اداریہ
ایوب بیگ مرزامُشتے نمونہ از خروارے
پاکستان، بھارت سے ایک دن پہلے آزاد ہوا تھا۔ آج بھارت کی معاشی ترقی اور دنیا میں جو اعلیٰ مقام اُس نے حاصل کر لیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے، وہ نہ صرف G-20 کا حصہ بن چکا ہے بلکہ اُسے یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ وہاں G-20 کا اجلاس منعقد ہوا ہے۔ عالمی رہنما وہاں اکٹھے ہوئے ہیں اور عالمی مسائل پر مباحث ہوئے ہیں۔ پھر یہ کہ بنگلہ دیش جو ہمارے جسد کا حصہ تھا آزادی کے چوبیس (24) سال بعد الگ ہوگیا۔ گویا وہ پاکستان سے چوبیس (24) سال چھوٹا ہے لیکن وہ معاشی لحاظ سے ہم سے کہیں آگے ہے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل کی انڈسٹری بنگلہ دیش منتقل ہو رہی ہے اگرچہ ہمارے ہاں اس وقت سیاسی عدم استحکام ریڈ لائن کراس کر رہا ہے اور گورننس بھی بدترین سطح پر ہے۔ لیکن ہم فی الحال برصغیر کے ان دو ممالک سے معاشی تقابل پر ہی بات کر رہے ہیں۔ ہر پاکستانی شاید بلااستثناء اس کی وجہ اشرافیہ اور ایوانِ اقتدار میں طواف کرنے والوں کی بدعنوانیاں، اقرباپروری، نااہلی، نالائقی، غیر سنجیدگی اور غفلت سمجھتا ہے اگرچہ یہ سب کچھ یقیناً درست ہے اور ہم بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں لیکن پاکستان کے آگے نہ بڑھنے کی ایک انتہائی اہم وجہ لوگ ignore کر دیتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ کا اگر آپ باریک بینی سے جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ دوستی کے روپ میں ایک دشمن پاکستان کی وقتاً فوقتاً جڑیں کاٹتا رہتا ہے۔ اگرچہ سفارتی زبان اجازت نہیں دیتی لیکن ملک کے مفاد کے سامنے یہ سب ہیچ ہے۔ حقیقت میں ایک ناگ جو ظاہری طور پر تو سفید ہے لیکن کالے ناگ سے زیادہ زہریلا اور خطرناک ہے۔ وہ ہر اُس وقت پر پاکستان کو ڈس لیتا ہے جب پاکستان کا رخ کسی قدر بلندی کی طرف ہوتا ہے اور وہ دشمن ہے ریاست ہائے متحدہ امریکہ، اگرچہ کہنے والے کہیں گے اور بالکل درست کہیں گے کہ امریکہ بھی تو یہ سب کچھ پاکستانیوں کے ذریعے کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہمیں اپنے اصل دشمن کی پہچان ہوگی اور یہ سوچ پروان چڑھے گی کہ ہمارے قتل اور بربادی کا ماسٹر مائنڈ کون ہے؟ پھر یہ کہ وہ جونکیں جو قوم کا خون چوس رہی ہیں، اُن کا سہولت کار بلکہ اصل سرپرست اور سفید سامراج کے ٹولے کا سرغنہ امریکہ ہے تو آج نہ سہی کل کلاں تو رد عمل سامنے آئے گا اور پاکستان کے عوام اپنی بغل میں بیٹھے ان سنپولیوں کا سر کچل سکیں گے یا کم از کم اُنہیں دبوچ کر غیر مؤثر کر سکیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے فوری بعد امریکہ نے پاکستان پر کڑی نگاہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی تین بڑی وجوہات تھیں: (1) ایک اسلامی نظریاتی ریاست وجود میں آئی اور برصغیر کا مسلمان اپنے مذہب کے حوالے سے بڑا جذباتی ہے۔ (2) یہ وہ قوم ہے جس نے اقلیت میں ہونے کے باوجود برصغیر میں اکثریت پر صدیوں حکومت کی ہے۔ یہ قوم عسکری ذہنیت رکھتی ہے۔ عسکریت اس کے خون میں رچی بسی ہے اور لڑنے مرنے پر تیار نظر آتی ہے۔ لہٰذا نوزائیدہ ریاست پاکستان کی بڑی مضبوط فوج ہوگی۔ (3) پاکستان کا جغرافیہ اس طرح کا ہے کہ علاقے میں ہی نہیں اسے عالمی سطح پر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا اور یہ بڑی اہمیت کا حامل ہوگا۔
پاکستان کا وجود میں آنا، امریکہ کا عالمی قوت بننا اور اسرائیل کا قیام، کیلنڈر میں زیادہ فاصلہ پر نہیں۔ تاریخ میں یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر امریکہ کے عالمی قوت بننے میں صہیونی قوت کا بڑا زبردست عمل دخل تھا۔ لہٰذا امریکی یہودیوں کے احسان مند بھی تھے۔ عیار یہودیوں نے لندن سے عالمی قوت کا مرکز واشنگٹن میں منتقل کرنے سے پہلے نیو یارک کو مرکز بنا کر امریکہ میں اپنے قدم بڑی مضبوطی سے جما لیے تھے اور ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ اُن کا یہ قبضہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ سرمایہ اور میڈیا یہ دو ہتھیار خوب ہوشیاری سے اور زور دار انداز میں استعمال ہوئے بات کو مختصر کرتے ہوئے یہ کہہ دینا کافی ہے کہ کوئی امریکی اُس وقت تک صدارتی امیدوار بھی نہیں بن سکتا، چاہے اُس کا تعلق ڈیموکریٹ سے ہو یا ری پبلیکن پارٹی سے ہو۔ (ظاہر ہے اصل مقابلہ ان دونوں جماعتوں کے اعلان کردہ امیدواران کے درمیان ہوتا ہے۔) جو بھی جیتے گا درحقیقت اسرائیل ہی جیتے گا۔ ان دونوں کا مقابلہ صہیونی لابی کی پہلی ترجیح حاصل کرنا ہوتی ہے۔ آغاز میں امریکہ اور اسرائیل نے چاہا کہ پاکستان اُن کی سرپرستی حاصل کرلے۔ لیکن قائداعظم کا مؤقف تھا کہ ــ"Israel is an illegitimate child of the West."
امریکہ اور اسرائیل نے قائد کے اس مؤقف کے باوجود پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو امریکہ کے دورہ کی دعوت دی۔ وہاں اسی نقطہ ٔ نظر سے اُن کا شاندار استقبال کیا گیا۔ پھر یہودیوں نے اُن کے اعزاز میں ایک زبردست عشایہ کا بندوبست کیا اور پاکستان کو کُھلی آفرز دی گئیں۔ جن کا مطلب یہ نکالا جا سکتا تھا کہ اگر پاکستان اسرائیل سے بھرپور تعاون کرے تو ہم پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے۔ ہر طرح کا لالچ دیا گیا لیکن قائد ملت لیاقت علی خان کا جواب تھا:" "Gentlemen! our souls are not for sale اس جواب کے بعد یہودی تو نا امید ہوگئے اور دوسری سٹریٹیجی اختیار کی گئی یعنی امریکہ دوست کا روپ دھارے گا اور پاکستان کے ہاتھ پاؤں باندھے گا۔ کیونکہ مذکورہ بالا صفات کے حامل ملک کو بے لگام نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔ پھر امریکہ جو دوستی کے نام پر ایک دھبہ ہے، نے پاکستان سے کیا کچھ نہیں کیا۔ اس پر بڑی آسانی سے ایک ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے جو ظاہر ہے یہاں مطلوب نہیں۔ البتہ بعض باتیں انتہائی مختصر انداز میں قارئین کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ امریکہ پاکستان سے دوستی کا بہروپ بھر کر کیا کرتا رہا ہے اور اُس کی نیت کی خرابی کس حد تک تھی۔ قدرت اللہ شہاب، شہاب نامہ میں اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ وہ ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر تھے۔ وہاں مشرقی یورپ کے ایک سفیر سے اُن کے دوستانہ تعلقات قائم ہوگئے۔ ایک دن باتوں باتوں میں اُس نے کہا کہ امریکہ اور سوویت یونین میں سرد جنگ جاری ہے اور وہ ایک دوسرے کے بدترین دشمن بن چکے ہیں۔ لیکن بعض معاملات میں وہ ایک دوسرے سے تعاون بھی کرتے ہیں مثلاً پاکستان۔ پھر اس نے بتایا کہ دونوں ممالک سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی فوج بہت مضبوط اور پروفیشنل ہے۔ دونوں اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان کی فوج کو کمزور کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک میں اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ فوج کو کمزور کرنے کے لیے پاکستان میں بار بار مارشل لاء لگوایا جائے۔ یاد رہے ابھی پاکستان میں صرف ایوب خان کا مارشل لاء ہی لگا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ ایوب خان کا برسر اقتدار آنا تو یقیناً غلط تھا لیکن اُس کے دور میں پاکستان میں صنعتی انقلاب آیا اور پاکستان کی معاشی حالت بہت بہتر ہوگئی۔ تب اچانک ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ایسی تخریبی کارروائیاں ہوئیں کہ ساری ترقی ملیامیٹ ہوگئی بعد میں یہ ثابت ہوگیا کہ اس عوامی تحریک کو امریکہ کی آشیرباد حاصل تھی۔ 1971ء کی جنگ میں جب پاکستان دولخت ہوا تب یہ تو واضح تھا کہ سوویت یونین اس حوالے سے بھارت کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ خبریں بھی آ رہی تھیں کہ امریکہ کا چھٹا بحری بیڑہ پاکستان کو تحفظ دینے آ رہا ہے۔ اُس بیڑہ نے نہ آنا تھا نہ آیا، خدا جانے راستے ہی میں کہیں غرق ہوگیا۔ اب خود ڈی کلاسیفائیڈامریکی کاغذات نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کو دو لخت کرنے میں امریکہ بھی بھارت کا بھر پور ساتھ دے رہا تھا۔
1962ء میں جب ہند چین چھڑپیں جاری تھیں۔ بھارت نے اپنی ساری فوجیں کشمیر سے نکال لیں۔ پاکستان کو چین کہتا رہا کہ آپ کے پاس موقع ہے کشمیر پر واک اوور مل جائے گا۔ لیکن امریکہ نے بھارت کے اشارے پر پاکستان کو یقین دلا دیا کہ ہند چین جنگ کے بعد وہ بھارت سے مذاکرات کے ذریعے کشمیر کا تصفیہ کروا دے گا۔ دراصل امریکہ اور بھارت دونوں پاکستان کو دھوکہ دے رہے تھے پاکستان سے یہ سنہری موقع چھن گیا ۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران امریکہ نے اعلان کر دیا کہ وہ دونوں ممالک کو اسلحہ نہیں دے گا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ بھارت تو امریکہ سے کم از کم اعلانیہ طور پر تو اسلحہ لیتا ہی نہیں تھا، اُس پر اس پابندی کا کیا اثر پڑنا تھا۔ یہ دراصل دورانِ جنگ پاکستان کو مفلوج کرنا مقصود تھا۔ کارگل کی جنگ میں پاکستان بھارت کو ناکوں چنے چبوانے کی پوزیشن میں آگیا تھا۔ لیکن پھر امریکہ نے سیٹلائیٹ کے ذریعے پاکستانی فوجیوں اور مجاہدوں کی اصل پوزیشننگ واضح کر دی، جس سے بھارت نے اپنی دور مار توپوں سے اُن چوکیوں کو اُڑا دیا۔ البتہ یہ ہمارے منصوبہ سازوں کی حماقت کی انتہا تھی کہ وہ امریکہ اور بھارت کے اصل تعلقات کو نہ سمجھ سکے اور نہ اُس کے مطابق اُنہوں نے منصوبہ بندی کی۔ لہٰذا ہمیں شکست ہوئی اور بہت سے لوگ شہید ہوگئے۔
یہی مار دھاڑ امریکہ پاکستان کی معاشی ترقی کے حوالے سے کرتا رہا۔ جب دیکھا کہ کوئی حکومت خاص طور پر سیاسی حکومت اپنے پاؤں مضبوط کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے تب ہی کسی نہ کسی طریقہ سے نیچے سے سیڑھی کھینچ لی۔ اگرچہ مومن تو ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔ ہم اللہ جانے مسلمان بھی ہیں یا نہیں کہ ہم بار بار ڈسے جانے کے بعد اور زیادہ اندھے پن سے اُسی سوراخ میں ہاتھ ڈال رہے ہیں۔ کاش! ہم یہ سمجھ سکیں کہ ایک ایٹمی مسلمان ریاست سے امریکہ کے مائی باپ اسرائیل کو خطرہ محسوس ہوتا ہے اور وہ یہ احتیاط بھی برتنا چاہتا ہے کہ ایسا نظریاتی بنیادوں پر قائم ایٹمی ملک مقروض و مفلوج ہی رہے یہی اسرائیل کے تحفظ کا بھی تقاضا ہے۔ امریکہ کی دشمنی کے حوالے سے یہ چند مثالیں مُشتے نمونہ از خروارے ہیں۔ بہرحال بات پھر وہیں آتی ہے کہ ہم اپنے دشمن خود ہیں اگر ہم اپنے دوست نہیں تو کوئی دوسرا ہمارا دوست کیوں ہو؟ ایک بار پھر کچھ نادان سیاست دان اقتدار کی ہوس میں امریکہ کے چرنوں میں سجدہ ریز ہوگئے۔ درحقیقت ہم نے اپنی ذات کو ملک و قوم پر مکمل ترجیح دی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افراد ترقی کر رہے ہیں اور قوم ڈوب رہی ہے بلکہ ڈوب چکی ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024