(فلسطین نمبر) فلسطین: کس کی ملکیت؟ - ڈاکٹر محمد مشتاق

14 /

فلسطین: کس کی ملکیت؟

ڈاکٹر محمد مشتاق

سوشلسٹ روس کے زوال کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے کئی دیسی سوشلسٹ مشرف بہ امریکا ہو کر ’’ لبرل‘‘ کہلانے لگے۔ دیسی سوشلسٹ کم از کم فلسطینیوں کی آزادی کے حق میں اور اسرائیل و امریکا کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے تھے ۔ تاہم کایاپلٹ کے بعد ’’شوقیہ لبرل ‘‘ بننے والے تو خیر و شر کا فرق ہی بھول گئے ہیں ۔
ان شوقیہ لبرلز کی دیکھا دیکھی ’’ اعتدال‘‘ اور ’’داعیانہ اسلوب‘‘ کے مدعی مولوی صاحبان بھی اسرائیل اور امریکا کے خلاف بولنے والوں کو کوسنے دینے لگے ہیں ۔ ایک عام مغالطہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ فلسطین اور القدس کی سرزمین یہود کی ہے ، اس لیے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنائے جانے پر اعتراض غلط ہے ۔ یہ دعویٰ تسلیم کرنے کےلیے دو کام کرنے پڑتے ہیں :
ایک ، اس سرزمین کی ابدی ملکیت کے متعلق یہود کا دعویٰ تسلیم کیا جائے ؛ اور دو، معاصر بین الاقوامی قانون کے تمام اصول نظرانداز کیے جائیں ۔
پہلی بات اس وقت قطعی غیرمتعلق ہے ۔ بعض مسلمان اہلِ علم نے یہود کے ’’ حقِ تولیت ‘‘ کےلیے قرآن وحدیث سے استدلال کی روش بھی اختیار کی ہے۔ اس استدلال کی صحت یا عدمِ صحت پر بحث بھی اس وقت قطعی غیرمتعلق ہے ۔ اصل بحث یہ ہے کہ معاصر بین الاقوامی قانون یہود کا ’’حقِ ملکیت‘‘ تسلیم کرتا ہے یا نہیں ؟
پہلی جنگِ عظیم تک بین الاقوامی قانون کی رو سے کسی سرزمین پر کسی ریاست کا حقِ ملکیت تسلیم کرنے کے جو جائز طریقے تھے ، ان میں ایک طریقہ ’’ فتح‘‘ (Conquest) تھا بشرطیکہ اس کے بعد فاتح ریاست اس مفتوحہ علاقے کا الحاق (Annexation) کرلیتی ۔
اسی اصول پر 1857ء کے بعد سے ہندوستان کو برطانوی بادشاہت کا حصہ قرار دیا گیا اور اسے ’’ برطانوی ہند‘‘ (British India) کہا جانے لگا اور برطانیہ کی ملکہ ہندوستان کی بھی ملکہ ہوگئیں۔
یہ اصول پہلی جنگِ عظیم کے بعد تک بین الاقوامی قانون میں تسلیم کیا گیا ۔ تاہم 1928ء میں امریکا اور فرانس نے آپس میں معاہدہ کرکے یہ اصول طے کیا کہ جنگ کے ذریعے علاقے فتح کرنا ناجائز ہے ۔ کچھ ہی عرصے میں دیگر ریاستوں نے بھی اس معاہدے کو ، اور اس کے ذریعے طے شدہ اصول کو ، تسلیم کرلیا ۔ چنانچہ 1928ء کے معاہدۂ پیرس کے بعد سے ’’ فتح‘‘ کے ذریعے کسی علاقے کے ’’ الحاق‘‘ کو بین الاقوامی قانون تسلیم نہیں کرتا ۔
اب ’’ فاتح‘‘ ریاست کو ’’ قابض طاقت‘‘ (Occupying Power) اور مفتوحہ علاقے کو ’’مقبوضہ علاقہ‘‘ (Occupied Territory) کہا جاتا ہے اور اصول یہ طے کیا گیا ہے کہ جب تک قبضہ ختم نہیں ہوجاتا ، حالتِ جنگ برقرار رہتی ہے ۔
اسی وجہ سے یہ اصول بھی مانا گیا ہے کہ قابض طاقت کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے کی آبادی یا جغرافیے میں کوئی مستقل اور دوررس تبدیلی لائے کیونکہ جلد یا بدیر اس قابض طاقت کو اس مقبوضہ علاقے سے نکلنا پڑے گا ۔
تاریخی طور پر مسلم ہے کہ یہود کو رومیوں نے پہلی صدی عیسوی میں فلسطین سے نکال دیا تھا اور اس وقت کے بین الاقوامی عرف اور قانون کے مطابق اس سرزمین پر فاتح طاقت ، یعنی رومی سلطنت ، کی ملکیت قائم ہوگئی۔
ساتویں صدی عیسوی میں عمرفاروق h کی خلافت میں اس کی ملکیت مسلمانوں کو منتقل ہوئی اور یہ ملکیت بیسویں صدی عیسوی کی ابتدا تک برقرا رہی ۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد اس علاقے پر برطانیہ کا قبضہ ہوا لیکن برطانیہ نے اس پر اپنا حق ِملکیت قائم نہیں کیا بلکہ اسے ’’ امانت‘‘ کے طور پر قبول کیا ۔
جنگ کے بعد وجود میں لائی جانے والی تنظیم ’’ مجلسِ اقوام‘‘ (League of Nations) نے اس علاقے کو ترقی دینے اور یہاں کے لوگوں کو اپنی حکومت سنبھالنے کے لائق بنانے ، بہ الفاظِ دیگر ’’ مہذب بنانے‘‘ ، کی ذمہ داری (Mandate) برطانیہ کو دے دی ۔ 1948ء تک یہ علاقہ برطانیہ کے پاس امانت کے طور پر ہی رہا اور برطانیہ نے نہ صرف یہ کہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی بلکہ اس امانت میں بھرپور خیانت بھی کی ۔
1948ء میں برطانیہ نے مجلسِ اقوام کی وارث تنظیم ، یعنی اقوامِ متحدہِ کو کہا کہ وہ مزید اس امانت کا بار نہیں اٹھا سکتا ۔ اقوامِ متحدہ نے یہ علاقہ برطانیہ سے واپس لے کر اسے یہود اور عربوں کے درمیان تقسیم کردیا۔ اقوامِ متحدہ کو اس تقسیم کا ختیار تھا یا نہیں اور کیا یہ تقسیم منصفانہ اور جائز تھی یا نہیں؟ اس پر تفصیلی بحث کی جاسکتی ہے ۔ تاہم اگر اس بحث کو نظرانداز بھی کیا جائے تو یہ دو حقیقتیں بہرحال مسلم ہیں:
ایک یہ کہ 1948ء میں جس سرزمین پر ’’ اسرائیل‘‘ کی ریاست قائم ہوئی اس میں القدس شامل نہیں تھا:
دوسری یہ کہ القدس سمیت جن علاقوں پر اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں قبضہ کیا وہ اسرائیل کا حصہ نہیں ، بلکہ اس کے ’’ مقبوضہ علاقے‘‘ ہیں اور 1928ء کے معاہدۂ پیرس کے بعد سے بین الاقوامی قانون مقبوضہ علاقے پر قابض طاقت کا حقِ ملکیت تسلیم نہیں کرتا۔
چنانچہ اسرائیل القدس اور دیگر مقبوضہ علاقوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لاسکتا ؛ نہ وہ وہاں آبادکاری کرسکتا ہے ، نہ ہی وہاں ایسی دیوار تعمیر کرسکتا ہے جو اس علاقے کو مستقل طور پر تقسیم کردے ۔ یہ بات 2003ء میں بین الاقوامی عدالت ِانصاف (International Court of Justice) نے اپنے فیصلے میں تفصیلی طور پر واضح کی ہے۔ اس وجہ سے بین الاقوامی قانون کی رو سے قطعی طور پر ناجائز ہے کہ القدس یا مقبوضہ علاقے کے کسی بھی حصے کو اسرائیل کا دارالحکومت بنایا جائے۔
کاش ’’ شوقیہ لبرلز‘‘ کو کوئی فیض اور جالب کے اشعار ہی یاد دلادے ۔ یہ ٹھیک ہوجائیں تو ’’داعیانہ اسلوب‘‘ کے مدعی مولوی خود بخود سدھر جائیں گے۔