فلسطین سے ہمارا رشتہ کیا!
امت مسلمہ اور اہل پاکستان کی فلسطین سے محبت کی وجوہات درج ذیل ہیں:
1۔ یہ فلسطین انبیاء ؑ کا مسکن اور سر زمین رہی ہے۔
2۔ حضرت ابراہیم ؑ نے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی۔
3۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت لوط ؑ کو اس عذاب سے نجات دی جو ان کی قوم پر اسی جگہ نازل ہوا تھا۔
4۔ حضرت داؤود ؑ نے اسی سرزمین پر سکونت رکھی اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا۔
5۔ حضرت سلیمان ؑ اسی ملک میں بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت فرمایا کرتے تھے۔
6۔ چیونٹی کا وہ مشہور قصہ جس میں ایک چیونٹی نے اپنی باقی ساتھیوں سے کہا تھا ’’اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ‘‘ یہیں اس ملک میں واقع عسقلان شہر کی ایک وادی میں پیش آیا تھا جس کا نام بعد میں’’وادی النمل – چیونٹیوں کی وادی‘‘ رکھ دیا گیا تھا۔
7۔ حضرت زکریا ؑ کا محراب بھی اسی شہر میں ہے۔
8۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اسی ملک کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اس مقدس شہر میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے اس شہر کو مقدس اس شہر کے شرک سے پاک ہونے اور انبیاء علیھم السلام کا مسکن ہونے کی وجہ سے کہا تھا۔
9۔ اس شہر میں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے جن میں ایک کنواری بی بی حضرت مریم ؑکے بطن سے حضرت عیسٰی ؑ کی ولادت مبارکہ بھی ہے۔
10۔ حضرت عیسیٰ ؑ کو جب اُن کی قوم نے قتل کرنا چاہا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں اسی شہر سے آسمان پر اُٹھا لیا تھا۔
11۔ ولادت کے بعد جب عورت اپنی جسمانی کمزوری کی انتہاء پر ہوتی ہے ایسی حالت میں بی بی مریم ؑ کا کھجور کے تنے کو ہلا دینا بھی ایک معجزہ الٰہی ہے۔
12۔ قیامت کی علامات میں سے ایک حضرت عیسیٰ ؑ کا زمین پر واپس تشریف اسی شہر کے مقام سفید مینار کے پاس ہوگا۔
13۔ اسی شہر کے ہی مقام باب لُد پر حضرت عیسٰی ؑ مسیح دجال کو قتل کریں گے۔
14۔ فلسطین ہی ارض محشر ہے۔
15۔ اسی شہر سے ہی یاجوج و ماجوج کا زمین میں قتال اور فساد کا کام شروع ہوگا۔
16۔ اس شہر میں وقوع پذیر ہونے والے قصوں میں سے ایک قصہ طالوت اور جالوت کا بھی ہے۔
17۔ فلسطین کو نماز کی فرضیت کے بعد مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ہجرت کے بعد حضرت جبرائیل ؑ دوران نماز ہی حکم ربی سے آقا ؑ کو مسجد اقصیٰ (فلسطین) سے بیت اللہ کعبہ مشرفہ (مکہ مکرمہ) کی طرف رخ کرا گئے تھے۔ جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا وہ مسجد آج بھی مسجد قبلتین کہلاتی ہے۔
18۔ حضور اکرم ﷺ معراج کی رات آسمان پر لے جانے سے پہلے مکہ مکرمہ سے یہاں بیت المقدس (فلسطین) لائے گئے۔
19۔ سرکار دو عالم ﷺ کی اقتداء میں انبیاء ؑ نے یہاں نماز ادا فرمائی۔ اس طرح فلسطین ایک بار پھر سارے انبیاء کا مسکن بن گیا۔
20۔ سیدنا ابو ذر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ زمین پر سب سے پہلی مسجد کونسی بنائی گئی؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الحرام(یعنی خانہ کعبہ)۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کونسی؟ (مسجد بنائی گئی تو) آپ ﷺ نے فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ (یعنی بیت المقدس)۔ میں نے پھر عرض کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ چالیس برس کا اور تو جہاں بھی نماز کا وقت پالے ، وہیں نماز ادا کر لے پس وہ مسجد ہی ہے۔
21۔ وصال حضرت محمدﷺکے بعد حضرت ابوبکر ؓ کو ارتداد کے فتنہ اور دیگر کئی مشاکل سے نمٹنے کے لیے عسکری اور افرادی قوت کی اشد ضرورت کے باوجود بھی ارض شام (فلسطین) کی طرف آپ ﷺ کا تیار کردہ لشکر بھیجنا بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے۔
22۔ اسلام کے سنہری دور فاروقی میں دنیا بھر کی فتوحات کو چھوڑ کر محض فلسطین کی فتح کے لیے خود سیدنا عمر ؓ کا چل کر جانا اور یہاں پر جا کر نماز ادا کرنا اس شہر کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔
23۔ دوسری بار بعینہ معراج کی رات بروز جمعہ 27 رجب 583 ہجری کو صلاح الدین ایوبی ؒکے ہاتھوں اس شہر کا دوبارہ فتح ہونا بھی ایک نشانی ہے۔
24۔ بیت المقدس کا نام قدس قران سے پہلے تک ہوا کرتا تھا، قرآن نازل ہوا تو اس کا نام مسجد اقصیٰ رکھ گیا۔ قدس اس شہر کی اس تقدیس کی وجہ سے ہے جو اسے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس شہر کے حصول اور اسے رومیوں کے جبر و استبداد سے بچانے کے لیے 5000 سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے جام شہادت نوش کیا۔ اور شہادت کا باب آج تک بند نہیں ہوا، سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔ یہ شہر اس طرح شہیدوں کا شہر ہے۔
25۔ مسجد اقصیٰ اور بلاد شام کی اہمیت بالکل حرمین الشریفین جیسی ہی ہے۔ جب قران پاک کی یہ آیت (والتين والزيتون وطور سينين وھذا البلد الأمين) نازل ہوئی تو ابن عباس کہتے ہیں کہ ہم نے بلاد شام کو ’’التین‘‘ انجیر سے، بلاد فلسطین کو ’’الزیتون‘‘ زیتون سے اور الطور سینین کو مصر کے پہاڑ کوہ طور جس پر جا کر حضرت موسیٰ ؑ اللہ پاک سے کلام کیا کرتےتھے سے استدلال کیا۔
26۔ قران پاک کی یہ آیت مبارک (ولقد كتبنا في الزبور من بعد الذكر أن الأرض يرثها عبادي الصالحون) سے یہ استدلال لیا گیا کہامت محمد حقیقت میں اس مقدس سر زمین کی وارث ہے۔
27۔ یہاں پر پڑھی جانے والی ہر نماز کا اجر 500 گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024