(اداریہ) آنے والے دور کی دھندلی سی تصویر - ایوب بیگ مرزا

14 /

اداریہ

ایوب بیگ مرزا

آنے والے دور کی دھندلی سی تصویر

جب سے دنیا گلوبل ولیج بنی ہے ٹیکنالوجی میں برتری رکھنے والے چند ممالک میں دنیا کی سپر بلکہ سپریم قوت بننے کے لیے دوڑ لگی ہوئی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس حوالے سے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کا جنون دکھائی دیتا ہے۔ اس جنگ کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ قوت کا عالمی مرکز لندن سے واشنگٹن منتقل ہوگیا۔ انگلستان نے ایشیا اور افریقہ سے نکلنا شروع کر دیا۔ امریکہ کو اپنا بڑا بھائی تسلیم کرکے اُس کی بالادستی قبول کر لی۔ دنیا Bi-Polar ہوگئی۔ دنیا میں دو سپر قوتیں وجود میں آگئیں (1)امریکہ (2) سوویت یونین۔ یورپ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا مغربی یورپ اور مشرقی یورپ۔ درحقیقت یہ زیادہ تر اقتصادی تقسیم تھی۔ امریکہ کی سرکردگی میں مغربی یورپ سرمایہ دارانہ نظام کو لے کر آگے بڑھا اور سوویت یونین جو اصلاً روس میں وسطی ایشیا کی سابق مسلمان ریاستوں کو اپنے اندر ضم کر کے وجود میں آیا تھا۔ اس نے مشرقی یورپ کو اپنے زیر اثر لے لیا اور وہاں اشتراکیت نے ڈیرے ڈال لیے اور کمیونزم نے اپنے جھنڈے گاڑ لیے۔ اگرچہ غیر جانبدار ممالک کی بھی ایک تنظیم سامنے آئی لیکن وہ حقیقت کم اور سیاسی شعبدہ بازی زیادہ تھی۔ بھارت اور مصر جیسے ممالک نے اس سیاسی شعبدہ بازی سے کافی فائدے حاصل کیے۔ امریکہ اور سوویت یونین اپنے اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں اصل فریق تھے۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک کو صرف یہ فکر لاحق ہوتی تھی کہ ہر شعبے میں وہ دوسرے کو پیچھے چھوڑ دے۔ امریکہ پہلے ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہوگیا (اگرچہ یہ نازی جرمن سائنس دانوں کا کارنامہ تھا لیکن یہ امریکہ منتقل ہو چکے تھے) تو سوویت یونین خلا میں جانے والا پہلا ملک بن گیا۔ پھر چاند کی طرف دوڑ لگی وہاں امریکہ پہلے پہنچ گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اصل مقابلہ سیاسی اور عسکری سطح پر تھا، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی اُسی کا ایک جُز تھا۔ اس دوران دونوں سپر قوتیں گتھم گتھا رہیں اور باقی دنیا کے فہیم اور سمجھدار قیادت رکھنے والے ممالک فائدہ اٹھاتے رہے اور پاکستان جیسے ممالک ہاتھیوں کی اس جنگ میں استعمال بھی ہوتے رہے اور پستے بھی رہے۔ ہم اس حوالے سے چند مثالیں دے کر قارئین کو بتانے کی کوشش کریں گے۔ کس طرح دونوں قوتیں ایک دوسرے کو مختلف محاذوں پر پھنسا کر خود سبقت لے جانے کی کوشش کرتی رہیں تاکہ قارئین یہ سمجھ سکیں کہ موجودہ غزہ کی جنگ کا حقیقی پس منظر کیا ہے۔
مائوزے تنگ کے چین کو امریکہ نے تسلیم نہ کیا اور تائیوان کو اصل چین قرار دے دیا۔ سوویت یونین نے شروع میں چین سے اچھے تعلقات بنا لیے۔ امریکہ نے اپنی چودھراہٹ کے لیے شمالی ویت نام پر حملہ کیا تو چین اور روس میدان میں آگئے اور گوریلا وار میں شمالی ویت نام کی بھرپور مدد کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ ذلیل و خوار ہوا اور اُس کے فوجی چھتوں سے ہیلی کاپٹروں پر چھلانگیں لگا کر جان بچا کر بھاگے۔ پھر اس طرح کی بلکہ اس سے بڑی غلطی سوویت یونین سے ہوئی۔ اُس نے طاقت کے ترنگ میں اپنے چھوٹے ہمسایہ ملک افغانستان پر جو اُس کا حلیف بھی تھا، حملہ کر دیا۔ بعض اندرونی قوتوں نے اُس کا ساتھ دیا اور سوویت یونین افغانستان پر مکمل قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن اُس کی یہ کامیابی اُس کی بدقسمتی کا آغاز تھا۔ افغان مجاہدین نے گوریلا جنگ سے سوویت یونین کے ناک میں دم کر دیا یہ صورتِ حال دیکھ کر امریکہ بھی مجاہدین کی مدد کو آگیا اور پاکستان کو اس کا ذریعہ بنایا۔ باقی سب تاریخ ہے کہ کس طرح افغانیوں نے دشمن کو تگنی کا ناچ نچایا اور کس طرح پاکستان کی اشرافیہ نے ڈالر لوٹے، امریکی اسلحہ بھی فروخت ہوا۔ لیکن پاکستان کی عوام کے حصے میں کلاشن کوف کلچر اور دہشت گردی آئی۔ بہرحال اب امریکہ صرف سوویت یونین کو مکمل نیچا دکھانے میں کامیاب ہوگیا بلکہ اُسے اقتصادی طور پر اِ س قدر بدحال کر دیا کہ وہ اپنا وجود قائم نہ رکھ سکا۔ ضم شدہ ریاستیں الگ ہوگئیں اور سوویت یونین روس کی شکل میں رہ گیا۔ اب روس امریکہ کی بالادستی عملاً قبول کر چکا تھا اور امریکہ سپریم پاور آف دی ورلڈ یعنی واحد طاقتور ترین قوت بن کر سامنے آیا۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ نیو ورلڈ آرڈر سامنے لایا۔ دنیا uni polar ہوگئی جس کا مطلب تھا اب امریکہ دنیا کا چودھری اور شہنشاہ عالم بن گیا۔ وہ اس بات کا دعویدار ہوگیا کہ دنیا صرف میری تابع ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی یہ حیثیت کو قبول نہیں کرتا لہٰذا ایک طرف ڈنگ شاوپنگ کی قیادت میں چین ایک اقتصادی قوت کی حیثیت سے اُبھرنا شروع ہوا۔ دوسری طرف روس کو پیوٹن جیسا لیڈر مل گیا۔ روس کی عسکری قوت تو ویسے بھی زیادہ damage نہیں ہوئی تھی، اُس کی اقتصادی سانسیں بھی بحال ہونا شروع ہوگئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کا سب سے بڑا اور اہم ترین سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ امریکہ نے بھی سوویت یونین والی غلطی دہرائی اور افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ لیکن افغانستان نے ثابت کر دیا کہ وہ عالمی قوتوں کا قبرستان ہے برطانیہ، سوویت یونین اور امریکہ جیسی عالمی قوتوں کی اجتماعی قبر مستقبل میں افغانستان سے ہی دریافت ہوگی۔ ان شاء اللہ! اس جنگ میں امریکہ نے ایک اور ہمالائی غلطی کی کہ پہلے اپنی عالمی چودھراہٹ کو برقرار رکھنے کے لیے مذاکرات کو طول دیا اور احمقانہ قسم کی شرائط رکھ دیں، پھر شکست کو مذاکرات کے ذریعے فتح کا ٹائٹل دینے کی کوشش کی۔ ناکامی پر شکست کو ایک روٹین کا معاملہ یا باعزت رخصتی بنانا چاہا، لیکن اس ساری کھینچ تان نے اُسے زیادہ ذلیل کیا اور ایک سپر قوت کی حیثیت سے دنیا میں اُس کا امیج بہت بُری طرح خراب ہوا۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُس کا تکبر اور رعونت اب تک اس ذلت آمیز شکست کو تسلیم کرنے میں حائل ہے۔ اور وہ شب و روز ایسی حرکات کا مرتکب ہو رہا ہے کبھی چین کے BRI منصوبے میں رکاوٹیں کرنے کی منصوبہ بندی کرتا نظر آتا ہے اور کبھی مشرقی یورپ کے ممالک کو نیٹو میں شامل کرکے روس کے لیے مسئلہ کھڑا کرتا ہے۔ روس چونکہ اقتصادی طور پر ابھی پوری طرح خود کو سنبھال نہیں سکا۔ اس حوالے سے بھی امریکہ کی سازشیں جاری ہیں اور آخری کام اُس نے یہ کیا کہ یوکرین میں حکومت تبدیل کرنے کے لیے سازشی کردار ادا کیا وہاں کے ایک اداکار لیڈر کے ذریعے یوکرین کو نیٹو کا حصہ بنانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی ۔ گویا روس کی بغل میں ایک نیٹو اتحادی کی جگہ بنائی جا رہی تھی تاکہ کسی وقت روس کی بغل سے حملہ کیا جا سکے، لیکن روس نے یہ Preemptکرکے یوکرین پر گزشتہ سال حملہ کر دیا۔
یوکرین پر روس کے حملہ کے جواب میں امریکہ نے پاکستان میں رجیم چینج کرکے روس اور چین دونوں کو ایک اہم ساتھی سے محروم کر دیا۔ گویا امریکہ نے یوکرین پر روسی حملہ کا حساب برابر کر دیا۔ اسی دوران چین نے ایران، سعودی عرب کی صلح کروا کر امریکہ کو جھٹکا مارا۔ امریکہ نے ایک طویل عرصہ تک محنت کرکے ایران اور سعودی عرب کو ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑا کیا تھا۔ یہ چین کا امریکہ پر سفارتی حملہ تھا۔ امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب اور دوسرے کچھ عرب ممالک سے تعلقات کو نئی جہت دے کر مشرقِ وسطیٰ میں ایک زبردست سفارتی فتح حاصل کرنے جا رہا تھا کہ 7 اکتوبر 2023ء کو حماس نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل پر ایسا خفیہ اور راز دارانہ حملہ کیا کہ دنیا ششدر رہ گئی اور اسرائیل وقتی طور پر ہوش و حواس کھو بیٹھا۔
ہماری رائے میں حماس کے اس حملے میں اسرائیل کا جتنا جانی نقصان ہوا ہے گزشتہ دو عرب اسرائیل جنگوں میں اتنا نقصان نہیں ہوا ہوگا۔ پھر یہ کہ اسرائیل جو اپنے ناقابل شکست ہونے کا تصور قائم کر چکا تھا، وہ پارہ پارہ ہوگیا۔ کون نہیں جانتا کہ حماس کا اور اسرائیل کا کوئی مقابلہ نہیں اور اسرائیل کے جوابی حملے سے حماس کو ناقابلِ تلافی اور شدید جانی اور مالی نقصان پہنچے گا۔ لیکن اس نقصان کے باوجود اس جنگ کے کچھ ایسے نتائج سامنے آئیں گے جو اسرائیل کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوں گے۔ اسرائیل جو مذاکرات کا جھانسہ دے کر اور اچھے تعلقات کا جال بچھا کر عربوں کو جکڑنے جا رہا تھا وہ اب انتہائی مشکل اور شاید ناممکن ہو گیا ہے پھر یہ کہ اسرائیل کے دفاع کی بہت سی کمزوریاں سامنے آئی ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ اگرچہ وحشیانہ بمباری سے علاقے میں اسرائیل اپنی دہشت قائم کرلے گا، لیکن زمینی حملہ کرکے اگر اسرائیل آگے نہیں بڑھتا تو وہ اصل ہدف نہیں حاصل کر سکے گا۔ پھر یہ کہ زمینی حملہ کے جواب میں حزب اللہ جسے ایران کی حمایت حاصل ہے، وہ اگر جنگ میں کود پڑتا ہے تو اسرائیل کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ امریکہ نے اپنا سب سے بڑا بحری بیڑہ قریبی بندرگاہ میں پہنچا دیا ہے جس میں جدید ترین ہتھیار بھی ہیں اور دو ہزار کے قریب فوجی بھی اسرائیل کی مدد کو پہنچ سکتے ہیں۔
ہم نے آغاز میں امریکہ اور مخالف قوتوں کی دھینگا مشتی سے جو آپ کو آگاہ کیا ہے، دیکھنا اب یہ ہے کہ یہ کشیدگی کیا شکل اختیار کرتی ہے۔ اگر چین اور روس اسلحہ بارود اور دوسرے مادی وسائل سے نہ صرف حماس اور حزب اللہ بلکہ خطے کے دوسرے ممالک کی مدد کر کے ایک طویل عرصہ تک امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ میں جنگ میں پھنسا دیتے ہیں تو پھر یہ جنگ وہ صورت بھی اختیار کر سکتی ہے جس کے بارے میں بہت سی احادیث مبارکہ ہیں اگرچہ اُن کا کوئی ٹائم فریم ہمیں معلوم نہیں ہے۔
بہرحال معلوم ہوتا ہے کہ اب کوئی انہونی ہونے جا رہی ہے۔ ایک اور بات ہم قارئین پر واضح کر دیں کہ جن بہت سی جنگوں کا ہم نے آغاز میں ذکر کیا ہے کہ وہ محض ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے لڑی گئی تھیں لیکن یہ جنگ اُن سے بالکل مختلف ہے۔ اس جنگ نے مستقبل کی سمت طے کرنی ہے۔ یہ جنگ اس لیے بھی بہت زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ کسی ایک فریق کی پسپائی معمولی یا وقتی نہیں ہوگی بلکہ اسرائیل اور اُس کا سرپرست امریکہ اپنا ہدف حاصل کیے بغیر پیچھے ہٹتے ہیں تو اُنہیں آنے والے وقت میں بھی ایسے حملوں کا سامنا کرنا پڑتا رہے گا اور اگر حزب اللہ ایران کی سرپرستی میں حماس کی کوئی مدد نہیں کرتا تو سمجھ لیں کہ کچھ عرصہ بعد حزب اللہ کو بھی حماس جیسی تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑے گا اور ایران کو بھی نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ پھر یہ کہ چین اور روس پر مشرقِ وسطیٰ کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ اسرائیل فلسطین ہی نہیں کچھ عرصہ بعد عربوں کو بھی روند ڈالے گا۔ لہٰذا اس جنگ میں پسپائی کسی کو وارہ نہیں کھاتی سوائے اس کے کہ کوئی فریق مکمل شکست کھا جائے۔
اس جنگ کے حوالے سے مسلمان ممالک کا طرزِ عمل اور رویہ افسوسناک ہی نہیں شرمناک بھی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس نے ماضی میں عرب اسرائیل جنگ میںاہم رول ادا کیا تھا لیکن آج غزہ کے معاملے میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اپنی دگرگوں حالات کی وجہ سے عالمی سطح پر قابل ذکر رہا ہی نہیں۔ عرب ممالک بھی اس بات کو سمجھ لیں کہ اس جنگ میں شکست ہوئی تو اُنہیں اسرائیل سے اچھے تعلقات کا خیال دل سے کھرچ ڈالنا ہوگا۔ اس صورت میں اُنہیں اسرائیل کا باقاعدہ غلام بن کر رہنا ہوگا۔ وہ صرف اسرائیل کے باجگزار بن کر رہ سکیں گے۔ وہ بھی وہ جن پر اسرائیل مہربان ہوگا ورنہ اسرائیل اُنہیں صفحۂ ہستی سے مٹانے سے دریغ نہیں کرے گا۔ پھر عرب بھول جائیں کہ اُن کے ساتھ معاملات سفارت کاری یا کسی قسم کے soft سلوک سے طے کیے جائیں گے۔ یہ جنگ مر جاؤ یا مار دو کی جنگ ہے۔ ذلت کی زندگی یا عزت کی موت، عربوں کو یکسو ہو کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ یاد رہے اللہ تعالیٰ بھی اُن ہی کی مدد کرتا ہے جو خود اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔