مشرق وسطیٰ کا آتش فشاں
بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد
امیر تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے 19اپریل2002ء کو’’ مشرقی وسطیٰ کا آتش فشاں‘‘ کے عنوان سے اپنے خطاب جمعہ میں فرمایا :
مشرقی وسطیٰ میں فلسطین کے حوالے سے حالیہ انتفاضہ کی تحریک تقریباً ڈیڑھ سال پہلے شروع ہوئی تھی۔ اس معاملے میں اسرائیلی وزیر اعظم شیرون کی طرف سے خونخواری اور درندگی کا جوبدترین مظاہرہ ہورہاہے اس سے مشرقی وسطیٰ کی صورت حال واقعتاً ایک ایسے آتش فشاں سے مشابہ نظر آتی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتاہے۔
اس سے قبل تقریباً دس سال امن مذاکرات کا ایک طویل سلسلہ گزرا ہے۔ یہ مذکرات خلیج کی جنگ کے فوراً بعد شروع ہو ئے تھے۔ ان مذاکرات کا آغاز ہسپانیہ کے صدر مقام میڈرڈ سے ہوا تھا، جہاں سے یہ اوسلو منتقل ہوئے، پھر یہ مذاکرات کئی بارواشنگٹن میں ہوئے، پھر کیمپ ڈیوڈ میں ہوئے۔ بہرحال ان مذاکرات کا یہ سلسلہ ابھی چل رہاتھا اور ایک حدتک اس بات پر مفاہمت ہوگئی تھی کہ اسرائیل وہ علاقے خالی کردے جو اس نے 1967ء کی جنگ میں چھینے تھے تاکہ ایک فلسطینی ریاست وجود میں آجائے جبکہ یروشلم کا معاملہ بعد میں طے کریں گے۔ اسی طرح35لاکھ فلسطینی مہاجرین کے بارے میں جو اسرائیل سے نکالے گئے تھے، فلسطینیوں کا مطالبہ بھی کہ انہیں واپس اسرائیل میں آکر آباد ہونے کی اجازت ہونی چاہیے، ابھی تصفیہ طلب تھے۔ لیکن جب یہ مذاکرات اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے اور یروشلم کا مسئلہ زیر بحث تھا تو شیرون نے جو اس وقت وزیر اعظم نہیں تھا(اس وقت ایہود بارک وزیر اعظم تھے)Temple Mountکا دورہ کیا۔ یہ مقام یعنی قبۃ الصخرہ مسلمانو ں کے لیے انتہائی مقدس ہے کیونکہ حضورﷺ اسی مقام سےمعراج پر تشریف لے گئے تھے۔ دوسری طرح یہودی کہتے ہیں کہ اس چٹان پر ہمارا ہیکل سلیمانی تھا جسے وہ دوبارہ تعمیرکرنا چاہتے ہیں۔ اسے تعمیر کرنے کے لیے ان کا منصوبہ یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ گرایا جائے۔ بہر حال جب شیرون یہاں آیا تو اس نے اعلان کیا کہ ہم جلد ہی یہاں اپنے تیسرے ہیکل کی بنیادیں رکھ دیں گے، جس کے لیے بڑے بڑے پتھر اور چٹانیں تیار کرلی گئی ہیں، اس پر مسلمانوں میں ردعمل ہوا۔ نوجوانوں نے پتھراؤ کیا تو یہ انتفاضہ شروع ہوگیا جو گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری ہے۔ یہ معاملہ بڑھتے بڑھتے آج جنین کے کیمپ کے قتل عام تک آن پہنچا ہے۔ یہ ظلم پوری دنیا کی نگاہوں کےسامنے بڑی ڈھٹائی سے ہو رہا ہے۔ بہر حال شیرون کی اس شرارت اور دھاندلی کا نتیجہ یہ نکلا کہ دس سال سے چلنےے والے امن مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت زیرو ہو گئی۔ چنانچہ اب مشرقی وسطیٰ کے جو حالات سامنےآرہے ہیں وہ بہت خوفناک ہیں۔ عالمی میڈیا نے ان حالات کو’’The Nightmare Scenario‘‘ (انتہائی ہیبت ناک منظر) کا عنوان دیا ہے۔
اس پوری صورت حال کے پس منظر کے ضمن میں تین باتیں نوٹ کرلیں۔ پہلی بات یہ کہ یہود سابقہ امت مسلمہ تھے جبکہ موجودہ مسلمان امت ، امت محمدی ﷺ ہے۔ حضور ﷺ کی بعثت کے بعد یہود اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے اس منصب سے معزول کر دیئے گئے اور معزولی کی علامت کے طور پر ہجرت مدینہ کےسوا سال بعد اہلِ توحید کا قبلہ بدل دیا گیا۔ دوسری بات یہ نوٹ کیجیے کہ ان دونوں امتوں کے بارے میں قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے پہلے ہی سے بتا دیا تھا کہ ان دونوں پر عروج اور زوال کے دو، دو ادوار آئیں گے۔ یہود کا آخری دورِ زوال سن1870ء سے لے کر1917ء تک جاری رہا۔ 1870ء میں رومیوں نے ان کا Second Templeگرایا۔ اس وقت لاکھوں یہودی قتل کیے گئے اور باقی یہودیوں کو یروشلم سے نکال دیا گیا جو یورپ، ایشیا، امریکہ سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں منتشر ہو گئے۔ اس دور کو وہ ’’ڈایا سپورا’’ کہتے ہیں۔ 1917ء میں بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے انہوں نے برطانیہ سے اپنا یہ حق منوا لیا کہ اب ہم فلسطین میں آبادہو سکتے ہیں۔ گویا تقریباً 1900 برس بعد وہ دوبارہ ارضِ فلسطین میں آباد ہوئے۔ لیکن اس عرصہ سے پہلے ان پر زوال کا ایک اور عروج کے دو ادوار آ چکے تھے۔ دوسرا زوال دو ہزار برس طویل تھا۔
امت محمدﷺ پر بھی دو عروج آ چکے ہیں۔ پہلا عروج عربوں کے ہاتھوں اور دوسرا ترکوں کی زیر قیادت تھا۔ ہمارا دوسرا زوال سقوط غرناطہ سے شروع ہوا جب ہسپانیہ میں اسلامی حکومت ختم ہوئی۔ اس کے بعد ہمارا زوال اپنے کلائمیکس پر اس وقت پہنچا جب پہلی جنگِ عظیم کے بعد سلطنتِ عثمانیہ ختم ہوئی۔ اس پس منظر میں نوٹ کیجیے کہ یہودیوں نے بڑی طویل جدوجہد کے ذریعے رفتہ رفتہ عیسائیوں پر اپنا تسلط قائم کیا جس کی تعبیر علامہ اقبالؒ نے یوں کی کہ ع ’’فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے’’۔ خاص طور پر پروٹسٹنٹ عیسائی مذہب تو یہودیوں ہی کی ایجاد تھا۔ ان پروٹسٹنٹس کے ذریعے انہوں نے یورپ میں اقتدار حاصل کیا اور یوں اس خطے کو اپنے قابو میں لے آئے۔ اس وقت پروٹسٹنٹ عیسائی دنیا کی قیادت امریکہ اور برطانیہ کے ہاتھ میں ہے۔ امریکہ سے پہلے برطانیہ ان کا نمائندہ تھا کہ جس کے ذریعے یہود نے فلسطین میں آباد ہونے کا حق حاصل کر لیا۔ اس کے بعد پروٹسٹنٹس کا پشت پناہ امریکہ بنا۔ لہٰذا اب اگر یہ کہا جائے کہ دنیا میں اسرائیل ایک نہیں، تین ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ ایک اسرائیل جو مڈل ایسٹ میں ہے، دوسرا اسرائیل برطانیہ ہے اور تیسرا اسرائیل امریکہ ہے۔ یہ بات پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے ایک رسالے ’’Trumpet‘‘ نے جو فلاڈ لفیا سے نکلتا ہے، لکھی ہے کہ اصل اسرائیل تو امریکہ اور برطانیہ ہیں، مڈل ایسٹ میں موجود اسرائیل کی حیثیت تو ایک جڑ ہے۔
اب آئیے موجودہ صورت حال کی طرف! موجودہ منظر یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں دراصل دو بہت بڑے بڑے آئس برگ ٹکرانے والے ہیں۔"Tip of the Iceberg" محاورے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ دراصل سمندر کی سطح کے نیچے آئس برگ بہت بڑی شے ہوتی ہے، لیکن اوپر اس کاصرف چھوٹا سا سرا (Tip) نظر آتا ہے۔ اسی لیے جہاز دھوکا کھا کر اس سے ٹکرا جاتے ہیں اور پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ یہ دو آئس برگ جن میں سے ایک کی Tip وہ یہودی ہیں جو 35 لاکھ کے قریب اسرائیل میں آباد ہیں، جبکہ دوسرے آئس برگ کی Tip فلسطینی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ وہ بھی تقریباً 30 سے 35 لاکھ ہیں۔ لیکن یہ کہ ان Tips کے نیچے کیا ہے؟ اسرائیل کے نیچے پوری دنیا کے ایک کروڑ یہودی اور ان کی پشت پر عیسائی دنیا کا بہت بڑا حصہ ہے۔ یہود کے اصل آلہ کار تو برطانیہ اور امریکہ ہیں لیکن ایک درجے میں کیتھولک دنیا بھی ان کی پشت پناہ ہے۔ یہ سب ملا کر تقریباً پونے دو ارب بنتے ہیں۔ فلسطینیوں کے پیچھے 30کروڑ عرب عوام اور بقیہ عالمِ اسلام موجود ہے۔ یہ کل ڈیڑھ ارب ہیں۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر Dome of the Rock کو گرا دیا جائے تو پوری دنیا میں جو طوفان اٹھے گا اور رد عمل کے طور پر ان دونوں کے ٹکرانے سے خوفناک منظر سامنے آئے گا، اس کی ہولناکی محتاج بیان نہیں۔
مشرق وسطیٰ میں اگر یہ بھٹی دہکی تو ابتدا میں مسلمانوں بالخصوص عربوں کا شدید نقصان ہو گا۔ اصل میں یہ اللہ کا عذاب ہو گا جو ایک ملعون اور مغضوب علیہم قوم کے ہاتھوں ان پر آئے گا۔ دوسرے مسلمانوں کے مقابلے میں عربوں کا جرم اس اعتبار سے زیادہ بڑا ہے کہ انہوں نے اس فضیلت کے باوجود کہ نبی اکرم ﷺ انہی میں سے تھے اور انہی کی زبان میں اللہ کا کلام نازل ہوا، نو آبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کرنے کے بعد دین سے بے وفائی کا معاملہ کیا اور اللہ کی بجائے کسی نے ماسکو کو اپنا قبلہ بنا لیا اور کسی نے واشنگٹن کی طرف رخ کر لیا۔
اس وقت جو صورتِ حال ہے اور یہ جو تصادم ہونے والا ہے، آئیے ذرا اس کا تجزیہ کر کے دیکھیں۔ قرآن مجید میں یہود کے بارے میں ایک جگہ آیا ہے (لَیسُو ا سَوَاءً) کہ وہ سب کے سب ایک جیسے نہیں ہیں۔ بعینہ یہودیوں میں اور مسلمانوں میں آج بھی دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ مسلمانوں میں ایک نقطہ نظر جو ابتدا میں سب مسلمانوں کا تھا، اور اصولی اعتبار سے بالکل درست مؤقف تھا، یہ ہے کہ اسرائیل کا قیام غلط اور بہت بڑا ظلم ہے، اسرائیل کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ یہاں پر یہودیوں کو لا کر آباد کیا جاتا۔ یہ انگریزوں اور امریکیوں کی بہت گہری سازش اور ظلم ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ:
ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کادو ہزار برس پہلے کے نکلے ہوئے یہودیوں کو اگر آج یہاں دوبارہ لا کر آباد کرنا عدل کا تقاضا ہے تو پھر عربوں کو بھی ہسپانیہ میں آباد کیا جانا چاہیے کہ وہ تو صرف پانچ سو برس پہلے وہاں سے نکالے گئے تھے۔ اسی طرح میں یہ کہتا ہوں کہ پھر پورے ہندوستان پر بھی مسلمانوں کا حق ہے۔ 18ویں صدی عیسوی کے آغاز میں اورنگ زیب عالمکیرؒ کے دورِ حکومت تک پورا ہندوستان مسلمانوں ہی کی زیر نگین تھا۔ لہٰذا اگر یہودی دوبارہ ارضِ فلسطین پر آباد کیے جا سکتے ہیں تو مسلمانوں کو سارا ہندوستان دوبارہ ملنا چاہیے۔ بہرحال ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ جس چیز کی بنیاد دھونس، دھاندلی، ظلم او ر ناانصافی پر ہو اس کو باقی رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ یہ انتہائی لیکن اصولی نقطہ نظر ابتدا میں عربوں کا رہا ہے۔ عجم میں بھی صرف دو ملکوں ترکی اور ایران نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ مسلمانوں اور عربوں کے اس مؤقف میں کمزوری پیدا ہوئی۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجاتدنیا کا اصول تو یہی ہے۔ بہرحال عربوں نے جب دیکھا کہ ہم اسرائیل کے مقابلے میں کچھ نہیں کر سکتے، امریکہ اس کا پشت پناہ ہے تو انہوں نے ایک ایک کر کے صلح کرنی شروع کی۔ پہلے سادات نے صلح کی۔ اس کے بعد شرق اردن نے صلح کر لی۔ اب شاہ عبدالعزیز کے بیٹے شاہ عبداللہ، ولی عہد سعودی عرب نے یہ کہا ہے کہ اگر اسرائیل اپنی 1967ء سے قبل کی حدود میں واپس چلا جائے اور سارے علاقے خالی کر دے اور وہاں فلسطینی ریاست قائم ہو جائے تو تمام عرب ممالک اسے تسلیم کر لیں گے۔ اس پر تمام عرب ممالک متفق ہو گئے ہیں۔ دنیا میں صرف ایک ملک پاکستان ہے جس نے ابھی تک اس مفاہمتی فارمولے کو تسلیم نہیں کیا۔ لیکن اگر سارے عرب ممالک ایسا کر لیں گے تو پاکستان اکیلا کیسے کھڑا رہ جائے گا! اصل غور طلب بات یہ ہے کہ ہم میں یہ کمزوری کیوں آئی۔ وجہ وہی ہے کہ ہم نے اللہ اور اس کے دین سے غداری اور بے وفائی کی۔ اللہ سے ہم نے اپنا رخ موڑ لیا تو جان لیجیے کہ اللہ تعالیٰ بہت غیور ہے۔ اگر تم اس کی طرف چل کر آؤ گے تو وہ دوڑ کر آئے گا۔ تم بالشت بھر آؤ گے تو وہ ہاتھ بھر آئے گا۔ لیکن اگر تم لوگ منہ موڑ لو گے تو وہ بھی اپنا رخ تم سے پھیر لے گا۔ بہرحال یہ دو موقف موجودہ صورتِ حال میں مسلمانوں کے اندر پائے جاتے ہیں۔
اسی طریقے سے یہودیوں میں بھی دو طبقات ہیں ۔ ایک طبقہ مذہبی یہودیوں کا ہے، دوسرا سیکولر یہودیوں کا۔ یہودیوں میں جو انتہا پسند یعنی مذہبی یہودی ہے، وہ ہر حال میں گریٹر اسرائیل بنانا چاہتا ہے جس میں مصر کا بہت بڑا علاقہ، پورا صحرائے سینا، پورا لبنان، پورا اردن، سعودی عرب کا شمالی حصہ، مکمل عراق اور شام اور ترکی کے کچھ جنوبی حصے شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ طبقہ ہمیشہ سے امن مذاکرات کا مخالف رہا ہے۔ جب ان مذاکرات کا سلسلہ چلا اور اسحاق رابن دستخط کر کے آیا تو اسے ایک یہودی نے قتل کر دیا کہ تم کون ہوتے ہو ہمارے علاقے واپس کرنے والے، ہمیں عربوں سے ابھی اور علاقے لینے ہیں اور گریٹر اسرائیل بنانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یروشلم کے معاملے میں ہم کسی کی کوئی شراکت قبول نہیں کر سکتے۔ یہ گریٹر اسرائیل کا دارالخلافہ ہے۔نیز ہمیں ہر قیمت پر ہیکل سلیمانی بنانا ہے۔ اور یہ کہ ہم اسرائیل میں کسی عرب کو نہیں رہنے دیں گے خواہ انہیں ختم کرنا پڑے، یا پھر انہیں شرق اردن میں دھکیل دو۔ اسرائیلی حکومت پر انتہا پسند یہودیوں کے اثر و رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب شیرون نے اپنی کابینہ میں ایک ایسے وزیر کو شامل کیا ہے جو مکمل داڑھی والا ہے۔ اس کا نام ایفی ایبک ایتام ہے۔ اس نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ فلسطینیوں کو صحرائے سینا میں دھکیل دیا جائے اور مصر سے کہا جائے کہ وہاں ان کے لیے فلسطینی ریاست قائم کر دے۔ یہ ہے ایک انتہا! لیکن وہاں بھی ایک نرم اور سیکولر نقطہ نظر ہے۔ سیکولر یہودی کہتے ہیں کہ گریٹر اسرائیل قائم کر کے جو خون خرابہ اور فساد ہوگا، اس سے کیا فائدہ۔ اس چھوٹے سے اسرائیل کے تحفظ کے لیے ہمیں کتنی جانیں دینی پڑ رہی ہیں، اگر ہم دس ہزار فلسطینی مسلمانوں کو مارتے ہیں تو سو، دو سو ہمارے بھی مرتے ہیں۔
ہم تو ہیں ہی کل ایک کروڑ جب کہ وہ ۳۰ کروڑ ہیں۔ اگر سارے مسلمان ملا لیں تو وہ ۱۵۰ کروڑ ہیں۔ لہٰذا یہ لوگ کہتے ہیں کہ کیوں نہ ہم صلح کر لیں، آخر ہم کزن ہیں، وہ بھی ابراہیمؑ کی اولاد ہیں ہم بھی ابراہیمؑ اولاد ہیں، اور جیسے دنیا میں بہت سے معاشی یونٹ بن رہے ہیں، عرب اور اسرائیل مل کر ایک یونٹ بن جائے۔ عربوں کے پاس پیسہ، لیبر اور تیل بہت ہے جبکہ ہمارے پاس مہارت، مینجمنٹ اور ایگزیکٹو صلاحیت ہے۔ لہٰذا ہم مل کر بہت ترقی کر سکتے ہیں۔ پھر اس طرح ملائی ہم کھائیں گے، چھاچھ ان کو دے دیں گے۔ یہ ان کی بائیں بازو کی جماعتوں کا نقطہ نظر ہے جن کا نمائندہ شمعون پیریز اس وقت وزیر خارجہ ہے۔ شیرون جو کچھ کر رہا ہے، شمعن پیریز اسے پسند نہیں کرتا۔ لیکن شیرون نے یہ انتظام کر لیا ہے کہ اگر وہ پارٹی اس کا ساتھ چھوڑ بھی جائے تو اس نے اب اپنے ساتھ Ultra nationalist parties شامل کر لی ہیں۔ انہی میں سے یہ ایک وزیر ہےجس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ ایک امریکی صحافی نے اس مذہبی یہودی وزیر سے جب یہ کہا کہ یہ تم صحیح نہیں کر رہے ہو تو اس نے تنگ کر جواب دیا: ’’تم نے افغانستان میں کیا کیا، آج ہمیں سبق پڑھانے آئے ہو۔ ہم پاول سے صاف کہہ دیں گے ( یہ پاول کے اسرائیل جانے سے پہلے کی بات ہے) کہ دنیا کے اندر یہ دہرا معیار ختم کرو۔ افغانستان میں کتنے شہری تمہاری وحشیانہ بمباری سے مر رہے ہیں اور اب ہمیں آکر سبق پڑھاتے ہو۔‘‘ دراصل اسرائیل کو پتہ ہے کہ امریکہ ہمارے شکنجے میں ہے، وہ ہل نہیں سکتا۔ ایک مرتبہ شمعون پیریز نے شیرون سے کہا تھا، دیکھو امریکہ ناراض ہو جائے گا! شیرون نے جواباً کہا، تم کیا بار بار مجھے امریکہ کا نام لے کر ڈرارہے ہو؟ امریکہ ہمارے شکنجے میں ہے۔ اس کے یہ الفاظ ریکارڈ پر ہیں۔ اسی طرح ایک بار نتن یاہونے کہا تھا کہ میں واشنکٹن کے اندر آگ لگوادوں گا اور 11 ستمبر کواس نے سچ کر دکھایا۔
اب صلح کی راہ میں حائل دو بڑی بڑی رکاوٹیں نوٹ کر لیجیے۔ ایک تو قبۃ الصخرہ کا مسئلہ ہے۔ دوسرے یہ کہ 30،35 لاکھ پناہ گزین ہیں جن کو واپس لینے کے لیے اسرائیل بالکل تیار نہیں۔ اس لیے کہ اسرائیل ہماری ریاست بہاولپور سے بھی چھوٹا ملک ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ لمبائی200 میل اور زیادہ سے زیادہ چوڑائی 80 میل ہے۔ بعض مقامات پر تو اس سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ اس کشتی کے اندر اگر 35 لاکھ افراد مزید آجائیں تو کشتی ڈوب جائے گی۔ لہٰذا وہ ان پناہ گزینوں کو واپس لینے کو تیار نہیں۔ اس وقت صلح میں یہ دو بڑی رکاوٹیں ہیں۔ آخری آفر جو یہود کی طرف سے آسکتی تھی وہ ایہود بارک کے زمانے میں کلنٹن کے زیر اثر آگئی تھی۔ ایہود بارک سیکولر یہودی تھا، اس نے آفر کی تھی کہ فلسطینی ریاست ہمیں منظور ہے، یروشلم کی تقسیم بھی ہم قبول کرتے ہیں، یعنی مشرقی یروشلم اپنے پاس رکھو، اس کے جتنے حصے میں مسجد اقصیٰ بنی ہوئی ہے وہ تم رکھ لو لیکن اوپر کا شمالی حصہ جہاں گنبد ہے وہ ہمیں دے دو تا کہ ہم وہاں اپنا ہیکل بنا لیں۔ باقی یہ کہ فلسطینی مہاجرین کو مسلمان ممالک اپنے اندر جذب کر کے انہیں اپنے ملک کی شہریت دیں۔ میرے نزدیک اس سے آگے کوئی یہودی سربراہ نہیں جا سکتا۔عرفات نے اس تجویز کو رد کر دیا تھا، جس پر امریکہ چیختا رہا کہ اس نے یہ موقع ضائع کر دیا۔ لیکن عرفات نے ہی نہیں، شیرون نے بھی اس تجویز کو رد کر دیا تھا۔ شیرون نے اس وقت جو معاملہ شروع کیا تھا اسی کے نتیجے میں یہ حالیہ فساد کھڑا ہوا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ نیوز ویک کے تازہ پرچے نے شیرون پر بہت شدت کے ساتھ تنقید کی ہے۔ اس میں ایک مضمون ’’A blue print for peace‘‘ شائع ہوا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پورا ٹیمپل ماؤنٹ مسلمانوں کو دے دیا جائے البتہ West Wall اور اس کے سامنے کا میدان یہودیوں کے پاس ہوتا کہ وہ اپنا ٹیمپل تعمیر کر سکیں۔ اگر یہ واقعتاً ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑی بات ہو گی۔ لیکن میرے نزدیک یہ مسئلہ لاینحل ہے۔ نہ ہی مسلمان اس سے کبھی دستبردار ہو سکتے ہیں اور نہ یہودی اس کی جگہ تیسرے ہیکل سلیمانی کی تعمیر سے باز رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا وہ بڑی جنگ ہو کر رہے گی جس کی خبریں احادیث میں دی گئی ہیں۔ اس موقع پر حضرت عیسیٰؑ اور حضرت مہدی کی مدد کے لیے فوجیں افغانستان اور پاکستان ہی سے روانہ ہوں گی۔ لہٰذا ہم میں سے ہر شخص کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ پاکستان کے اس رول کو مضبوط کرنے کے لیے دین کے تقاضوں کو پورا کرے اور مملکت خدادادپاکستان کو ایک حقیقی اسلامی ریاست بنانے کے لیے بھرپور جدوجہد کرے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024