دعوت و تحریک
عالم ِاسلام کے خلاف یہود و نصاریٰ کی سازشیں(2)ڈاکٹر اسرار احمد ؒ
(گزشتہ سے پیوستہ)
مغرب کا چار نکاتی ایجنڈا اور اس کا ہدف
مَیں نے آپ کو بتایا تھا کہ 1990ء کے بعد سے یورپ میں ایک چار نکاتی ایجنڈے پر مسلسل غور ہو رہا ہے۔ ان نکات کی حیثیت ایک رسّی کی مختلف لڑیوں (strands)کی ہے‘ جن کو سمجھنا ضروری ہے۔ وہ لڑیاں کون سی ہیں‘ یہ جان لیجیے:
1۔ امریکہ کے سارے تھنک ٹینکس‘ خواہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ہوں اور چاہے پینٹاگون کے‘ سب کے سب اس غور و فکر میں مصروف ہیں کہ امریکہ کو روئے ارضی کی عظیم ترین طاقت ہونے کی جو حیثیت حاصل ہو گئی ہے اس مقام کو کس طرح برقرار رکھاجائے۔
2۔ دجّالی تہذیب کے ایجنڈے کی تکمیل ۔ دجّالی تہذیب کے ایجنڈے کا ابھی نصف حصّہ پورا ہوا ہے اور نصف باقی ہے۔ چنانچہ عالم ِاسلام کی حد تک اس کی تکمیل ان کے پیشِ نظر ہے۔
3۔ صہیونیت(Zionism) کے پانچ نکاتی ایجنڈے کی تکمیل‘جو یہودی اور عیسائی دونوں قسم کے صہیونیوں کا متفق علیہ ایجنڈا ہے:
(i) آرمیگاڈان‘ یعنی بڑی عظیم جنگ جس میں بہت زیادہ خونریزی ہو گی۔
(ii) عظیم تر اسرائیل کا قیام جو صہیونیوں کا ہدف ہے۔
(iii) مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرۃ کو گرانا۔
(iv) تھرڈ ٹیمپل تعمیر کرنا۔اور
(v) وہاں حضرت دائود ؑ کا تخت لا کر رکھ دینا۔
یہاں تک دونوں متفق ہیں۔ اس کے بعد عیسائیوں کے نزدیک حضرت عیسیٰ d زمین پر نازل ہو کر اس تخت پر بیٹھ کر پوری دنیا پر حکومت کریں گے ‘جبکہ یہودیوں کا خیال ہے کہ ان کا میسایاح (Messiah)جس کے وہ ابھی تک منتظر ہیں‘ وہ آئے گا اور اس تخت پر بیٹھ کر حکومت کرے گا‘ جسے ہم کہتے ہیں کہ وہ دجّال ہو گا۔ عیسائی بھی اسے دجّال کہتے ہیں‘ جو اینٹی کرائسٹ ہو گا۔ وہ دعویٰ کرے گا کہ میں مسیح ہوں لیکن وہ مسیح نہیں ہو گا‘ اسے اصلی مسیح عیسیٰ ابن مریم e آ کر قتل کریںگے۔
4۔ امریکہ و یورپ کے چار نکاتی ایجنڈے کا چوتھا ہدف روئے ارضی کے تمام‘ قدرتی وسائل پر قبضہ کرنا ہے‘ جن میں تیل خاص طور پر اہمیت کا حامل ہے۔
یہ چار نکاتی ایجنڈا سارے تھنک ٹینکس کے غور و فکر اور سوچ بچار کا موضوع رہا ہے‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ نے ایک فیصلہ کیا کہ اب ہم یہ نہیں دیکھیں گے کہ کوئی ہم پر حملہ آور ہو تو ہم جواب دیں۔ ہمیں کسی کی طرف سے ذرا سا بھی اندیشہ ہوا تو ہم پہلے اس پر حملہ کر دیں گے۔ہمیں نہ تو عالمی رائے عامہ کی کوئی فکر ہے اور نہ ہی ہمیں اقوام متحدہ سے کوئی سروکار ہے۔ اب ہمیں اپنے اتحادیوں کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے‘ ہم خود اتنے طاقتور ہیں کہ ہم سارے معاملے خود طے کر سکتے ہیں۔ جنگجوئی کا یہ نقشہ بش ثانی کا تیار کردہ ہے‘ جو امریکہ کے صدور میں جنگجو صدر کی حیثیت سے تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ اس نے preemption کو باقاعدہ ایک اصول بنا کر بالکل اسی انداز میں جیسے دوسری جنگ عظیم کے دوران ’’پرل ہاربر‘‘ کے نتیجے کے طور پر امریکہ بپھرے ہوئے شیر کی مانند جاپان پر حملہ آور ہو گیا تھا‘ اپنے Twin Towersکو خود گرایا‘ تاکہ عوام میں غم و غصہ پیدا کیا جائے اور اپنی رائے عامہ ہموار کی جائے۔ انہوں نے اس کا الزام القاعدہ اور اسامہ بن لادن پر لگایا اور اس کے لیے اس قدر جوشِ انتقام پیدا کر دیا کہ پھر ان کو ایوانِ نمائندگان سے ہر طرح کے مالی اخراجات کی منظوری ملتی چلی گئی۔ یہ سارا معاملہ انہوں نے اس لیے کیا کہ اس ایجنڈے کوپورا کریں۔
ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اس سارے ایجنڈے کا اوّلین ہدف عالم ِاسلام ہے۔ اس لیے کہ
اوّلًا: یہ ’’نزلہ برعضو ضعیف‘‘ کا مصداق ہے۔بالفاظِ دیگر: ع ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!‘‘
ثانیاً:تیل کے عظیم ترین ذخائر اس کے قدموں تلے ہیں۔
ثالثاً:دجّالی تہذیب کے تیسرے پردے کے بتمام و کمال چھا جانے کے راستے میں رکاوٹ یہی علاقہ ہے۔یہاں پر اسلامی تہذیب کے آثار ابھی باقی ہیں ‘جس میں عورت کو عورت اور مرد کو مرد سمجھا جاتا ہے اور ان کے الگ الگ دائرئہ کار معیّن ہیں۔ عورت کے اپنے حقوق وفرائض ہیں اور مرد کے اپنے حقوق و فرائض ہیں۔ ازروئے الفاظِ قرآنی: {وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌط} (البقرۃ:228) ’’مردوں کو عورتوں کے اوپر ایک درجہ فوقیت کا حاصل ہے‘‘۔یہ قرآن کی تعلیم ہے‘ جبکہ دجّالی تہذیب میں مرد و عورت ہر اعتبار سے بالکل برابر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو دوٹوک انداز میں فرمایا ہے: {اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَائِ} (النساء:34)’’مرد عورتوں پر قوام ہیں‘‘۔ یہ سارا قرآن مجید کا فلسفہ ہے‘ جس سے مغرب خائف ہے۔
رابعاً:صیہونیت کا جو ایجنڈا ہے وہ تو مشرقِ وسطیٰ ہی سے متعلق ہے کہ مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرۃ کو مسمار کر کے تھرڈٹیمپل تعمیر کرنا اور گریٹر اسرائیل کا قیام۔میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ عراق‘ شام ‘اردن‘ لبنان وغیرہ ان کے نقشے میں شامل ہیں۔ مصر سے تو انہوںنے پورا جزیرہ نمائے سینا لینا ہے‘ جس میں کوہِ سینا ہے جہاں حضرت موسیٰؑ کو اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوا اور انہیں پتھر کی الواح پر لکھے ہوئے احکامِ عشرہ دیے گئے ۔ پھر یہ کہ حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں ان کے سارے کے سارے بھائی اپنے خاندانوں سمیت مصر آ گئے تھے۔ حضرت یعقوب ؑ بھی وہاں آ گئے تھے‘ جہاں بنی اسرائیل کئی سو برس تک رہے۔ یہ علاقہ بھی انہوں نے مصر سے واپس لینا ہے۔ مزید برآں عرب کے شمالی حصے پر بھی ان کا دعویٰ ہے جس میں مدینہ منورہ اور خیبر وغیرہ شامل ہیں۔مدینہ میں یہودیوں کے تین قبیلے آباد تھے جہاں سے ان کو نکالا گیا تھا۔ اسی طرح ترکی کا جنوبی حصّہ بھی گریٹر اسرائیل کے نقشے میں شامل ہے۔ اس سارے ایجنڈے کا تعلق مشرقِ وسطیٰ سے ہے اور ان کے پیشِ نظر مشرقِ وسطیٰ کا ایک نیا نقشہ بنانا ہے‘ جسے وہ شائع بھی کر رہے ہیں۔ تو درحقیقت یہ چار اسباب ہیں جن کی وجہ سے دجّالیت یا نیوورلڈ آرڈر کا اوّلین ہدف بھی عالم ِ اسلام ہے۔
اس سارے منصوبے کو بش اوّل نے ’’نیوورلڈ آرڈر‘‘ کا نام دیا تھا جو موجودہ بش کا باپ تھا۔ اس نے جیسے ہی عراق پر حملہ کر کے اس کو تہس نہس کیا اور اُس کی فوج کا بھرکس نکالا تو اس کے بعد اس نے کہا تھا اب ’’نیوورلڈ آرڈر‘‘ کا وقت آگیا ہے۔ یعنی اس ایجنڈے کے آخری حصے کی تکمیل کا وقت آ گیا ہے۔ اور یہ بش ثانی بھی اپنے باپ کی طرح کٹر عیسائی اورEvengelistہے۔ (جاری ہے)
tanzeemdigitallibrary.com © 2024