(فلسطین نمبر) قضیہ فلسطین - سید ابوالاعلیٰ مودودی

14 /

قضیہ فلسطین

سید ابوالاعلیٰ مودودی

اب درحقیقت جس چیز سے دنیائے اسلام کو سابقہ درپیش ہے وہ یہودیوں کا چوتھا اور آخری منصوبہ ہے جس کے لیے وہ دوہزار سال سے بے تاب تھے اور جس کی خاطر وہ 90سال سے باقاعدہ ایک اسکیم کے مطابق کام کرتے رہے ہیں۔
اس منصوبے کے اہم ترین اجزاء دو ہیں۔ ایک یہ کہ مسجد اقصٰی اور قبۃ الصخرہ کو ڈھا کر ہیکل سلیمانی پھر سے تعمیر کیا جائے، کیونکہ اس کی تعمیر ان دونوں مقامات مقدسہ کو ڈھائے بغیر نہیں ہوسکتی۔ دوسرے یہ کہ اس پورے علاقے پر قبضہ کیا جائے جسے اسرائیل اپنی میراث سمجھتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس منصوبے کے ان دونوں اجزاء کو ہر مسلمان اچھی طرح سمجھ لے۔
جہاں تک پہلے جز کا تعلق ہے اسرائیل اسے عملی جامہ پہنانے پر اسی وقت قادر ہوچکا تھا جب بیت المقدس پر اس کا قبضہ(1967ء) ہوا تھا۔ لیکن دو وجوہ سے وہ اب تک اس کام میں تامل کرتا رہا ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ اسے اور اس کے سرپرست امریکہ کو دنیائے اسلام سے شدید ردعمل کا اندیشہ ہے(يہ50سال پہلے کی بات ہے)۔ دوسرے یہ کہ خود یہودیوں کے اندر مذہبی بنیاد پر اس مسئلے میں اختلاف برپا ہے۔ ان کے ایک گروہ کا عقیدہ ہے کہ ہیکل کی تعمیر نو مسیح ہی آکر کرے گا، جب تک وہ نہ آجائے ہمیں انتظار کرنا چاہیے۔ (واضح رہے کہ مسلمان اور عیسائی تو حضرت عیسٰی ؑ کو مسیح مانتے ہیں، مگر یہودی ان کا انکار کرتے ہیں اور وہ ابھی تک مسیح موعود کی آمد کا انتظار کررہے ہیں۔ ان کا یہ مسیح موعود وہی ہے جسے حدیث میں رسول اللہ ﷺنے مسیح دجال قرار دیا ہے)۔ یہ ان کے قدامت پسند گروہ کا خیال ہے۔ دوسرا گروہ جو شدت پسند ہے اور جس کے ہاتھ میں دراصل اس وقت اسرائیل کے اقتدار کی باگیں ہیں، وہ کہتا ہے کہ قدیم بیت المقدس اور دیوار گریہ پر قبضہ ہوجانے کے بعد ہم دور مسیحائی میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہی بات یہودی فوج کے چیف ربی نے تورات ہاتھ میں لے کر اس روز کہہ دی تھی جب بیت المقدس کی فتح کے بعد وہ دیوار گریہ کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کے الفاظ یہ تھے کہ ’’آج ہم ملت یہود کے لیے دور مسیحائی میں داخل ہو رہے ہیں۔’’ انہی دو وجوہ سے مسجد اقصيٰ کو یک لخت ڈھا دینے کے بجائے تمہید کے طور پر اس کو آگ لگائی گئی ہے(اگست 1969ء) تاکہ ایک طرف دنیائے اسلام کا ردعمل دیکھ لیا جائے اور دوسری طرف یہودی قوم کو آخری کارروائی کے لیے بتدریج تیار کیا جائے۔
دوسرا جز اس منصوبے کا یہ کہ’’میراث کے ملک‘‘ پر قبضہ کیا جائے۔ یہ میراث کا ملک کیا ہے؟ اس ضمن میں مڈل ایسٹ فورم کی ویب سائٹ پر موجود ڈینئل پائپز کا ایک مضمون موجود ہے جس میں اس نے یروشلم کمیٹی مؤرخہ 6 اپریل 1990ءمیں ہونے والی تقریر کا حوالہ دیا ہے جس میں ان عزائم کا اظہار ہے کہ اس بارے میں کوئی دستاویزی، نقشہ یا تصویری ثبوت موجود نہیں کہ یہ عبارت Knesset پر لکھی ہے۔ اسرائیلی اس کی تردید کرتے ہیں۔
دنیا میں صرف اسرائیل ہی ایسا ملک ہے جس نے کھلم کھلا دوسری قوموں کے ملک پر قبضہ کرنے کا ارادہ عین اپنی پارلیمنٹ کی عمارت پر ثبت کر رکھا ہے۔ کسی دوسرے ملک نے اس طرح علانیہ اپنی جارحیت کے ارادوں کا اظہار نہیں کیا۔ اس منصوبے کی جو تفصیل صہیونی تحریک کے شائع کردہ نقشے میں دی گئی ہے اس کی رو سے اسرائیل جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہے ان میں دریائے نیل تک مصر، پورا اردن، پورا شام، پورا لبنان، عراق کا بڑا حصہ، ترکی کا جنوبی علاقہ اور جگر تھام کر سنیے مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے۔ اگر دنیائے عرب اسی طرح کمزور رہی جیسی آج ہے، اور خدانخواستہ دنیائے اسلام کا ردعمل بھی مسجد اقصٰی کی آتشزدگی (1969ء) پر کچھ زیادہ مؤثر ثابت نہ ہوسکا، تو پھر خاکم بدہن ہمیں وہ دن بھی دیکھنا پڑے گا جب یہ دشمنانِ اسلام اپنے ان ناپاک ارادوں کو پورا کرنے کے لیے پیش قدمی کر بیٹھیں۔
مسئلہ فلسطین کا آغاز عرب بدوں کی غداری کی وجہ سے خلافت عثمانیہ کی فوجوں کی پسپائی سے شروع ہوا۔ جنگ عظیم کے دوران ہی 16 مئی 1916ء کو حکومت برطانیہ اور فرانس کے درمیان خفیہ معاہدہ سائیکوس- پیکوٹ معاہدہ طے پایا۔ جس میں دونوں ممالک نے جنگ عظیم اول کے بعد اور سلطنت عثمانیہ کے ممکنہ خاتمے کے پیش نظر مشرق وسطیٰ میں اپنے حلقۂ اثر کا تعین کیا۔ اس معاہدے میں برطانیہ نے یہودیوں سے کیے گئے وعدے کی تکمیل کے لیے ’’بالفور ڈیکلریشن مینڈیٹ کا علاقہ’’ بطور فلسطین ایک الگ خودمختار ملک تخلق کیا۔ میں ’’حیفہ کے مشرق میں تاریخی طور پر لبنان کے علاقے سے لے کر ’’ٹرانس جورڈن ’’ تک اور مصر صحرائے سینا سے متصل اور غزہ کو شامل کیا گیا تھا۔ اس کا دارلحکومت بیت المقدس (یروشلم) کو قرار دیا گیا۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ اُس وقت فلسطین کی حدود میں موجودہ اردن کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے یہ سارا علاقہ کبھی فلسطین نہیں کہلاتا تھا۔ فلسطین تاریخی طور پر’’دریائے اردن‘‘ کے مغربی کنارے سے لے کر’’رام اللہ‘‘، ’’نابلوس‘‘، ’’راملی‘‘ اور’’یافا‘‘ تک کا علاقہ کہلاتا تھا۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں’’ہیبرون‘‘ اور’’غزہ‘‘ تاریخ کے مختلف ادوار میں فلسطین کا حصہ رہے ہیں۔ البتہ ’’ناصرون‘‘، ’’حیفہ‘‘ اور ان سے اگلے علاقے تاریخی طور پر لبنان کا حصہ تھے۔ ’’بیرسببہ‘‘ کا سارا علاقہ مصر کا حصہ تھا۔
9 دسمبر 1917ء برطانوی افواج کے کمانڈر جنرل ایڈمنڈ کے ’’بیت المقدس‘‘ میں داخلے کے فوری بعد ہی ’’بالفور ڈیکلریشن مینڈیٹ‘‘ پر عمل شروع ہو گیا۔ 19 سے 26 اپریل 1920ء کے دوران اٹلی کے شہر’’سان ریمو‘‘ میں ہونی والی عالمی کانفرنس میں دیگر ممالک کے ساتھ نئے تخلیق شدہ ملک فلسطین کی آزادی کا اعلان کیا گیا۔ 10 اگست 1920ء کو معاہدہ سیورے (Treaty of Sevres) کے تحت ’’اتحادی قوتوں‘‘ نے ترکی سے اس آزادی کو تسلیم بھی کروا لیا۔ 11 ستمبر 1922 ءکو ’’لیگ آف نیشن‘‘ نے الگ ملک فلسطین کے باضابطہ قیام کی منظوری دیتے ہوئے اسے ’’برطانیہ کی تولیت‘‘ میں دے دیا۔
’’لیگ آف نیشنس کی فلسطین کی تولیت کی برطانوی مینڈیٹ ڈیڈ‘‘ کے آرٹیکل 2 میں واضع طور پر درج ہے کہ ’’ برطانوی انتظامیہ لازمی ملک (فلسطین) کو سیاسی ، انتظامی اور معاشی طور پر ایسے حالات میں رکھنے کا ذمہ دار ہے جو ’یہودی قومی گھر‘ کے قیام کی ضمانت دیتے ہوں‘‘۔ ایسی دستاویز کے آرٹیکل 4 میں مذکور ہے۔ یہودی قومی گھر کے قیام اور فلسطین میں یہودی آبادی کے مفادات کو متاثر کرنے والے اور معاشی و معاشرتی امور اور دیگر معاملات میں فلسطین کے انتظامیہ کے ساتھ مشورے اور تعاون کرنے کے لئے ’’عالمی صہیونی ایسوسی ایشن‘‘ کو ایک عوامی ایجنسی کے طورپر تسلیم کیا گیا ہے۔ '’’عالمی صیہونی ایسوسی ایشن‘‘ کو برطانوی حکومت سے مشاورت سے وہ تمام ضروری اقدامات کرنے کی آزادی ہو گی جو ان تمام یہودیوں کے لیے مددگار ہوں جو یہودی وطن کے قیام میں شامل ہونا چاہتے ہوں ۔ آرٹیکل 22 میں درج ہے: ’’انگریزی ، عربی اور عبرانی فلسطین کی سرکاری زبانیں ہوں گی ، اور فلسطین میں استعمال ہونے والے ڈاک ٹکٹ یا کرنسی پر عربی میں لکھے جانے والے ہر فقرے یا تحریر کو عبرانی زبان میں دہرایا جانا چاہئے۔‘‘
برطانوی دور میں یہودیوں کو فلسطین لانے کے لیے پوری دنیا میں ترغیبی مہمات چلائیں گئیں۔ فلسطین ہجرت کرنے والوں کے لیے مراعاتی پیکجز پیش کیے گئے۔ تمام بڑے بڑے یہوی ناموں نے اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ لیکن اس کے باوجود یہودیوں کا رد عمل مایوس کُن تھا۔ لیگ آف نیشن اور برطانوی انتظامیہ دونوں کے اعداد و شمار کے مطابق 1920 ءاور 1945 ءکے درمیان کل 33،304یہودیوں نے یورپ، ایشیا ، افریقہ اور امریکہ سے فلسطین ہجرت کی۔ جس کی وجہ سے نہ تو مقامی آبادی کے تناسب میں کوئی خاص فرق پڑا اور نہ ہی یہود ، مسلم محاذ آرائی شروع ہو سکی۔
20 نومبر1935 ءمیں برطانوی فوج نے معروف شامی مجاہد شیخ محمد عز الدين بن عبد القادر القسام کو حیفہ کے قریب شہید کر دیا۔ جس پر فلسطینی مسلمان بھڑک اٹھے۔ برطانوی انتظامیہ کے خلاف جذبات کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ اس موقع پر صہیونی تنظیم نے برطانیہ کے حق میں مظاہرے کیے۔ اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروع کرنے والی تقاریر کیں۔ جن کی وجہ سے پہلی بار مسلمان یہود تصادم ہوئے۔
ان معمولی سے تصادم کو بنیاد بنا کر برطانوی حکومت نے یہودیوں کو مسلح کرنا شروع کر دیا۔ صہیونی تنظیم نے برطانوی فوج کے تعاون اور امداد سے مختلف علاقوں میں اپنے ’’اسٹرن اور ارگون‘‘ جیسے درجنوں گینگ بنا لیے۔ تشدد کی تحقیقات کرنے والے برطانوی انتظامیہ کے ’’رائل پیل کمیشن‘‘ کے اعداد و شمار کے مطابق 1936 ء اور 1937 ءکے 18 ماہ کے درمیان یہودی دہشت گرد گروپوں کے حملوں میں 5 ہزار فلسطینی عرب ہلاک اور 10 ہزار زخمی ہوئے۔ (مسلمانوں کا دعویٰ اس سے تین گنا زیادہ کا ہے) فلسطین میں مسلسل یہودی دہشت گردی کے نتیجے میں عالم اسلام خصوصاً عرب ممالک میں شدید جذبات سامنے آئے۔ جس سے مصر اور عراق میں بالخصوص برطانوی مفادات کو خطرہ محسوس ہونے لگا۔ برطانیہ نے مسلمانوں کی اشک شوئی کے لیے 1939ء میں یہود کی مزید فلسطین ہجرت پر پابندی عائد کر دی۔ جس کے جواب میں صہیونی تنظیم نے برطانوی انتظامیہ کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان بغاوت میں کہا گیا کہ برطانیہ چونکہ یہود کے دشمن نازیوں سے برسر پیکار ہے اس لیے صہیونی براہِ راست اُسے نشانہ نہیں بنائیں گے۔ بلکہ برطانوی انتظامیہ کے لیے کام کرنے والے مسلمان، اُن کے اہل خانہ اور املاک صہیونی دہشت گرد تنظیموں کا ہدف ہوں گے۔ 1939 ءسے 1945 ءکے دوران ہزاروں مسلمان فلسطینی صہیونی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ دوسری طرف برطانوی انتظامیہ نے یہودی دہشت گردی کو کچلنے میں کسی دلچسبی کا اظہار نہیں کیا۔
مسلمانوں کی بار بار کی اپیلوںکے جواب میں برطانوی افسران کا جواب ہوتا کہ جنگی حالات میں نیا محاذ نہیں کھولا جا سکتا۔ جنگ کے اختتام پر دہشت گردی کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ اسی دوران یورپ سے جنگ کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں یہودیوں کی ہجرت میں تیزی آ گئی۔ 1939 ءسے 1945 ءکے دوران 60 ہزار کے قریب غیر قانونی یہودی تارکین وطن یہودی فلسطین میں داخل ہوئے۔ جبکہ ایک لاکھ کے قریب یہودیوں کو اتحادی افواج نے پناہ گزین کے طور پر فلسطین پہنچایا۔
3 جولائی 1944 ءکو برطانوی انتظامیہ نے اتحادی افواج میں یہودی برگیڈ کے قیام کا اعلان کیا۔ کہا گیا کہ جو یہودی دہشت گردی میں ملوث نہ ہونے یا تائب ہونے کی یقین دہانی کرائیں گے وہ اس برگیڈ میں بھرتی ہو سکتے ہیں۔ برطانیہ نے یہودی برگیڈ کو اعلیٰ پائے کی عسکری تربیت دی اور اُنہیں اُس وقت کے جدید ترین اسلحے سے لیس کیا۔
یہاں واضع رہے 1945ءکے اختتام تک ، یہودی فلسطینیوں کی کل آبادی کا صرف 16٪ فیصد تھے اور ان کی میں ملکیت میں صرف 3٪ فیصد زمین تھی۔ کیوں کہ ان کی اکثریت غیر قانونی تارکین وطن اور پناہ گزینوں پر مشتعمل تھی۔
1946ء میں برطانیہ نے یہودی آباد کاری سے مکمل پاک اور گنجان مسلم آبادی والا علاقہ فلسطین سے کاٹ کر الگ ملک اردن بنا دیا۔ اور اُسے خلافت عثمانیہ سے غداری کرنے والے ہاشمی خاندان کے حوالے کر دیا۔ جہاں آج اردن کی بادشاہت قائم ہے۔ اردن کے فلسطین سے کٹ جانے سے آبادی کے تناسب میں خاصہ فرق پڑھ گیا۔ یہودیوں کی باقی ما ندہ فلسطین میں تعداد 16 فیصد سے بڑھ کر تیس فیصد سے زیادہ ہو گئی۔
ایک لاکھ یہودیوں کو یورپ سے فلسطین منتقل کرنے اور مسلمان آبادی کا بڑا حصہ الگ کرنے کے خلاف مسلمانوں نے احتجاج اور ہڑتالیں کیں۔ جس کے جواب میں صہیونی دہشت گردی میں تیزی آ گئی۔ اس دہشت گردی میں برطانیہ کی زیر کمان یہودی برگیڈ بھی شامل ہوتا چلا گیا۔ حالات کی خرابی کا بہانہ بنا کر18 فروری 1947 ءمیں برطانوی کابینہ نے فلسطین سے دستبرداری اور معاملہ اقوام متحدہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔اپریل 1948ء کو ہیفہ میں موجود شمالی سیکٹر کے برطانوی کمانڈر میجر جنرل ہیو اسٹاک ویل برطانیہ نے فلسطین سے اپنی فوجوں اور سول انتظامیہ کے انخلا کے موقع پر اسلحہ اور تنصیبات ’’یہودی برگیڈ‘‘ کے حوالے کر دیں۔
برطانوی دستبرداری کے ساتھ ہی صہیونی تنظیم نے مسلمانوں کے قتل عام شروع کر دیا۔ صہیونی لیڈر اور اسرائیل کے پہلے صدر بین گوریان نے بیان جاری کیا کہ فلسطینی مسلمان یہودی ریاست کے لیے غدار (fifth columnist) بن سکتے ہیں ، اس لیے انہیں بڑے پیمانے پر گرفتار ملک بدر کرنا ضروی ہے۔ گرفتار کرنے کی نسبت انہیں انہیں ملک بدر کیا جانا بہتر ہے۔
یہودی برگیڈ کے کمانڈر اور بعد میں اسرائیلی افواج کے پہلے کمانڈر انچیف ’’موردچائی مکلیف‘‘ نے حائفہ میں فلسطینیوں کی نسلی صفائی کی مہم کا آغاز کیا۔ اس نے اپنے فوجیوں کو سیدھا اور آسان حکم تحریری طور پر جاری کیا تھا ’’جس بھی عرب سے آپ کا سامنا ہو اسے مار ڈالو۔ دھماکا خیز مواد سے تمام جلنے والی اشیاء کو جلا دو۔ ‘‘
فلسطین میں مسلمانوں کی نسلی صفائی کو ’’آپریشن کینسر‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ جس میں یہودی برگیڈ کے ساتھ ہاگانا ، پامماچ اور ارگن جیسی صہیونی دہشت گرد تنظیمیں بھی شامل تھیں۔’’ تبیریہ‘‘ فلسطین کا پہلا بڑا شہر تھا جو صہیونی دہشت گردی کا نشانہ بنا۔ جہاں ایک بھی مسلمان کو رہنے نہیں دیا گیا۔ حیفہ دہشت گردی کا شکار دوسرا بڑا شہر بنا۔ اپریل 1948ءکو یہودی فوجوں نے ’’دیر یاسین‘‘ کے علاقے میں قتل عام کیا۔ ہزاروں مسلمانوں کو مختلف دیہاتوں سے ایک جگہ جمع کیا گیا۔ خواتین کو سب کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا، پھر بچوں کو الگ کر کے ذبح کیا۔ اور مردوں کو مشین گن کی گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ اس قتل عام سے معجرانہ طور پر بچ جانے والے 12 سالہ لڑکے ، ’’فہیم زائدان‘‘ نے عشروں بعد اپنی یاداشتیں شائع کرائیں تو دنیا کو اس کے بارے میں علم ہوا۔
کم تعداد یہودیوں کے لیے مسلمان اکثریت کو قتل کرنا ایک مشقت طلب کام تھا ۔ جس میں آسانی پیدا کرنے کے لیے اسرائیل کے پہلے صدر اور معروف کیمیادان بین گوریون نے ایک مہلک ہتھیار تیار کیا تھا جو فلسطینیوں کے کھیتوں اور مکانات کو آگ لگانے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی دوسری جنگ عظیم میں حیاتیاتی جنگ کے آلات بھی بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے خلاف استعمال کیے گئے۔
1948ء کے آخر تک صہیونیوں نے فلسطین کی 80 فیصد سے زیادہ اراضی پر قبضہ کر لیا تھا۔ فلسطینی مسلمانوں کے531 دیہات اور قصبات مکمل تباہ کر دیے گئے تھے۔ ’’عالمی ادارے‘‘ مسلمانوں کے کے ساتھ تمام تر تعصب اور اسرائیل کی ہمدردیوں کے باوجود فلسطینیوں کے 31 بڑے قتل عام کیے جانے کی تصدیق کرتے ہیں۔ جن میں سے ہر ایک میں ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو ایک جگہ جمع کر کے منظم منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا۔ 80 بڑے شہروں سے مسلمانوں کا وجود مٹا ڈالا گیا۔ 8 لاکھ فلسطینی مسلمان اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ایک لاکھ سے زیادہ مارے گئے۔