(زمانہ گواہ ہے) پاکستان کے مسائل کا حل: جمہوریت ، آمریت یا کچھ اور؟ - محمد رفیق چودھری

9 /

ایک ایساطرز حکومت جو پہلے ہی انسانی مسائل حل کرنے میں ناکام ہے

ہم نے اس کو بھی بگاڑ کر اپنے اوپر مسلط کر لیا ہے: ایوب بیگ مرزا

الیکشن کے ذریعے صرف چہرے بدلتے ہیں اس ملک کے حالات میں تبدیلی صرف

ایک مکمل اسلامی انقلاب سے ہی آسکتی ہے جس میں نظام بدل جائے : خورشید انجم

یورپ میں اس وقت جمہوریت کے باوجود بے روزگاری ، مہنگائی اور بے گھر ہونے

کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے : رضاء الحق

 

پاکستان کے مسائل کا حل: جمہوریت ، آمریت یا کچھ اور؟ کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :آصف حمید

سوال: پاکستان کی جمہوری حکومتیںابھی تک پاکستان کی صورت حال کو بہتر کیوں نہیں کرسکیں ؟
ایوب بیگ مرزا:سب سے پہلے یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ جمہوریت کوئی نظام نہیںہے، یہ سرمایہ دارانہ نظام کی چھتری کے نیچے ایک طرزحکومت ہے جبکہ اصل نظام سرمایہ دارانہ نظام ہے۔جہاں تک مغرب کا تعلق ہے تو اس کے کئی دانشور جمہوریت کے حوالے سے یہ دعویٰ کر چکے ہیں :"This is the end of history."یعنی اس کے بعداب کوئی بہتر طرزحکومت آناناممکن ہے ، اس طرزحکومت پرآکرتاریخ ختم ہوجاتی ہے ۔لیکن اب یورپ میں ہی اس پرسوالات کھڑے ہوگئے ہیں اور یہ باتیں سامنے آنا شروع ہو چکی ہیں کہ جمہوریت ایک ناکام طرز حکومت ہے ۔ پاکستان کامعاملہ یہ ہے کہ یہاں مغرب کی اس ناکام اور ادھوری جمہوریت کو بھی ٹھیک طرح سے اپنایا ہی نہیں گیا ۔ اگرچہ جمہوریت میں بہت ساری خرابیاں ہیں لیکن کچھ اچھائیاں بھی ہیں ۔ ہم نے چن چن کرجمہوریت کی ساری برائیاںاپنے طرزحکومت میں اکٹھی کرلیںاور اچھائیوں کو اس کے قریب نہیں آنے دیا ۔ کسی اچھائی نے در اندازی کرلی ہوتو وہ بات الگ ہے۔ لہٰذا ایک ایساطرز حکومت جس کے بارے میں پہلے ہی اختلاف ہے کہ وہ انسانی مسائل حل کر سکتا بھی ہے یانہیںاس کوبھی ہم نے بگاڑ کر اپنے اوپر مسلط کیا ہوا ہے ۔میں مثال پیش کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں جو جمہوری وزیر اعظم آئے ہیںان کا آپ رویہ چیک کر لیں۔ ان کے آمرانہ رویہ میں بادشاہی نظام والی خرابی بھی ہے ، موروثیت بھی ہے ۔اسی طرح یہاں پارلیمنٹ میں جب بل پیش ہوتاہے تو اراکین اسمبلی کو بھی پہلے سے پتا نہیں ہوتا، انہیں صرف اتنا بتایا جاتا ہے کہ آج ایک اہم اجلاس ہونا ہے ۔ جب اجلاس شروع ہوتاہے تو تب وہ بل اراکین اسمبلی کو تھما دیا جاتاہے اور اکثر پڑھے سمجھے بغیر محض پارٹی کی پالیسی کی بنیاد پر اس کے حق میں رائے دے دیتے ہیں ۔ حالانکہ انہیں پتا بھی نہیں ہوتا کہ اس کے اندر لکھا کیا ہے ۔
حالانکہ جمہوری طریقہ یہ ہے کہ بل پہلے اراکین میں تقسیم کیا جاتاہے ، اُنہیں اس کی تفصیل بتائی جاتی ہے ۔لیکن ہمارے ہاں جو انداز اختیار کیا جاتاہے یہ تو جمہوریت پر ایک طعن ہے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جہاںجمہوریت ہے وہاں بھی انسانی مسائل نہیں حل ہوسکے۔مثا ل کے طور امریکہ اور یورپ میں آج بھی عوام مظاہرے کر رہے ہیں۔ حالانکہ مغرب اور امریکہ کی جمہوریت ہمارے ہاں کی جمہوریت سے ہزار گنا بہتر ہے ۔ وہاں رفاعہ عامہ کے معاملات ،لوگوں کی ضروریات زندگی فراہم کرناحکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں صرف اور صرف ذاتی مفادات کے لیے سیاست ہوتی ہے ، چاہے ملک اور قوم کو کتنا ہی نقصان ہو ۔ بہرحال جمہوریت جو پہلے ہی انسانی مسائل حل کرنے میں ناکام ہے ہم نے اس کو بھی بگاڑ کر اپنے اوپر مسلط کر لیا ۔
سوال:جمہوریت کے مقابل کے طور پر کیا آپ سمجھتے ہیںکہ آمریت میں لوگوں کے مسائل کا حل ہے ؟
خورشید انجم:عرض یہ ہے کہ باطل کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی وہ حق کی ہی کچھ باتوںکو لے کر اس کے سہارے کھڑا ہوتا ہے ۔ جمہوریت کے اندر بھی انہوں نے اسلام کی بعض چیزوں کو لیا ہے جس کے سہارے وہ دنیا کو لبھاتے ہیں ۔ جب اُمت مسلمہ کے اندر شورائیت اور خلافت کا نظام تھا تو اس وقت یورپ بادشاہت ، پاپائیت ، جاگیرداری کے جبرو استبداد اور جہالت میں ڈوبا ہوا تھا ۔ اسلام سے ہی انہوں نے روشنی لی ۔ یہ انسانی حریت، اخوت ، مساوات یہ سب چیزیں حضور ﷺ کا عطا کردہ تحفہ ہیں ۔ یورپ کے لوگ قرطبہ ،غرناطہ اور بغداد کی یونیورسٹیوں سے پڑھ کر گئے تھے،پھر وہاں ایک انقلاب آیا ۔ اس کے نتیجہ میں وہاں بادشاہت ، پاپائیت ، جاگیرداری ختم ہوئی لیکن پھر خرابی یہ پیدا ہوئی کہ کچھ عرصہ بعد سرمایہ داروں کی حکومت آگئی ۔ یعنی وہی جبر واستبداد کا نظام اپنا بھیس بدل کر دوبارہ آگیا ۔ اسی کو اقبال نے یوں بیان کیا ہے ؎
دیو استبدادجمہوری قبا میںپائے کوبمغرب نے کچھ اچھی چیز یںبھی اختیار کی ہیںلیکن اصل میں وہی دیو استبداد ناچ رہا ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہاں کمیونزم آیا ۔ اگرکیپیٹلزم اتنا اچھا نظام ہوتا تو اس کے ردعمل میں کمیونزم کیوں آتا ؟ کمیونزم اسی لیے آیا کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں بدترین عدم مساوات پایا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض جمہوری ممالک بھی کمیونزم کی طرف آئے۔ جہاں تک آمریت کا معاملہ ہے ہمارے ہاں توہمیشہ ہی آمریت رہی ہے ۔چاہے وہ سول آمریت ہویا فوجی آمریت ہو۔خاکی گملے میں پودا لگایا جاتا ہے۔ہمارے ہاں پارلیمانی طرز حکومت میں جس طرح نوازنے کے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں وہ ہماری معاشی بدحالی کی اصل وجہ ہیں ۔ آپ کابینہ کا حجم دیکھ لیں، پارلیمانی سیکرٹریز دیکھ لیں۔ہمارے ہاںسیاست اس لیے کی جاتی ہے کہ کیسے راتوں رات امیر بنا جائے۔ جاگیردار اور سرمایہ داراپنے سرمائے اپنی جاگیروںکو محفوظ رکھنے کے لیے سیاست میں آتے ہیںاور اثر ورسوخ استعمال کرتے ہیں ۔ لیکن آمریت میں یہ خرابی ہوتی ہے کہ اس میں آمر اپنے آپ کو ہی عقل کل سمجھتا ہے ، شخصی آزادی کو دبایاجاتا ہے، پریس کو بھی دبایا جاتا ہے ، ایک یک رخا پن ہوتا ہے اور فرعونیت کا اظہار ہوتا ہے۔ جمہوریت میں عوام کے نمائندوں کو عوام میں بھی جانا ہوتاہے ، عوام سے ووٹ لینے ہوتے ہیں اس لیے وہ عوام کے کچھ کام کر بھی دیتے ہیں لیکن آمریت میں یہ لحاظ بھی نہیں رکھا جاتا۔ غلام اسحاق خان کا تعلق بنوں سے تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں نے کون سے ووٹ لینے ہیں کہ میں اپنے علاقے کے لوگوں کے کام کروں،میں تو اپنے زور بازو پر ترقی کرتا ہو ا یہاں پہنچا ہوں۔ان سب خرابیوں کی وجہ سے آمریت تو قطعاً حل نہیں ہے۔ پاپائیت اور آمریت سے نوع انسانی ایک چھلانگ لگا کر جمہوریت کی طرف آئی ہے ۔ جمہوریت میں بھی اس کو اپنے دکھوں اور غموں کا مداوا نہیں ملا۔پھر وہ کمیونزم کی طرف بھاگ گئی اور وہاں بھی اس کو مرحم نہ ملی۔ انسانیت اس وقت عدل کی تلاش میں ہے ۔پاکستان سب سے زیادہ اس تلا ش میں ہے ۔یہاںجتناعدم تواز ن ہے ، یہاںجتنی عدل کی ضرورت ہے شاید ہی کسی دوسرے ملک میںہو۔ہم سے جدا ہونے والا بنگلہ دیش کہاں پر پہنچ گیا۔انہو ں نے بنگلہ دیش بنا لیا ہم نے کنگلا دیش بنا دیا ۔
سوال:مغرب کے اندر جمہوریت کے ثمرات نظر آتے ہیں۔ مغرب نے جمہوریت کی کیا اچھائیاں لی ہیں اور ان کے اثرات کتنے دیر پا ثابت ہوں گے؟
رضاء الحق:مغرب کا معیار دہرا ہے ۔ وہ اپنے ہاں آمریت کو رد کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک اس میں کوئی اچھائی نہیں ہے ۔ جبکہ دوسرے ممالک میں جیسے ان کے مفادات ہوتے ہیں اسی طرح کا طرز حکومت لے کر آتے ہیں ۔ مثلاً انہوں نے دیکھا کہ پاکستان کی آمریت ہمارے لیے فائدہ مندہے تویہاں آمریت لائی گئی ۔ کیونکہ ان کو ایک ہی مقام سے اپنے کام کروانے کے لیے ایک ون ونڈ و پالیسی چاہیے ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کے مفادات ہیں تو مشرق وسطیٰ میں بادشاہتیں کھڑی کر دی ہیں جبکہ روس اور چین میں مغرب جمہوریت چاہتا ہے ۔ اس کے ردعمل میں چین اور روس نے نسبتاًآمرانہ مزاج کو اختیار کیا ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ مغرب جمہوریت کے ذریعے بھی دوسرے ممالک میں عدم استحکام کے کھیل کھیلتا ہے ، وہ میڈیا اور نصاب تعلیم کو بھی ٹول کے طور پر استعمال کرتاہے ، اسی طرح وہ این جی اوز کے ذریعے معاشرتی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے ۔ اسی طرح ڈالر بھی ان کا ایک بڑا ہتھیار ہے، انہوں نے طے کر دیا کہ ساری دنیا کی تجارت ڈالر میں ہوگی ۔ ڈالر ایک ایسی ہارڈ کرنسی بن گئی ہے جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی کرنسی نہیںکرسکتی۔یہ سب مغرب کے مختلف ہتھیار ہیں۔ انہوںنے سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت کے ذریعے لوگوں کو زندگی گزارنے ، جینے اور ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے ایک خاص حدتک فوائد بھی پہنچائے۔ اسی وجہ سے ہمارے لوگ بھی یورپ جاتے ہیں لیکن کسی بڑے مقصد کے لیے وہ عوام کو تیار نہیںکرتے۔برطانیہ میںپاکستانیوں کو جوتعلیم دی جاتی ہے اس میں پڑھایا جاتاہے کہ بہتر شہری کس طرح بننا ہے لیکن یہ ہرگز نہیں بتایا جاتاہے کہ ایک اچھا لیڈر کیسے بننا ہے۔ یعنی لیڈرشپ وہاں بھی ایک خاص طبقہ اشرافیہ کے قبضہ میں ہے ۔ مثال کے طور پر امریکہ میں 2020ء کے الیکشن میں دونوں طرف کے صدارتی اُمیدواروں نے الیکشن مہم پر 14سے 18بلین ڈالرز خرچ کیے ۔ یقینی طور پر امریکہ میں بھی ایک عام شہری صدارتی اُمیدوار نہیں بن سکتا ، وہاں بھی یہ حق صرف سرمایہ دارکے پاس ہی ہے ۔ یقیناً یہ برائی پوری دنیا میںاس وقت موجود ہے ۔چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد سودی معیشت پر کھڑی ہے اور اس میں بینکنگ کابہت اہم رول ہے اس لیے جب بھی مغرب میں مشکل معاشی حالات آتے ہیں تو سب سے زیادہ نقصان عوام کا ہی ہوتا ہے کیونکہ ان کو جتنے فوائد مل رہے ہوتے ہیں وہ آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس وقت ترقی یافتہ مغربی ممالک میںبے روزگاری اور انفیلیشن کی شرح سب سے زیادہ ہے ۔اس وقت وہاں بے گھر لوگوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔ یعنی یورپ میں بھی اب جمہوریت کے فوائد کم ہونا شروع ہو چکے ہیں ۔
خورشید انجم: مغرب میںاس وقت کچھ اچھائیاں اگر نظر آرہی ہیں تو وہ اسلام سے ہی حاصل کردہ ہیں۔ اسلام نے شورائیت کا تصور دیا وہاں سے ہی مغرب نے جمہورت کا بھی تصور لیا ۔ اسی طرح سوشل سکیورٹی کا سسٹم بھی مغرب نے اسلام سے لیا ہے ۔ حضرت عمرh کا مشہور قول ہے کہ دجلہ اورفرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک اور پیاس سے مرجائے تو قیامت کے دن عمرسے پوچھ ہو گی۔ سکینڈے نیوین ممالک میںآج بھی عمرلاء کے نام سے وہ قانون موجود ہے ۔
سوال:مغربی جمہوریت کی اچھی چیزیںجواصل میں ہماری تھیں یہاں کیسے آسکتی ہیں؟جن کی وجہ سے پاکستان کاپڑھالکھابندہ یہاںہی رہنا چاہے ۔
ایوب بیگ مرزا:اس وقت ہمارا حال عملی طورپر پدرم سلطان بود والا ہوگیاہے ۔اگرچہ اس سے انکار ہرگز نہیں کیاجاسکتا کہ جس طرح کانظام ہمیں عطا کیا گیا ہے اور جس طرح کا خلفائے راشدین کاطرزحکومت تھااس کی مثال بھی دنیا میں نہیں ملتی لیکن وہ حالات آج بھی اسی طرح آسکتے ہیں جس طرح اُس وقت آئے تھے ۔ آپ یہ توکہہ سکتے ہیںکہ آج وہ معیار قائم نہیں ہو سکتا لیکن بہتری اسی صورت میں آئے گی جس صورت میں اُس وقت وہاں آئی تھی۔اس کے لیے دونوں سطحوں پرکام کی ضرورت ہے ۔ یعنی فرد کی سطح پر بھی اصلاح کی جائے اور اجتماعی سطح پر بھی اصلاح کا بیڑااُٹھایا جائے ۔فرد بھی اپنی ذات میں ایک اچھا مسلمان بن جائے ،مومن بن جائے اورنظام بھی مومنانہ ہوجائے۔تب وہ صورت حال پید اہوسکتی ہے کہ ہم نظام کی برائیوں سے چھٹکارا پا سکتے ہیں ۔ اس کے بغیر کوئی بھی نظام لے کر آجائیں، چاہے امریکہ کے ہی نظام کو اٹھا کر یہاں لے آئیں لیکن اگر بندے دیانتدار نہیں ہیں تو برائیاں ختم نہیں ہوں گی ۔ یہ دیانتداری اُخروی جوابدہی کے احساس سے ہی آئے گی۔ ورنہ ہر صورت میں کہیں نہ کہیں ظلم اور استحصال ہو گا ۔ مثال کے طور پر امریکہ اور یورپ میں بظاہر کچھ بہتری ہے تو وہ اس اجتماعی سوچ کی وجہ سے ہے کہ ہماری قوم اور ملک کا فائدہ کس میں ہے ۔ لیکن اپنی قوم اور ملک کے فائدہ کے لیے وہ دوسرے ممالک کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں تو یہ ظلم و استحصال ہے ، اسی طرح ہمارے ہاں اجتماعی سوچ کی بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ یعنی یہ سوچا جاتا ہے کہ میرا فائدہ کس میں ہے ملک اور قوم کو چاہے کتنا ہی نقصان پہنچے لیکن میری ذات کو فائدہ پہنچ جائے ۔ یہ بھی ظلم و استحصال ہے ۔ ان دونوں صورتوںکی بجائے آخرت کے لیے کام کرنا آئیڈیل ہے ۔ ہمارا یقین ہے کہ آخرت کے لیے کام کرنے سے دنیوی معاملات خود بخود سنور جائیں گے ۔
سوال:اگر پاکستان میںایماندار آدمی وزیراعظم بن جائے توکیاوہ ملک کے حالات بہتر کرسکتا ہے ؟
خورشید انجم:یہ تومعجزہ ہی ہوگا۔ کیونکہ وزیراعظم کے عہدے تک ایمانداری کے ساتھ آنا ہی ممکن نہیں ہے۔ پھربھی اگر ایماندار وزیراعظم بن جاتاہے تووہ اکیلا مطلوبہ بہتری ہرگز نہیں لا سکتا ۔ اس کے ساتھ پوری کابینہ ہوگی ، اس کی پارٹی ہوگی ، پوری بیوروکریسی اپنی جگہ ہے جس نے عملی کام کرنا ہوتا ہے ۔ پھر ہماری کابینہ کا حجم ، ان کے پروٹوکول ، ان کی عیاشیاں ، یہ سب چیزیں اثر انداز ہوں گی ۔ لہٰذا ایک وزیراعظم ٹھیک ہونے سے یہ معاملہ حل نہیں ہوگا۔کیونکہ اوپر سے نیچے تک تمام شعبوں میں کینسر کی طرح بگاڑ پھیلا ہوا ہے ۔ تھانے، ہسپتال، کورٹ کچہری میں جائیں تووہاں رشوت کے بغیر کام ہی نہیں ہوتا۔
سوال: اگر وزیراعظم اور اس کی کابینہ اورپارٹی بھی ایماندار لوگوںپرمشتمل ہو پھر یہ معاملہ حل ہوسکتاہے؟
رضاء الحق:اصل میں ہمارے ہاں قومی مفاد کو اہمیت نہیں دی جاتی ۔ مصر میں جمہوریت کے ذریعے ہی جون 2012ء میں اخوان المسلمون کی حکومت آئی اورجون 2013ء میں اس کو ختم کروا دیاگیا۔حالانکہ صدر مرسی کے کردار اور خلوص پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا اور ان کی ٹیم میں بھی اکثریت اچھے لوگوں کی تھی لیکن عالمی طاقتوں کو مصر میں اچھے لوگوں کی حکمرانوں قابل قبول نہیں تھی۔امریکی سفیر این پیٹرسن جوپاکستان میں بھی رہی ہیں اُس وقت مصرمیں وہ آپریشن خود مانیٹر کر رہی تھی جب مصری فوج نے الاخوان المسلمون کا تختہ اُلٹ کر جنرل سی سی کوتخت پر بٹھایا۔ سی آئی اے اس پورے آپریشن میں ملوث تھی ۔ وہاں ایک جمہوری حکومت کو ہٹا کر ایک ڈکٹیٹر کو اس لیے لایا گیا تاکہ امریکہ ، اسرائیل اور دوسری عالمی طاقتیں مصر اور خطے میں اپنے مقاصد حاصل کر سکیں ۔ لیکن خود مصر کی اسٹیبلشمنٹ ، عدلیہ اور بیوروکریسی بھی بیرونی ایجنڈے کے ساتھ ہوگئی اور انہوں نے قومی مفاد کو ترجیح نہیں دی۔ یہاں تک کہ عوام کی خاموش اکثریت نے بھی الاخوان کی حکومت کا ساتھ نہ دیا۔ اگریہ سارے عوامل موجود ہوں اورلوگوں کی ایک خاموش اکثریت بھی آپ کے ساتھ نہ ہو، ساتھ اقتدار کی کھینچا تانی بھی چل رہی ہو تو آپ خود چاہے جتنے بھی اچھے ہوں اور جتنی اچھی ٹیم لے کر آجائیں آپ کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمد فرمایا کرتے تھے کہ اگر سینٹریفیوگل فورسز(تارپور بکھیرنے والی طاقتیں اور عوامل)زیادہ طاقتور ہوں تو آپ کوئی بھی نظام لے آئیں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
سوال:یہ بڑی مایوس کن بات ہے کہ اگر پارٹی اور اس کا سربراہ ، صدر سب اچھے لوگ آگئے پھر بھی کامیابی نہیں مل سکی توہم کہاں کھڑے ہوئے ہیں؟
ایوب بیگ مرزا: یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے مگر میں اس سے تھوڑا سا اختلاف کروں گا کہ کم ازکم ایماندار وزیراعظم ہوتو اس سے بہتری کے حوالے سے کم ازکم انیس بیس کا فرق تو ضرور پڑے گا ۔ اگرچہ بعد میں اس بہتری کو بھی نہیں رہنے دیا جائے گا یا توا س کو اسٹبلیشمنٹ ہٹا دے گی یا عدلیہ نااہل قرار دے دے گی یا قانون ساز اسمبلی اس کو سائیڈ پر لگا دے گی۔ ایسے آدمی کو بالکل چلنے نہیں دیا جاتا۔ پاکستان میں ایک اچھے عہدے پر ایک دیانتدار آدمی چلا جائے تو اس کی کرسی خطرے میںپڑ جاتی ہے ۔ آج سے دس پندرہ سال پہلے کا ایک واقعہ اس حوالے سے خبروں کی زینت بنا کہ پاکستان کے ایک دیانتدار آفیسر نے پاکستان کے لیے جرمنی سے چاول کے چھ پلانٹس خریدے ۔ جرمن آفیسرز نے اس خوشی میں اس کو کچھ دینا چاہا ۔ اُس آفیسر نے کہا کہ مجھے نہ دو بلکہ پاکستان کے پلانٹس میں ایک کا مزید اضافہ کردو ۔ اس دیانتداری کا یہ نتیجہ نکلا کہ آتے ہی اس آفیسر کو فارغ کر دیا گیا ۔ ایک دیانتدار آفیسر کا پاکستان میں جب یہ حال ہو گا تو وزیراعظم جیسے اعلیٰ عہدے پر بیٹھنے والے دیانتدار آدمی کا کیا انجام ہو گا ۔ اس کو تو چند ماہ بھی نہیں چلنے دیا جائے گا ۔ لہٰذا جب تک ایک خاص طبقہ میں نیکی ، خیر اور اچھائی کی صفات پیدا نہ ہو جائیں تب تک اس حوالے سے کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی ۔
سوال: ہمارے ہاں معاشرے میں کرپشن سرایت کر چکی ہے ۔آپ کیا سمجھتے ہیں کیسے اس ملک کے حالات ٹھیک کیے جاسکتے ہیں؟
خورشید انجم: کوئی دیانتدار اوپر بھی آجائے تو اس نے نظام تو یہی چلانا ہے ۔صرف چہرہ ہی بدلے گا لیکن نظام وہی رہے گا ۔ اس لحاظ سے اوورآل کوئی فرق نہیں پڑے گا۔جہاں تک حالات بدلنے کی بات ہے تو حضرت ابوبکرصدیقؓ کاقول ہے جسے امام مالکؒ نے بھی نقل کیاہے کہ اس اُمت کے آخری حصہ کی اصلاح نہیں ہوگی مگراس طریقے پرجس پرپہلے حصے کی ہوئی تھی ۔ یعنی منہج رسول ﷺ پر چل کر ہی بہتری اور تبدیلی آسکتی ہے۔ پہلے دعوت دی جائے گی۔ا س کے نتیجے میں کچھ لوگ ایسے آئیں گے جنہوں نے اپنی ذات اوراپنے دائرہ اختیار میں شریعت کو نافذ کیاہو۔ایسے لوگ اگر معاشرے سے اسلام کا مطالبے کریں گے تو لوگ اثر بھی لیں گے ورنہ بے عمل مسلمان اس طرح کے مطالبے میں خود مخلص نہیں ہوتا۔اس ملک کے حالات ایک انقلاب کے ذریعے ہی بدل سکتے ہیں جس سے مکمل تبدیلی آئے گی ۔ یہ تبدیلی الیکشن کے ذریعے سے نہیں آسکتی کیونکہ الیکشن کے ذریعے صرف چہرے تبدیل ہوں گے۔ اگرمعجزانہ طورپراچھے لوگ آبھی گئے تونظام تو وہی پرانا اور فرسودہ رہے گا اور ایسا نظام اچھے لوگوں کو قبول بھی نہیں کرے گا ۔ لہٰذا انقلاب ایک تحریک کے نتیجے میں ہی آسکتاہے جیسے ایران میں ہوا۔ مصر میں بھی یہی ہوا کہ تحریراسکوائر میں احتجاجی تحریک چلی تب جاکرحسنی مبارک فارغ ہوا۔ہمارے ملک میں بھی اس طرح کی تحریکیں چلی ہیں۔بہرحال ایک مطالباتی احتجاجی تحریک جوواقعتاً تحریک ہو،جس میں ایک معتدبہ تعداد موجود ہو،جس میں ایک خاموش اکثریت موجود ہو اس کے نتیجے میں یہاں انقلاب آئے گاورنہ چوہے بلی کاکھیل اسی طرح چلتا رہے گااورنتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔
سوال: عوام کوکیسے باور کرائیں کہ اس ملک کے حالات اسلام کے ذریعے ٹھیک ہوں گے ؟
ایوب بیگ مرزا:سوال یہ ہے کہ کیاآپ کوانسانی تاریخ میں کوئی ایسانظام نظرآتاہے جس نے انسانیت کو اتنی سہولتیں، فائدے اوراچھائیاں دی ہوںجتنی اسلام نے دی ہیں ۔ دنیا میں اس کی کہیں مثال ہی نہیں ملتی ۔ خلیفۂ وقت اپنے غلام سے پوچھے کہ جو کھانا تم مجھے دے رہے ہو وہ عوام کو بھی میسر ہے ؟ اگر میسر نہیں ہے تو پھر اس کو اُٹھا لو ، اوریہ جذبہ خوف خدا کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔اصل چیز ہی یہی ہے کہ جب تک خوف خدا پیدا نہیں ہوگا تب تک تبدیلی ممکن ہی نہیں ۔ دنیا کے کسی نظام میں یہ مثال نہیں ملتی کہ وقت کا حکمران ایک غلام کے ساتھ سفر میں جارہا ہو اور باری باری دونوں سواری کا بھی استعمال کرتے ہوں اور پھر پیدل بھی باری باری چلتے ہوں ۔ لہٰذانقشہ ہمارے سامنے ہے ۔ ہم اسی نقشے کے مطابق چلیں گے تو معیار تک پہنچیں گے اور کسی حد تک اپنے ہدف کو حاصل کر پائیں گے ۔ سرمایہ دارانہ نظام نے مغرب میں بہت ترقی کی لیکن آج وہاں کتنی سلیپنگ پلز استعمال ہونے لگی ہیں ، طلاقیں کتنی ہونے لگی ہیں ، لوگوں کے جھگڑے کتنے بڑھ گئے ہیں ، خاندان اور زندگی بے سکون کیوں ہیں ؟ جبکہ اسلامی نظام میں امن و سکون بھی تھا اور لوگوں کو دنیوی سہولتیں اور مراعات بھی حاصل تھیں ۔
رضاء الحق: دنیا کا دیگر ہر نظام صرف دنیا کے حصول کی دوڑ میں لگارہتا ہے، صرف اسلام ایک ایسا واحد دین ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ دنیا دارالعمل ہے جبکہ دارالجزاء کہیں اورہے ۔ جب دارالجزاء یعنی آخرت کو مدنظر رکھا جائے گا توانسانی زندگیوں ،معاشروں اور ممالک میں سدھار آئے گا۔ اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام ہی وہ بہتر نظام ہے۔
خورشید انجم:ہمارے ہاں اسلام کے حوالے سے بہت غلط فہمیاں بھی ہیں ۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتاہے کہ اسلامی نظام صرف شرعی سزاؤں کے نفاذ کا نام ہے ۔ یقیناً یہ سزائیں بھی ہیں لیکن یہ بعد میں ہیں ۔پہلے اسلام کی فلاحی ریاست ہے جس میں لوگوں کو بنیادی ضروریات (روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت) فراہم کی جاتی ہیں۔ پھردوسرے حقوق دیے جاتے ہیں۔ بنیادی طور پر اسلام ایک فلاحی ریاست کا تصور دیتاہے۔ اس کے بعد اگر کچھ ہوتاہے تو پھر سزائیں بھی ہیں ۔ ہم اسلام کاایک حصہ لے لیتے ہیں اور دوسرا حصہ چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ غلط تصور جب بعض لوگ پیش کرتے ہیں تو پھر اس کے نتائج منفی نکلتے ہیں ۔
ایوب بیگ مرزا: یورپ میں عورت کے حقوق اور آزادی کے نام پر عورت کو گھر سے نکال کر اشتہاری شے بنا دیا گیا ۔ اس کو برہنہ کرکے بے عزت کر دیا گیا جبکہ عورت کو اصل عزت ، توقیراور حیثیت اسلام نے دی ہے۔لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ عزت کس میں ہے ۔