(منبرو محراب) قرآن اور صاحب قرآن ﷺ - مرتضی احمد اعوان

8 /

قرآن اور صاحب قرآن ﷺ


مسجدجامع القرآن، قرآن اکیڈمی، کراچی میں امیرتنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے29 ستمبر2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

مرتب: مرتضیٰ احمد اعوان

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
آج12ربیع الاول کادن ہے اورہرجگہ قرآن اورصاحب قرآن ﷺ کے حوالے سے محافل کااہتمام ہوتاہے ۔ جہاں تک اللہ کے پیغمبرﷺ کے ذکرکامعاملہ ہے تویہ ایک دن یاکچھ گھڑیوں،مہینے یاخاص کسی موقع کامعاملہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتاہے:
{وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ(۴)}(الم نشرح)
’’اور ہم نے آپؐ کے ذکر کو بلند کر دیاہے۔‘‘
البتہ اس نسبت سے محافل کاانعقاد اوروہاں آپﷺ کی ثناء بیان کی جاتی ہے اورنعت رسول مقبول ﷺ کے نذرانے پیش کیے جاتے ہیں ۔ بعض مرتبہ کچھ ایسے اعمال بھی ہوتے ہیں جن سے کسی بھی مکتب فکر کے علماء کواتفاق نہیں ہے ۔ مثال کے طورپرچوری کی بجلی استعمال کرکے چراغاں کرنایااس قدر زوردار انداز سے سپیکرز کااستعمال کرناکہ لوگوں کی نیند خراب ہواورلوگوں کی عبادات میں خلل واقع ہوجائے ۔ یاحرام مال کواستعمال کرکےلوگوں کو کھانا کھلانا اورسمجھنا کہ بڑا نیکی اورخیرکاکام ہورہا ہے ۔یااس انداز سے رسول اللہﷺ کی شان بیان کرنانعت کے اشعار میں کہ جوبازاری قسم کے الفاظ ہوںاس کو محبت کی بازاری قسم کی حرکتیں اور داستانیں اور الفاظ اس میں استعمال کیے جائیں ۔ یہ تو عین بے ادبی کا پہلو ہے ۔ ان باتوں پر کسی بھی صاحب علم اور مکتب فکر کو اتفاق نہیں ہو سکتا ۔ البتہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ذکر خیر ہونا چاہیے ۔ آپﷺ کی سیرت کابیان بھی ہونا چاہیے ۔ اگر ان مجالس میں یہ بات پیش نظر ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ  سے ٘محبت میں اضافہ ہو،آپﷺ کے احسانات کاہم پرادراک ہواور پھر آپﷺ کی اطاعت کی جائے اور آپﷺ کی اتباع بھی کی جائے اورآپﷺ کے مشن کو اختیار کرنے کی کوشش کی جائے توایسی مجلس خواہ وہ ربیع الاوّل کے مہینے میں منعقد کی جائے یاربیع الثانی میں منعقد کی جائے یاسال کے کسی موقع پرمنعقد کی جائے وہ مبارک ہے ۔لیکن اگر اس کے برعکس بدعات،فضولیات، خرافات اوررسول اللہﷺ کی تعلیمات کے برخلاف کوئی اعمال اختیار کیے جائیں تویہ اللہ کے غضب اور رسول اللہﷺ کی ناراضگی مول لینے والی بات ہوگی۔اللہ اس سے ہماری حفاظت فرمائے ۔ استاد محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے بڑا اچھانکتہ بیان فرمایاکہ جب ہم نبی اکرمﷺ کاذکرکرناچاہیں توبڑے ادب کوملحوظ خاطر رکھیں ۔ مثال کے طورپر اگر کوئی کسی انجینئر کی مہارت پرکلام کرناچاہے توکم سے کم وہ بندہ ہوجوخود انجینئر ہو۔ ایک ڈاکٹر سے کہیں کہ وہ انجینئر کی مہارت پرکلام کرےتوغلط بات ہے ۔ اسی طرح ایک ڈاکٹر کی مہارت پرکلام کرنے کے لیے کم سے کم ڈاکٹر توہو۔ اسی طرح کسی نبی کے مقام پرکم سے کم کون کلام کرےنبی توہواورامام الانبیاءﷺ کی بات آجائے تواب بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔کیونکہ ہم بات کریں گے بے ادبی اور کم علمی کا بھی امکان ہے اللہ تعالیٰ نے محمدرسول اللہﷺ کواپنا آخری رسول بنا کربھیجا۔ اللہ تعالیٰ نے ہی اس ذات کی شان کا ذکر اپنے کلام میں کیا ہے۔اب اگر ہم اللہ تعالیٰ کی تعلیمات کے مطابق اپنے پیغمبر کی شان بیان کریں گے تواللہ کے بیان کے تابع رہ کرتواسی میں خیر ہوگی ۔چنانچہ اسی نسبت سے ہم چند آیات قرآنی کامطالعہ کریں گے ۔
سیرت النبی ﷺ کی سب سے پہلی جامع ترین، مستند ترین کتاب خود قرآن حکیم ہے۔ اسی لیے حضرت عائشہ k سے جب پوچھا گیا کہ رسول اللہﷺ کے اخلاق کیا ہیں ؟توآپؓ نے فرمایا:کان خلقہ القرآن! یعنی اللہ کے رسولﷺ کے اخلاق تو قرآن ہیں ۔ قرآن مجسم دیکھنا ہو ، قرآن چلتا پھرتا دیکھنا ہو ، قرآن عمل میں دیکھنا ہو، قرآن ایکشن میں دیکھنا ہو تو محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات بابرکات میں دیکھ لو۔اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل کرے اور ہمارے دلوں میں اپنے نبی ﷺ کی محبت ڈالے۔ اور آپ ﷺ کی اطاعت اور آپ ﷺکی اتباع اور آپ ﷺ کے مشن میں شامل ہو کر ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔
رسول اللہﷺ سے محبت
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے : {اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ} (الاحزاب:6) ’’یقیناً نبیؐ کاحق مؤمنوں پر خود اُن کی جانوں سے بھی زیادہ ہے۔‘‘
ایک بڑی دلچسپ تعبیریہ بھی کی گئی کہ ہم پر ہم سے بڑھ کراللہ کے رسول ﷺ کا اختیار ہے وہ ہم سے جوتقاضا کریںاس پرعمل کیاجائے ۔ بہرحال جب تک ہمیں اپنی جان سے بڑھ اللہ کے رسولﷺ سے محبت نہ ہوہمارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔البتہ اللہ تعالیٰ حب رسولﷺ کوجانچنے کے لیے ایک ترازو ہمارے سامنے رکھتا ہے ۔
سورۃا لتوبہ میں فرمایا:
’’ (اے نبی ﷺ !ان سے)کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ ‘تمہارے بیٹے‘تمہارے بھائی‘تمہاری بیویاں (اور بیویوں کے لیے شوہر)‘تمہارے رشتہ دار اور وہ مال جو تم نے بہت محنت سے کمائے ہیں ‘اور وہ تجارت جس کے مندے کا تمہیں خطرہ رہتا ہے ‘اور وہ مکانات جو تمہیں بہت پسند ہیں ۔( اگر یہ سب چیزیں) تمہیں محبوب تر ہیں ‘ اللہ‘ اُس کے رسول (ﷺ) اور اُس کے راستے میں جہاد سے ‘تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ سنا دے۔اور اللہ ایسے فاسقوں کو راہ یاب نہیں کرتا۔‘‘(آیت:24)
ایک ترازو ہم لگائیں۔ اس کے دوپلڑے ہوں۔ ایک پلڑے میں8محبتیں ہوںاوردوسرے میں یہ3 محبتیں ہوں۔ اللہ ،رسول اللہﷺ اوراللہ کی راہ میں جہاد۔ دیکھ لیں اگر پہلاپلڑا بھاری ہے جس میں مال، رشتوں، کاروبار، دنیا کی محبت وغیرہ سب شامل ہیں توپھرایسے فاسقوں کوہدایت نہیں ملتی ۔ اگر دوسرا پلڑا بھاری ہے توپھرنورعلی نور ہے وہی مطلوب ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی محبت قلب کامعاملہ ہے ۔ماتھے پہ لکھا نہیں ہوگا کہ یہ اللہ سے اوررسول اللہ ﷺ سےمحبت کرتا ہے۔ اسی طرح جہاد ایک مستقل عمل ہے ۔ اللہ کی بندگی کے لیے جہاد ہے ،گناہوں سے بچنے کے لیے جہاد ہے ۔ اللہ کے دین کی دعوت دینے کے لیے جہاد ہے،اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے جہاد ہے یہ جہاد کاعمل ایک مستقل پراسس ہے اوریہ 24گھنٹے کاعمل ہے ۔ یہ جہاد کاعمل بتائے گاکہ اللہ سے محبت ہے کہ نہیں ہے اللہ سے محبت ہوگی تواللہ کی مرضی پرعمل اورا للہ کی مر ضی کوجاری رکھنے اورقائم کرنے کی جدوجہد ہوگی ۔ اللہ سے محبت ہوگی توبندہ گناہوں اورنافرمانی سے بچے گااور اللہ کی نافرمانی کو مٹانے کے لیےجدوجہد کرے گا۔ اللہ کے رسولﷺ سے محبت ہوگی توجہاد کا عمل بتائے گا۔ بندہ رسول اللہﷺ کی سنتوں پرعمل کرنے اورآپ ﷺ کے مشن کو تھامنے کی محنت کرے گا۔ رسول اللہ ﷺ کے دین کونافذ کرنے کی جدوجہد کرے گا،نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دے گا۔یہ جہاد کا عمل بتائے گاماتھے پہ لکھا ہوا نہیں ہوگایاگلے میں لٹکاہوا میڈل یاسرٹیفکیٹ نہیں ہوگا۔محبت ثبوت مانگتی ہے ۔رسول اللہﷺ سے محبت کادعویٰ ہے توجہاد کاعمل کرنا ہوگا۔ آج امت بھولی ہوئی ہے ۔ آج ہمیں شارٹ کٹ چاہیے کہ کسی طرح آن لائن جنت مل جائے۔چار بھوکوں کو کھاناکھلادو چاہے مال حرام ہی کیوںنہ ہو حالانکہ حرام جہنم میں لے جانے والا ہے جنت میں لے جانے والا نہیںہے ۔اللہ کی جنت سستی نہیں ہے ۔
رسول اللہﷺ کااسوہ
سورۃ الاحزاب میں ہی اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللہَ کَثِیْرًا(21)} ’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐمیں ایک بہترین نمونہ ہے ‘(یہ اُسوہ ہے) ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ سے ملاقات اور آخرت کی امید رکھتا ہو‘اور کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتا ہو۔ ‘‘
اللہ کو منہ دکھانا ہے اس کایقین ہے کہ نہیں ؟اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے اس کایقین ہے کہ نہیں ؟آخرت اصل منزل ہے اس کا یقین ہے کہ نہیں ؟یہ یقین ہوگا تورسول اللہ ﷺ  کے اسوہ سے فائدہ ہوگا۔ ورنہ رسول اللہﷺ کی زندگی پرڈاکٹر مائیکل ایچ ہارٹ نے بھی The Hundred کے نام سےکتاب لکھ دی۔ اور اپنے تئیں کہتا ہے کہ میں  محمد(رسول اللہ ﷺ) کو نمبر ایک پرلایا۔اس نے رسول اللہ نہیں کہا بلکہ پرسن کہا۔مگر فائدہ کیاہوا؟کتاب چھپ گئی غیرمسلم کیامسلمان بھی کوٹ کررہے ہیں۔ لیکن اصل فائدہ تب ہوگا اگر وہ ایمان لاتا محمدرسول اللہﷺ پر۔ اسی طرح اگر ہم ایمان والے محض رسول اللہﷺ سے محبت کا دعویٰ کریں اورآپ ﷺ کی زندگی کواختیار کرنے کی حتی الامکان کوشش نہ کریں،ان کے اسوہ کو اپنانے کی کوشش نہ کریںتومعاف کیجیے گا تعریفیں ہم کرلیں گے مجالس ، پروگرامز،کانفرنسز اورکچھ خیرکے ظاہری اعمال بھی ہم کرلیں گے، لیکن اسوہ سے فائدہ نہیں ملے گا۔تواللہ کے سامنے حاضری کایقین اورآخرت اصل منزل ہے اس کایقین یہ بنیادی شرط ہے اگر یہ یقین پختہ ہوگا تورسول اللہ ﷺ  کے اسوہ سے فائدہ ملے گا۔ سورۃا لاحزاب کا یہ مقام عموم اور خصوص دونوں اعتبار سے اہم ہے ۔ عموم کے اعتبار سے یہ کہ زندگی کے تمام معاملات اورگوشوں کے لیے رسول اللہ ﷺ کااسوہ بہترین ہے ۔ آج یہی یقین امت کو نہیں ۔ ہم طور طریقے دوسروں سے لیتے ہیں ۔ پاکستان کی معیشت سنبھل نہیں رہی حالانکہ ہمارے پاس بڑے بڑے معاشی ماہرین،پی ایچ ڈیز اورا دارے موجود ہیں ۔کروڑوں کابجٹ وہاں پرلگ رہا ہے مگر معیشت سنبھل نہیں رہی ۔ اس کے مقابلے میں افغانستان کی کرنسی مضبوط ہورہی ہے ،ان کی معیشت ترقی کررہی ہے۔کیوں ورلڈ بنک اوریواے ای والے رپورٹ دے رہے ہیں کہ ان کی معیشت بہتر ہوتی چلی جارہی ہے ؟ کچھ تواللہ کاخوف اوراللہ کاتوکل ان کے دلوں میں ہے ۔ انہوں نے موجودہ مالیاتی نظام کے برعکس جانے کی کوشش کی ہے اوراللہ برکات دکھار ہا ہے۔اللہ انہیںاستقامت عطا فرمائے ۔
بہرحال اللہ کے رسول ﷺ کااسوہ زندگی کے تمام معاملات کے لیے ہے۔ اگر کوئی شوہر ہے ،تاجر ہے ، حکمران ہے ،سپہ سالار ہے غرض ہر شخص کے لیے بہترین نمونہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہے ۔
سورۃ الاحزاب کی آیت21 کے پس منظر میں غزوئہ احزاب (خندق) کاواقعہ ہےجہاں رسول اللہﷺ   نے خود بھوک اور پیاس کوبرداشت کیا،جہاں آپﷺ نے اپنے پیٹ پر پتھر باندھے،جہاں آپﷺ نے کدالیں چلائیں،جہاں آپ ﷺ نے مشقتیں جھیلیں خندق کو کھودنے کی۔آج امت خوش ہے ۔ عطر شریف لگا رہے ہیں سنت ہے۔ مہنگا ترین عطر استعمال ہورہا ہے ۔ عمامہ پہن رہے ہیں اچھی بات ہے ۔برینڈڈ اورٹیک لگاہوا عمامہ اور ٹوپی پہنی جاتی ہے ۔ کیاسنت عمامہ،ٹوپی،عطر اور مسواک اورداڑھی میں رہ گئی ؟کوئی طائف ، ہجرت، بدر ، واحد، ساتھیوں کی قربانی کی سنت ہے کہ نہیں ؟ کیاطائف واحدمیںبہتاہوا رسول اللہﷺ کا مبارک خون اور احزاب میںآپ ﷺ کی مشقت ،بھوک، پیاس بھی سنتوںمیں ہے کہ نہیں ؟بس میٹھی میٹھی سنتیں ،کھانے پینے والی سنتیںہی رہ گئی ہیں۔یقیناً رسول اللہﷺ کی کوئی ادا یاسنت چھوٹی نہیں ہوتی ۔ یہ غلط جملہ ہے کہ فلاں سنت چھوٹی ہے ۔ ہم سنت کی قد رکرتے ہیں اور حتی الامکان ہمیں عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ مگر23برس کو تودیکھوکہ رسول اللہﷺ کے کس کام میں لگے ہیں پھراس آیت کا سیاق وسباق کیاہے ۔وہ سنت کا پورا پیکج سامنے رکھناچاہیے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے ۔
پھریہ آیت کریمہ خصوص کے اعتبار سے بھی اہم ہے۔ اللہ تعالیٰ دواصطلاحات قرآن کریم میں لاتا ہے: اطاعت،اتباع۔ ایک فتنہ بہت پرانا ہے کہ قرآن بس ہمارے لیےکافی ہے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ۔یہ کھلاسنت کاانکار کرنے والے لوگ ہیں ۔سرےسے احادیث کاانکار کرنے والے لوگ جویہ کہتے ہیں۔اللہ کہتاہے :
’’جس نے اطاعت کی رسو ل کی اُس نے اطاعت کی اللہ کی۔‘‘(النساء:80)
مثلاًاللہ کاحکم ہے نما زقائم کرو:اقیمواالصلوٰۃ بار بار آتا ہے۔لیکن قرآن پاک تونماز کا طریقہ نہیں بتاتابلکہ رسول ا للہﷺ بتائیں گے کہ نماز ایسے ادا کرو جیسے مجھے نماز ادا کر تے ہوئے دیکھتے ہو۔اللہ کاحکم بھی لازم اوراللہ کے رسولﷺ کاحکم بھی لازم۔ اسی کواللہ ایک دوسرے انداز میں بیان فرماتاہے :
{وَمَآ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ج وَمَا نَھٰىکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْاج} (الحشر:7) ’’اور جو کچھ رسولؐ تم لوگوں کو دے دیں وہ لے لو اور جس چیز سے روک دیںاس سے رک جائو۔‘‘
بہرحال رسول اللہﷺ کی اطاعت کرنالازم ہے ۔ان میںچوائس نہیں ہے۔ سادہ سی مثال ہے کہ ایک بچہ کا سونمبر کا پیپر ہے اس میں سے چالیس نمبر حاصل کرے گا توپاس ہوگا۔ اگر چالیس نہیں حاصل کرسکا توفیل ہوگا۔ اسی طرح دین کے احکام جن کی تعلیمات رسول اللہﷺ نے دی ہے ان پرعمل کرنا لازم ہے ورنہ نجات نہیں ۔ہمارا حال یہ ہے کہ ہم احکام کے بارے میں بھی سوال کررہے ہوتے ہیں کہ مفتی صاحب یہ فرض تونہیں ہے نا؟جب اللہ اوراس کے رسولﷺ کا حکم آگیاجیسے سورۃالاحزاب میں فرمایا:
’’اور کسی مؤمن مرد اور مؤمن عورت کے لیے روا نہیں کہ جب اللہ اور اُس کا رسول(ﷺ) کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو (پھر بھی انہیں یہ خیال ہو کہ) ان کے لیے اپنے اس معاملے میں کوئی اختیار باقی ہے۔‘‘ (آیت:36)
اللہ اور رسولﷺ کوئی حکم دے دیں تواب ایمان والے کے پاس کوئی چوائس ہے ہی نہیں ۔اس پرعمل کرنا لازم ہے ۔لیکن اطاعت سے آگے بڑھ کر ایک اورمیدان ہے جس کے لیے قرآن اتباع کالفظ استعمال کرتاہے۔ اور یہ پوری زندگی پرمحیط ہے ۔اتباع کامیدان محبت سے متعلق بھی ہے ۔ اطاعت توکرنی ہی کرنی ہے، دل آمادہ ہونہ ہو۔فجر میں نیند آرہی ہے تواٹھناتوپڑے گا۔بستر چھوڑنا پڑے گا۔ آج امت بستر چھوڑ کرنماز کے لیے آنے کو تیار نہیں ایسا ایمان ہے امت کا۔ عشاء کی پانچ صفیں اورفجر کی ایک رہ جاتی ہے ۔کیساہمارا ایمان ہے کہ جوبستر سے مصلے پرکھڑا نہیںکررہااورہم چاہتے ہیں کہ حضورﷺ کی شفاعت بھی ملے اور حضورﷺ کادیدار بھی ملے اور جام کوثر بھی ملے اور جنت بھی ملے ۔اپنے ایمان کوٹٹولیں توسہی ۔
بہرحال رسول اللہﷺ کی ایک ایک ادا، آپ ﷺ کے نقش پا کی پیروی کی کوشش کرناخواہ ا س کاحکم نہ ہویہ اتباع ہے ۔ہم میں اور صحابہ میں کیا فرق ہے ۔ کسی نے بڑی پیار ی بات کی کہ صحابہ کرام j حضورﷺ کی ایک ایک ادا کو سنت سمجھ کر اختیار کرتے تھے۔ آج امت نبی اکرم ﷺ کی ایک ایک ادا کو سنت کہہ کر چھوڑ دیتی ہے کہ فرض تونہیں ہے نا۔ آج سنت جائے گی کل فرض بھی جائے گا۔پھرپرسوں ایمان بھی جائے گا۔ا للہ ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔اللہ اپنی محبت کے دعوے کے لیے پیغمبرﷺ کی اتباع کاتقاضا کرتاہے ۔ارشاد ہوتاہے :
’’(اے نبیﷺ!) کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو‘اللہ تم سے محبت کرے گا‘اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔‘‘ (آل عمران:31)
اتباع رسول ﷺ لائوتو اللہ کی محبت کادعویٰ ٹھیک ہے۔ اسی طرح رسول اللہﷺ بھی اپنی محبت کے دعوے کےلیے سنت کی پیروی کامطالبہ کرتے ہیں۔
کیاآج ہماری ترجیحات میں رسول اللہﷺ سے ملاقات شامل ہے ؟اللہ تعالیٰ ہمیں واقعتاً اللہ کے رسولﷺ کی سنت پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ سنتیں بہت ہیں ۔رسول اللہ ﷺ کی پوری سیرت ہمارے سامنے ہے ۔کیااچھاہوکہ ہم اپنے گھروں میں  سیرت النبی ﷺ کی کوئی کتاب کامطالعہ شروع کریں اوراگلے ربیع الاوّل تک وہ کتاب مکمل کرلیں اوراللہ کرے کہ جوسیکھتے جائیں اس پرعمل کرسکیں ۔ا پنے بچوں کومطالعہ کروائیں ۔ بہت اچھے اچھے بیانات مل جائیں گے ۔استاد محترم ڈاکٹراسرار احمدؒ کے بیانات کی پوری سیریز مل جائے گی۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت پرعمل قلب کا معاملہ ہے ۔اگر ہمارے دلوں میںنورایمان ہوگا اورآپﷺ کی محبت ہوگی اوراس کے نتیجے میں سنت کی پیروی ہوتواللہ کی قسم اٹھا کرمیںکہوںکہ ہم اپنی ذات میں، اپنے معاملات میں،اپنے گھروںمیں سنت کی برکتوں کو محسوس کریں گے۔اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے ۔
میں ایک بات بڑے دبے الفاظ میں رکھ دوںکہ اس وقت ہمارے معاشرے میں فحاشی و عریانی کا سیلاب توہے ہی میڈیاپراب گستاخیوں کے معاملات آگئے ہیں اورامت کے بچے اور بچیاں گستاخانہ طرزعمل میں مبتلا ہورہے ہیں ۔ اس کا یہی حل ہے کہ
1۔ایمان کی محنت،قرآن کے ذریعے سے ۔
2۔حضورﷺ کی محبت دلوں میں پیدا ہونا اور آپﷺ کی تعلیم کو سیکھ کر اس کو اپنے عمل میں لانے کی کوشش کرنا۔ اس سے کمتر پربات نہیں سدھرے گی ۔
3۔فکرآخرت کا معاملہ کل کی جوابدہی کااحساس ۔
کوشش کریں یہ جذبہ لے کر یہاں سے اٹھیں ۔ ہم اپنے گھر میں کوشش کرتے ہیں تحدیث نعمت کے طور پر۔ چھوٹے بچے بھی ہیں وہ رسول اللہﷺ کی سیرت کی کتاب پڑھتے ہیں ۔تنظیم اسلامی میں گھریلواسرے کاایک پورا اہتمام ہوتاہے کہ اپنے گھروالوں کو بٹھا کراللہ کی کتاب،اللہ کے رسولﷺ کی تعلیم،آپﷺ کی سیرت ،اللہ کے نبیﷺ کے دین کےتقاضے یہ بیان کیے جاتے ہیں ۔آپ بھی کوشش کریں ۔ اللہ ہمیں مزید توفیق عطا فرمائے ۔
رسول اللہﷺ کی خوبصورت سنت
ہمیں چاہیے کہ آپؐ کی سنت اورسیرت اپنانے کی کوشش کریں ۔ اللہ کے رسولﷺ کی 23 برس کی سنت کس مقصد کے لیے دکھائی دیتی ہے؟ 23برس کا غم کیاتھا ٘محمدرسول اللہﷺ کا؟23برس کی جدوجہد کیا تھی آپﷺ کی ؟23برس کی جدوجہد میں کبھی رب کہتاہے :{قُمِ الَّیْلَ }(المزمل:2)’’آپؐ کھڑے رہا کریں رات کو۔‘‘تہجد کی نماز،کبھی رب فرماتاہے : {قُمْ فَاَنْذِرْ(2) وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ(3)}(المدثر)’’آپؐ اٹھئے اور (لوگوں کو) خبردار کیجیے۔اور اپنے رب کو بڑا کرو!‘‘
یہ اللہ کی مخلوق کو اللہ سے جوڑنا،راتوں کو اللہ سےمانگنا اورپوری پوری رات،ایک تہائی رات میں امت کاغم حضورﷺ کو رلاتاتھا۔ جب آپ ﷺ راتوں کو روتے تھے توسینہ مبارک سے ایسی آواز آتی تھی جیسے چولھے پرہنڈیاں کھول رہی ہو۔ کبھی تو پوری پوری رات اللہ کے رسولﷺ ایک آیت پرروتے تھے۔ سورۃالمائدۃ میں فرمایا:
{اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّـہُمْ عِبَادُکَ ج وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (118)} ’’اب اگر تو انہیںعذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں۔اور اگر تُو انہیں بخش دے تو تو زبردست ہے ‘ حکمت والا ہے۔‘‘
ہماری آنکھیں بھی کبھی نم ہوتی ہیں ۔یہ غم ہمیں بھی کبھی رلاتاہے ؟ہمیں کیسے غم ہیں: آئی فون15 پرو کاغم، فلاں مہنگی گاڑی کا غم ،فلاں بنگلے کا غم،فلاں ملک میں سیٹل ہوجانے کا غم وغیرہ یہ ہمارے کیڑے مکوڑے جتنے غم ہیں ۔محمدرسول اللہﷺ کاغم اتنابڑا غم ہے اگر وہ غم ہمارا غم بن جائے تویہ سارے غم کیڑے مکوڑوں سے زیادہ محسوس نہیںہوں گے ۔ رسول اللہﷺ کا23برس کا عمل کیاہے ؟
{قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللہِ قف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ ط}(یوسف:108) ’’(اے نبیﷺ!) آپ کہہ دیجیے کہ یہ میرا راستہ ہے ‘ مَیں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں‘پوری بصیرت کے ساتھ‘ میں بھی اور وہ لوگ بھی جنہوں نے میری پیروی کی ہے۔‘‘
بیسٹ آف دی بیسٹ کیاہے ؟اتباع کاسب سے بڑا میدان اللہ کے رسولﷺ کی پیروی کرتے ہوئے اللہ کی مخلوق کو اللہ کی طرف دعوت دینا۔ آج دعوت توسب دے رہے ہیں ۔دنیا بھر کی چیزیں سمارٹ فون سے فارورڈ کرتے ہیں نا۔سب دعوتیں دے رہے ہیں ۔ ہم توامتی کھڑے ہی اسی کام کے لیے کیے گئے ہیں ۔ ارشاد ہوتاہے : {کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ}(آل عمران:110) ’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے‘تم حکم کرتے ہو نیکی کا‘اور تم روکتے ہو بدی سے۔‘‘
حضورﷺ 23 برس قم فانذ ر پر کھڑے رہے اور حجۃالوداع میں امت کو کھڑا کرکے گئے :((فلیبلغ الشاہد الغائب))’’تم میں سے جو حاضر ہیں وہ غائب کو پہنچا دیں۔‘‘
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
یہ اللہ کی طرف دعوت کا 23برس کا ایک رخ ہے ۔ ہرامتی نے یہ کام کرناہے ۔جوامتی یہ کام نہیں کر رہا ہے اپنی استعداد ،اپنی صلاحیت ،اپنے دائرے کار کے اعتبار سے وہ امتی کہلانے کامستحق نہیں ہے ۔ امت کھڑی ہی اسی کام کے لیے کی گئی ہے ۔دوسرا 23برس کا کام کیاہے ؟یہ طائف کیوں سجا ہے ؟یہ شعب ابی طالب کی محصوری کیوں ہے ؟یہ بیت اللہ کو روتی آنکھوں سے الوداع کہنا کیوں پیش آگیا۔ یہ بدر میں تلوار کیوں اٹھ گئی ،یہ خون اطہر کیوں بہہ گیا۔یہ رسول اللہﷺ کوایک مشن اللہ تعالیٰ نے دیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}(الصف:9)
’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ اور دین ِحق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر‘‘
اوریہ اللہ کے رسولﷺ کی 23برس کی سنت ہے، جس کے دوران نبی اکرمﷺ نے فاقےبرداشت کیے، تکالیف جھیلیں،یہ سب ہم جانتے ہیں اورمانتے ہیں لیکن کیااس کے بعد ہمارا رخ زندگی بتار ہا ہے کہ ہمیں اس مشن سے محبت ہے ۔ہماری جان ،مال، اوقات ،صلاحیتیں، اولاد کیااس بہترین کام(رسول اللہﷺ کے مشن) میں  لگ رہے ہیں ؟ ہم نے رسول اللہﷺ کی زندگی کو بہترین اسوہ ماناہے۔ اس کام کے لیے ہمارا وقت کتنالگ رہاہے۔ ہم اپنے اندر جھانکیں کیاہمیں واقعی رسول اللہ ﷺ سے محبت ہے ؟ کیاحضورﷺ کے مشن کو ہم نے اپنامشن سمجھا ہے ؟ کیاآج اللہ کا مغلوب دین دیکھ کرہمیں کڑھن ہوتی ہے ؟
اگر خدا کی قسم کڑھن بھی ہے توکچھ رمق باقی ہے ؟اگر ہمیں صر ف اپنی ہی فکر ہے، صرف اپناذاتی مفاد ہی عزیز ہے تو پھریہ کیازندگی ہے ؟چڑیا بھی گھونسلہ بناکربچے پال لیتی ہے ،بلی بھی اپنے بچے پال لیتی ہےتوکون ساکمال کاکام ہے ۔ معاف کیجیے گایہ توبڑا چھوٹا گھٹیاساکام ہے ۔پھر کس بات پرہم کہتے ہیںکہ ہم بہترین امت ہیں ۔ ہم بہترین امت تب ہوں گے جب بہترین پیغمبرﷺ کے بہترین مشن کو اختیار کریں گے اوراپنا تن من دھن اس میں  لگانے کی کوشش کریں گے ۔یہ ہے توحب رسول ﷺ، سنت رسولﷺ کے تقاضے پورے ہوں گے ۔ورنہ چند اعمال انجام دے کر مطمئن ہوجائیں کہ سنت کے تقاضے پورے ہوگئے یہ بات درست نہیںہے ۔آج ہمارا حال یہ ہے کہ کرکٹ کاورلڈ کپ شرو ع ہوا ہے توہمیں ٹکٹیں نہیں ملیںتوہمیں غم ہے ، چاچاکرکٹ کوانڈیاجانے سے منع کردیاگیا توکہاجارہاہے کہ ہماری بڑی بے عزتی ہوگئی ہے۔ کیاآج یہ امت کادر د ہے ؟جس امت نے اللہ کے رسولﷺ کا کلمہ بلند کرناہے ،جس کے کام کے لیے اپناتن من دھن لگانا ہے، جس کام کے لیے اس امت کو کھڑا کیاگیاآج وہ سوشل میڈیا،کرکٹ،بے ہنگم سیاست کی نذر ہوجائے اورپھردعویٰ کرے کہ ہمیں محبت رسول ﷺ ہے ، اورچاہت رکھے کہ ہمیں جنت ملے توہمیں اپنے اس طرزعمل پرغور کرنا چاہیے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین یا رب العالمین!