(کارِ ترقیاتی) اب تمہاری باری ہے! - عامرہ احسان

14 /

اب تمہاری باری ہے!عامرہ احسان

 

ایک تہلکہ خیز دن وہ تھا جب گیارہ ستمبر 2001ء میں امریکا میں نہایت غیرمتوقع حملے نے دنیا بدل کر رکھ دی تھی۔ اگلے بیس سال ساری عسکری قوت افغانستان کو زیر کرنے اور ملّا کو اس کے کوہ ودمن سے نکال دینے کو جھونک دی گئی۔ 2021 ء بالآخر ساری ایٹمی طاقتوں کو نکال کر واپس اپنے اصل مقام پر لوٹ آیا۔ ابھی یہ زخم مندمل نہیں ہوا۔ دنیا آج بھی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ اس کی ساری تدبیریں الٹی پڑ چکیں، سارے گھمنڈ خاک میں مل چکے۔ افغانستان دوبارہ امارتِ اسلامیہ کی صورت لاالٰہ الااللہ والا جھنڈا سر بلند کیے، معیشت کی بحالی میں غیرمعمولی استقامت ومحنت سے ایستادہ ایک زندہ حقیقت ہے!
ادھر مغربی دنیا کی گود میں 1948ء سے بیٹھا اپنا انگوٹھا اور فلسطینیوں کا خون چوستا لاڈلا اسرائیل، جسے میلی آنکھ سے دیکھنا منع ہے، یکایک ایک طوفانی بلا میں گھر گیا۔ جتنے بھی طوفانی بگولے اٹھتے ہیں، ان کے نام امریکا، یورپ میں رکھے جاتے ہیں۔اسرائیل پر اچانک ٹوٹ پڑنے والی راکٹی یلغار کا نام حماس نے ’الاقصیٰ طوفان‘ رکھا۔ اسرائیل کی نہایت ہائی ٹیک مضبوط عسکری قوت، جس میں زمین، آسمان، سمندر چہار جانب کڑے پہرے کا بھاری بھرکم نظام ہے۔ حساس ترین آلات، ہمہ وقت چوکس نگرانی، لہریں گننے، تصاویر لینے کا ناقابلِ تسخیر انتظام ہے۔ چڑیا پر نہیں مار سکتی پوری دنیائے کفر کے اس لاڈلے پر! آئرن ڈوم کا دفاعی نظام ہرفضا ئی ہتھیار کو مار گرانے کا مضبوط جدید ترین تحفظ فراہم کرتا ہے۔
مگر ایک انہونی ہو گئی۔ 7اکتوبر کی علی الصبح یکایک اسرائیل کی زمین، آسمان، سمندر سبھی دشمنی پر اتر آئے۔ 5ہزار راکٹوں کی بوچھاڑ ہوئی (جو جدید اسلحہ ساز کارخانوں سے نہیں، فلسطینی گھروں میں بنے تھے!) پیرا گلائیڈرز، اسرائیلی فضاؤں پر اڑتے ابابیلی پرندے (ننھی رکشہ نما سواری کو پر لگے ہوئے!) اور موٹرسائیکلوں پر سوار بندوق بردار اسرائیل کو دم بخود کرنے آن اترے۔دو ہزار کی تعداد میں ہفتہ بھر کے مذہبی تہوار کی آخری چھٹی کے دن جابجا یہ بگولے آن اترے۔ جنوبی اسرائیل کی سمارٹ خاردار مضبوط باڑ توڑکر یلغار کردی۔ ایک جگہ 6موٹرسائیکل سوار جنگجو دھاتی دیوار میں سوراخ سے اندر جا گھسے۔ ایک موٹر بوٹ پر سوار مجاہد اسرائیلی فوجی اڈے کے ساتھ واقع قصبے پر چڑھ دوڑے۔ منہ اندھیرے پہلے 5 ہزار راکٹوں کی بوچھاڑ نے جنوبی اسرائیل سے تل ابیب تک (غزہ سے 70کلو میٹر ) دھماکوں سے انہیں ہلا مارا۔ آئرن ڈوم کی سٹی گم ہوگئی۔ وہ جو ناقابلِ تسخیر دفاع کی ضمانت جانا جاتا تھا! کیا ہوا؟ وہی سب کچھ جو 75 سالوں سے صرف فلسطینیوں کا مقدر تھا۔ پہلی مرتبہ مسلمانوں کے مسمار گھروں پر اپنی جنت بنانے والے آبادکاروں کے گھروں سے دھواں اٹھا، بڑی بلڈنگوں میں آگ بھڑکی۔ جنگ اسرائیل میں آ گھسی۔ ہزاروں گاڑیاں بھسم ہوئیں۔ سڑکوں پر یہودیوں کی لاشیں بکھریں۔ پہلی مرتبہ اسرائیل نے وہ مناظر دیکھے جو آئے دن فلسطینیوں نے بھگتے۔اب تک1200سے زیادہ ا سرائیلی ہلاک بشمول155 فوجی اور007 3زخمی ہیں۔
اسرائیل کا واویلا ہے کہ حماس نے 22 مقامات پر حملہ کیا۔ یو این میں اسرائیلی سفیر چلّا اٹھا: یہ ہمارا ’نائن الیون ہے!‘ حماس قاتل دہشت گرد ہے! (اور تمہاری خونیں 78سالہ دہشت گردی؟) بے تحاشا راکٹوں نے آئرن ڈوم کی کارکردگی وقتی طور پر معطل کردی! واحد کارفرما قوت ایسے ایمانی معرکوں میں (جس کی بنیاد حق وباطل ہو) وہی ہے جسے جھٹلاتے دنیائے کفر ہلکان بلکہ ہلاک ہوگئی! ’پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور تو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا۔ (اور مومنوں کے ہاتھ جو استعمال ہوئے) تو یہ اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی سے گزار دے، یقیناً اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔ یہ معاملہ تو تمہارے ساتھ ہے اور اللہ کافروں کی چالوں کو کمزور کرنے والا ہے۔ (ان کافروں سے کہہ دو) اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو لو فیصلہ تمہارے سامنے آ گیا۔ … تمہاری جمعیت خواہ کتنی ہی زیادہ ہو، تمہارے کچھ کام نہ آ سکے گی، اللہ مومنوں کے ساتھ ہے۔‘ (الانفال:19)
انہیں پریشانی ہے کہ آخر ایسا کیونکر ہوا کہ غزہ کے چپے چپے اورفرد فرد کو چھاننے، پھٹکنے والا اسرائیل اتنی بڑی بے خبری کا شکار ہوگیا؟ خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے۔ بلکہ ساری بجلیاں انہی پر جاگریں! خوفناک عبرت ناک مناظر ظہور پذیر ہوئے۔ ایک جگہ صحرا میں رات بھر ناچتے جشن مناتے3000مرد وزن عیش وطرب میں ڈوبے، تصور بھی نہ کرسکتے تھے کہ اڑتے رکشوں پر سوار مسلح سورما آسمانی بلا بن کر اچانک ٹوٹ پڑیں گے۔ گویا شیاطین پر بوچھاڑ کرنے والے شہابِ ثاقب ہوں۔ میوزک (مذہبی پارٹی تھی!) کی جگہ چیخیں، افراتفری میں فرار ہوتے (AP رپورٹ) 260 مارے گئے، کئی پکڑے گئے۔ حسنِ اتفاق یہ ہے کہ پیرا گلائیڈر کے پیراشوٹ کے رنگ کچھ قوسِ قزح کا تاثر لیے تھا، جو قہر بن کر ان پر ٹوٹ پڑے! (یہ رنگLGBTQ نے چوری کر رکھے ہیں۔) مذہبی تہوار کے نام پر مخلوط حیا باختہ رقص (یہودی ہیکلِ سلیمانی/ مذہبیت کی آڑ میں اقصیٰ پر آئے روز حملہ آور ہیں۔) پر غضب کے بگولے آن گرے۔ ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ۔ یاد رہے کہ یہ دم دباکر بھاگنے والے، فلسطینیوں کو دنیا بھر کے مہاجر کیمپوں میں دربدر کرنے والے قابض یہودی آبادکار ہیں۔
سرزمین کے اصل مکین، غزہ کی 25میل لمبی 10میل چوڑی پٹی پر 23لاکھ یوں محصور کر دیے گئے ہیں کہ وہ سمندر، اسرائیل اور (دشمنی پر کمربستہ) سیسی کے مصر کی بدترین قید میں ہیں۔ اب ان کی یہ غیرمعمولی یلغار ہوش گم کر دینے والی ہے۔ اسرائیل کے پشت پناہ بھی حیرت اور غم وغصے سے ہاتھ چبا رہے ہیں۔ فلسطینی شیر اسرائیلی فوجی گاڑیاں چلاکر غزہ لے آئے۔ ساتھ150-200 اسرائیلی بمع فوجی جن میں سینئر افسران بشمول میجر جنرل نمرود الونی پکڑے جوغزہ میں قید ہیں۔ (قیدی پکڑنے کا مقصد اپنے قیدیوں کو بدلے میں اسرائیلی جیلوں کی دہائیوں کی قید سے چھڑانے کے لیے بھی ہے۔ جہاں نہایت کم عمر بچے، خواتین بھی اسرائیلی فوجیوں کو پتھر مارنے کے جرم میں قید ہیں!) جواباً اسرائیل نے اندھا دھند بزدلانہ (بمقابلہ فلسطینی شیر جنگجوؤں کے) فضائی حملوں سے غزہ میں رہائشی آبادیوں پر بمباری کرکے 1055شہید اور5184 زخمی کردیے ہیں۔ یہ ان کے لیے کچھ نیا تو نہیں۔ اسرائیل نے 2008ء میں 23دن تک، 2012ء میں 8 دن، 2014ء میں 50دن، 2021ء میں 11دن تک ان پر یکطرفہ حملے کیے۔ غزہ پر مسلط جنگوں سے شہادتوں، معذوریوں، علاج سے محرومی، بے روزگاری، بنیادی سہولیات (بجلی، پانی، گیس) کی بدترین قلت جیسی بلائیں پھیلی ہیں۔ غربت 2022ء میں61.6فیصد پر جا پہنچی۔ مگر پھر بھی وہ دہشت گرد ہیں، دنیا کی مظلوم ترین آبادی! یہ جو کچھ اسرائیل پر برسا ہے، ’حق بحقداررسد‘ کے سوا کچھ نہیں۔
پچھلے تمام حملوں میں فلسطینی ہزاروں میں شہید ہوئے اور اسرائیلی ہلاکتوں کی تعداد 6،8یا ایک آدھ مرتبہ زیادہ ہوئی بھی تو پچاس کے لگ بھگ! حماس کمانڈر محمد ضیف نے حملے بارے بیان دیا: ہم نے یہ کہنے کا فیصلہ کرلیا ہے کہ بس بہت ہوچکی۔ آج ہم نے قبضہ ختم کروانے کو سب سے بڑی جنگ چھیڑی ہے۔ زمین پر نسلی منافرت پر مبنی آخری حکومت کو ختم کیا جانا ہے۔ یہ جواب ہے الاقصیٰ کی مسلسل بے حرمتی/ تقدس پامال کرنے کا۔ آبادکاروں کے فلسطین پر بڑھتے حملوں کا۔
دوسری جانب اہم عرب ممالک کی طرف سے اسرائیل سے تعلقات بحالی کو مسلم عوام میں غم وغصے کی نگاہ سے دیکھا جا رہا تھا۔ عوام کا موڈ فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل مخالف بڑے مظاہروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بحرین میں ’اسرائیل کے لیے موت‘ بینر تلے، کویت میں ’صہیونی اللہ کے دشمن‘ نعروں کے ساتھ، ترکی میں تکبیروں کی گونج، یمن، اردن، لبنان، غرض مشرق وسطیٰ کا موڈ سمجھنا مشکل نہیں۔ غازی حماد، حماس ترجمان نے واضح طور پر کہا کہ یہ آپریشن عرب ممالک کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ اسرائیل سے تعلقات منقطع کریں۔ یہ ایک دشمن مملکت ہے ہمیں اسے روکنا ہے۔
یاد رہے کہ ابھی تو سعودی اور اسرائیل مل مل کر کلمے والا سعودی جھنڈا، اور ستارۂ داؤد والا اسرائیلی جھنڈا شانہ بہ شانہ لہرا لہراکر (قدامت پسند یہودیوں کے ساتھ موسیقی پر) رقص کرتے وڈیو میں دیکھے گئے اور یہ بھاری سوال حماس نے کھڑا کردیا! سعودی عرب سیاحوں کے شوق میں اپنے دروازے یہودی سیاحوں کے لیے کھولنے کو تعلقات بحال کرنے چلا تھا کہ فلسطینی ایمانی سیاحت پر کمربستہ ہوگئے۔ (اسلام میں سیاحت جہاد فی سبیل اللہ ہے! انہی سیاحوں میں محمد بن قاسم، طارق بن زیاد جیسے، ابن بطوطہ کو پیچھے چھوڑ گئے!) ان تعلقات کی بحالی کا نشہ نیتن یاہو کو چڑھا ہوا تھا۔ اس نے کہا: ’ہم فلسطینیوں کو عرب ممالک سے تعلقات پر ویٹو کی اجازت نہیں دے سکتے!‘ فلسطینیوں نے بلااجازت ہی دھماکہ خیز ویٹو کیا۔ سر پر راکٹ اولوں کی بارش مانند آ پڑے تو بولا: ’ہم فلسطینیوں پر جہنم کے دروازے کھول دیں گے۔‘ تاریخی جواب بہ زبان حضرت عمر فاروقh موجود ہے۔ ’ہرگز نہیں! ہمارے مقتول جنت میں ہیں اور تمہارے مقتول جہنم میں!‘ سو تعلقات بحالی مہم کے بھی راکٹوں نے پرخچے اڑا دیے! اسرائیلی تذلیل کا بدترین دن 7 اکتوبر (امریکا کے لیے بھی المیہ)، دوہرا غم یہ کہ افغانستان پر امریکی گھمنڈی حملہ بھی 7 اکتوبر 2001ء کو ہوا۔ 1973ء کا اسرائیل پر اچانک مصر وشام کا حملہ 6اکتوبر کا تھا! تاریخ دہرائی جا رہی ہے!