(منبرو محراب) معیشت کی تنگی کا اصل سبب - ابو ابراہیم

9 /

معیشت کی تنگی کا اصل سبب

 

(سورۃ طٰہٰ کی آیات124تا126کی روشنی میں )

 

مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے13جنوری 2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیا ت کے بعد!
آج مطالعۂ قرآن حکیم کے لیے سورۃ طٰہٰ کی تین آیات124تا126 کا انتخاب کیاگیاہے۔اس مقام پراللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے لیے دو سزاؤں کا اعلان کیا ہے جو اللہ کے ذکر(قرآن حکیم)سے منہ موڑ لیں ، اسے پس پشت ڈال دیں ،اسے سنجیدگی سے نہ لیں، اس کے لیے وقت نہ نکالیں ،اس کے تقاضوں پرعمل کی کوشش نہ کریں ۔ پہلی آیت میں فرمایا :
{وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا} (طٰہٰ:124)
’’اور جس نے میری یاد سے اعراض کیا تو یقینا اس کے لیے ہو گی (دنیا کی)زندگی بہت تنگی والی۔‘‘
دنیامیں ان کی معیشت تنگ ہوجائے گی ۔ دنیا کی زندگی اگرچہ عارضی ہے مگر اس کے حوالے سے یہ سزا بھی بہت سخت ہے ۔اس وقت جو مہنگائی کاطوفان ہے اس حوالے سے کوئی مرثیہ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ دن رات یہ مرثیے ہم سن رہے ہیں۔مگراس کے اصل سبب کی طرف توجہ کم ہے۔دیگر ہزاروں وجوہات گنوائی جاتی ہیں ۔ جیسا کہ کرپشن ہے ، حکمرانوں کی نااہلی ہے اور عوام بھی بے قصور ہرگز نہیں ، باہر والوں کا پریشر ہے ، اندرونی سطح پر غلط فیصلہ سازی ہے ، عدلیہ اورفوج نے اپناکردار ادا نہیں کیا،سیاستدانوں کے مسائل ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب ظاہرکے اسباب ہیں۔ لیکن اصل سبب کیاہے ؟ یہ جاننے کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے ۔ جبکہ اس امت کی رہنمائی کے لیے جو کتاب عطا کی گئی تھی اس میں اللہ فرما رہا ہے کہ تمہاری معاشی تنگی کا اصل سبب یہ ہے کہ تم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا۔ ہم قرآن کے ماننے والے ہیں ۔ اگر ہم اپنے معاملات قرآن کے ساتھ ٹھیک رکھیں گے تو ہمارے معاملات سدھریں گے کیونکہ ہم اللہ اور رسولﷺ کو ماننے والے ہیں۔لہٰذا ہمارے لیے اللہ کا قانون الگ ہے اسی لیے توحدیث سنائی گئی تھی کہ:
’’اللہ تعالیٰ اسی کتاب کے ذریعے سے کچھ قوموں کو بامِ عروج تک پہنچائے گا اور اسی کو ترک کر نے کے باعث کچھ کو ذلیل و خوار کر دے گا‘‘(صحیح مسلم)
اس سے مراد امریکہ یاکافر نہیں ہیںوہ تو قرآن کومانتے ہی نہیں ۔ پھرسوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کو دنیا میں سب کچھ کیوں مل رہا ہے ؟ جواب یہ ہے کہ اللہ نے تو فرعون کو بھی ملک اور بادشاہی عطا کی تھی ۔ اللہ کافروں کو دنیا میںدولت دے رہا ہے، خوب دے رہا ہے لیکن آخرت میں ان کے لیے کچھ نہیں ہے۔مگر امت مسلمہ کا معاملہ الگ ہے ۔ یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ماننے والے ہیں لہٰذا یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ ، اللہ کے دین کے ساتھ وفاداری نبھائیں گے تو تب ہی ان کے معاملات سدھریں گے ۔ اس نکتہ پرہماری عظیم اکثریت سوچنے کے لیے تیار نہیں ۔ہمارے سینکڑوں ٹی وی چینلز پر اینکر اور ماہرین بیٹھ کر دنیا جہاں کے تجزیے کرتے ہیں مگر یہ جوقرآن حکیم یاوحی کی آنکھ اللہ نے جوہمیں عطا فرمائی اس سے دیکھنے کے لیے ہماری عظیم اکثریت تیار نہیں۔
پھرپاکستان کامعاملہ باقی دنیا سے الگ ہے ۔ یہ ملک اللہ سے اس وعدے پر حاصل کیا گیا تھا کہ ہم یہاں اللہ کے دین کا نفاذ کریں گے ۔ اللہ نے یہ ملک ہمیں رمضان کی ستائیسویں رات کو عنایت فرما دیا ۔ قرآن کریم کو بھی اللہ تعالیٰ نے رمضان کی ستائیسویں شب کو نازل فرمایا تھا ۔ پھر باقی ممالک نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا صرف ہم نے کیا کہ اے اللہ !تیرے دین پرمملکت چاہیے جہاں قرآن وسنت کانظام آئے گا۔لیکن اس کے بعد ہم نے دین سے بے وفائی کی ، اللہ کی کتاب سے منہ موڑ لیا ۔ یہ ہے اصل سبب اس معاشی تنگی اور بحران کا جس میں آج ہمارا جینا مشکل ہو چکا ہے ۔ سٹریٹ کرائم بڑھ رہے ہیں ، چند سو یا ہزار کی خاطر لوگوں کی جانیں لی جارہی ہیں ، اب تو گھروں میں گھس کر ڈاکو لوٹ مار اور قتل و غارت گری کر رہے ہیں ۔سیلاب زدگان کو پوچھنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ یہ سب تنگی کامعاملہ ہے اور یہ سب کچھ اسی وجہ سے ہے کہ ہم نے قرآن کوفراموش کررکھاہے ۔ عملاًقرآن حکیم کے احکامات کانفاذ نہیںہے ۔ اس تجزیے کی طرف ہماری توجہ نہیں لیکن اللہ توجہ دلارہاہے ۔
یہ تو ہے دنیا میں ان لوگوں کے لیے سزا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو مانتے ہیں لیکن اللہ کی کتاب سے ہدایت نہیں لیتے ، اس کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ دنیا کی زندگی بھی حقیقت ہے مگر آخر ت کے مقابلے میں یہ ذرا بھی حیثیت نہیں رکھتی ۔ جبکہ آخرت کی زندگی دائمی ہے ، وہاں ہمیشہ ہمیش رہنا ہے ۔ لیکن جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ماننے کے باجود قرآن سے منہ موڑ ے رکھا ان کے لیے آخرت میں بھی اللہ کی طرف سے سخت سزا کا اعلان ہے ۔ فرمایا :
{وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰی(124)} ( طٰہٰ:124) ’’اورہم اٹھائیں گے اسے قیامت کے دن اندھا (کرکے)۔‘‘
یہ انفرادی طور پر ہر ایک مسلمان سے خطاب ہورہا ہے ۔ آخرت میں ہر ایک نے اپنا اپنا جواب خود دینا ہے ، چاہے وہ حکمران ہو یا عوام میں سے ہو ۔ کوئی کسی کو بچانے کے لیے وہاں پر نہیں آئے گا ۔یہ قرآن سب کے لیے ہدایت بنا کر اسی لیے بھیجا گیا ہے تاکہ ہم اس کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزاریں ۔ آج ہم دنیا جہاں کے ذرائع ابلاغ سرچ کرتے ہیں اور پڑھتے ہیں لیکن قرآن پڑھنے اور اس سے ہدایت حاصل کرنے کا ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا ۔مجھ سمیت ہر مسلمان کو فکر ہونی چاہیے کہ کہیں مجھے بھی اللہ ان لوگوں میں شامل نہ کردے جن کو روز قیامت اندھا کر کے اٹھایا جائے گا ۔ تب بندہ التجا کرے گا
{قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْٓ اَعْمٰی وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْرًا(125)}( طٰہٰ :125) ’’وہ کہے گا :اے میرے پروردگار! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا ہے‘ جبکہ میں (دنیا میں) تو بینائی والا تھا۔‘‘
آج ہم کیا کیا دیکھ رہے ہیں؟آج امت کی راتیںکہاں بسر ہورہی ہیں؟اوقات کہاںلگ رہے ہیں؟سب کو ہی معلوم ہے۔ لیکن جس ہدایت اور رہنمائی کو دیکھنا چاہیے اُس کو یکسر نظر انداز کیے ہوئے ہیں ۔ روزقیامت بندہ کہے گا یارب میں تو بینائی والا تھا ۔ رب کہے گا :
{قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتْکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَہَاج وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسٰی(126)}( طٰہٰ) ’’اللہ فرمائے گا کہ اسی طرح ہماری آیات تمہارے پاس آئیں تو تم نے انہیں نظر انداز کر دیا‘ اور اسی طرح آج تمہیں بھی نظرانداز کر دیا جائے گا۔‘‘
یعنی اینٹ کاجواب پتھر سے دیاجائے گا۔ تمہارے پاس اگر میرے کلام کے لیے وقت نہیں تھا تو آج جب تمہیں رحمت کی ضرورت ہے تومیری رحمت میں سے تمہارے لیے کچھ نہیں ہوگا۔یہ ہلادینے والامقام ہے۔ اسی طرح اللہ کے نبی ﷺجورحمت للعالمین ہیں، جو سورۃ التوبہ کی آیت 128کے مصداق انسانوں کی بھلائی کے بڑے خواہش مند ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌo} ’’تمہارے حق میں آپؐ(بھلائی کے) بہت حریص ہیں‘ اہل ایمان کے لیے شفیق بھی ہیں ‘ رحیم بھی۔‘‘
لیکن آپ ﷺ بھی قرآن کو فراموش کر دینے والوں کے خلاف روز محشر اللہ تعالیٰ سے شکایت کریں گے ۔ ایک حدیث میں ذکر ہے کہ خود قرآن حکیم ان لوگوں کے خلاف شکایت کرے گاجنہوں نے قرآن حکیم کو فراموش کردیا تھا۔اب اندازہ کیجئے کہ جس بندے کے خلاف قرآن گواہی دے ، صاحب قرآن ﷺ بھی گواہی دے اور خود اللہ تعالیٰ بھی اس کو دنیا اورآخرت میں سزا دینے کا اعلان کر دے تو اس سے بدنصیب بندہ کون ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بدنصیبی سے بچائے اور قرآن کے ساتھ جڑنے والا بنائے ۔
اب ہم اپنا جائزہ لے لیں،قرآن حکیم کے ساتھ ہمارا تعلق کیسا ہے؟معیشت کی تنگی اس قرآن کو فراموش کردینے کی وجہ سے ہے کیونکہ ہم اللہ کے احکام نافذ کرنے کے بارے میں فکر مند نہیں ہیں۔ہاںہم کرکٹ کے بارے میں فکر مند ہیں، ہم باہر سے ٹیموں کوبلائیںگے،پروٹوکول بھی دیں گے۔ ہم سینکڑوں اہلکاروںکو بھی لگا دیںگے۔آدھا شہر بند کر وا دیں گے۔ یہاں اس قوم کے بچے مرتے ہیںتو مرتے رہیں۔لوگ فاقوں سے خود کشیاں کرتے ہیں تو کرتے رہیں ۔ ڈاکے ڈلتے ہیں تو ڈلتے رہیں ، لوگوں کا سرعام قتل ہوتا ہے تو ہوتا رہے ۔ سیاستدانوں کی رسی کشی اقتدار کے لیے چل رہی ہے ، عوام مہنگائی کے بوجھ تلے پستی ہے تو پستی رہے ۔ مرنا تو بہرحال سب نے ہے ۔ ہر ایک نے جواب دینا ہے ۔ لہٰذا ہم میں سے ہر ایک اپنے حصے کا معاملہ دیکھے کہ ہم اللہ کے دین کے ساتھ اوراللہ کی کتاب کے ساتھ کتنے مخلص ہیں۔ یہ ساری مصیبتیں ہمارے ہاتھ کی کمائی ہیں ۔ اللہ کا قرآن کہتا ہے کہ جو مصائب بھی تم پر آتے ہیں وہ تمہارے ہی کرتوتوں کی وجہ سے ہیں ۔ آج دنیا میں یہ تنگدستی اور معاشی بحران اس قرآن کو چھوڑنے کی وجہ سے ہے ۔ لیکن یہ سزا یہیں ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ اللہ تعالیٰ نے اعلان فرما دیا کہ آخرت میں قرآن کو چھوڑنے والوں کو اندھا کر کے اُٹھایا جائے گا ۔ بحیثیت مسلمان ہمارا آخرت پر ایمان ہے۔
اس کومانے بغیرہم مسلمان نہیںہوسکتے لیکن آخرت کے حوالے سے ہمارا طرزعمل کیسا ہے ؟ اس عارضی دنیا کے لیے فکرمندی کتنی ہے اورآخرت کی اصل زندگی کے لیے کتنی فکرمندی ہے ؟ یہی سب سے بڑاموٹیویشنل فیکٹر ہے۔ اگر موت کا یقین ہے تو کیوں عدالت کا جج فیصلہ کسی اور جگہ سے آنے کا انتظار کرتا ہے؟کیوں اتنی کرپشن اور لوٹ مار ہے ؟ ذرا نیچے آجائیں تو عوام میں جو دھوکہ دہی اور لوٹ مار ہو رہی ہے ، مارکیٹ میںجو کچھ ہورہا ہوتا ہے اس پر غور کریں ۔۔دو نمبر ایک نمبر بتا کر بیچ رہے ہوتے ہیں، قسمیں کھاکر بیچ رہے ہوتے ہیں۔بعض دفعہ نمازباجماعت ادا کرنے کے بعد جا کر جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں۔اوپر سے نیچے تک کا سارا طرز عمل بتاتا ہے کہ ہمیں آخرت کی فکر نہیں ہے ۔ لیکن بہرحال جواب تو ہر ایک نے دینا ہے ۔ انفرادی سطح پر بھی جوابدہی ہوگی اور اُمتوں کی سطح پر بھی سوال ہوگا۔ جوآج اللہ کے چنے ہوئے بندے ہیں۔جن کو قرآن کہتا ہے :
{ہُوَ اجْتَبٰـٹکُمْ} (حج :78)’’اُس نے تمہیں چُن لیا ہے۔‘‘
پہلے سوالاکھ انبیاء ورسل علیہم السلام کو اللہ نے چنااور یہ محمد ﷺ کی امت کو اللہ نے چنااور اللہ قرآ ن حکیم میںکہتا ہے:
{فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ)(6)}(الاعراف)’’پس ہم لازماً پوچھ کر رہیں گے ان سے بھی جن کی طرف ہم نے رسولوں کو بھیجا اور لازماً پوچھ کر رہیں گے رسولوں سے بھی۔‘‘
جن کی طرف رسولوں کو بھیجا گیا اللہ ان کو بھی پوچھے گااور اللہ رسولوں سے بھی سوال کرے گا۔ یہ بات اللہ کے رسول ﷺکو رلاتی تھی۔اللہ کے رسولﷺنے سیدناعبداللہ بن مسعود ؓ سے فرمایا کہ قرآن سناؤ، فرمایا کہ اللہ کے رسولﷺ!آپ پر تو نازل ہوا۔ فرمایا نہیںآپ سناؤمجھے پسند آتا ہے۔عبداللہ بن مسعودh نے سر جھکا کر سورہ نساء کی تلاوت شروع کی۔جب اس مقام پر پہنچے جہاں فرمایا گیا کہ ہر اُمت میں سے گواہ کھڑا کریں گے (آیت:41) تو اس بات پر آپﷺ روئے ۔ فرمایا عبداللہ کافی ہے ۔ابن مسعود ؓ کہتے ہیں میں نے سر اٹھایا تو اللہ کے رسولﷺ زار و قطار رو رہے تھے اس بات پر کہ مجھے جواب دینا پڑے گا ۔ حالانکہ اللہ کے رسول ﷺ نے حق ادا کر دیا ، سب کچھ اُمت کو پہنچایا بھی گواہی بھی دی ۔ حجتہ الوداع کے موقع پر سوا لاکھ کے مجمع میں حضور ﷺ نے لوگوں سے فرمایا : اے لوگو ! کیا میں نے تم تک پیغام پہنچا دیا ؟سب نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! آپ نے حق نصیحت،حق وصیت کی امانت ادا فرمادی ۔پھر حضورﷺنے اپنے مبارک ہاتھ کی مبارک شہادت والی انگلی آسماں کی طرف بلند فرمائی اور فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہو کہ میں نے حق پہنچا دیا۔پھر لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا : تم میںسے جو یہاں موجود ہے وہ ان لوگوںتک دعوت پہنچائے جو یہاں موجود نہیں۔یہ بھاری ذمہ داری اس امت کے کندھوں پر ہے۔ اس کا جواب بھی اس اُمت کو دینا پڑے گا کہ تم نے یہ ذمہ داری ادا کی یا نہیں ۔
آج ہم ذرا سوچیں کہ بحیثیت اُمتی ہم یہ ذمہ داری ادا کر رہے ہیں ؟ آج اللہ کا دین اور اللہ کی کتاب ہماری ترجیحات میں شامل ہے ؟اللہ کی کتاب کے ساتھ ہم مخلص نہیں ہیں، اللہ کے دین اور شریعت کے ساتھ مخلص نہیںہیںتو نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
جب تک ہم شریعت اور اللہ کی کتاب کے ساتھ مخلص نہیں ہوںگے اور اللہ کے دین کے ساتھ مخلص نہیںہوںگے اس ملک کے حالات سدھرنے والے نہیںہیں۔اللہ ہمیںبھی ہدایت دے اللہ ہمارے حکمرانوںکو بھی ہدایت دے۔واقعتاًسچی پکی اور اصل توبہ اس قوم کی یہ ہے کہ اللہ کی کتاب کے ساتھ مخلص ہوکراللہ کے دین کو نافذکرنے کے لیے جدوجہد کریں تو اللہ کی رحمتیں آسمان سے بھی برسیں گی اور زمیںسے بھی برکتیں ہمیں ملیںگی۔اللہ کے رسول ﷺفرماتے ہیںکہ جب اللہ کے بندے اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میںجمع ہوںاوران کا مقصد قرآن کاپڑھناپڑھانا،سیکھنا سکھاناہو تواللہ چاربرکتیںعطا فرماتاہے :
1۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رحمت ان کوڈھانپ لیتی ہے ۔
2۔فرشتے ان کااحاطہ کرتے ہیں ،گواہ بنتے ہیں۔
3۔اللہ ان کوسکینت کی کیفیت عطا کرتاہے ۔
4۔اللہ ایسے بندوںکاذکراپنے مقرب فرشتوں کے سامنے فرماتاہے ۔
یہ قرآن کریم سیکھنے کی فضیلت ہے ۔ اسی طرح اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:جوقرآن کریم میںمشغول رہا۔ (تلاوت کررہاہے،کسی محفل میں سن رہاہے ،ترجمہ پڑھ رہاہے، اس میں غورو فکر کر رہا وغیرہ)اوردعا نہ کرسکا تواللہ ایسے بندے کو بغیرمانگے مانگنے والوں سے بڑھ کرعطا فرماتا ہے ۔یہ اللہ کی شان کریمی ہے اور وہ غیور ذات ہے۔ بندے اس کے کلام کے لیے وقت لگائیںتواللہ کو شرم آتی ہے کہ اللہ خالی ہاتھ لوٹادیں ۔پھرقرآن حکیم کی سورۃ یونس آیت58میں فرمایا:
{قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ}’’ (اے نبیﷺ!ان سے )کہہ دیجیے کہ یہ ( قرآن) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے (نازل ہوا) ہے‘‘
{فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط}’’تو چاہیے کہ لوگ اس پر خوشیاں منائیں!‘‘
{ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ (58)}’’ وہ کہیں بہتر ہے ان چیزوں سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘
قرآن کی تلاوت کرنے یااس کے سیکھنے کا موقع مل رہا ہے، سمجھنے کاموقع مل رہاہے ،عمل کاموقع مل رہاہے ،ہدایت مل رہی ہے ،سکون مل رہاہے تواس پرخوشیاںمنائیں ۔ اگر اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھناہے تواس قرآن کریم کی دولت کے ملنے پربندہ خوش نصیب سمجھے ۔ بہرحال یہ قرآن کریم کے پڑھنے ،پڑھانے اورسیکھنے اور سکھانے کے فضائل ہیں۔کچھ عرصہ قبل ہم نے سورۃ الرحمن کی پہلی چار آیات کی روشنی میں یہ جاناکہ اللہ نے مجھے اور آپ کو جو بہترین صلاحیتیں عطا فرمائیں ان کابہترین استعمال کیاہے ؟وہ ہے قرآن کوسیکھنے سکھانے میں ان صلاحیتیوں کولگانا۔ رسول اللہ ﷺکی وہ حدیث بھی ہم نے زیرمطالعہ لانے کی کوشش کی تھی :
((خَيرُكُم من تعلَّمَ القرآنَ وعلَّمَه))(صحیح بخاری) ’’تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور اسے سکھلائے۔‘‘
پھران احادیث کاذکر بھی باربار آتاہے کہ قرآن حکیم کے ایک حرف کی بھی تلاوت کی جائے تودس نیکیاں عطا ہوتی ہیں چاہے بندے کو ترجمہ یامفہوم سمجھ میں نہ بھی آئے۔ اتناپیارا کلام ہے ۔ البتہ قرآن صرف ثواب کی کتاب نہیں ہے ۔اس سے ہدایت بھی لینی ہے ،ہدایت کی طلب اور تڑپ کے ساتھ ساتھ سمجھنے کی کوشش بھی کرنی ہے ۔چنانچہ ایک حدیث میں ذکرآتاہے کہ جوقرآن کی ایک آیت کو سمجھے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایاکہ یہ اس کے لیے سورکعت نفل ادا کرنے سے زیادہ افضل ہے۔قرآن کو پڑھنے کے فضائل ہیں لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
((اِنَّ اللہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ))(صحیح مسلم)’’اللہ تعالیٰ اسی کتاب کے ذریعے سے کچھ قوموں کو بامِ عروج تک پہنچائے گا اور اسی کو ترک کر نے کے باعث کچھ کو ذلیل و خوار کر دے گا۔‘‘
اسی طرح یہاں سورۃ طٰہٰ کی آیت میںفرمایا:
{وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا}’’اور جس نے میری یاد سے اعراض کیا تو یقیناً اس کے لیے ہو گی (دنیا کی)زندگی بہت تنگی والی‘‘
یہ اللہ کاکلام ہے اور اللہ اپنے کلام کو فراموش کرنے والوں ، اسے نظر انداز کرنے والوں ، پس پشت ڈالنے والوں کے حوالے سے باقاعدہ سزا کا اعلان کر رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن پڑھنے ، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والا بنائے۔ آمین یا رب العالمین !