فلسفیانہ تصورات کے حاملین کابھی تجزیہ اس کے سواکچھ نہیں ہے کہ ایک
بالاتر ہستی کاتصور اگر دل ودماغ میں نہ ہو توکبھی اصلاح ہو ہی نہیں سکتی ۔
ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر لیا تھا۔اس کی سالمیت،اس کا تحفظ،اس کی
ترقی اوراس کی بقاء اسلام کے ساتھ ہی منسلک ہے ۔
تمام مکاتب فکر کے 31علماء نے نفاذ اسلام کے لیے 22نکات پر متفقہ
لائحہ عمل پیش کر دیا تھا، اس کے بعد اگر آج تک حکمرانوں نے اسلام
کے نفاذ کی کوشش نہیں کی تو اس میں ان کی اپنی نیتوں کا معاملہ ہے ۔
امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات
میز بان :آصف حمید
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: ڈاکٹر اسرارا حمدصاحب کے مختلف بیانات کو انگلش میں subtitlesکے ساتھ کیوں نہیں ایڈٹ کیا جا رہا تاکہ غیرپاکستانی یاجن کو اردو نہیں آتی وہ بھی اس سے مستفید ہوسکیں ؟(علی خان )
امیر تنظیم اسلامی: سب سے پہلے میں ان بھائی کوappreciateکروں گاکہ انہوں نے اس طرف توجہ دلائی ہے ۔ مسلمانوں کی ایک تہائی آبادی جو اُردو بول اور سمجھ سکتی ہے وہ تو ڈاکٹراسراراحمدؒ کے خطبات سے استفادہ کر سکتی ہے لیکن دوتہائی آبادی جو اردو نہیں سمجھ سکتی ان کو ڈاکٹر صاحب سے استفادہ کی سہولت بہم پہنچانے کے لیے ان بھائی صاحب نے توجہ دلائی ہے ۔الحمد للہ ڈاکٹر صاحب کے تقریباً ایک درجن سے زیادہ کتابچے اردو سے انگلش میں ترجمہ ہوچکے ہیں اورمزید بھی کام جاری ہے۔ البتہ میڈیا کے مختلف فورمز پر یہ کام ابھی اتنا نہیں ہوا ۔ اگرچہ ماضی میںانگلش subtitlesکے ساتھ کلپس تیار ہوئے جن کو سوشل میڈیا پہ اپ لوڈ بھی کیاگیا۔ہم ایسے ساتھیوں کوویلکم کہیںگے جو اس بات کی دلچسپی رکھتے ہوں اور وہ اپنی سروسز دیناچاہیں۔
میزبان:بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرارا حمدؒ کاپہلا چینل جس کو یوٹیوب نے بند کیا اس میں انڈیا کے پروگرام ’’خطبات ہند‘‘ میں تمام خطبات میں subtitlesلگ چکے تھے۔ اس کا پیپرورک ہمارے پاس موجودہے۔ یقیناً اس حوالے سے ڈیمانڈ بھی بڑھ رہی ہے ۔ عرب ممالک کے نوجوان جودین کوسمجھناچاہتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے فہم قرآن سے وہ بھی استفادہ کرسکیں ۔ لہٰذا کسی دوسری زبان میں بھی اس کا ترجمہ ہو۔کم ازکم انگریزی کی حدتک ان کی بھی خواہش ہے کہ ہوجائے۔ الحمدللہ ! اس پرہماراکام جاری ہے اور جو لوگ اس معاملے میں کوئی expertise دینا چاہیں ہمارے دروازے اُن کے لیے کھلے ہیں اوروہ ہماری راہنمائی بھی کریں ۔
سوال: ڈاکٹر اسرارا حمدؒنے کہا تھاکہ ان کو کسی بزرگ نے یہ بات سمجھائی تھی کہ اسباب کے تحت کسی کوایک بار کوئی کام بولناجائز ہے ،دوسری مرتبہ یاددلانا کہ شاید بھول گئے ہوںتوبھی جائز ہے ،تیسری مرتبہ کہناشرک ہے ۔ اس کی حقیقت کیاہے ؟(محمدمزمل )
امیر تنظیم اسلامی: ڈاکٹر صاحب نے جو بات کی تھی وہ اس معنی میں ہے کہ ہمارایقین ہے کہ جوکچھ ہوتاہے اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہوتاہے البتہ معاملات زندگی میں اسباب کو استعمال کرناشریعت کے خلاف نہیں ہے۔ اسی طرح ظاہری اسباب کے اعتبار سے میں آپ سے کہتاہوں کہ فلاں کام میں مدد کردیجیے یامیرے فلاں معاملے میں مجھے ذراراہنمائی دے دیجیے تویہ بھی توحید کے تقاضوں کے منافی نہیں ہے ۔البتہ یہ یقین رکھنا چاہیے کہ جو بھی ہوگا اللہ کے اذن سے ہی ہوگا ۔ ڈاکٹر صاحب کہتے تھے کہ ایک مرتبہ تم نے کسی سے مدد مانگی ، دوسری اور پھر تیسری دفعہ مانگی ، پھر بھی اگر وہ مدد نہیں کر رہا پھر آپ کو یہ سمجھتے ہوئے کہ اللہ کا اذن نہیں پیچھے ہٹ جانا چاہیے ورنہ اگرتم مستقل اسی کی طرف توجہ کیے رکھوتوعین ممکن ہے کہ پھرتمہیں اللہ تعالیٰ سے ہونے کا یقین نہ رہے ۔ اس اعتبار سے انہوں نے احتیاط کا پہلو بیان فرمایا۔رسول اللہﷺ کسی کے گھرتشریف لے جاتے تو تین مرتبہ دستک دیتے ، اگر پھر بھی جواب نہ آتا تو آپﷺ واپس آجاتے۔ عین ممکن ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے سامنے یہ مثال بھی ہو۔ اس کا انطباق یہاں بھی کرلیجیے کہ ایک، دو، تین مرتبہ آپ نے کسی سے درخواست کرکے دیکھ لیا ،اب آپ یقین رکھیں کہ اس سبب کے تحت یہ کام ہونے والا نہیں ہے، آپ کوئی ذریعہ اختیار کریں جو جائز ہومگر وہاں بھی نتیجہ مسبب الاسباب پر چھوڑ دیں ۔ شرک سے بچنے کے لیے بندہ مومن میں حساسیت ہوتی ہے ۔ شرک ایک عقیدہ کا ہے اور ایک عملی اعتبار سے شرک ہوتا ہے ۔ اسی طرح ایک شرک اکبر ہے اور ایک شرک اصغر ہے۔ اگر مسبب الاسباب کو چھوڑ کر ہم صرف سبب پر یقین رکھیں گے تو یہ شرک ہوگا۔
سوال: ہماری نوجوان نسل کا آدھا حصہ مذہب کی طرف مائل ہے جو کہ خوش آئند بات ہے لیکن باقی آدھا حصہ الجھن میں ہے اور الحاد یا ایگناسٹزم کی طرف مائل ہے ۔ وہ منشیات اورغیرازدواجی تعلقات جیسی برائیوں میں ملوث ہے۔ میں ایک استانی کی حیثیت سے کیاکردار ادا کرسکتی ہوں؟ (منیزہ صاحبہ )
امیر تنظیم اسلامی:بہت اہم سوال ہے جس میں ایک بہت بڑے معاشرتی مسئلہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ پچاس فیصد سے زائد نوجوان اسلام کی طرف مائل ہیں ۔ تقریباً پانچ برس پہلے برٹش کونسل نے پاکستان کی یونیورسٹیزا ورکالجز میں سروے کیا کہ کیا پاکستان میں اسلامی نظام قائم ہونا چاہیے یا نہیں؟ تقریباً76 فیصد لوگوںنے ہاںمیں جواب دیا۔اب اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اتنے لوگ واقعی عملی مسلمان ہیں۔ عملی مسلمان ہوناایک شے ہے اوردین کے لیے جذبہ اورمحبت ہونادوسری شے ہے۔دوسری طرف طلبہ و طالبات کی نصف تعداد ایسی ہے جو رب کائنات کے بارے میں بھی شکوک و شبہات میں مبتلا ہورہی ہے ۔ اس کا نتیجہ مختلف معاشرتی برائیوں میں اضافے کی صورت میں نکل رہا ہے ۔ منشیات ، آئس کا نشہ وغیرہ جیسے مسائل ہمارے تعلیمی اداروں میں بڑھ رہے ہیں ۔ اسی طرح نکاح کے بندھن کے بغیرتعلقات بھی ایک سنگین مسئلہ ہے ۔ یہ حقیقی مسائل ہیں اور ان کو ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔ فلسفیانہ تصورات کے حاملین کابھی تجزیہ اس کے سواکچھ نہیں ہے کہ ایک بالاتر ہستی کاتصور اگر دل ودماغ میں نہ ہو توکبھی اصلاح ہو ہی نہیں سکتی ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایمان وہ دولت ہے جو انسان سے اچھے کام کرواتی ہے اور بُرائی سے روکتی ہے کیونکہ ایمان کی دولت جس کے پاس ہوگی اُسے آخرت کی جوابدہی کا احساس ہو گا ۔لہٰذا سب سے پہلانکتہ اللہ کی محبت اوراللہ کی خشیت کادلوں میں پیدا کرناہے لیکن چونکہ یہ کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات ہیں دینی مدارس کے طلبہ نہیں ہیں لہٰذا ان کی ذہنی سطح پر آکران سے کلام کیاجائے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((اُمِرْتُ اَنْ نُکَّلِّمَ النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ)) (دیلمی)’’مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم (انبیاء کرام علیہم السلام) لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بات کیا کریں۔‘‘
لوگوںسے ان کی ذہنی سطح کے مطابق کلام کیاجائے ۔ اگران کے دماغوںمیں غلط باتیں فیڈ کردی گئی ہیں جوکہ میڈیا کررہا ہے تواس کاجواب دیناپڑے گا۔نشے کا استعمال اورپھرنکاح کے بندھن کے بغیرعشق ومحبت کی داستانیں ،ان سے توجوانیاں لٹتی ہیں اور زندگیاںبرباد ہوتی ہیں ،گھرانے تباہ ہوتے ہیں۔ والدین خودکشیاں کرتے ہیں۔ یعنی خدا کاانکار کرنے والے بھی آج پریشان ہیں۔ بل کلنٹن،بش،اوبامہ کے بیانات موجود ہیں کہ خدا کے واسطے گھربچائو،شادیاںکرو اوراچھاماحول گھرمیں لائو۔ اوبامہ نے بحیثیت امریکی صدر امریکیوں سے اپیل کی تھی: ’’ایک بہترین گھرایک بہترین معاشرے کی ضرورت ہے اورایک بہترین معاشرہ ایک مضبوط امریکہ کی ضرورت ہے ۔‘‘ یعنی خدا کا انکار کرنے والوں کو بھی احساس ہو رہا ہے ۔ وہ سپیس وار کے لیے تیار بیٹھے ہیں لیکن زمین پرقدم نہیں جمے ہوئے ۔ ہم اپنے معاشرے کی بات کریں تو کم سے کم اللہ کو ماننے کا تصور تو ہے ۔ بہرحال ہمیں اپنی نسلوں کو کافر تہذیبوں کی تباہی سے آگاہ کرنے اور اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کی طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے ۔البتہ ان کی ذہنی سطح پرآکران کوسمجھانے کی ضرورت ہے۔رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک نوجوان آیا اور کہنے لگا :’’مجھے زنا کی اجازت دیں ۔ صحابہ کرامj کو اس پر بے حد غصہ آیا لیکن حضورﷺ نے انہیں روکتے ہوئے نوجوان کو سمجھایا کہ تم جس عورت سے زنا کرو گے وہ بھی کسی کی بہن ، بیٹی ، ماں ، خالہ وغیرہ ہوگی تو کیا تم اپنے ان رشتوں کے حق میں ایسا ہی پسند کروگے ؟ نوجوان نے کہاکہ اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے معاف کردیں۔ اس کے بعد حضورﷺ نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھا اور اس کے لیے ہدایت کی دعا فرمائی۔یعنی حضور ﷺ نے اس طرح بٹھاکربات کی اور کوئی فتویٰ نہیں دیا۔ ہمیں اس انداز سے نوجوانوں کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے ۔
سوال:کالجز اوریونیورسٹیز میں کوایجوکیشن سسٹم ہے اور ایک مخلوط ماحول ہے۔ ایسی صورت میںوالدین کیا کریں؟
امیر تنظیم اسلامی:اصولی بات یہ ہے کہ اگر ہم نوجوان نسل کو مخلوط ماحول فراہم کریں اوراس کے بعد ہم یہ توقع رکھیں کہ لڑکاشاہ ولی اللہ کاتقویٰ ا ورلڑکی رابعہ بصری کاتقویٰ لے کر بیٹھی رہے گی تو ایسا ممکن نہیں ۔ دین اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ نامحرم مرد اور عورت کا مخلوط ماحول میں ایک ساتھ رہنا جائز نہیں ہے ۔ اسلام میں مرد اور عورت کی الگ الگ ذمہ داریاں ہیں ۔ دین عورت کی تعلیم کی نفی نہیں کرتا لیکن اس کو اس نوعیت کی تعلیم دیں جواس کو اپنارول ادا کرنے کے لیے معاونت فراہم کرسکے۔ آج مجھے کوئی ڈپلومہ،ڈگری،ماسٹرز کاکورس ایسا بتا دیںجس میں عورت کویہ بتایاجاتا ہوکہ اس نے ماں کیسی بنناہے اوراس نے بیوی کیسی بنناہے ۔ ہم نپولین کوکوٹ کرتے رہتے ہیں کہ تم مجھے بہترین مائیں دومیں تمہیں بہترین قوم دینے کو تیار ہوں ۔یہاں ہمیں نپولین یاد نہیں آتا۔ مغرب پریشان ہے ۔ گورباچوف نے کہا تھاکہ جس عورت کوباہرلاکر شمع محفل بناکرچوراہے پرکھڑا کردیااس کووہاں سے اٹھاکراصل مقام گھرتک کیسے لایاجائے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب کی آیت33 میں اسی حوالے سے ہدایت جاری کی تھی :
{وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَـبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی} ’’اور تم اپنے گھروں میں قرار پکڑواور مت نکلو بن سنور کر پہلے دورِ جاہلیت کی طرح‘‘
آج عورت کوکیابنادیاگیاکہ گاڑی بیچی جارہی ہے توبونٹ پرعورت کوبٹھاکردکھایا جارہا ہے ،کسی نے بالکل درست کہاکہ آپ کیابیچ رہے ہوعورت یاکار؟عورت کی ہم نے یہ تذلیل کی ہے ۔ بہرحال حاصل کلام یہ ہے کہ ماں باپ کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ بیٹیوںکو کن اداروں میں بھیج رہے ہیں ، کس ماحول میں بھیج رہے ہیں اور آپ ان کو کیابنانا چاہتے ہیں اوران کی اصل ذمہ داری کیا ہے؟ امریکہ کے ایک تجزیہ نگار نے کہا کہ یورپ کو اس وقت 50فیصد مین پاور کی ضرورت ہے لیکن یورپ نے عورت کومارکیٹ میں لاکرصرف پانچ فیصد اکانومی میں increaseکیا لیکن دوسری طرف 50فیصد مین پاور سے یورپ محروم ہو گیا ۔ ظاہر عورت کو مارکیٹ میں لا یا جائے گا تو گھر اور بہترین نسل سے معاشرہ محروم ہو جائے گا۔ امریکہ میں بعض کمپنیز میں سفراور office environment کے لیے جوگائیڈلائنز جاری کی جاتی ہیں ان میں یہ باتیں سامنے آناشروع ہوگئی ہیں کہ keep a safe distance. یہاں تک کہ ایک گائیڈ لائن میں یہ بھی تھاکہ اگر آپ مرد ہیں اورجہاز میںسفر کررہے ہیں توکوشش کریں کہ کوئی خاتون آپ کے برابر میں نہ بیٹھے۔یہ ان معاشروں کی مثالیں ہیںجو تمام تجربات کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے۔ ہمارے ہاں ایسا تجربہ کیاجائے توبعض خواتین کوپرابلم ہوجاتی ہے کہ یہ مولوی صاحب کو کیاپریشانی ہے کہ دوسری سیٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔گویا ہم مغرب کے تجربات سے سیکھنا نہیں چاہتے بلکہ ان کی تباہی کی وجہ بننے والی چیزوں کی پیروی میں لگے ہوئے ہیں اورچاہتے ہیں کہ وہ سارے تجربات ہم بھی کرلیں اورپھر سو برس بعد ہم بھی اسی انجام سے دور چار ہو جائیں ۔ حالانکہ اللہ کی کتاب ہمیں ابھی سے خبردار کر رہی ہے ۔
سوال: ہم جانتے ہیں کہ تنظیم اسلامی پاکستان میں منظم احتجاج کوانقلاب کاراستہ بتاتی ہے مگرکیایہ طریقہ نبی پاکﷺ کاطریقہ ہے اوراگر نہیں ہے توپھرآپ کا طریقہ کار تو تبدیل ہوگیانا؟(ھنزلہ اقبال )
امیر تنظیم اسلامی: اچھا سوال ہے۔ اس حوالے سے بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی کتابیں ’’منہج انقلاب نبویﷺ‘‘ اور ’’رسول انقلابﷺ کاطریق انقلاب‘‘موجودہیں۔ ان کا مطالعہ مفید رہے گا۔ یاان کی ویڈیوز دیکھی جا سکتی ہیں ۔ جب ہم منہج انقلاب نبوی ﷺ کے چھ مراحل کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے کیا ہے ۔ آخری مرحلہ میں قتال ہے جس کا حکم اللہ نے دیا اور اگر کوئی شخص اس کا انکار کرے تو وہ مسلمان نہیں رہ سکتا ۔ اللہ کے رسولﷺ نے بھی قتال کیا، کوئی شخص اس کا انکار نہیں کر سکتا ۔ معاذ اللہ!سوال کیاجاتاہے کہ قتال فرض ہے توآپ لوگ قتال کیوں نہیں کرتے ؟اس کاجواب یہ ہے کہ نماز بھی فرض ہے، زکوٰۃ بھی فرض ہے اور حج بھی فرض مگر شرائط کے ساتھ ۔ بچہ بالغ ہو جائے تو اس پر نماز فرض ہے ، بندہ صاحب نصاب ہو گا تو اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی ، بندہ صاحب استطاعت ہوگا تو اس پر حج فرض ہوگا ۔ اسی طرح قتال بھی فرض ہے مگر شرائط کے ساتھ۔قتال کی شرائط پوری نہیںہوں گی توقتال فرض نہیںہوگا۔ رسول اللہﷺ نے جب اللہ کے حکم سے قتال کیا تو سامنے کفار اور مشرکین تھے لیکن ہمارے سامنے سب کلمہ گو مسلمان ہیں ۔ فقہاء نے اسے مسئلہ خروج قرار دیا جس کی کچھ شرائط ہیں ۔ مثلا ً آپ کے سامنے کفر بواحہ میں مبتلا لوگ ہوں ، دوسرا ہماری تیاری اتنی ہو کہ حکمرانوں کو اوور تھرو کردیں گے تب توبعض فقہاء گنجائش دیتے ہیں ورنہ وہ مسلم معاشرے میں خروج کی اجازت نہیں دیتے۔سمجھنے کی ضرورت ہے کہ رسول اللہﷺ نے قتال کیاوہاں شرائط پوری ہوئیں۔ہمارے سامنے شرائط پوری ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دیتیںتوہم قتال نہیں کریں گے۔اس کے متبادل ہم پُرامن ، منظم ، غیر مسلح تحریک کا انقلابی راستہ تجویز کرتے ہیں۔ آپ کسی منکرات کے خاتمے کا مطالبہ لے کر اٹھیں گے اور ایک تحریک برپا کریں گے ۔ اب منکرات کے خاتمے یعنی امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تقاضا تو قرآن میں ہے۔ حضورﷺ نے فرمایاکہ اگر بدی کو دیکھو تو ہاتھ سے بدل دو،نہیں توزبان سے یاپھردل میں برا جانو۔ زبان اور دل میں براجاننے کا معاملہ توموجود ہے البتہ ہاتھ سے بدل دینے کا اختیا رہمارے پاس نہیں۔ چنانچہ اختیار والوں سے منکرات کے خاتمے کا مطالبہ ہم کریں گے اور اس کے لیے تحریک کا راستہ اپنائیں گے۔ ٹکرائوادھر بھی ہوگا لیکن جومنظم جماعت کھڑی ہوگی اس کے رفقاء جان دینے کے لیے تیار ہوں گے جان لینے کی بات نہیں کریں گے ۔ فرق کیاہوگاکہ حضورﷺ کے سامنے کفار ومشرکین تھے توقتال ہوا،ہمارے سامنے مسلم معاشرے میں تصادم ہوگا ، جانیں دینی پڑیں گی لیکن ہم جان لینے کی بات نہیں کریں گے ۔حالات کے بدلنے سے شریعت کاحکم بھی بدلتاہے ۔ نامحرم کوچھونامنع ہے ۔حدیث میں آتاہے کہ کوئی تمہارے سرمیں کیل ٹھونک دے یہ گوارہ کرلینا،لیکن تم نامحرم کوچھوئو یاوہ تمہیں چھوئے اس کوگوارہ نہ کرنا۔ حکم یہ ہے لیکن اگر ایک عورت ڈوب رہی ہے ،اس وقت کوئی محرم موجود نہیں یااس کو تیرنا نہیں آتاتوکیا اس کو مرنے دیں گے ؟نہیں !بلکہ اب اس کو بچانے کے لیے کوشش کی جائے گی ۔ شریعت کااصول یہ بنتاہے کہ حالات کے بدلنے سے حکم میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ حضورﷺ کے سامنے کفار اور مشرکین تھے۔ ہمارے سامنے مسلمان ہیں توفرق واقع ہوا۔ اس لیے منہج کے اس مرحلے پر کوئی دوسری رائے ہمیں اختیا ر کرنا پڑے گی اوریہ دوسری رائے کااختیار کرنابھی سنت کی تعلیم کے ذیل میں ہے، اس کے خلاف نہیں ہے ۔
سوال: نظام خلافت میں خلیفہ کاانتخاب کیسے ہوگا؟آپ لوگ کہتے ہیں کہ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے اس کامطلب ہے کہ موجودہ نظام ختم ہوجائے گا۔ برائے کرم چاروں خلفائے راشدین کے طرزانتخاب کوسامنے رکھتے ہوئے یہ بتائیے کہ کیاخلیفہ کے انتخاب پر تمام فرقے متحد ہوجائیں گے ؟نیز یہ کہ کیاخلیفہ کے لیے کوئی وقت کاتعین بھی ہوناچاہیے ؟(آفتاب اعجاز)
امیر تنظیم اسلامی:ایک وقت میں انقلابی جدوجہد کے ذریعے چلتے ہوئے سڑے ہوئے بوسیدہ نظام کاخاتمہ ضروری ہے اور اب صالحین مکمل نیانظام قائم کرنے کی جدوجہد کریں گے ۔اس کے بعد جب آپ کے پاس اختیار آگیا تواب آپ نے خلیفہ کاانتخاب یا تقرر کرناہے ۔اس کے لیے قرآن حکیم نے ایک اصول ہمیں دیا ہے :
{وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ ص} (الشوریٰ:38) ’’اوران کا کام آپس میں مشورے سے ہوتا ہے۔‘‘
اب مشورہ آپ ایک ہزار لوگوں سے لے لیںیادس ہزار لوگوں سے لے لیںیااس سے زیادہ تعداد میں لے لیں تویہ سب مباحات کامعاملہ ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کی شان ہی الگ ہے ان پر تو وحی آرہی تھی ،لیکن وہ بھی مشورہ لیتے تھے ۔ کبھی آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جس معاملے پر سیدنا صدیق اکبراور سیدنا عمرفاروقi کی رائے ایک ہوجائے میں اس کے خلاف نہیں کرتا۔حضورﷺ نے اس مشاورت کے اصول کواختیار کیا۔ صدیق اکبرؓ کے بارے میں روایات میں آتاہے کہ آپ ؓ نے دورنبویؐ میں سترہ نمازوں کی امامت کی ،ان کو حضورﷺ نے امیرحج بنایا۔یہ حضور ﷺ نے اشارہ فرمایا تھاکہ آپ ؓ امت کوسنبھالیں گے۔ پھر حضورﷺ کے وصال کے بعد انہوںنے جوخطبہ دیااس نے ظاہر کردیا کہ یہ انہی کا مقام تھا۔اسی طرح حضرت عمر فاروق ؓ کامعاملہ مختلف ہوا۔ حضرت ابوبکرؓنے ان کو نامزد کر دیا اوران پر سب کا اتفاق بھی ہوگیا۔ حضرت عمرؓ پرقاتلانہ حملہ ہوا۔ جب وہ زخمی تھے توانہوںنے چھ افراد کی کمیٹی بنا دی اورکہاکہ تین دن کے اندرمشورے کے ساتھ خلیفہ کاانتخاب کرلینا۔ یہاں بھی مشورہ ہے لیکن چھ افراد کے درمیان ہے ۔چنانچہ اس مشاورت کے بعد حضرت عثمانؓ کا انتخاب عمل میں آیا۔ان تینوں خلفاء کے انتخاب کاطریقہ مختلف ہے لیکن اس میں کوئی شے شریعت کے خلاف نہیں ہے۔ یہ خلفاء راشدین کاتقرر بتارہاہے کہ ہم مختلف پیرایوں میں مشاورت کی رو سے خلیفہ کا انتخاب کر سکتے ہیں ۔ البتہ بالا تر مقصد کتاب وسنت کی بالادستی اوراللہ کی حاکمیت ہونی چاہیے ۔ اس دائرے کے اندر رہ کر آپ مشاورت کے ساتھ جو چاہیں طے کرلیں۔ جہاں تک فرقوں کے متحد ہونے کی بات ہے تومیں کہوں گاکہ فرقوں کی جگہ مکاتب فکرکالفظ استعمال کرنازیادہ مفید ہے ۔ جب پاکستان بناتو1949ء میں قرارداد مقاصد پاس ہوگئی جس میں طے ہوگیا کہ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہوگی ،کتاب وسنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیںہوگی۔چنانچہ 1951-52ء میں تمام مکاتب فکرکے31علماء کا نظام اسلام کے حوالے سے 22نکات پر اتفاق ہو گیا ۔ علماء نے کہا کہ اگر ان22نکات کے مطابق حکومت کوئی نظام لے کرآتی ہے توہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔حسن یہ ہوگا کہ لاء آف لینڈکتاب وسنت ہوجس میں تمام مکاتب فکر شامل ہوں گے ۔اگر ہم کتاب و سنت کو بالاتر رکھتے ہیں تو تمام فقہی آراء میں سے کچھ آراء کواختیارکرکے لاء آف لینڈ کو چلایاجاسکتاہے لیکن افراد کو انفرادی معاملات میں آزادی ہو گی کہ وہ اپنے مکتب فکر کے مطابق نماز، زکوٰۃ اور دیگرمعاملات پرعمل کرسکتے ہیں۔بہرحال اگر آج تک حکمرانوں نے دین کو نافذ نہیں کیا تو اس میں ان کی اپنی نیتوں کا معاملہ ہے ،تمام مکاتب فکرکے علماء نے اپنی طرف سے یہ فرض کفایہ ادا کردیاتھا۔جہاںتک خلیفہ کے وقت کے تعین کامعاملہ ہے تواس حوالے سے خلفائے راشدین کے دور کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد نئے خلیفہ کاتقرر ہوتا تھا ۔ اس سے تاحیات وقت کاتعین ہوتاہے ۔ البتہ علماء اورفقہاء کی آراء کے مطابق اگریہ مباحات کے دائرے میں ہواورحالات کا تقاضا کچھ اور ہوتواس کے محدود وقت کے بارے میں بھی سوچا جاسکتا ہے ۔البتہ میری طرف سے یہ کہناقبل ازوقت ہوگااوراس حوالے سے اسلاف کی آراء کوبھی مدنظر رکھنا بہتر ہوگا۔ واللہ اعلم!
سوال: آپ پاکستان کے موجودہ حالات کوکس نگاہ سے دیکھتے ہیں ؟کیاموجودہ صورت حال کے پیش نظر پاکستان کی سالمیت اوراستحکام اب بھی ممکن ہے ؟(سیدعمر بن ماجد)
امیر تنظیم اسلامی: یقیناً ہمارے حالات دگر گوں ہورہے ہیں۔ ایک طرف ہمارے بیرونی دشمنوں (اسرائیل، انڈیا اورامریکہ وغیرہ) کی سازشیں جاری ہیں، دوسری طرف داخلی طور پردیکھیں توہمارے سیاسی معاملات میں اخلاقی بگاڑ او ر زوال ہے اوراس میں سے بوآ رہی ہے ۔ معاشی حالات کو دیکھ لیں توہروقت ہمارے سروں پرڈیفالٹ کاہتھوڑا لٹکاہواہے جوکسی وقت بھی ہمارے اوپرپڑسکتاہے ۔عوام مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان کی وجہ سے خودکشیاں اور خود سوزیاں کر رہے ہیں ۔ ان حالات کواپنی نگاہوںسے جب ہم دیکھتے ہیں تو مایوسی ہوتی ہے لیکن مسلمان کے لیے مایوسی کفر ہے ۔ ارشادباری تعالیٰ ہے :
{اِنَّہٗ لاَ یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ (87)}(یوسف) ’’یقیناً اللہ کی رحمت سے مایوس تو بس کافر ہی ہوتے ہیں۔‘‘
{لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط} (الزمر:53) ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا‘ یقیناً اللہ سارے گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘
اللہ کی رحمت کی امید رکھنافرض ہے ۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہوناکفر ہے ۔ اللہ علی کل شی قدیرہے اوراس کے اختیار میں سب کچھ ہے ۔البتہ اس کی رحمت کا مستحق بننے کے لیے ہمیں گا،اپنی ذمہ داری کوادا کرناپڑے گا۔قرآن کریم ایک واحد قوم(یونس علیہ السلام کی قوم) کی مثال ہمارے سامنے رکھتاہے جس نے توبہ کی تو اللہ نے عذاب ٹال دیا ۔ اسی سے ایک سہار ا ملتاہے کہ ہم بھی اگر اجتماعی توبہ کی طرف آئیں تو اللہ تعالیٰ چاہے توآج بھی حالات کو بدل دے ۔ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کواس نکتہ سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہم نے کس لیے بنایاتھا۔ا گر توہم نے اسلام کے نام پر لیا تھا(جو کہ حقیقت ) توپھراس کی سالمیت،اس کا تحفظ،اس کی ترقی اوراس کی بقاء اسلام کے ساتھ ہی منسلک ہے ۔اسلام ہی نے ہم سب کوجوڑا ہواہے حالانکہ اس ملک کی زبانیں، ثقافتیں ، لہجے وغیرہ مختلف ہیں ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جس کلمہ کی بنیاد پرہم نے ملک لیااگر ہم اس کی طرف لوٹتے ہیں توہمیں یقین ہے کہ یہ ملک محفوظ بھی رہے گااور اللہ تعالیٰ اس مملکت خداداد سے بڑاکام بھی لے گا ۔ احادیث مبارکہ میں پوری زمین پراللہ کے دین کے غلبے کی پیشین گوئیاں موجود ہیں ۔ بعض احادیث مبارکہ سے جو اشارات ملتے ہیں ان کو سامنے رکھیں تواس خطے کارول ہمیں مستقبل میں نظر آتا ہے ۔ کیونکہ اس ملک کااسلام کے نام پروجودمیں آنا،رمضان کی 27ویں شب میں قیام،یہ ہمیں ایک الہامی سکیم محسوس ہوتی ہے۔لیکن جب تک ہم اپنے آپ کواللہ کی رحمت کا مستحق ثابت نہیں کریںگے، اس کی رحمت متوجہ نہیں ہوگی۔ اس کوثابت کرنے کے لیے اللہ کے دین کے ساتھ جو ہم نے بے وفائی کررکھی ہے اس سے ہمیں توبہ کرنی پڑے گی ۔ اپنی ذات پراللہ کے دین کا نفاذجہاں فوراًممکن ہے کرنا پڑے گا ۔ پھراپنے دائرہ اختیار میں اللہ کے دین کانفاذ جوفوراًممکن ہے کرنا پڑے گا۔ پھر ریاست کی سطح پردین کو غالب کرنے کی جدوجہد کرنا پڑے گی۔ہم نے 75سال میں بہت سے یو ٹرن لیے۔ اگر قوم یہ والایوٹرن لے لے کہ معصیت کوچھوڑ کر فرمانبرداری، غداری کو چھوڑ کروفاداری،سرکشی کوچھوڑ کر اطاعت گزاری کی روش پرآئے اور جس دین کے نام پر ملک لیا تھا اس کی طرف ہم پلٹ آئیں تواللہ علی کل شی قدیرہے ۔ آج بھی وہ ہمارے حالات کو سنوار دے گا۔ ان شاء اللہ
tanzeemdigitallibrary.com © 2024