(اداریہ) اخلاقی انحطاط - ایوب بیگ مرزا

9 /

ایوب بیگ مرزا

اخلاقی انحطاط

اگرچہ ایک عام تصور کے مطابق دنیا میں پاکستان اور اسرائیل دونوں کو مذہبی نظریاتی ریاستیں سمجھا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں صرف پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے، اسرائیل تو حقیقت میں ایک نسلی ریاست ہے۔ جب کہ عملی طور پر پاکستان ایک ایسی سیکولر ریاست دکھائی دیتی ہے جسے رسمی طور پر اسلامی ٹچ دیا گیا ہے اور اسرائیل عملی طور پر ایک مذہبی ریاست کے طور پر فنکشنل ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا کہ تقسیم ہند کے وقت یہ بات بڑے زور دار انداز میں سامنے آئی تھی کہ پاکستان مکمل طور پر اسلامی ریاست ہوگی اور بھارت سیکولر ازم کا سمبل ہوگا۔ لیکن عجب بات یہ ہوئی کہ پاکستان عملاً سیکولر ازم کی راہ پر گامزن ہے اور بھارت آج ایک خالص ہندو مذہبی ریاست کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آج بھارت میں ہندوازم ایک ڈیپ سٹیٹ کی حیثیت رکھتا ہے تو اس میں رتی بھر مبالغہ نہیں ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف اس خطے میں بلکہ اس دنیا کے طول و عرض میں کہیں کوئی باقاعدہ حقیقی اسلامی ریاست دور دور تک نظر نہیں آتی۔ نہ اُس عرب میں جو اسلام کی جنم بھومی ہے اور نہ اُس ایران میں جہاں کے اسلامی انقلاب کا دنیا میں بڑا چرچا ہوا تھا۔ ہماری اوّلین فکر پاکستان کے حوالے سے ہونی چاہیے جو 1947ء میں اپنا مطلب لا الٰہ الا اللہ بتاتے ہوئے وجود میں آیا۔ 1949ء میں اسمبلی میں قراردادِ مقاصد کی منظوری سے پاکستان کی سمت قانونی طور پر متعین کر دی گئی۔ 1951ء میں تمام مسالک اور مکاتب فکر کے 31 علماء نے 22 نکات پر مشتمل ایک متفقہ دستاویز پر دستخط کرکے اُن حیلہ سازوں کو دندان شکن جواب دے دیا جو کہتے تھے کہ اتنے فرقے ہیں کس کا اسلام نافذ ہوگا۔ گویا اللہ اور رسولﷺ کے دیے ہوئے نظام کو پاکستان میں عملی شکل دینے کے لیے پیپر ورک مکمل ہوگیا تب ملکی اور بین الاقوامی تخریب کار حرکت میں آگئے۔ لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا اور انگریز کی تیار کردہ سول سروس اور ملٹری بیوروکریسی کو ملک غلام محمد اور سکندر مرزا کی صورت میں میدان میں اُتارا گیا۔ جنہوں نے جاگیردار سیاست دانوں کی مدد سے اسلام کی راہ پر گامزن اس گاڑی کا رخ سیکولر ازم کی طرف بڑی قوت سے موڑ دیا۔ بڑی بدقسمتی یہ ہوئی کہ پاکستان میں موجود اسلام کے نام لیواؤں نے اپنی تمام تر توجہ اپنے اپنے مسلک کی مساجد اور مدارس کی تعمیر و ترقی پر مرکوز کر دی اور اسلام کے حوالے سے وہ پیپر ورک جو بڑی محنت اور خلوص سے تیار کیا گیا تھا اُسے ایک نظام کی شکل دے کر عملاً نافذ کرنے کو اپنی ذمہ داری ہی نہ سمجھا بلکہ کچھ نے خود کو درس و تدریس تک محدود کر لیا اور کچھ نفاذِ اسلام کے لیے حصول اقتدار کو شرطِ اوّل قرار دے کر وقت کی حکومتوں کے سیاسی حریف بن کر میدان میں اتر گئے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اگر اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہدف ہے تو اول الذکر نے جُزوی کام پر توجہ دی اور آخر الذکر نے راستہ ہی غلط اختیار کر لیا۔ یقیناً حصول علم انتہائی قابلِ قدر ہے لیکن اگر باطل نظام غالب ہو اور یہ علم مجاہد بننے یا بنانے میں بُری طرح ناکام ہو تو پھر صرف فرقوں میں اضافہ ہوتا ہے اور اپنے مسلک کو اصل اسلام قرار دینے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ لہٰذا ساری ذہنی، فکری اور دوسری دستیاب صلاحیتیں اپنے مسلک کو برحق ثابت کرنے پر لگ جاتی ہیں۔
ہم اصولی اور تاریخی لحاظ سے یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں ماضی بہ حال ایسی غلطیوں کا ارتکاب کیے جا رہی ہیں جس سے نفاذِ اسلام کی منزل دور سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ یہ جماعتیں جب انتخابی میدان میں اُتریں تو اُنہوں نے سمجھا کہ جیسے اسلام کے نام پر پاکستان حاصل ہو گیا تھا۔ اسی طرح اب عوام کے سامنے اسلام کی محض قوالی کرکے پاکستان میں اقتدار بھی حاصل کیا جا سکتا ہے جو محض خوش فہمی تھی۔ اس لیے کہ اسلام کے نام پر ووٹ لینے کے لیے جس عوام نے ووٹ دینا تھا، اُسے اسلام کے حوالے سے ذہنی طور پر تیار ہی نہ کیا گیا۔ پھر یہ کہ اُس کے سامنے ایسا مثالی کردار ہی نہ پیش کیا گیا کہ لوگ دوسروں سے فرق محسوس کرتے بلکہ صرف کھوکھلے نعروں پر تکیہ کیا گیا۔ انتخابات میں جو طور طریقے دوسری قومی دھارے کی جماعت کے تھے وہی کچھ اسلامی سیاسی جماعتیں بھی کر رہی تھیں۔ نہ ایمان کی ایسی آبیاری کی گئی کہ لوگ دنیا پر آخرت کو ترجیح دیں پھر یہ کہ نہ اسلامی فلاحی ریاست کا ایسا نقشہ پیش کیا گیا کہ لوگ سمجھتے کہ اسلام صرف چور کے ہاتھ کاٹنے اور شرابی کو کوڑے مارنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ امیرو غریب کے درمیان عدل کا قائل ہے۔ یہ انسانی خدمت کا دین ہے۔ اسلام ظالم سے مظلوم کا حق واپس دلانے کا حکم دیتا ہے۔ اسلام آجر اور اجیر، مزدور اور سرمایہ دار، مرد اور عورت میں عادلانہ توازن پیدا کرتا ہے۔
اسلام میں حاکم حقیقتاً خادمِ عوام ہوتا ہے علیٰ ہذا القیاس پاکستان کی تاریخ کو کھنگالیں تو ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں کی ایسی تصویر ہرگز سامنے نہیں آتی کہ اُنہوں نے ہر قسم کے ذاتی اور سیاسی مفادات تج کرکے نہایت خلوص سے پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی حقیقی کوشش کی ہو۔ تحریک نظامِ مصطفےٰ ؐ کا انجام اُن کے سامنے تھا جس میں عوام نے اسلام کے نام پر جان و مال کی بے دریغ قربانی دی۔ لیکن مذہبی سیاسی جماعتوں نے سول آمریت کو ختم کرکے فوجی آمریت کو قبول کر لیا۔ تحریک کو بھلا دیا اور فوجی آمر کے وزیر بن بیٹھے۔
KPK میں ایم ایم اے کو اقتدار ملا تو اِن کے طرز حکومت میں اور دوسری غیر مذہبی جماعتوں کے رویے اور طور طریقے میں خاص فرق نہ تھا۔ صوبے میں اسلامائزیشن کو بھول گئے۔ آخری مہینوں میں جب اگلا الیکشن سرپر آیا تو حسبہ بل لے آئے جس کا سر پیر ہی نہ تھا اور عدالت نے اُسے ناقابل عمل قرار دے دیا۔ آئین میں سترہویں (17) ترمیم لانے کے وقت مشرف کی بالواسطہ مدد کی۔ تحفظ نسواں بل اسمبلی میں آیا تو اُس کی شدت سے مخالفت کرنے کی بجائے اسمبلی سے واک آؤٹ کر دیا۔ گویا حکمران کو یہ کہنے کا موقع خود فراہم کر دیا کہ یہ قانون جو بنا ہے یہ Consensus سے بنا ہے۔
28اپریل 2022ء کو وفاقی شرعی عدالت نے ربا کی حرمت کا فیصلہ دیا تو جس حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی اُس میں ملک کی ایک بڑی مذہبی سیاسی جماعت بھی شامل ہے۔ وہ جماعت اگر حکومت کو سپورٹ دینے سے انکار کر دے تو موجودہ حکومت چند گھنٹے نہیں نکال سکتی۔ حکومت سود کو جاری رکھنے کے لیے مختلف حربے اختیار کر رہی ہے اور ہماری یہ بڑی مذہبی سیاسی جماعت حکومت کا ستون بنی ہوئی ہے۔ کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ایک مذہبی سیاسی جماعت نے میڈیا کے ذریعے جو انتخابی مہم چلائی اس سے وہ دوسری جماعتوں سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئی گویا اسلامی سیاسی جماعتوں نے بہت سے ایسے کام کیے جس سے اُن کا اسلام پسند اور سیکولر جماعتوں سے فرق نظر نہیں آتا۔ سیکولر اور اسلام پسند جماعتوں سے مذہبی جماعتوں کا شکوہ بلکہ اُن پر الزام تھا کہ وہ جلسوں میں گانا بجانا کرتے ہیں، وہ سیاسی جلسوں میں گھٹیا اور فحش زبان استعمال کرتے ہیں۔ یقیناً وہ اس کے مرتکب ہو رہے ہیں اور مملکتِ خداداد پاکستان میں ایسی حرکات کی قطعی طور پر کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ خالصتاً مذہبی سیاسی جماعتیں اس معاملے میں بھی اُن پر سبقت لے جانا چاہتی ہیں۔
14 اگست کو حکومتی پارٹی نے ناچ گانے کی جو سرکاری محفل سجائی اُس کو مذہبی سیاسی جماعت کے وزراء نے پورے انہماک سے ملاحظہ کیا۔ اور جی ہاں جلسہ میں فحش گفتگو کرنے میں ایک مذہبی رہنما نے ’’ٹاپ‘‘ کیا اور ایسی زبان استعمال کی کہ اُس کو دہرایا بھی نہیں جا سکتا۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد اگر عوام سے مذہبی سیاسی جماعتیں یہ توقع رکھیں گی کہ کیونکہ ہمارے ساتھ اسلام کا لاحقہ یا سابقہ لگا ہوا ہے، لہٰذا عوام ہمیں ووٹ دے کر اقتدار پر فائز کر دیں تو یہ بڑی خوش فہمی ہے۔
مذہبی سیاسی جماعتوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ان اسلامی سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ اگر ہمیں انتخابات میں حصہ لینا ہے تو پھر وہ سب کچھ کرنا ہوگا جو مروجہ سیاسی نظام میں عام انتخابات میں ہوتا ہے، شاید وہ دھاندلی کی بھی وکالت کر رہے ہیں۔ گویا اسلامی جماعتوں نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنا نظریہ عملی طور پر ترک کر دیا۔ اصل ہدف پیٹھ پیچھے پھینک دیا گیا اور جسے ہدف حاصل کرنے کا ذریعہ قرار دیا تھا اُسے ہی اصلاً ہدف بنا لیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خسرالدنیا والا معاملہ تو صاف صاف نظر آرہا ہے کیونکہ انتخابات کے ذریعے کامیابی تو دور دور تک نظر نہیں آتی البتہ آخرت کے معاملے میں ہم واللہ اعلم کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان میں نفاذِ اسلام کے حوالے سے ہمیں صحیح راستہ اختیار کرکے خلوص سے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!