(فلسطین نمبر) حقیقت ِ فتنہ دجال قسط:1 - محمد رفیق چودھری

14 /

حقیقت ِ فتنہ دجال قسط:1

رفیق چودھری

فتنہ دجال

قُرب قیامت کی سب سے بڑی نشانیوں میں سے ایک دجّال کا ظاہرہونا ہے ۔ دجّال کا فتنہ تاریخ انسانی کا سب سے بڑا اور سب سے خطرناک فتنہ ہے جس کی شدت اور ہولناکی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : ’’کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا گیا جس نے اپنی اُمت کو دجال سے ڈرایا نہ ہو۔‘‘ (سنن ابو داؤد ) حالانکہ انبیاء انسانوں میں سے سب سے زیادہ بزرگ وبرتر اور اللہ کی محبوب ہستیاں تھے لیکن انہوں نے بھی فتنہ دجال سے پناہ مانگی ۔ یہاں تک کہ نوع انسانی کی سب سے بزرگ اور اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین ہستی نبی آخرالزماںحضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں لیکن آپ ﷺ بھی باقاعدہ نماز میں یہ دعا مانگا کرتے تھے:
’’اللہ!میں آگ کے فتنے اور جہنم کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور قبر کے فتنے اور عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور امیری و فقیری کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اللہ! میں مسیح دجال کے فتنے کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘(صحیح بخاری )
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کتنا بڑا اور سنگین فتنہ ہے۔
بنیادی طور پر لفظ ’دجل‘ کے معنی اس ’’ لیپ ‘‘ کے ہیں جو کسی بدنما زخم (کوڑھ ) کو چھپانے کے لیے اوپر لگایا جاتاہے ۔ یعنی کوئی چیز بُری ہو لیکن اس پر اچھائی کا لیبل لگا دیا جائے ۔ اس لیے عام معنوں میں دجل سے مراد دھوکہ اور فریب لیا جاتاہے اور اس کی مثال یہ دی جاتی ہے کہ جیسے خراب اور نقلی مال کے اوپر دوکاندار تھوڑاسا اصلی مال ڈال دے تو خریدار اُسے اصلی اور اچھا مال سمجھ کر ہی خریدے گالیکن اصل میں وہ اپنا نقصان کرے گا۔ حقیقت میں فتنہ دجال اس سے کہیں بڑا اور کھربوں گنا مہلک اور تباہ کن فتنہ اس لیے ہے کہ یہ عقیدہ، مذہب اور دین (نظام)کے نام پر ہونے والا تاریخ انسانی کا سب سے بڑا دھوکہ اور فریب ہے جس کا مقصد انسانوں کی دنیا اور آخرت دونوں کو تباہ کرنا ہے۔فرض کریں کوئی گمراہ فرقہ جو اپنی اصل میں کفر ، شرک اور بت پرستی پھیلاتا ہو لیکن بظاہراللہ کے دین کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہو تو لوگ اُسے اللہ کا دین ( جس کا مقصد لوگوں کی دنیا اور آخرت سنوارنا ہوتا ہے ) سمجھ کر ہی اپنائیں گے لیکن حقیقت میں وہ اپنی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کر بیٹھیں گے ۔ ذراتصور کیجئے ! یہ کتنا بڑا دھوکہ ہوگا ۔ اسی لیے تمام انبیاء نے اس فتنہ سے اپنی قوم کو ڈرایا اور اللہ کے آخری نبی ﷺ باقاعدہ نماز میں اس سے پناہ مانگا کرتے تھے ۔ لیکن آج حقیقت میں ایسا ہورہا ہے۔ اس کی ایک ادنیٰ سی مثال فری میسنری کے لاجز ہیں جہاں کمپاس اور مربع کے ساتھ میز پر بائبل بھی رکھی ہوتی ہے (اسی طرح مسلمان میسنز کے لاجز میں قرآن ، یہودی میسنز کے لاجز میں عہدنامہ قدیم، دیگر کے لیے ان کی مذہبی کتب رکھی ہوتی ہیں )، اسی طرح ان کی مختلف تقریبات میں مذہبی دعائیں بھی پڑھی جاتی ہیں اور بعض مذہبی رسومات بھی ادا کی جاتی ہیں لیکن حقیقت میں یہ محض دکھاوا ہوتا ہے جس کی آڑ میں شیطنت کا کھیل کھیلا جاتا ہے ۔ اس راز کو خود فری میسنری کے آفیشل ڈاکومنٹس، Manual اور اعلیٰ سطحی نصاب ظاہر کر رہے ہیں ۔ جیسا کہ :
’’میسنری کا بائبل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ، کہ اس کی بنیاد بائبل پر نہیں ہے ، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہ میسنری نہ ہوتی بلکہ یہ کچھ اور ہوتی‘‘۔(ڈائجسٹ آف میسونک لاء ، صفحہ: 207،209)
پھر سوال پیدا ہوتا ہے لاجز میں اور میسونک تقریبات میں بائبل کا کیا کام ہے ؟ اس کی حقیقت بھی خود ایک ماسٹر میسن بتا رہا ہے :
جہاں تک ہمارے تمام میسونک جلوسوں میں بائبل لے جانے کا تعلق ہے تو یہ صرف فری میسنری کے حقیقی ڈیزائن کے حوالے سے عیسائی عوام کی آنکھوں پر پٹی باندھنے اور آرڈرکے دکھاوے کے نیک ہونے کی تشہیر کرنے کے نقطہ نظر سے کیا جاتا ہے۔ (کی سٹون لاج 639 ، شگاگو،1874ء ، ممتاز فری میسن جارٹن بارٹن کی اپنے بیٹے کو نصیحت )
میسنری تو یہ دھوکہ کر سکتی ہے کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ دجال کی عالمی حکومت قائم کرنے میں کوشاں سب سے بڑی اور خفیہ آرگنائزیشن ہے لیکن افسوسناک حیرت یہ ہے کہ آج دنیا کی کثیر آبادی جن مذہبی اور دینی جماعتوں کو فالو کر رہی ہے ان کی اکثریت بھی اپنے فالورز کے ساتھ اسی طرح کا دھوکہ کر رہی ہے ۔ دنیا کی ان ہزاروں مذہبی اور دینی جماعتوں میں آج بظاہر اسلام ، عیسائیت ، یہودیت اور دیگر مذاہب کا پرچار کیا جاتاہے اور قرآن ، بائبل ، تورات ، انجیل کی تعلیمات کا تذکرہ بھی کیا جاتاہے ، مختلف تقریبات میں ان مذاہب کی دعائیں بھی پڑھی جاتی ہیں اور ان مذاہب کی رسومات بھی ادا کی جاتی ہیں لیکن اپنی اصل میں ان ہزاروں مذہبی اور دینی جماعتوں کی بنیادگزشہ ایک ہزار سال کے دوران میسونک فلسفے اور نظریہ پر رکھی گئی ہے ، باقی اکثروں کی اور میسنری کی بنیاد ایک ہے اور ان کا اللہ کے سچے دین ، آسمانی کتابوں اور اللہ کے پیغمبروں کی تعلیمات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے(1)۔ یہ دنیا میں ہونے والا سب سے بڑا دھوکہ ہے جو دین اور مذہب کے نام پر لوگوں کی آخرت ہی چھین رہا ہے ۔ ذیل میںہم دنیا کے اس سب سے بڑے دھوکے اور فریب کے چند مہلک ترین پہلوؤں کی نشاندہی کریں گے اور پھر اس سلسلہ تحریر میں ہم جانیں گے کہ یہ فتنہ کس طرح سے انسانوں کی دنیا اور آخرت کو تباہ کررہا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔عبداللہ بن مسعود ؓ اور دیگر صحابہ کرام j سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہمارے سامنے ایک لکیر کھینچی، پھر فرمایا : ’’یہ اللہ تعالیٰ کا سیدھا راستہ ہے۔ ‘‘ پھر اس کے دائیں بائیں کئی لکیریں کھینچیں اور فرمایا: ’’یہ الگ الگ راستے ہیں، ان میں سے ہر راہ پر ایک شیطان بیٹھا ہے جو لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہے۔ ‘‘ اس کے بعد آپؐ نے سیدھی راہ پر ہاتھ رکھا اور یہ آیت تلاوت فرمائی:
{وَاَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ج وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ط ذٰلِکُمْ وَصّٰىکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(153)} (الانعام) ’’اور یہ کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے‘ پس تم اس کی پیروی کرو۔اور (اس صراطِ مستقیم کو چھوڑ کر) دوسرے راستوں پر نہ پڑ جائو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا کر منتشر کر دیں گے۔یہ ہیں وہ باتیں جن کی اللہ تمہیں وصیّت کر رہا ہے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Supernaturalکے نام پر دھوکہ
فتنہ دجال بنیادی طور پر اعتقادی فتنہ ہے ، یہ مادی فتنہ نہیں ہے ۔ بعض لوگ فتنہ دجال کو مادی ترقی سے جوڑتے ہیں حالانکہ جائز اسباب کی حد تک مادی ترقی دین فطرت کے منافی نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ آپ حج کرنے پیدل جاتے ہیں یا خصوصی طیارے کے ذریعے جاتے ہیں ہاں البتہ اگر آپ ’’ جدید تہذیب ‘‘ کے نام پر بدتہذیبی کا شکار ہو کر دنیا میں کہیں بھی معصیت کے کاموں میں شریک ہوتے ہیں تو یہ فتنے اور اللہ کی ناراضی کا باعث ہوگا چاہے اس کے لیے آپ پیدل ہی کیوں نہ جائیں ۔ لہٰذا مادی ترقی بذات خود فتنہ نہیں ہے بشرطیکہ اغراض فطرت سے بغاوت پر مبنی نہ ہوں۔ آپ مادی ترقی کوبطور جائز اسباب اسلام کے غلبہ کے لیے بھی استعمال کرسکتے ہیں ، لیکن یہی ترقی اگر دجالی نظام (دین فطرت سے بغاوت) کے لیے بطور اسباب استعمال ہو رہی ہے تو اس کا استعمال فتنہ ہے۔
موجودہ عالمی نظام میں جبکہ صرف مادی ترقی کو مقصد حیات بنا لیا گیا ہے ۔ ایک بچہ جب پیدا ہوتاہے تو اس کے بعد رفتہ رفتہ اس کے ذہن میں یہی سوچ پختہ کی جاتی ہے کہ اُس نے بڑا ہوکر اور پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننا ہے اور خوب ترقی کرنی ہے ۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے ، ترقی کرنا اور بڑا آدمی بن کر والدین ، ملک اور قوم کا نام روشن کرنا برائی نہیں ہے لیکن اسی سوچ میں فتنہ دجال کا بیج اس وقت غیر محسوس انداز میں بودیا جاتاہے جب دین فطرت سے منہ موڑتے ہوئے صرف دنیوی ترقی کو ہی مقصد حیات بنادیا جاتاہے۔ بدقسمتی سے آج میڈیا اور نصاب کے ذریعے اسی سوچ کو ذہن میں مسلسل پختہ تر کیا جا رہا ہے ۔ نتیجتاً اس مادی ترقی کی دوڑ میں لگ کر انسان ایک ایسا مشین نما حیوان بن چکا ہے کہ جو صبح سے شام تک اسی ریس میں جُتا ہوا ہے اور دنیا کے حصول میں جائز و ناجائز ، حلال و حرام کی تمیز بھی بھول چکا ہے مگر اس کے مسائل اور مصائب ہیں کہ مسلسل بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔ دلی سکون اور اطمینان میسرنہیں آ رہا، فلاں آگے بڑھ گیا ، فلاں اتنی ترقی کر گیا ، میں کہاں رہ گیا ، خواہشات کے پیچھے دوڑنا اور اپنے نفس کے لیے جینا، یہ سوچ اور یہ جنون اشرف المخلوقات کی تمام تر اقدار و روایات اور اخلاقیات کا جنازہ نکال رہا ہے ۔ جس کے پاس تھوڑا سا اختیار، قوت اور موقع میسر آجائے وہ دوسروں کو روند کر آگے بڑھنا چاہتاہے ، چاہے اس کے لیے کتنی ہی ناانصافی ، ظلم اور استحصال کے دروازے کیوں نہ کھولنے پڑجائیں ۔چاہے دین و شریعت کی دھجیاں ہی کیوں نہ اُڑ جائیں ، چاہے سب سے بڑی دولت ایمان کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑ جائے ، ہر صورت میں ہر کوئی اپنے خوابوں کی تکمیل چاہتا ہے۔
دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو مادی ترقی کی اس دوڑ میں ظلم ،ناانصافی اور استحصال کا شکار ہوکر مسلسل پستا چلا جاتاہے اور روز بروز پستی ، ذلت اور مسائل کے گرداب میں دھنستا چلا جارہا ہے جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ اُسے مل نہیں پارہا ۔ یہ دونوں انتہائیں دین فطرت سے دوری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ۔ اب ان دونوں طبقات کے لیے فتنہ دجال کی صورت میں ایک بہت بڑا جال ، بہت بڑا فریب اور دجل لشکر ابلیس نے تیار کر رکھا ہے اوراپنے پروپیگنڈا ٹولز ( میڈیا ، نصاب ، فلم ، ڈراما ، کارٹونزوغیرہ ) کے ذریعے مسلسل اور متواتر ایک Conseptلوگوں کے ذہنوں میں پھونک رہا ہے جس کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ : لوگوں کی نجات اور اس کے تمام مسائل کا حل ایک Realm of Supernatural میں ہے جو قوانین فطرت سے بالاتر ہے۔ پھر لوگوں کو فتنہ دجال میں پھنسانے کے لیے اس کے اوپر’’ روحانیت ‘‘ کا ایک اور دلکش اور دلفریب لیپ چڑھایا جاتاہے اور یہ کہہ کر مزید لبھایا جاتاہے کہ یہ سائنس سے بھی آگے کی چیز ہے۔ مثلاً آکسفورڈ ڈکشنری Supernaturalکی تعریف یوں کر رہی ہے :
(of a manifestation or event) attributed to some force beyond scientific understanding or the laws of nature."
’’(ایسا مظہر یا واقعہ جو)سائنسی فہم یا فطرت کے قوانین سے بالا ترکسی طاقت سے منسوب ہو‘‘۔
نوٹ کیجئے کہ چند صدیاںقبل تک دنیا کو یہ باور کرایا جارہا تھا کہ انسان کی شان و شوکت اور اس کے مسائل کے حل کا راز مادی اور سائنسی ترقی میں ہے اور یہ کہ مذہب اس ترقی میں رکاوٹ ہے ، پھر جب انسانوں نے مذہب کو چھوڑ چھاڑ کر مادی ترقی اور خواہشات کی تکمیل میں سرپٹ دوڑ لگا دی اور اس دوڑ میںانسانی معاشرے افراتفری ، بے حسی ، ظلم اور وحشت کے اندھے جوہڑ بن گئے جہاں شرف انسانی کا دم گھٹنے لگا اور مسائل پہلے سے بھی بڑھ گئے تو اب ایک نیا ’’سراب ‘‘ Supernatural کے نام پر دکھایا جارہا ہے اور اسے روحانیت کا نام دے کر ایک عالمی دین کے طور پر پروموٹ کیا جارہا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے شروع میں عرض کیا کہ فتنہ دجال میں بظاہر لیبل (دجل ، لیپ) بڑا خوبصورت اور دلفریب لگایاجاتا ہے ، لاجز میں بائبل اور قرآن بھی رکھے جاتے ہیں ، مذہبی دعائیں بھی پڑھی جاتی ہیں ، بظاہر مذہبی رسوم بھی ادا کی جاتی ہیں لیکن یہ سب دنیا کو دکھانے کے لیے ہوتاہے ، پس پردہ شیطان کا مشن پورا کیا جاتا ہے۔ یہاں بھی آپ دیکھیں گے کہ دجالی دین کے لیے سپر نیچرل اور روحانیت جیسے دلفریب ٹائٹلز کے ساتھ ساتھ اس کے لیے مثالیں اور حوالے بھی تورات ، انجیل اور قرآن سے دیے جاتے ہیں ۔ مثلاً دی گارڈین Realm of Supernatural کی تعریف میں لکھتاہے :
(ترجمہ ):Supernatural شعور کا ایک دائرہ ہے۔ یہ حقیقت کا ایک دائرہ ہے؛ یہ طاقت کا دائرہ ہے؛ یہ تقدس اور پاکیزگی کا دائرہ ہے۔ یہ خوبصورتی کا ایک دائرہ ہے؛ یہ ایک دائرہ ہے جہاں خدا ہم سے بات کرتا ہے (2pet.1:17-19) یہ ایک ایسا دائرہ ہے، جہاں ناممکن ممکن ہو جاتا ہے (Gen.32:24-32, Acts.12:1-11) یہ لامحدود امکانات کا دائرہ ہے۔ یہ ایک ایسا دائرہ ہے جہاں تقدیر بدلتی ہے، معجزے ہوتے ہیں، فتح حاصل ہوتی ہے۔ یہ ایک دائرہ ہے جہاں وہ چیزیں وجود میں آتی ہیں جو موجود نہیں ہیں (Heb.11:1-3)۔ (جاری ہے )