہے کہ یہی ریاست اسرائیل دجال کا عالمی ہیڈکوارٹر بنے گا۔اوریہی گریٹر اسرائیل کانقشہ ہے جس میںمدینہ منورہ کو بھی معاذ اللہ شامل کرنا چاہتے ہیں ۔
سوال:اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ہم سعودی عرب کے ساتھ ایک پُرامن معاہدے کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ اگر یہ معاہدہ ہوگیا تویہ ایک نئے مشرق وسطیٰ کوجنم دے گا۔ آپ کی نظر میں یہ معاہدہ کتنی اہمیت کاحامل ہوگا ؟
ڈاکٹر انوار علی :نیتن یاہو کی تقریر میں دوتین بڑی اہم چیزیں ہیں ۔ایک تو اس نے یہ بات ببانگ دہل کہی ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ امن معاہدہ آخری مراحل میں ہے اور ماضی میں قیام امن کی تمام کوششیں اس لیے کامیاب نہیں ہوئیںکیونکہ اس کی بنیاد اس غلط تصور پرتھی کہ جب تک اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدہ نہیں کرتا اس وقت تک اس کے تعلقات عرب ممالک کےساتھ معمول پرنہیں آئیں گے ۔ اس سے وہ واضح کررہا ہے کہ اس سارے معاہدے میں فلسطینیوں کاکوئی کردار نہیں ہوگا ۔ پھر اس نے مزید کہا کہ فلسطینیوں کو عرب ممالک کے ساتھ نئے امن معاہدوں کو مسترد کرنے کااختیار دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ کچھ عرصہ پہلے محمود عباس کابیان آیا تھاکہ فلسطینیوں کوان کے جائز حقوق دیے بغیرمشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیںہوسکتا ۔ اس نے کہا کہ ان میں صرف دوفیصد فلسطینی ہیں ۔پھر اس نے بحرین، سوڈان اور مراکش کے ساتھ ابراہیمی معاہدوں کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ غور کرو کہ ان امن معاہدوں سے خوشحالی آرہی ہے ،اچھی تجارت ہورہی ہے ، یہ ممالک ترقی کی طرف گامزن ہیں ۔ پھر اس نے نقشہ دکھا کرکہاکہ سعودی عرب ،اردن اور اسرائیل پرمشتمل ایک راہداری بنے گی جوایشیا کو یورپ سے ملالے گی ۔ گویا وہ یہ انداز اختیار کررہا ہے کہ یہ معاہدہ ہوجانا تو ہر طرح سے ہمارے فائدے میں ہے ۔ اس سے دوسرے ممالک خاص طورپرعرب ممالک میں بہتری آئے گی ۔ یعنی وہ اس انداز سے ایک طرف فلسطینیوں کومائنس کررہا ہے اور دوسری طرف عرب ممالک کوسہانے خواب دکھا رہاہے ۔ پھر اس نے اپنی تقریر میں مذہبی حوالے سے کہا کہ اس امن معاہدے سے حضرت اسحاق اور حضرت اسمعٰیلeکے بیٹوں کے درمیان مفاہمت کی حوصلہ افزائی ہوگی ۔ بہرحال وہ ایک ذہن سازی کرتے ہوئے بڑی تیزی کے ساتھ اس طرف جارہے ہیں ۔دوسری طرف سعودی ولی عہد محمدبن سلمان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ سعودی عرب اور اسرائیل بڑی تیزی کے ساتھ(روزانہ کی بنیاد پر) ایک امن معاہدے میں قریب ہورہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کاخیال ہے کہ یہ امن معاہدہ تقریباً2024ء کے شروع میں مکمل ہوجائے گا۔ اس حوالے سے اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن کے بیانات بھی ہمارے سامنے آگئے ہیں کہ چھ سات دوسرے مسلم ممالک بھی اس معاہدے میں شامل ہوجائیں گے اورمیں ان سب سے ملاقاتیں کرچکا ہوں۔البتہ ہمارے نگران وزیرخارجہ نے اس کی تردید کی ہے کہ میری اس سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ پھرسعودی عرب کی سیاسی اور معاشرتی سطح پرتیزی سے تبدیلی آرہی ہے تواس بات کے امکانات ہیں کہ سعودی عرب اوراسرائیل کے درمیان کوئی نہ کوئی معاہدہ ہوجائے گا۔امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے اس معاہدے کے حوالے سے بیان دیاکہ یہ امن معاہدہ خطے کی تاریخی سفارتی فتح ہے ۔گویا یہ امن معاہد ہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک نظریاتی جنگ ہے جس میں اس دن فتح ہوجائے گی اسرائیل کی اورزائنزم کی جس کی بنیاد پرپوری ریاست اسرائیل کھڑی ہے ۔ یہ سفارتی فتح ان کواس گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی کامیابی کی طر ف بہت جلدی لے جائے گی ۔ یہ بات پاکستان اوردوسرے اسلامی ممالک کوسمجھنی چاہیے ۔
سوال: پاکستان کااسرائیل کے حوالے سے شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ ہم اسرائیل کی ناجائز ریاست کوتسلیم نہیں کریں گے ۔حال ہی میں نگران وزیرخارجہ جلیل عباس جیلانی صاحب کا بیان آیاکہ ہم پاکستانی مفاد اورفلسطینی عوام کو مدنظر رکھ کرہی کوئی فیصلہ کریں گے ۔ اب صورت حال ایسی لگ رہی ہے کہ ہماری حکومت بھی امن معاہدے کوconsider کررہی ہے ۔ کیاپاکستانی حکومت واقعتاًایسا مؤقف اختیار کرے گی جوقائداعظم کےویژن کے خلاف جائے ؟
رضاء الحق:ہمارے وزیرخارجہ بڑے سینئر ڈپلومیٹ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک قائد اعظم کے اکثر فرمودات کوردی کی ٹوکری میں ڈال دیاگیا ہے ۔ قائد اعظم کی تقاریر اس بات کی واضح نشاندہی کرتی ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست کے طور پرقائم کیا گیااوراس کی بنیاد پرہی اس کو آگے بڑھایا جائے گا۔ لیکن ہم نے پہلے دن سے حکومتی سطح پراس کی مکمل نفی کی بلکہ ہم سیکولرازم کی طرف بڑھتے چلے گئے ۔قائد اعظم نے اسرائیل کے بارے میں واشگاف الفاظ میں کہا تھاکہ اسرائیل مغرب کاناجائز بچہ ہے اورہم عربوں (فلسطینیوں) کوسپورٹ کریں گے اوراگر ضرورت پڑی تو ان کی مدد کے لیے اپنی افواج بھی بھیجیں گے ۔ اسی طرح پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان جب امریکہ کے دورے پرگئے تووہاں پرعالمی جیوری(پوری دنیا کے یہودی) نے انہیں کہاکہ آپ اسرائیل کوتسلیم کرلیںہم پاکستان کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیں گے ۔ لیاقت علی خان نے جواب میں کہا:
"Gentlemen!our souls are not for sale."
یعنی ہماری روحیں بکائو مال نہیںکہ ہم مال ودولت کی خاطر اپنے آپ کو بیچ دیں ۔یہ اس دور کی بات ہے جب ایک نوزائیدہ پاکستان بے شمار معاشی مسائل کاشکار تھا۔ بہرحال فلسطینیوں کے حوالے سے پاکستان کااصولی مؤقف ہے اس کاعربوں یاپوری دنیا کےمسلمانوں کے مؤقف سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔پاکستان کے مؤقف کی بنیاد دوچیزوں پر ہے ۔ ایک فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق دیے جائیںیعنی ان سے چھینے ہوئے علاقے ان کو واپس کیے جائیں اوراسرائیل کے مظالم بند ہوں۔ کہنے کامطلب ہے کہ ایسی کون سی بات ہوئی ہےجس کی وجہ سے کہاجارہا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات بنانا یااس کوتسلیم کرناجائز ہوگیا ۔ کیونکہ2017ء کے جیوش نیشن قانون کے مطابق یہ صرف یہودیوں کی ریاست ہے ۔ مشرقی یروشلم فلسطینیوں کووہ کبھی واپس نہیںکریں گے ۔ دوسرے عرب ممالک سے اسرائیل نے معاہدے کیے لیکن ان کاکوئی وعدہ پورا نہیں کیا۔ جیساکہ تاریخ سے ثابت ہے اورقرآن کریم بھی اس پرگواہ ہے کہ یہودی ایک جھوٹی قوم ہے ۔ لہٰذا ہم پاکستان کی حکومت سے کہیں گے کہ وہ بڑے واشگاف الفاظ میں اعلان کرے کہ پاکستان کبھی بھی صہیونی ریاست کوتسلیم نہیں کرے گا۔
سوال: کیاپاکستان کی موجودہ حکومت بانی ٔپاکستان کے اصولی مؤقف سے انحراف کرنے جارہی ہے ؟
ڈاکٹر انوار علی:اس وقت ہم ایک ایسی مملکت یاایسی حکومت چلارہے ہیں جس کی کوئی بنیادنہیں ۔ ہمارے حکمران اورپالیسیز وغیرہ ہمارے نہیں ہیں ۔ ہمارے حکمرانوں پرباہر کاپریشر توہے ہی دوسری طرف عوام کی بھی ذہن سازی نہیں کی گئی۔ جلیل عباسی صاحب کاٹویٹ آیاکہ پاکستان کااسرائیل کو تسلیم کرنے کاکوئی ارادہ نہیں ہے ۔اس بیان پر کئی پاکستانیوں کے کمنٹس یہ تھے کہ موجودہ دور ایسا ہے کہ اس بات میں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا کہ اسرائیل کوتسلیم کرلیاجائے اوران کے ساتھ تجارت کوفروغ دیاجائے تاکہ امن کی طرف ہم آگے بڑھ سکیں ۔اسرائیلی وزیرزراعت کایہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ مجھے پاکستان کے دورے کی باقاعدہ دعوت دی گئی ہے ۔ اسرائیلی اخبار کادعویٰ موجود ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کوفروغ دینے کے لیے دفاتر کھولنے کے حوالے سے ہماری ملاقاتیں چل رہی ہیں۔ اگرچہ ہمارے حکمران اس کی نفی کررہے ہیں لیکن یہ خبریں آتی رہتی ہیں۔اس وقت پاکستان پرمعاشی حوالے سے بڑا سخت دبائو ہے ۔ کیونکہ ایک عام آدمی اس طرح سوچتا ہے کہ پاکستان اسرائیل کے ساتھ جو بھی تعلقات رکھنا چاہتاہے وہ رکھے، اس نے اپنے گھر کاچولھاجلاناہے ، اوراپنے مسائل حل کرنے ہیں ۔ یعنی ہمارے عوام کے ذہنوں میں اس انداز سےپریشرزبڑھائے جارہے ہیں کہ ایک وقت آئے گا کچھ عرصے کے بعد اسرائیل کوتسلیم کرنے یانہ کرنے کے حوالے سے بہت کم لوگوں کا رجحان ہوجائے گا۔ہمارے علماء اس موضوع کوعوام کے سامنے رکھیںاوران کی ذہن سازی کریں ۔ اگر ہمارے حکمران اسرائیل کو تسلیم کریں گے تویہ تاریخ کی بدترین غلطی ہوگی جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی ۔
سوال:عربوں کی اسرائیل کے ساتھ جنگیں بھی ہوچکی ہیں ۔ اسرائیل نے یہ چیز باور کی ہے کہ ہم جنگوں کے ذریعے ا س چیز کوفتح نہیں کرسکتے بلکہ ان کونام نہاد امن کے ذریعے اپنے ٹریپ میں لے کرآئیں۔ کیا اب وہ گریٹر اسرائیل کاقیام اسی ٹریپ (نام نہاد امن معاہدہ)کے ذریعے کرناچاہتے ہیں ؟
رضاء الحق:اصل میں اسرائیل نے یہ محسوس کرلیا ہے کہ میں اس خطے میں اپنے بنیادی حریف عراق، لیبیا، مصر، شام کوفتح کرچکا ہوں۔ایران ایک نیا بڑا دشمن ہے لیکن اس کومیں بعد میں دیکھوں گا۔وہ سمجھ رہا ہے کہ مجھے اس وقت جنگ کی ضرورت نہیں ہے ۔ اگر کوئی گڑ سے مرتا ہوتواس کو زہر دینے کی کیاضرورت ہے۔جومیرے سامنے بچھے جارہے ہیں ان کو میں اسی طریقے سے رام کرلیتاہوں۔ جب ضرورت پڑے گی توعین ممکن ہے کہ وہی علاقے جن کے ساتھ اس کاتعلق بن چکا ہوگا ان کو ایران کے خلاف بھی استعمال کرے ۔ بہرحال گریٹر اسرائیل کامنصوبہ کسی کے ساتھ تعلق یامعاہدے کی وجہ سے ختم ہونے والا نہیں ہے بلکہ وہ ایک دیرینہ سوچا سمجھا منصوبہ ہے ۔اوراسرائیل اس منصوبے کوحاصل کرنے کے لیے پوری دنیا کو اپنے کنٹرول میں کرنا چاہتاہے ۔ جیساکہ نیتن یاہو نے اپنی تقریر میں یہ تاثر دیا تھاکہ آئندہ دنیا کے فیصلوں کامرکز مشرق وسطیٰ ہوگاا وراس کا دل اسرائیل ہوگا۔
سوال: اسرائیل اس وقت سب سے زیادہ فوکس سعودی عرب کو کررہاہے ۔ دوسری طرف ایران اسرائیل کادشمن ہے اورکچھ عرصہ پہلے ایران اورسعودی عرب کے درمیان دوستانہ تعلقات استوار ہورہے ہیں ۔اگراسرائیل سعودی عرب امن معاہدہ ہوجاتاہے توکیاایران کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات قائم رہ سکیں گے ؟
ڈاکٹر انوار علی:غالباًاپریل میںسعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات بہتر ہونے شروع ہوئے تھے اوراس وقت دوستانہ تعلقات کی خبریں گردش کررہی تھیں۔ اسی دوران اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے بڑا عجیب بیان دیاکہ سعودی عرب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کا اصل دشمن اسرائیل نہیں بلکہ ایران ہے ۔کیونکہ سعودی عرب کے ایران کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کاسب سے زیادہ نقصان اسرائیل کوہوگا۔ چنانچہ اس کے بعد اسرائیل ایک دم ایکٹیو ہوا اور اس کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی گونج سنائی دی اور اسی کاتسلسل ہے یہ آنے والامعاہدہ ،جواسرائیل اورسعودی عرب کا ہوگا۔ محمدبن سلمان کابیان آیاکہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قریب ہیں اوراگر ایران نے جوہری ہتھیار حاصل کیے توسعودی عرب بھی حاصل کرے گا۔لگتا ہے کہ اسرائیل سعودی عرب جس میں جوہری توانائی کاحصول یاایٹمی پاور بنانے کولالی پوپ دکھارہا ہے ۔ تین نکات پرسعودی عرب اوراسرائیل جمع ہورہے ہیں جن میں دو سعودی عرب سے متعلق ہیں ۔ ایک سکیورٹی کی گارنٹی جودونوں طر ف سے مانگی گئی ہے اوردوسرا جوہری ٹیکنالوجی کاحصول، جوسعودی عرب چاہتاہے کہ اس معاہدے کے ذریعے مجھے مل جائے ۔ تیسری مثبت بات ہے جومحمدبن سلمان کابیان آیا کہ ہم فلسطینیوں کوایک اچھی زندگی گزارتا دیکھناچاہتے ہیں ۔یعنی اس کا امکان ہے کہ اس معاہدے میں فلسطینیوں کے لیے کوئی نہ کوئی رعایت کا آپشن موجود ہوگا۔ بہرحال یہ بھی حقیقت ہے کہ اسرائیل نہیں چاہتا کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بہتر ہوںبلکہ وہ چاہتاہے کہ یہ تنازع اورکھینچاتانی ہمیشہ برقرار رہے ۔
سوال: اسرائیل کابڑا تنازع فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ہے ۔ اگر فلسطینی مسلمانوں کووہ کسی نہ کسی معاہدے میں راضی کرلیتا ہے اور سعودی عرب بھی اس حوالے سے امن معاہدے میں راضی ہوجاتاہے اوردیگر اسلامی خلیجی ریاستیں بھی اس معاہدے کو ویلکم کرتی ہیں توپھرپاکستان کاکیاتعلق ہے کہ وہ اتنی دور بیٹھ کراسرائیل کوتسلیم نہ کرے ؟
رضاء الحق : اس سوال سے ملتا جلتا بیانیہ ہمارا سیکولر اور لبرل طبقہ کھل کر پیش کرتا ہے ۔ بنیادی طور پر ریاست اسرائیل کا قیام فلسطینیوں کے حقوق کو غصب کر کے کیا گیا ۔ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی گئی اور پھر اس کا تعلق ہماری دینی تعلیمات سے بھی ہے ۔ اسرائیل یا یہودیوں کی ریاست قائم ہو جانا اس کی بنیاد پہ آگے چل کر گریٹر اسرائیل کا بن جانا یہی وہ دجال کی عالمی حکومت ہے جس کے لیے وہ بیج بو رہے ہیں ۔ ہمارے لوگ کیوں اس بات کو بھول جاتے ہیں ۔ عام پاکستانی مسلمان چاہے وہ پاکستان میںہویاکسی دوسرے ملک میںہو،وہ اس معاملے میں بڑا حساس ہے ۔دوماہ پہلے لیبیا کی وزیر خارجہ نے ایک کانفرنس میں اسرائیلی وزیرخارجہ سے ملاقات کرلی تولوگوں نے وہاں اس قدر احتجاج کیاکہ اسے ملک چھوڑنا پڑا اور اس کوعہدے سے فارغ بھی کردیا گیا۔یعنی مسلمانوںمیں ابھی بھی یہ جذبہ موجود ہے اوروہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کسی صورت میں بھی اسرائیل کی ناجائز ریاست کوتسلیم نہ کیاجائے کیونکہ اس کوتسلیم کرلیا تو مسلمانوں نے خود ہی اپنی جڑ کاٹ دی۔
سوال: پاکستانی اورپوری مسلم دنیا کی عوام اسرائیل کی سخت ترین مخالف رہی ہے۔ موجودہ معاہدہ اگر منظر عام پرآجاتاہے توکیاپوری مسلم امہ اس کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلے گی یایہ معاہدہ دنیا بھر میں ایک نئے فتنے اورا نتشار کاباعث بنے گا؟
ڈاکٹر انوار علی:یقیناً عام مسلمان اس حوالے سے بہت حساس ہے ۔ اوراسرائیل کوتسلیم کرنا ایک بڑا موڑ ہوگا اور اس کی وجہ سے ایک بڑی تباہی آسکتی ہےاور عوام الناس کی سطح پرشدید ردعمل آئے گا۔لیکن ہمیں اس زاویے کو نظر انداز نہیںکرنا چاہیے کہ اس وقت ایک معاشی بحران کوبہت بڑھاچڑھا کرہمارے اوپرمسلط کیا جارہا ہے تاکہ لوگ اصل مسائل اورایشوز کی طرف نہ آسکیں۔ بہرحال ہروہ شخص جو کلمہ پڑھتاہے اورجس کو پاکستان کی نظریاتی سرحدوں سے ذرا سی بھی وابستگی ہے وہ کسی صورت بھی اس کو برداشت نہیںکرے گاکہ پاکستان اسرائیل کوتسلیم کرے ۔ بہرحال پاکستان کے عوام کی سعودی عرب کے ساتھ بھی ایک بڑی نسبت ہے ۔ اگر سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے تویہ بھی مسلمانوں کے لیے بہت زیادہرنج والم کی کیفیت ہوگی ۔
سوال: اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے تنظیم اسلامی کاکیامؤقف ہے ؟اوراس ضمن میں آپ حکومت پاکستان کوکیاتجاویز دیں گے ؟
رضاء الحق:تنظیم اسلامی کاوہی مؤقف ہے جو ہماری دینی تعلیمات اوربانیان پاکستان کامؤقف تھا کہ اسرائیل کوتسلیم کرنا اسلام،فلسطینی مسلمانوں اورنظریہ ٔپاکستان سے غداری ہے اوراسلامی تعلیمات کی صریحاً خلاف ورزی ہے ۔ چونکہ نظریہ ٔپاکستان درحقیقت نظریہ ٔاسلام ہی ہے ۔ اس کی بنیاد پربانیان پاکستان نے شروع سے ہی یہ اصولی بات طے کردی تھی کہ اسرائیل کی ناجائز ریاست کوکسی صورت میں تسلیم نہیں کیاجائے گا ۔ پاکستان میں معاشی مسائل بہت زیادہ ہیں اورحدیث کی رو سے فقر کفر کی طرف لے جاتا ہے۔ احادیث میں یہ بھی ہے کہ جب مسیح الدجال آئے گا تواس کے ایک ہاتھ میںجنت اوردوسرے ہاتھ میں آگ(جہنم) ہو گی اوروہ لوگوں کو بلائے گا۔ اورجواس کی آگ میں داخل ہوگا وہ درحقیقت پانی میں ہے اورجواس کی جنت میں داخل ہوگا وہ درحقیقت آگ میں ہے ۔یعنی انتہائی سخت ترین مشکل معاشی حالات میں بھی دین اور اصول کادامن نہ چھوڑنا انتہائی اہم ہے ۔ پاکستان کے معاشی مسائل کی کچھ وجوہات ہیں ۔ سب سے بڑی وجہ سودی معیشت ،جس کاخاتمہ انتہائی اہم ہے۔پھرکرپشن اور اس جیسے دوسرے معاملات کودور کیاجائے ۔الغرض معیشت میں خلاف اسلام چیزوں کو دور کیاجائے اوراسلام کامعاشی نظام نافذ کیاجائے ۔ فیڈرل شریعت کورٹ نے 2022ء میں سود کے خلاف فیصلہ دے کر اسلام کے معاشی نظام کو نافذ کرنے کا روڈ میپ بھی دیا۔اسی طرح سب مل بیٹھ کرملکی مفاد کو سامنے رکھ کرسوچیں توہمارے سیاسی حالات بھی ٹھیک ہوسکتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم نظریہ ٔپاکستان کوعملی طورپر ملک میں نافذ نہیں کرتے اس وقت تک ہماری وجہ جواز ہی پوری نہیں ہوسکتی ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024