(زمانہ گواہ ہے) اسرائیل فلسطین جنگ:وجوہات اور نتائج - محمد رفیق چودھری

14 /

جو لوگ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اُس سے تجارت کرنے کی بات

کرتے ہیں اُن کو سمجھ جانا چاہیے کہ اسرائیل کبھی بھی گریٹر اسرائیل

کے منصوبے پر سمجھوتا نہیں کرے گا : ایوب بیگ مرزا

مسجد اقصیٰ کا پیغام یہی ہے کہ اس کے تحفظ کی خاطر پوری دنیا

کے مسلمان ایک ہو جائیں :آصف حمید

حالات تیزی سے الملحمۃ الکبریٰ (آرمیگاڈان)کی طرف بڑھتے

ہوئے دکھائی دے رہے ہیں : رضاء الحق

اسرائیل فلسطین جنگ:وجوہات اور نتائج کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

سوال:حماس نے اسرائیل پر حملہ کر کے اسرائیل بلکہ پوری دنیا کو حیران وپریشان کر دیا۔ کیا حقیقت میں یہ اسرائیلی انٹیلی جنس کا blunder ہے یا پھر نائن الیون طرز کا ڈراما رچا کر عرب کے مسلمانوں کو کچلنا مقصود ہے؟
رضاء الحق: کچھ عرصہ سے لگ رہا تھا کہ امت مسلمہ، فلسطینی مسلمانوں اور اسلام کا دیرینہ مسئلہ ،مسئلہ فلسطین پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔ یہاں تک کہ چند ہفتے پہلے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے گریٹر اسرائیل کا نقشہ پیش کیا تو ساتھ سعودی ولی عہدبھی کھڑے تھے ۔ اُن کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں بھی سامنے آچکی تھیں ۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتاہے کہ فلسطینیوں کو مائنس کرکے مڈل ایسٹ کا ایک نیا نقشہ سامنے آرہا تھا ۔ ظاہر ہے جن کے ساتھ یہ ظلم ہو رہا ہے انہوں نے اس کا ردعمل دینا ہی تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیکنالوجی، نگرانی ، آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور فوجی طاقت کے لحاظ سے اسرائیل کا شمار دنیا کے طاقتور ترین ممالک میں ہوتاہے ۔ پھریہ کہ Five Eyesکے نام سے چند ممالکت کے انٹیلی جنس نیٹ ورک نے پہلے سے اشارہ دے دیا تھا۔ یہ وہی انٹیلی جنس ہے جس نے چند ہفتے قبل کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل میں انڈین ایجنسی را کے ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کیے تھے ۔ لہٰذا ایسے شواہد موجود ہیں جن کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بھی نائن الیون کے طرز کا false flag اٹیک ہو جس کا مقصد گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو آگے بڑھانا ہو۔عربوں کی زمینوں پر مزید قبضہ ہو ۔ گریٹر اسرائیل منصوبے کا پہلا قدم یہی ہے کہ فلسطینیوں کو وہاں سے نکال دیا جائے ۔ عرب حکمرانوں کا رجحان بھی اسرائیل کی طرف بڑھ رہا تھا ،ا س کے ساتھ ان کی انٹیلی جنس شیئرنگ بھی جاری تھی ، وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بھی کام کر رہے تھے ، تاریخ میں ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ فلسطین کاز کے لیے کام کرنے والے بعض لوگ بھی ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کرتے رہے ہیں ۔ ان ساری باتوں کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتاہے کہ یہ بھی نائن الیون طرز کا ڈراما تھا ۔ جبکہ دوسری طرف کے شواہد بھی موجود ہیں کہ اس حملہ میں اسرائیل کا جتنا جانی نقصان ہوا ہے 1948ء کے بعد سے اب تک نہیںہوا تھا ۔ اس حملے میں ایک رپورٹ کے مطابق 1500 اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں اور ہزاروں زخمی ہیں ،تقریباً 500 کے قریب عسکری تربیت یافتہ اسرائیلی گرفتار ہوئے ہیں جن میں اہم فوجی عہدیدار بھی شامل ہیں۔ اسرائیل کوبڑا ہی Secureملک گردانہ جاتا تھا مگر اس حملے کی وجہ سے اس کی سکیورٹی کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے ۔ اس بنیاد پر بعض حلقوں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ اسرائیل اتنا بڑا رسک ایک false flag حملے کے لیے نہیں لے سکتا۔ اب اس کے جوا ب میں اگر اسرائیل سخت ایکشن لیتا ہے تو تب بھی اس کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے آئے گا ۔ دونوں صورتوں میںاس کا امیج خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ مڈل ایسٹ پیس پلان جو چل رہا تھا ، خاص طور پر سعودی عرب کے ساتھ اس کے معاملات اب فوری طور پر ہوتے دکھائی نہیں دیتے ۔ پھر یہ کہ بعض رپورٹس کے مطابق اس حملے کی پلاننگ حماس نے دوسال میں کی ہے جس میں زمین ، فضا اور سمندر سے بیک وقت حملہ شامل تھا اور اس کے لیے ڈرونز ، پیراگلائیڈز اور سائبر سکیورٹی کو بھی استعمال کیا گیا ۔ اس حملے کی حقیقت سے تو تاریخ ہی پردہ اُٹھائے گی ۔
سوال: حماس نے جب اسرائیل پہ حملہ کیاہے توپورا عالم کفر اسرائیل کی حمایت میںکھڑا ہوگیا ۔ امریکی صدر نے کہا کہ ہم یہودی ریاست کا ہر حد تک ساتھ دیں گے ، امریکہ نے اپنا بحری بیڑا بھی روانہ کر دیا ہے ۔ دوسری طرف عالم اسلام صرف مذمت کی حد تک محدود ہے ۔ کیا صرف مذمت کرنے سے دنیا میں کہیں ظلم رکا ہے؟
ایوب بیگ مرزا: میری اطلاع کے مطابق یہ مذمت بھی اتنی کھل کرنہیں ہو رہی ۔ صرف دو ممالک کی طرف سے کھل کر بیان دیا گیا ہے۔ ان میں ایک افغانستان اور دوسرا ایران ہے ۔ باقی مسلم ممالک نے جو مذمت بھی کی ہے وہ بڑی ہومیوپیتھک قسم کی مذمت ہے۔یعنی وہ صحیح طرح کی مذمت بھی نہیں ہے ۔ اصل میں جب دنیا پرستی چھا جاتی ہے اور صرف اپنی کرسی ، اقتدار اور دولت تک سوچ محدود ہو جاتی ہے تو پھر حق اور باطل کی تمیز بھی مشکل ہو جاتی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہودی اللہ کے باغی ہیں ان کی پوری تاریخ سرکشیوں سے بھری پڑی ہے مگر دوسری طرف ہم اپنا جائزہ لیں کہ آج مسلمانوں کا قرآن پر کتنا عمل ہے تو یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ آج مسلمان بھی بغاوت میں یہودیوں سے کم نہیں ہیں ۔اگر ہم نے اللہ کا دامن تھاما ہوتا تو پھر بات اور تھی ۔1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے اپنے پائلٹ بھیجے تھے اور انہوں نے سو فیصد رزلٹ دیا تھا ۔ آج پاکستان کے پاس میزائل ٹیکنالوجی ہے مگر نتیجہ صفر ہے ۔ جہاں تک دیگر مسلم ممالک کا تعلق ہے تو ان میں سے کسی کے پاس تیل کی دولت ہے ، کسی پاس گیس ہے ، کسی کے پاس تجارت ہے ، اگر یہ سب مل کر یورپ کو ایک جھٹکا دیں تو وہ ان کے قدموں میں آگرے گا لیکن یہ ہمت کرے کون ؟ سب کو اپنا اقتدار پیارا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت تمام مسلم حکمران پنجہ ٔیہود میں ہیں ۔ حماس اور اسرائیل میں طاقت کا کوئی موازنہ ہی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود حماس نے بہادری دکھائی ہے ۔ اس کے جوا ب میں اللہ نہ کرے جیسا کہ بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل خدانخواستہ غزہ کو ملیامیٹ کر دے گا ۔ اگرچہ اللہ بچانے والا ہے اور کوئی نہ کوئی راستہ نکال دے گا لیکن اصل بات یہ ہے کہ اگر یورپ اور امریکہ اسرائیل کی کھل کر مدد کر رہے ہیں اور دوسری طرف مسلم حکمران ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہے تو خدشہ ہے کہ غزہ پر اسرائیل کا قبضہ ہو جائے گا ۔ حالانکہ مسلم حکمران، خاص طور پر امیر مسلم ممالک کے حکمران یورپ کو صرف دھمکی ہی دے دیں تو یہ معاملہ رُک سکتا ہے۔ بہرحال اللہ کرے کہ مسلمانوں کے لیے اس شر میں سے خیر برآمد ہو جائے۔
سوال: حماس کے ایک الائیڈگروپ کے سربراہ نے بیان دیا ہےکہ ہم نے اسرائیل پہ حملہ نہیں کیابلکہ اسرائیل سالہا سال سے فلسطینیوں پر جو مظالم ڈھا رہا تھا اور مسجد اقصیٰ پر جو حملے کر رہا تھا اُس کا جواب دیا ہے ۔ کیا حقیقت میں یہ بات درست ہے ؟
آصف حمید: میں یہ کہوں گا کہ یہ بہرحال مڈل ایسٹ کا نائن الیون ہے ۔ لیکن اب حالات اس طرف جا رہے ہیں جس کی خبریں نبی اکرمﷺ نے ہمیں دی ہیں اور اس کی دلیل میں یہ پیش کرتا ہوں کہ قرب قیامت اور دور فتن کی تقریباً تمام کی تمام علامات اس وقت ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، چند ایک رہ گئی ہیں ۔ یہ اس بات کی گواہی ہے کہ آخری دور کا معرکہ درپیش ہے ۔ جو واقعہ رونما ہوا ہے اس حوالے سے دو رائے ہو سکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ اسرائیل کانائن الیون طرز کا ہی False Flagمنصوبہ تھاتاکہ دنیا کے اندر اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کا اس کو موقع مل جائے ۔ یہ یہود کا ایک مستقل ٹول رہا ہے ، جیسا کبھی ہولو کاسٹ کی بنیاد پر خود کو مظلوم ظاہر کرکے دنیا کی حمایت حاصل کی۔اسی طرح یہود اب مزید فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔چونکہ پوری دنیاکا میڈیا ان کے ہاتھ میں ہے لہٰذا وہ رائے عامہ کو موڑنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اگریہ ان کی پلاننگ ہے توپھر یہ ان کا بہت بڑا قدم ہوگا کیونکہ جو نقشہ نتن یاہو نے جنرل اسمبلی میں دکھایا تھا اس میں فلسطینی مسلمان کہیں بھی موجود نہیں تھے ۔ یہ نقشہ دکھا کر گویا اس نے دنیا کو بتا دیا کہ ہم یہ کرنے جارہے ہیں ۔ قرآن مجید میں اللہ فرماتا ہے :
{وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہُ ط وَاللہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (54)} (آل عمران) ’’اب انہوں نے بھی چالیں چلیں اور اللہ نے بھی چال چلی۔اور اللہ تعالیٰ بہترین چال چلنے والا ہے۔‘‘
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہود یہ چاہتے ہیںکہ فلسطینی مسلمانوں کے حملے دنیا کو دکھا کر وہ ان کے خلاف آپریشن کریں جس کے بعد پورے فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ ہو جائے ۔ اس بہت بڑے جال کے لیے یہود نے قربانیاں بھی دی ہیں تاکہ وہ دنیا کے سامنے سچے بن سکیں ۔ لہٰذا بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ نائن الیون کی طرح کی ایک گریٹ گیم ہے ۔ اس کے بعد امریکہ اور بھارت تو فوراً اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں ۔ اسرائیل نے اتنے عرصہ فلسطینیوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں ، مسلمان عورتوں ، بچوں کو شہید کیا ہے ، مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی ہے اس پر کوئی بات نہیں کرتا ۔نہ ہی مظلوم کشمیریوں پر بھارتی مظالم کا کوئی ذکر کرتا ہے ۔ اب یہ تینوں بڑے ظالم ملک اکٹھے ہوکر جب مسلمانوں کا قتل عام کریں گے اور مسلمانوں کی طرف سے جب شدید ری ایکشن آئے گا تو اس کے بعد مسلم حکمرانوں کے پاس دو راستے ہوں گے ۔ ایک یہ کہ وہ عوام کے ری ایکشن کو بزور قوت دبائیں گےمگر نہیں دبا سکیں گے ۔ دوسرا یہ کہ انہیں عوام کے پریشر میں آکر اسرائیل کے خلاف کھڑا ہونا پڑے گا ۔ گویا اب وہ سٹیج تیار ہونا شروع ہو چکا ہے جس کی قرب قیامت کی علامات میں نشاندہی کی گئی ہے ۔
سوال:کیاحماس کا حملہ عربوں اور اسرائیل کے درمیان ہونے والےامن معاہدے میں خلل ڈالنے کی کوشش تونہیں ؟
رضاء الحق:امن کا تو ویسے ہی نام لیا جاتا ہے حقیقت میں وہ اسرائیل کی فتح کا معاہدہ تھا۔ا س میں سعودی عرب اور دیگرعرب ممالک کو ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی تھی ۔ لیکن حماس کے حملہ کے بعد وہ سمندر میں دفن ہو گیا ہے ۔ اب جو صورتحال بنی ہے اس میں اسرائیل بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کی کوشش کرے گا ۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ آزادی کی کسی بھی تحریک کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ آزادی کی رمق لوگوں میں بہرحال باقی رہتی ہے۔اگرچہ اکثر مین سٹریم میڈیا یہودیوں کے کنٹرول میں ہے لیکن سوشل میڈیا پر یہود کا مکروہ چہرہ بھی دکھایا جارہا ہے ۔ یعنی ساری دنیا اسرائیل کے ساتھ نہیں ہے ۔ چین اور روس نے سلامتی کونسل میں اس کا ساتھ نہیں دیا ۔ حماس کے اس حملے کی وجہ سے وہ ٹریڈ روٹ بھی خطرے میں پڑ گیا ہے جو انڈیا سے شروع ہو کر براستہ عرب ، اسرائیل ، قبرص سے ہوتا ہوا یورپ تک جانا تھا ۔ اس میں بھی چین کی کامیابی ہے ۔ روس کو بھی یوکرائن کے حوالے سے جواز مل چکا ہے کہ اگر یورپ فلسطینیوں کے حقوق کی بات نہیں کرتا تو یوکرائن کا ٹھیکیدار کیوں بنا ہوا ہے ۔ روس اور چین کے اپنے علاقائی مفادات ہیں جن کے تحفظ کے لیے وہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ بھارت ایک عرصے سے ثابت کر چکا ہے کہ وہ اسرائیل کا فطری اتحادی ہے۔ قرآن پاک میں اس کی دلیل بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ ارشاد ہوتاہے :
{لَـتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّـلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْاج}(المائدہ:82)’’تم لازماًپائو گے اہل ِایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور ان کو جو مشرک ہیں۔‘‘
ان کا گٹھ جوڑ اب کھل کرسامنے آ رہا ہے۔ مسلمان ممالک کو دیکھیں تو عمومی طور پر خاموش ہیں ۔ عرب ممالک اسرائیل کے آگے بچھے جارہے ہیں ، ترکی فلسطینیوں کی بات بھی کرتا ہے اور اسرائیل کے ساتھ بھی اس کے تعلقات ہیں ۔ کئی ممالک اس انتظار میں ہیں کہ سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرے تو ہم بھی کرلیں ۔ پاکستان کی شروع میں پالیسی یہ تھی کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے مگر اب پیچھے ہٹتے ہٹتے دوریاستی حل کی تھیوری پر آگئے ہیں ۔ بہرحال یہودی گریٹر اسرائیل کی طرف بڑھ رہے ہیں اورقرب قیامت کے آثار واضح ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ تاہم اگر گریٹر اسرائیل بن بھی گیا تب بھی یہودی امن سے نہیں رہ سکیں گے ان کے خلاف کہیں نہ کہیں سے جنگ جاری رہے گی ۔
سوال: سوائے حزب اللہ کے اس وقت کوئی بھی حماس کی عملی طور پر مدد نہیں کر رہا ۔ اگر حزب اللہ اور حماس مل بھی جائیں تب بھی ان کی اسرائیل کے سامنے پوزیشن ان نہتے فلسطینی بچوں جیسی ہوگی جو اسرائیلی ٹینکوں کے سامنے غلیل لے کر کھڑے نظر آتے ہیں۔ ایسی صورت میں حماس کا حالیہ حملہ فلسطین کاز کو فائدہ پہنچائے گا یا پھر نقصان ۔ آپ کیا کہتے ہیں ؟ 
ایوب بیگ مرزا:اس سے پہلے کہ میں آپ کے سوال کا جواب دوں ایک وضاحت کرنا چاہوں گا کہ مجھے نہیں لگتا کہ حماس کا یہ حملہ نائن الیون کی طرح کی کوئی چیز ہے کیونکہ اس میں اسرائیل کابہت بڑا جانی و مالی نقصان ہوا ہے ۔ میری سمجھ میں اسرائیل اتنا بڑا رسک نہیں لے سکتا کیونکہ یہودیوں کی آبادی کا تناسب پہلے ہی بہت کم ہے ۔ اس لیے اسرائیل ایک یہودی کی جان بچانے کے لیے ہزار فلسطینیوں کو رہا کرتا رہا ہے ۔ جہاں تک فلسطینی کاز کا تعلق ہے تو حماس کے اس حملے سے اس کو فائدہ پہنچے گا اگرچہ فلسطینیوں کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی ۔ فسلطین کاز کو فائدہ اس لحاظ سے پہنچا ہے کہ اس وقت ہر جگہ اور ہر سطح پر فلسطین کا ذکر ہو رہا ہے ۔ سب کو معلوم ہے کہ کس پر ظلم ہورہا ہے اور کون ظالم ہے ۔ اسرائیل کی پشت پر امریکہ اور یورپ ہیں جو خود کو تہذیب یافتہ کہتے ہیں ، یہ کیسی تہذیب ہے کہ غزہ کا اس قسم کا محاصرہ کیا ہوا ہے کہ وہاں خوراک اور پانی بھی نہیں پہنچنے دے رہے ۔ مصر کا کردار بھی اچھا نہیں کیونکہ وہ اسرائیل کا باقاعدہ ساتھ دے رہا ہے ۔ ایک اطلاع کے مطابق مصر نے ایک دن پہلے اسرائیل کو یہ رپورٹ دے دی تھی کہ آپ کےساتھ یہ ہونے والا ہے۔ بہرحال ایک آغاز انہوں نے کردیا ہے ۔ اب اللہ جانے یہ جنگ کیا صورت اختیار کرتی ہے۔ خدشہ یہی ہے کہ فلسطینیوں کو شہید کرکے غزہ پر قبضہ کر لیا جائے گا۔ لیکن یہ جنگ کوئی اور رُخ بھی اختیار کر سکتی ہے ۔
سوال: اسرائیل کو ہمیشہ سےہیومن ریسورس کا مسئلہ رہا ہے اس وقت بھی اس کی آبادی ٹوٹل ڈیڑھ کروڑ ہے ۔ اس حملے میں اگر اسرائیل کا اتنا زیادہ جانی نقصان ہوا تو آپ کیا کہتے ہیں اس کے بدلے میں جو جنگ اسرائیل چھیڑے گا وہ الملحمۃ الکبریٰ کی طرف نہیں بڑھے گی جس کا اشارہ احادیث میں ہے ؟
آصف حمید:اسرائیل کے سامنے اس وقت دو راستے ہیں ۔ اس کاسعودی عرب کے ساتھ معاہدہ بھی چل رہا تھا۔ایک راستہ یہ ہے کہ اسرائیل جنگ چھیڑنے کی بجائے اس معاہدے کو ترجیح دے اور دوبارہ مذاکرات کی طرف آجائے ۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ امن معاہدے کو ترک کرکے جنگ کی طرف بڑھے۔ میرے خیال میں اسرائیلی وزیر اعظم کے لیےاس وقت کوئی بھی فیصلہ آسان نہیں ہوگا ۔پیچھے ہٹنا اس کے لیے اس لیے ممکن نہیں ہے کہ اسرائیلی عوام اس کے خلاف ہو جائیں گے ۔ اس لیے اب معاملات خواہی نخواہی کشیدگی اور جنگ کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں ۔
رضاء الحق:الملحمۃ العظمیٰ بہت بڑی جنگ ہے لیکن اس کا کوئی نہ کوئی نقطہ آغاز ہوگا۔بظاہر یہ معاملہ اس کا پیش خیمہ لگ رہا ہے ۔ کیونکہ اسرائیلی حکومت پر اندرونی پریشر بہت زیادہ ہوگا ۔ ان کےRabbis کی طرف سے بھی اور عوام کی طرف سے بھی ۔ ان کے rabbi ہمیشہ سیاستدانوں کو آگے کی طرف دھکیلتے رہتے ہیں کہ مسایاح کے آنے کا وقت قریب آرہا ہے لہٰذا کچھ کرو ، آگے بڑھو ۔ لہٰذا اب ان کی مجبوری بن جائے گی کہ وہ آگے بڑھ کر جنگوں کا سلسلہ شروع کریں۔ اگر عرب حکمرانوں نے ردعمل نہ دیا تو عرب عوام بھی اُٹھ کھڑے ہو سکتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں تختے بھی الٹ سکتے ہیں۔بہرحال مسلمانوں کو مار بھی پڑنی ہے ، حضرت مہدی کا ظہور بھی ہونا ہے اور دجال بھی نکلے گا ۔ یہ سب ہونے کے لیے میرے خیال میں سارا سٹیج تیار ہورہا ہے۔
سوال:یہودیوں پر ان کے مذہبی طبقے کی طرف سے بھی پریشر ہے اور وہ کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اہل اسلام کے لیے مسجد اقصیٰ کی پکار کیا ہے؟ اور حماس نے جو کیا ہے اس میں کیا پیغام ہے ؟
آصف حمید:پہلی بات یہ ہے کہ یہودیوں کا جو بنیاد پرست مذہبی طبقہ ہے وہ اسرائیل کے قیام کے ہی خلاف ہیں ۔ وہ آج بھی فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک اسرائیل کی حکومت ان کے مسایاح نے قائم کرنی تھی جبکہ موجودہ اسرائیل کا قیام ایک شیطانی کام ہے ۔ علامہ اقبال نے کہا تھا؎
ایک ہو مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
میں سمجھتا ہوں کہ مسجد اقصیٰ کا پیغام یہی ہے کہ اس کے تحفظ کی خاطر پوری دنیا کے مسلمان ایک ہو جائیں ۔ اصل میں یہ احساس اور بیداری کا وقت ہے ۔ جب تک ہمارے اندر یہ احسا س پیدا نہیں ہوگا کہ یہ آخرالزمان ہے ، اب کچھ عرصے میں حق اور باطل کے گروہ الگ الگ ہو جائیں  گے ۔ درمیانی راستہ ہمارے پاس نہیں ہے ۔ جتنا اس پر ہمارا ایمان اور یقین ہوگا اتنا ہی ہم بیدار ہوں گے ۔ پھر یہ کہ ہم اپنے اعمال درست کریں ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ سب کچھ چھوڑ کر فلسطین کی طرف چلیں ، اہم چیز یہ ہے کہ علامات ظاہر ہو چکی ہیں اور ہمیں آنے والی صورتحال کے لیے بھی اور آخرت کے لیے بھی خود کو تیار کرنا ہے ۔ ہمیں  چاہیے کہ سب سے پہلے توبہ استغفار کریں اور اس کے بعد ہم فلسطینی بھائیوں کے لیے دعاکریں ، تہجد اور نوافل میں اس کا اہتمام کریں ۔ دعا کا بھی ایک اثر ہے ۔ یہ تو ہم میں سے ہر کوئی کر سکتاہے ۔ اس کے بعد ہمیں بحیثیت اُمت اکٹھا ہونے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس ضمن میں اپنے حکمرانوں کو بھی جگانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ انہیں شعور دلانا چاہیے کہ خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد گزشتہ ایک سو برس سے ہمیں divide and rule"ـ" کے تحت استعمال کیا جارہا ہے ۔ ڈاکٹر اسراراحمد ؒ فرمایا کرتے تھے کہ کچھ نے واشنگٹن کو سجدہ گاہ بنا لیا اور کچھ نے ماسکو کو ۔ اب قیام کا وقت آیا ہے تو ہمیں اُٹھنا چاہیے ، اپنے معاملات کو درست کرنا چاہیے ۔ پونے دو ارب مسلمان بہت بڑی طاقت ہیں اگر یہ سب متحد ہو جائیں تو دشمن کا منہ پھیر سکتے ہیں ۔
سوال:زمینی حقائق یہ ہیں کہ پورا عالم کفر اس وقت مسلمانوں کے خلاف اکٹھا ہو چکا ہے ۔ ہنگامی اجلاس بلائے جارہے ہیں جبکہ ہماری OICاور عرب لیگ ابھی تک نیند میں ہیں ۔ آپ یہ فرمائیے کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان کا مؤقف درست ہے اور تنظیم اسلامی اس حوالے سے حکومت وقت کو کیا مشورہ دے گی؟
ایوب بیگ مرزا: اگرچہ اسرائیل سارے عالم اسلام کا دشمن ہے لیکن میرے نزدیک وہ پاکستان کا خصوصی دشمن ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے ، اسلام کے نام پر بنا ہے ۔ دوسرایہ کہ یہ واحد ایٹمی مسلم ملک ہے ۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بن گوریان نے پیرس میں ایک تقریب میں کہا تھا کہ ہمارے نزدیک عربوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، ان کو تو ہم کچل کر رکھ دیں گے البتہ پاکستان ہمارے لیے خطرہ بن سکتاہے ۔ حالانکہ اس وقت پاکستان ایٹمی طاقت نہیں تھا ۔ آج تو وہ پاکستان کو زیادہ خطرہ سمجھتے ہیں ۔ جو لوگ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس سے تجارت کرنے کی بات کرتے ہیں ان کو سمجھنا چاہیےکہ یہودی کبھی بھی کسی مفاد کی خاطر گریٹر اسرائیل پر سمجھوتہ نہیں کریں گے اور اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان ہے لہٰذا وہ پاکستان کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے ۔ اگرچہ اس وقت پاکستان سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے لیکن اس کے باوجود اس پوزیشن میں ہے کہ اسرائیل کو اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکے ۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ OICکا اجلاس بلائے ، عربوں کو ترغیب دے کہ تمہارے پاس تیل کا ہتھیار ہے ۔ اس کو استعمال کرو ، تجارتی محاذ پر یورپ کو سبق سکھائیں ۔ ہماری وزارت خارجہ نے ابتدا ء میں جو بیان دیا تھا وہ انتہائی شرمناک تھا ۔ ہمیں اس طرح کی بزدلی سے نکلنا چاہیے ۔
آصف حمید:میرے ذہن میں سورہ فاطر کی یہ آیت آرہی ہے :
{اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَـکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّاط} (آیت :6) ’’یقیناً شیطان تمہارا دشمن ہے‘ چنانچہ تم بھی اس کو دشمن ہی سمجھو!‘‘
یہی معاملہ اسرائیل کا ہے ۔ وہ کبھی بھی پاکستان کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا ۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان کومعاشی اور سیاسی سطح پر کمزور کرنے کے لیے کیا کیا ہتھکنڈے استعمال نہیں کیے گئے ۔ پھر آئے دن کوئی نہ کوئی فساد اور انتشار پیدا کیا جاتاہے ۔ پس پردہ قوتوں کا مقصد ایک ہی ہے کہ پاکستان اتنا کمزور ہو جائے کہ بالآخر اس سے ایٹمی اثاثے لے لیے جائیں ۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے ، اپنے دفاع اور اپنی استعداد کو بڑھانا چاہیے جس کا حکم اللہ بھی دیتا ہے ۔ پھر یہ کہ اپنے نظریہ کی طرف لوٹیں ۔ اب وہ وقت آرہا ہے کہ حزب اللہ اور حزب الشیطان الگ الگ ہو جائیں گے ۔ ہمیں اگر اللہ کی پارٹی میں شمار ہونا ہے تو اس کے لیے خود کو تیار کرنا پڑے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کے ساتھ کھڑے ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین !