(فلسطین نمبر) نظم’’فلسطینی عرب سے‘‘ - ادارہ

14 /

نظم’’فلسطینی عرب سے‘‘

اس نظم میں اقبالؔ نے عربوں کو ساحرانِ فرنگ کے طلسم سے رہائی حاصل کرنے کا طریقہ بتایا ہے۔ علامہ کے دِل میں مِلتِ اسلامیہ کی بہبود کا بڑا درد تھا۔ وہ دِن رات فلسطینی عربوں کے غم میں گھُلتے رہتے تھے اور یہ نظم اُن کے خلوص اور محبت کی، جو اُنہیں اس قوم کے ساتھ تھی، بڑی حد تک عکاسی کرتی ہے۔ واضح ہو کہ مجھ سے علامہ مرحوم نے خود ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ ’’مجھے عربوں سے غیر معمولی محبت ہے کیونکہ یہ لوگ سرکارِ دو عالم ﷺ سے ایک نسبت رکھتے ہیں، عربی بولتے ہیں، وہ زبان جس میں حضور اکرم ﷺ گفتگو فرماتے تھے۔‘‘ ( پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
تشریح:
اے فلسطین کے عرب! میں جانتا ہوں کہ تیرے وجود میں ابھی تک وہی آتش موجود ہے جس کے سوز سے زمانہ (دُنیائے کفر) ابھی تک فارغ نہیں ہوا ہے یعنی کفارِ فرنگ ہنوز مطمئن نہیں ہوئے ہیں کہ ہم نے عربوں کو زیر کر لیا ہے۔ وہ ابھی تک اُس آگ کو جو صلاح الدین ایوبی ؒ بلکہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے بھڑکائی تھی، بجھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ’’سوز‘‘ سے اقبالؔ کی مراد وہ جذبۂ جہاد ہے جو سرکارِ دو عالم ﷺ کی تعلیمات سے پیدا ہوا تھا۔
آزادی کی حرارت عربوں کی گھُٹی میں موجود ہے۔ اس تناظر میں علامہ کہتے ہیں کہ فلسطین کے عربو! میں جانتا ہوں کہ تمہارے جسموں میں وہ آگ موجود ہے جس نے کبھی فارس اور روما کے تخت اُلٹ دیے تھے لیکن تمہارے انگریز حاکم (جو پہلی جنگ ِ عظیم میں ترکوں کی شکست کے بعد فلسطین پر قابض ہو گئے تھے اور انہوں نے وہاں یہودیوں کو اس لیے بسانا شروع کر دیا تھا کہ اس ملکِ فلسطین میں یہودیوں کی ایک آزاد ریاست اسرائیل کے نام سے قائم کی جائے)۔ تمہاری تقریروں اور تحریروں اور مطالبوں سے تمہیں آزاد نہیں کریں گے اور یہودیوں کو تمہارے ملک میں لا کر بسانے سے باز نہیں آئیں گے تاوقتیکہ تم اسی سوز اور آگ سے کام نہ لو گے جو تمہاری سرِشت میں موجود ہے۔
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
تشریح:
تیرا علاج جہاد میں، اپنے بدن کی حرارت کو عمل میں لا کر آزادی حاصل کرنے میں پوشیدہ ہے۔ اپنے بدن کی حرارت کو عمل میں لا کر آزادی حاصل کرنے میں ہے، نہ اس میں کہ تُو جنیوا میں جا کر اقوامِ متحدہ سے فریاد کرے یا انگلستان میں جا کر انگریزوں کی منت کرے کہ وہ تمہارے ملک میں یہودیوں کو لانے اور لا کر بسانے سے باز رہیں۔ وہاں کوئی تمہاری بات نہیں سنے گا۔ کیونکہ اہلِ مغرب کی جان کی رگ (جو اقوامِ متحدہ بنائے بیٹھے ہیں) یا انگریزوں کی جان کی رگ (جو تمہارے ملک کے حاکم بنے ہوئے ہیں) یہودیوں کے پنجے میں ہے۔
یورپ کے سارے ملکوں خصوصاً مغربی ممالک (انگلستان سمیت اور آج امریکہ سمیت) کی تجارت، صنعت اور اقتصادیات پر یہودی قابض ہو چکے ہیں، اس لیے انگریز اور اقوامِ متحدہ وہی کچھ کرے گی جو یہودی چاہیں گے۔ اس لیے اقوامِ متحدہ یا انگلستان کے پیچھے دوڑنے کی بجائے اپنی خود داری سے کام لو اور اپنی جد و جہد کے سوز سے انگریزوں اور یہودیوں کو اپنے ملک سے باہر پھینک دو۔
سُنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے
تشریح:
تمہیں چاہیے کہ اپنے اسلاف (بزرگوں) کی طرح اپنی خودی کی تربیت کرو اور ترقی کی منازل طے کرو۔ اسی خودی کی بدولت ہمارے اسلاف کے پوشیدہ جوہر ظاہر ہوتے تھے، جن سے دنیا کانپ اُٹھتی تھی اور اُنہوں نے ایک عالم کو تسخیر کر لیا تھا۔ چنانچہ میں نے تجربہ کار، اور بزرگ لوگوں سے یہ بات سُن رکھی ہے کہ اگر کوئی غلام قوم غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے پہلے اپنے اندر اپنی خودی کو بیدار کرنا چاہیے۔ اپنی خود آگاہی حاصل کرکے اپنی قوتوں اور صلاحیتوں سے آشنا ہونا چاہیے اور پھر ان کو عمل میں لاکر آقاؤں اور مالکوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ اسی میں آزادی کا رازپوشیدہ ہے۔
یاد رکھو کہ اقوامِ عالم یا انگریزوں کے سامنے مطالبات پیش کرنے سے کچھ حاصل نہیں آئے گا۔
اگر تم نے اپنی ذات کو فروخت نہ کیا اور اس کی حفاظت کی تو کوئی وجہ نہیں کہ تم دوبارہ آزاد اور حاکم نہ بن جاؤ۔ یہ فطرت کا اٹل فیصلہ ہے جو بدل نہیں سکتا۔ سو تُمہیں چاہیے کہ اپنی خودی کی تربیت طرف توجہ کرو، تاکہ تم ان ظالموں کے پنجوں سے نجات حاصل کر سکو۔
دوسرے الفاظ میں پہلے شعورِ خودی پیدا کرے اور پھر جذبۂ نمودِ خودی۔ ان دو باتوں کے بعد عمل یا جہاد خودبخود سرزد ہوگا اور اس شدت کے ساتھ کہ اس کے سامنے پہاڑ بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ شعور کہ میرے سامنے غیر اللہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے، انسان کو ’’سیلِ بے پناہ‘‘ بنا دیتا ہے۔
کاش پاکستان کے اربابِ اقتدار، اقتصادی پروگرام کے ساتھ ساتھ، پاکستانی مسلمانوں کی خودی کی پرورِش کا بھی کوئی پروگرام مُدوّن فرمائیں تاکہ حصولِ مقصد کی طرف پہلا قدم تو بڑھا سکے!
اقبالؔ نے کہنے کی حد تک سب کچھ کہہ دیا ہے، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اُن کے ارشادات پر عمل کریں تاکہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکے۔