(منبرو محراب) مسئلہ فلسطین - ابو ابراہیم

14 /

مسئلہ فلسطینعالم کفر اورامت مسلمہ کاطرزعمل اورہماری ذمہ داری


مسجدجامع القرآن، قرآن اکیڈمی، کراچی میں امیرتنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے13 اکتوبر2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
آج کی نشست میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے کلام کرنا مقصود ہے۔درندہ صفت اسرائیل کی جارحیت اورمقدس مقامات کی بے حرمتی ،ہزاروں مسلمانوں کوشہید کرنا،اُن کو ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کرنا ، یہ کوئی ایک ہفتے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ تقریباًپون صدی کی تاریخ ہے ۔ان کے مقابلے میں نہتے فلسطینی مسلمان ہیں جو مزاحمت کر رہے ہیں جبکہ پونے دو ارب مسلمان خاموش بیٹھے ہیں ، اس تناظر میں بھی کلام کرنا مقصود ہے۔
یہود کی تاریخ
قرآن حکیم میں یہودیوں کے کرتوتوں کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ اسرائیل حضرت یعقوب ؑ کالقب ہےجس کے معنی ہیں اللہ کا بندہ ۔ آپؑ کے بارہ بیٹے تھے جن کی نسل بنی اسرائیل کہلائی۔ اس سلسلے میں ہزاروں انبیاء کرامؑ آئے ۔ جب موسیٰ ؑ ان کی طرف مبعوث ہوئے اوران پر تورات نازل ہوئی تو اس کے بعد بنی اسرائیل کو اُمت کی حیثیت حاصل ہوئی۔ بنی اسرائیل کے آخری رسول حضرت عیسیٰ ؑ ہیں ۔ بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے بہت سارے انعامات نازل کیے ، ان کو بڑی بڑی بادشاہتیںعطا کیں ، تورات ، زبور اور انجیل ان کو عطا کی گئی ۔ بنی اسرائیل میں یہود اور نصاریٰ دونوں شامل ہیں ۔ بنی اسرائیل اور ان کے علماء حضرت عیسیٰ ؑ کے دور میں ہی دنیا پرستی میں مبتلا ہوگئےتھے ۔ قرآن پاک نقل کرتاہے کہ جب حضرت عیسیٰ ؑ نے بنی اسرائیل کی اصلاح کرنا چاہی تو یہ لوگ جان کے دشمن ہوگئے اور رومی عدالت سے آپ ؑ کو سزائے موت دلوائی۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کو بچا لیا اور زندہ آسمان پر اُٹھا لیا ۔ یہ اتنے ظالم لوگ ہیں۔ ان کی پچھلی تاریخ دیکھیں تو انہوں نے سینکڑوں انبیاء کرام ؑ کو قتل کیا ۔ مفسرین نے نقل کیا ہے کہ صرف ایک دن میں بنی اسرائیل نے 43 انبیاء کرامؑ  کو قتل کیا ۔اللہ تعالیٰ مریم سلام علیہا کے بارے میں فرماتاہے : 
{اِنَّ اللہَ اصْطَفٰىکِ وَطَہَّرَکِ وَاصْطَفٰىکِ عَلٰی نِسَآئِ الْعٰلَمِیْنَ(42)}(آل عمران) ’’یقیناً اللہ نے تمہیں چن لیا ہے اور تمہیں خوب پاک کر دیا ہے اور تمہیں تمام جہان کی خواتین پر ترجیح دی ہے۔‘‘
لیکن بنی اسرائیل نے ان کو بھی معاف نہ کیا اور ان پر بھی بہتان لگائے اور رکیک حملے کیے ۔ اس کے علاوہ قرآن مجید ان کے اور بھی کئی جرائم کا ذکر کرتا ہے ۔ سورۃ البقرۃ میں ذکر ہےکہ انہوں نے اللہ کی کتاب کو بھی بدل ڈالا ۔ یہ اپنے پاس سے گھڑی ہوئی باتیں لکھتے اور کہتے یہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ پھر ان کے علماء لوگوں کی خواہشات کے مطابق فتویٰ دے کر مال بٹورتے رہے ۔ اسی دنیا پرستی میں پڑ کر انہوں نے اپنے رسولوں کا ساتھ بھی چھوڑا دیا ۔ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ ؑ سے ان کے مکالمے کا ذکر آتاہے : {فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ہٰہُنَا قٰـعِدُوْنَ (24)} (المائدہ)’’بس تم اور تمہارا رب دونوں جائو اور جا کر قتال کرو‘ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔‘‘
یہ دنیا پرستی میں اس قدر غرق ہوئے کہ ان میں سے ہر ایک چاہتا تھا کہ ان کی عمر ہزار برس ہو لیکن اللہ فرماتاہے کہ یہ تب بھی اللہ کے عذاب سے بچ نہیں پائیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ کے آخری رسول ﷺ کےبھی سب سے بڑے دشمن یہی لوگ تھے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{لَـتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّـلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْاج}(المائدہ:82) ’’تم لازماًپائو گے اہل ِایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور ان کو جو مشرک ہیں۔‘‘
انہوں نے رسول اللہﷺ کوشہید کرنے کی ناپاک سازشیں کیں۔ غزوئہ احزاب کے موقع پرسارے عرب کی ا فواج کو مسلمانوں کے خلاف صف آرا کرنے کی سازش کی ۔ پھر خلفائے راشدین کے دور میں عبداللہ بن سبا یہودی نے فتنہ گری کی اور بعدازاں مسلسل سازشوں میں مصروف رہے ۔ یہودیوں کے فقہ کی کتاب تالمود میں لکھا ہوا ہے کہ صرف یہود ہی انسان ہیں باقی سارے جنٹائلز (جانور)  ہیں ۔ آج بھی اسرائیلی ریاست کے ذمہ داران یہی کہہ رہے ہیں کہ یہ فلسطینی جانور ہیں ،ان کوجینے کاحق نہیں ہے۔ یہ یہود کا پیدائشی عقیدہ ہےکہ ہم اللہ تعالیٰ کے چنیدہ ہیں باقی سب جانوروں سے بدتر ہیں۔ ان کومارنا،لوٹنا وہ اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ۔ تالمود میں لکھا ہے کہ ایک یہودی کواپنے مطلب کی بات کرنی چاہیے، اگر اسے اپنے مطلب کی بات عدالت کےیہودی جج سے ملے تووہاں سے لے اور اگر غیر یہودی جج سے ملے تو وہاں سے لے ۔ یہ ساری دنیا کو سود کے دھندوں میں لگانے والے لوگ ہیں ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ امیین کے بارے میں ان سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا ۔ یہ وہ قوم ہے جو خود سے لکھی ہوئی کتابوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتی ہے اور پھر اس کی بنیاد پر دہشت گردی کرنا ، لوگوں کو ناحق قتل کرنا ، لوگوں کی جانوں اور مالوں سے کھیلنا یہ اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ یہود کے جرائم کے حوالے سے بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے سورۃ البقرۃ کے دروس سنے جاسکتے ہیں۔
ریاست اسرائیل
اسرائیل اقوام متحدہ کے تحت1948ء میں قائم ہوالیکن 1917ء میں برطانیہ نے بالفور ڈیکلیریشن کے تحت یہاں یہودیوں کو آباد ہونے کی اجازت دی ۔ حالانکہ زمین اور علاقہ ان کانہیں ہے لیکن انہوں نے برطانوی حکومت کی پشت پناہی میں غاصبانہ طور پر فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ دنیا کا نمبردار بن گیا اور اس نے دھونس کے ساتھ اسرائیلی ریاست کو 1948ء میں قائم کیا اور پھر اس کی پشت پناہی کی ۔ 1948ء کا نقشہ آپ دیکھ لیں ، یہود کے پاس کتنا علاقہ تھا اور فلسطینیوں  کے پاس کتنا تھا مگر آج زمین و آسمان کا فرق ہے ۔یہود نے 30 ہزار فلسطینی مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا کر انہیں مسمار کرکے وہاں یہودیوں کو آباد کیا ۔ عالمی قوانین کے مطابق کسی ریاست کے قیام کے لیے تین بنیادی تقاضے ہیں :
1۔وہ ریاست جس کے پاس اپناکوئی علاقہ ہو۔
2۔ جس کی سرحدیں معین ہوں۔
3۔اس کے معین علاقے میں اپنے شہری بھی ہوں۔
اسرائیل کااپنا کوئی علاقہ نہیںتھا اور نہ ہی یہاں اس کی آبادی تھی لیکن دھونس ،دھمکی اور بدمعاشی کی بنیاد پروجود میں آیااور اس وقت اقوام متحدہ نے جو زمین اس کو دی تھی آج اس سے 72 گنا زیادہ زمین پر قابض ہو چکا جبکہ اب بھی اس کی سرحدین معین نہیں ہیں ۔ اسرائیلی ذمہ داران اپنے عقیدے کی بنیاد پرکہتے ہیں کہ نیل سے فرات تک کاسارا علاقہ ہمارا ہے ، یہ گریٹر اسرائیل ہم قائم کرکے دکھائیں گے اوراس کے لیے جتنے عربوں(جانوروں) کومارنا پڑے توماریں گے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہودی کہیں بھی آباد ہو وہ اسرائیل کا شہری ہے ۔1980ء کی دہائی میں اسرائیلیوں نے صابرہ اور شتیلہ کے کیمپوںمیں موجود مسلمان بچوں اوربچیوں سمیت ڈھائی ڈھائی ہزار مسلمانوں کو ایک ایک رات میں شہید کیا ۔ یہ کوئی آج کامعاملہ نہیں ہے بلکہ مسلسل جبروظلم اور غاصبانہ قبضے کا معاملہ ہے ۔ امریکہ اور برطانیہ اس کی پشت پناہی کر رہے ہیںاور اس کے عزائم میں مسجد اقصیٰ کو شہید کرنا اور قبۃ الصخرہ (جہاں سے محمدرسول اللہﷺ معراج کی شب آسمانوں پرتشریف لے گئے)کوڈھا کر ہیکل سلیمانی کوتعمیر کرنا بھی شامل ہے ۔ آج جو لوگ انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں انہیں کافروں کے حقوق تو نظر آتے ہیں لیکن ان کواسرائیل کے مظالم نظر نہیں آتے۔
ارض فلسطین
فلسطین انبیاء کرامؑ کی سرزمین ہے ۔ہزاروں انبیاء کرامؑ وہاںتشریف لائے ہیں ۔مسلمانوں کاقبلہ اول اور مسجد اقصیٰ وہاں ہے ۔ رسول اللہﷺ نے وہاں انبیاء کرام ؑ کی امامت فرمائی۔ جب آپؐ نے امامت فرمائی توموسیٰ اورعیسیٰ e بھی وہاں تھے جو بنی اسرائیل کے جلیل القدر رسول ہیں۔لہٰذارسول اللہﷺ کی امامت سے اشارہ ہوگیا کہ اب اس سرزمین کی تولیت اورنگرانی امت محمدﷺ کے حوالے ہو گی کیونکہ وہ مسلمانوں کاقبلہ اول ہے ۔لہٰذا اس ارض مقدس کو آزاد کرانا امت مسلمہ کے ذمہ فرض ہے۔
عالم کفر کاکردار
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (( الکفر ملۃ واحدۃ )) کفار ملت واحدہ ہیں ۔ اس ملت کا امام کبھی برطانیہ تھا آج امریکہ ہے ۔ یہ سب اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں ۔ امریکہ نے بحری بیڑا بھیج دیا۔ اور برطانیہ میں فلسطین کاپرچم لہرانے پر پابندی لگا دی گئی ۔ یہ ان کامکروہ اورمنافقانہ چہرہ ہے کہ اگر مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں کوئی پرچم لہرائے گا تواس کوپولیس گرفتار کرے گی ۔میں اپنے سیکولرلوگوں سے پوچھتا ہوں کہ ان کی منافقت پربات کرو۔ کہاں گیا آزادی اظہار رائے ؟ آنکھیں کھولئے !یہ وقت گزر جائے گا مگر یہ ہمارا امتحان ہے کہ ہم کس کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ انسانی حقوق کے نعرے لگانے والے اسرائیل سے کہہ رہے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔ چاہے تم فاسفورس بم مارو، ہم تمہیں ظلم کرنے کی پوری چھٹی دیتے ہیں،ہم اپنے بحری بیڑے بھیجیں گے ، ساری دنیا کاناطقہ بند کر دیں گے ، تمہارے لیے کوئی مسئلہ پیش نہیں آئے گا تم آگے بڑھو۔سارا عالم کفر اس بات پر جمع ہو چکا ہے ۔
اُمت مسلمہ کاکردار
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ }(الحجرات:10) ’’یقیناً تمام اہل ِایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :مسلمان ایک عمارت کی مانند ہیں۔ ایک اینٹ دوسری اینٹ کے ساتھ مل کر دیوار کومضبوط کرتی ہیں ۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ مل کراُمت کومضبوط کرے ۔ آپﷺ نے فرمایا:ساری اُمت ایک جسد واحد کی طرح ہے اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہوتو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے ۔ الحمدللہ! جومسلمان دین سے جڑے ہوئے ہیں اِن میں غیرت ہے۔ ہم نے پریس کلب میں مظاہرہ کیا۔ اسی طرح جماعت اسلامی اوردوسری دینی جماعتوں کی طرف سے بھی مظاہرہ ہو گا ہم سپورٹ کرتے ہیں۔ لیکن میں سیکولر لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ ان میں سے کتنے لوگوں نے آواز بلند کی ہے ؟ جوکتے اور بلیوں کے لیے آواز بلند کرتے ہیں، جو عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں کیا انہوں نے کھڑے ہو کر بات کی ہے ؟یہ ساحل سمندر پرلوگوں کی واک بھی کرواتے ہیں،میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اسرائیل جومظالم مسلمانوں پرکر رہا ہےاس پرآپ نے کوئی واک کروائی ہے ؟ یعنی مسلمانوں میںبھی تقسیم ہورہی ہے ۔ عوام بے غیرت نہیں ہے مگرایک مخصوص طبقہ مسلمانوں میں سے ایسا ہے جس کی طرف سے آج بھی آواز بلند ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی ۔ بالخصوص عرب حکمران اسرائیل کے ساتھ تعلقات ،تجارت اور معاہدوں کی بات کرتے ہیں ۔ اس وقت غزہ کا یہودیوں نے محاصرہ کیا ہوا ہے ، اس کی ایک سرحد مصر کے ساتھ لگتی مگر وہ بھی مصر نے بند کر رکھی ہے ۔ بہرحال امت مسلمہ کی عظیم اکثریت کامعاملہ یہ ہے کہ واجبی سے بیانات ہیں عملی طورپر کچھ نہیں ہورہا ۔پاکستان کولولی پوپ دیے جا رہے ہیں کہ اسرائیل کو قبول کرلوتو ڈالر بھی ملیں گے ،سعودی عرب والے بھی دیں گے، سرمایہ کاری بھی ہوگی ۔ یہ امت مسلمہ کی اکثریت کاحال ہے۔ 34 مسلم ممالک کی فوج بنائی گئی تھی ہمارے سابق آرمی چیف کو اس کا چیف بنایا گیا تھا ۔ وہ کدھر ہے ؟ ان عربوں کا خیال تھا کہ ہماری ریاستیں بچ جائیں ، اقتدار بچ جائے مگر گریٹر اسرائیل کے ایجنڈے کی زد میں تو عرب ممالک بھی آرہے ہیں ، کیا تم بچ جاؤ گے ؟ ہمارے اُستاد ڈاکٹر اسرارا حمدؒ ایک حدیث کاحوالہ دیتے تھے :
((ويل للعرب من شر قد اقترب))’’ ہلاکت ہے عربوں کے لیے اس شر سے جوقریب آچکا۔‘‘عربوں کاسب سے بڑا جرم یہ ہے کہ قرآن ان کی زبان میں ہے لیکن عرب میں ایک بھی ایسا ملک نہیں ہے جہاں اللہ کا دین نافذ ہو ۔ مجرم نمبرون عرب ہیںان کی پٹائی توہونی ہے ۔ دوسرے مجرم ہم مسلمانان پاکستان ہیں ۔ یہ سیلاب،طوفان، مہنگائی اور طرح طرح کے عذاب ہم پر کیوں آرہے ہیں ؟ ہم نے اسلام کے نام پرملک لیا لیکن اسلام سے ہم نے بے وفائی اورغداری کی ۔ یہ ہمارا جرم ہے ۔
پاکستان کاکردار
کل ایک صحافی نے مجھ سے پوچھا:پاکستان کی کیا پالیسی ہونی چاہیے؟ میں نے کہا:پاکستان کی پالیسی پہلے دن سے طے ہے ۔ قائد اعظم کے الفاظ ہیں کہ اسرائیل مغرب کاناجائز بچہ ہے ۔اگر اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ظلم کرے گا تو ہم پاکستان سے جواب دیں گے ۔ آج ہرسرکاری دفتر کے اندر قائداعظم کی تصویریں تولگا رکھی ہیں ،کیاقائداعظم تصویریں یا نوٹ بنانے کے لیے رہ گئے ؟کیا قائداعظم کی پالیسی پاکستان کی پالیسی نہیں ہونی چاہیے ۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو دورہ امریکہ کے دوران یہودیوں نے پیش کش کی تھی تو انہوں نے دندان شکن جواب دیا تھا :"Gentlemen! our souls are not for sale"ـ۔ پھر 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیلی وزیراعظم بن گوریان نے کہا تھاکہ ہمیں خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ عربوں کو ہم نے ہرا دیا ۔ ہمارا اصل نظریاتی دشمن پاکستان ہے ۔ پاکستان کے پاس آج میزائل ٹیکنالوجی ہے ، ایٹمی قوت ہے مگرڈالرز کے عوض اپنی روح ، ایمان اور اپنی آزادی بیچنے والے یہ کام نہیں کر سکتے ۔
ہماری ذمہ داریاں
ہم اللہ سے دعا تو کرسکتے ہیں ۔ تھوڑی دیر کے لیے میچوں کی سکرینز کوچھوڑ دیں ۔ اللہ کے سامنے روئیں، گڑگڑائیں۔ کیا آج خون میں تڑپتے ہوئے فلسطینی بچوں کو دیکھ کر ہمیں اپنے بچے یاد نہیں آتے ؟ ہم میں سے کتنوں نے تنہائی میں ان کے لیے دعا کی ؟جائزہ لیں۔ اللہ کے رسولﷺ قنوت نازلہ کااہتمام کرتے تھے ۔ اس کا اہتمام کریں۔ احناف کے ہاں فجر کی نماز کے ساتھ باجماعت قنوت نازلہ ہے، کچھ فقہاء کے ہاں تمام نمازوں کے ساتھ ہے ۔ جو جس فقہی مسلک پرعمل کرتا ہے اس کے مطابق دعا کرے ۔ قرآن کہتاہے:{وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط} (البقرۃ:45) ’’اور مدد حاصل کرو صبر سے اور نماز سے۔‘‘
نماز تو فرض ہے۔ یہ امت نماز کے لیے اٹھنے کو تیار نہیں  مظلوم فلسطینیوں کی کیا مدد کرے گی ؟ فرض نمازوں کے ساتھ نوافل کا اہتمام کرو۔ یہ رسول اللہ ﷺ کا وظیفہ ہے۔ اللہ کی مدد سرکشوں اور باغیوں کے لیے نہیں بلکہ متقین کے لیے ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
{اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَ(128)} (النحل)’’یقیناً اللہ اہل ِتقویٰ اور نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔‘‘
گناہوں کوچھوڑیں گے تو اللہ کی مدد متوجہ ہوگی ۔ اپنے نوجوانوں اوربچوں کوفلسطین کی تاریخ پڑھائیں۔ یہود کی تاریخ، اُمت کا درد، جہاد کاشوق دلائیں۔آج اسرائیل کا بچہ بچہ عسکری تربیت حاصل کر رہا ہے لیکن ہماری نسلوں کو پپ جی، فحاشی وعریانی اورمنشیات کے حوالےکر دیا گیا ہے ۔ حالانکہ اُمت مسلمہ اپنے بچوں کو شوق شہادت دلاتی تھی ۔ خداراہ ! اپنی نسلوں کا عقیدہ اور ایمان درست کریں ۔ پھر جہاں جہاں آواز بلند ہوسکتی ہے پرامن مظاہروں، کالمز، ویڈیوز وغیرہ کے ذریعے آواز بلند کریں ۔ یقیناً عوامی پریشر سے فرق پڑتاہے۔ پاکستان کی ایک بڑی شخصیت نے صبح بیان دیا کہ حماس کو انسانی حقوق کا خیال رکھنا چاہیے لیکن جب عوام کا پریشر آیا تو شام کو بیان بدل گیا کہ ہم فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔ اسی طرح اپنے حکمرانوں، افواج کو غیرت دلانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔یہ ہمارے بس میں ہے، ہم یہ کرسکتے ہیں ۔ مستقبل کے منظر نامہ میں بڑی ہلاکتیں ہیں۔ آرمیگاڈان ((الملحمۃ العظمٰی ))
جیسی بڑی جنگوں کا میدان سجے گا لیکن بالآخر اللہ کا دین غالب ہونا ہے۔رسول اللہﷺ کی حدیثیں موجود ہیں۔خراسان سے لشکر جانے کا ذکر موجود ہے ۔ لیکن یہاں ہم آج دین کو غالب کریں گے تو یہاں سے کوئی اسلامی لشکر جا سکے گا ۔ اللہ ہمیں عمل کرنے کی توفیق دے اورہمارے مظلوم بھائیوں،بہنوں ،بچوں اوربوڑھوں کی مدد کرے۔ آمین یا رب العالمین !