(الہدیٰ) قوم لوط کی بدکاری اور حضرت لوط ؑ کی دعا - ادارہ

9 /

الہدیٰ

قوم لوط کی بدکاری اور حضرت لوط ؑ کی دعا


آیت (166){وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ ط}’’اور تم چھوڑ دیتے ہو جن کو تمہارے لیے پیدا کیا ہے تمہارے رب نے تمہاری بیویوں میں سے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے تمہارے جوڑوں کے لیے عورتیں پیدا کی ہیں۔ انہیں چھوڑ کر تم اپنی شہوت کا تقاضا مَردوں سے پورا کرتے ہو۔
{بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ عٰدُوْنَ(166)}’’بلکہ تم تو حد سے بڑھنے والے لوگ ہو۔‘‘
آیت (167){قَالُوْا لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ یٰلُوْطُ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِیْنَ(167)} ’’انہوں نے کہا کہ اے لوط! اگر تم باز نہ آئے تو یہاں سے نکال باہر کیے جائو گے۔‘‘
اگر آپ اپنی اس وعظ و نصیحت سے اور ہم پر تنقید کرنے سے باز نہ آئے تو ہم آپ کو اپنی بستی سے نکال باہر کریں گے۔
آیت (168){قَالَ اِنِّیْ لِعَمَلِکُمْ مِّنَ الْقَالِیْنَ(168)} ’’اُس ؑ نے کہا کہ مَیں تو تمہارے ان طور طریقوں سے سخت بے زار ہوں۔‘‘
آیت (169){رَبِّ نَجِّنِیْ وَاَہْلِیْ مِمَّا یَعْمَلُوْنَ(169)}’’پروردگار! تُونجات دے مجھے اور میرے گھر والوں کو ان کے عمل سے۔‘‘
آیت (170){فَنَجَّیْنٰہُ وَاَہْلَہٗٓ اَجْمَعِیْنَ(170)}’’تو ہم نے نجات دی اُس ؑکو بھی اور اُس ؑکے سب گھر والوں کو بھی۔‘‘
آیت (171){اِلَّا عَجُوْزًا فِی الْغٰبِرِیْنَ(171)}’’سوائے ایک بڑھیا کے جو پیچھے رہنے والوں میں تھی۔‘‘
یعنی حضرت لوط ؑ کی بیوی جو آپؑ پر ایمان نہیں لائی تھی‘ پیچھے رہ جانے والوں میں شامل تھی۔

درس الحدیث

نفع و نقصان اللہ کے ہاتھ میں

عَنْ عُمَرَ ؓ اِنَّہٗ جَائَ اِلَی الْحَجْرِ الْاَسْوَدِ فَقَبَّلَہٗ فَقَالَ: (( اِنِّیْ اَعْلَمُ اَنَّکَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَحُ وَلَوْلَا اَنِّیْ رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ))(بخاری)
حضرت عمر ؓ (حرم میں جب) حجراسود تک آئے تو اسے بوسہ دیا اور فرمایا ’’میں جانتا ہوں کہ تُو ایک پتھر ہے تُو نہ تو کسی کا کچھ بگاڑ سکتا ہے اور نہ کسی کو نفع دے سکتا ہے اگر میں نبیﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔ ‘‘

تشریح:’’حجر اسود‘‘ بیت اللہ کے کونے میں ملتزم کے بائیں طرف ایک پتھر ہے طواف کا آغاز اس کے بوسہ دینے، اسے چھونے یا اس کی طرف اشارہ کرنے سے ہوتا ہے، بعض روایات میں حجر اسود کو اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ فرمایا گیا ہے۔ ہمارے آقا و محبوب سیدنا محمدﷺ نے بھی اسے بوسہ دیا۔ سیدنا عمر بن خطابh نے اسے بوسہ دینے کے بعد فرمایا میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نفع و ضرر تیرے ہاتھ میں نہیں ہے میں تجھے بوسہ نہ دیتا لیکن میرے آقاؐ نے تجھے بوسہ دیا تھا اس لیے میں تجھے بوسہ دیتا ہوں۔
خلیفۂ راشد کا یہ طرز عمل ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے کہ ہمیں صرف وہ کام کرنا چاہیے جو اللہ کے نبیﷺ کی سنت سے ثابت ہو۔


عَنْ مُعَاذِ بْنِ اَنَسٍ ؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ : (( مَنْ تَرَکَ اللِّبَاسَ تَوَاضُعًا لِلّٰہِ وَھُوَ یَقْدِرُ عَلَیْہِ دَعَاہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَلٰی رُؤُسِ الْخَلَائِقِ حَتّٰی یُخَیِّرَہُ مِنْ اَیِّ حُلَلِ الْاِیْمَانِ یَلْبَسُھَا))(رواہ الترمذی)
معاذ بن انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو بندہ بڑھیا لباس کی استطاعت کے باوجودازراہِ تواضع وانکساری اس کو استعمال نہ کرے (اور سادہ معمولی لباس ہی پہنے) تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن ساری مخلوقات کے سامنے بلا کر اختیار دے گا کہ وہ ایمان کے جوڑوں میں سے جو جوڑا بھی پسند کرے ، اس کو زیب تن کرے۔ ‘‘
تشریح : اچھا لباس میسر ہو تو پہننے کی ممانعت نہیں لیکن جو شخص تواضع اور انکساری کے جذبے کے تحت استطاعت کے باوجود معمولی لباس پہننے تاکہ دوسروں پر اس کی بڑائی نہ ظاہر ہو اور نہ کسی مفلس و نادار کا دل آزردہ ہو تو اُسے قیامت کے دن بہترین لباس سے نوازا جائے گا۔