(یادِ رفتگان) شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے - خورشید انجم

11 /

شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے

(خورشید انجم، مرکزی ناظم شعبہ تربیت)

کہا جاتا ہے موت برحق ہے البتہ کفن میں شک ہے۔ اس عالم ِآب و گِل سے جدائی یقینی ہے۔ جو نفس بھی اس دنیا میں آیا ہے، اس نے واپس بھی جانا ہے۔ {کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ط}دعائے زیارتِ قبور کے مطابق جو یہاں سے جا چکے ہیں ، ہم سب نے بھی ان کے پیچھے جانا ہے۔ بس آگے پیچھے کی بات ہے۔ عزت ، شہرت ، ناموری اور مال و دولت سب اس دنیا تک ہیں۔ کوئی بھی چیز ساتھ جانے والی نہیں، ساتھ جانے والی شے صرف اعمال صالحہ ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو ان تمام چیزوں سے مبرّاہوتے ہیں۔ ان کا مطمع نظر شہرت، ناموری یا مال و دولت ہوتا ہی نہیں بلکہ ایک حدیث کے مطابق وہ دنیا میں اجنبی یا راہ چلتے مسافر کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ ایک صحابی ؓ کی قبر کی کھدائی کے موقع پر نبی کریمﷺ نے مٹی کریدتے ہوئے فرمایا۔ لوگو! اس دن کے لیے کچھ کر رکھو ۔لوگو! اس دن کے لیے کچھ کر رکھو ۔ اور ؂
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
یادش بخیر۔ 1983ء میں بانئ محترم ڈاکٹر اسرار احمد ؒ پشاور کے دعوتی دورے پر تشریف لائے تو راقم اور برادرم مجاہد نسیم نے اکٹھے بانی محترم ؒکے ہاتھ پر بیعت کی اورتنظیم میں شمولیت اختیار کرلی۔ اگلے سال 1984ء میں بانیٔ محترم ؒدوبارہ تشریف لائےتو کچھ اور حضرات نے بھی اس قافلہ ٔ سخت جان میں شمولیت اختیار کی۔ ان میں محترم غلام مقصود مرحوم بھی شامل تھے۔ اس وقت پشاور کی تنظیم گنےچنے افراد پر مشتمل تھی۔ لہٰذا تمام رفقاء کا آپس میں ایک شخصی، ذاتی اور حقیقی معنوں میں برادرانہ تعلق ہوتا تھا۔ پہلے دن ہی جو تعلق ان سے قائم ہوا ، وہ تادم ِحیات قائم رہا۔ اگر چہ اس میں کافی نشیب و فراز بھی آئے ۔ لیکن تعلق اور محبت کا رشتہ اسی طرح قائم رہا۔ شاید عالم ارواح میں ہماری ارواح میں دوستی تھی جس کی وجہ سے مزاجوں کے اختلاف کے باوجود ہمارا یہ اکٹھ قائم رہا۔
غلام مقصود پشاور کے قریب ایک گاؤں ثمر باغ میں 1953ءمیں پیدا ہوئے۔ انٹر تک کی تعلیم حاصل کی اور پھر واپڈا میں ملازم ہوگئے۔ ان کے ایک بڑے اور چھوٹے بھائی بھی وپڈا میں ملازم رہے۔ گاؤں کے روایتی دینی ماحول میں زندگی گزر رہی تھی کہ جمعیتِ اشاعۃ التوحید والسنہ کے ایک عالم ، جنہیں خیبر پختونخوا میں پنج پیری کہا جاتا ہے ، سے رابطہ ہو ا۔ انہوں نے غلام مقصود کو قرآن مجید کے ترجمہ سے روشناس کرایا۔ جس سے قرآن کی دعوت ِ توحید نکھر کر سامنے آئی اور شرک و بدعت کی جملہ صورتیں ، جو ہمارے معاشرے میں رائج ہیں ،کے خلاف داعیہ پیدا ہوا ۔ اُسی زمانے میں جماعت اسلامی کے ایک جید عالم دین مولانا عبد الرحیم چترالی سے رمضان میں دورۂ تفسیر بھی مکمل کیا جس سے توحید کے نئے گوشے سامنے آئے اور توحید ِحاکمیت سے بھی آگاہی ہوئی۔ اسی دوران بانیٔ محترم ؒ کی تقاریر سننے کا اتفاق ہوا تو وہی کیفیت ہوئی کہ؎
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
ستمبر 1984ء میں ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ پر بیعت سمع و اطاعت کر کے غلبۂ اقامت دین کی جدوجہد کا حصہ بن گئے۔ اس دوران کتنے ہی نشیب و فراز آئے لیکن وفاداری بشرطِ استواری کے اصول کے تحت اور {فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُز} (الاحزاب:23)کے مصداق تادم ِآخر اس قول و قرار کو نبھایا اور اپنے آپ کو اس کھونٹے سے باندھے رکھا۔ یہاں تک کہ اپنے رب کے پاس پہنچ گئے۔ 1984ء میں پشاور میں ایک چھوٹا سا کمرہ اور بعد ازاں پشاور کے خیبر بازار میں ایک کشادہ کمرہ دفتر کے لیے حاصل کیا گیا تو ناظم ِدفتر کی ذمہ داری انہوں نے سنبھالی۔ بعد ازاں ناصر مینشن شعبہ بازار میں انجمن خُدام القرآن کے دفتر میں بھی ناظم ِدفتر کی ذمہ داریاں ادا کیں۔کچھ عرصہ قرآن اکیڈمی پشاور میں بھی خدمات سر انجام دیں۔
گاؤں کے ماحول کے ساتھ عدم موافقت اور دفتری ذمہ داریوں کی وجہ سے شہر منتقل ہوگئے۔ لیکن وفات سے تقریباً دس سال پہلے دو بارہ گاؤں منتقل ہونے کا خیال دل میں آیا اور پھر گھر کی سادہ سی تعمیر کر کے دوبارہ گاؤں پہنچ گئے۔
1984ء سے لے کر تا دم ِوفات میرا ان کے ساتھ برادارنہ تعلق رہا۔ عمر میں وہ مجھ سے بڑے تھے لیکن تعلقات میں کوئی مغائرت نہ تھی۔ 1986ءتا 1990ء میں جب تعلیم کے سلسلہ میں اسلام آباد میں مقیم تھا تو اکثر پشاور میں چھٹی کا دن ان کے ساتھ گزرتا۔ میرا اور ان کا سفر وحضر کا ساتھ تھا ۔ 1986ء کی 21 روزہ تربیت گاہ اور سالانہ اجتماعات کے اسفار یادگار ہیں۔
غلام مقصود حدیث نبوی ﷺ کے مطابق کہ ’’جو علم تھا اس پر عمل کتنا کیا؟‘‘ کو سامنے رکھتے اور جو بات علم میں آجاتی اس پر عمل پیرا ہوجاتے۔ شادی بیاہ اور فوتیدگی کی غیر شرعی اور ہندؤوانہ رسومات سے پہلے بھی اجتناب کرتے تھے۔ تنظیم میں آنے کے بعد اس معاملے میں شدت آگئی۔ پردے کے احکامات کا علم ہوا تو فی الفور عامل ہوگئے۔ آبائی زمین میں مروّجہ روایتی انداز میں کاشت کا سلسلہ چل رہا تھا۔ کسی مالی نقصان کی پرواہ کیے بغیر اپنے آپ کو اس سے جدا کرلیا۔
ان کی زندگی انتہائی سادہ تھی۔ سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ سادہ سا لباس اور ایک رومال جو خیبر پختونخوا میں علماء اور دیندار لوگوں کی پہچان ہے، ان کے کندھے پر ہوتا تھا۔ معاملات میں انتہائی کھرے اور شفاف تھے۔ داماد کو نا معلوم افراد نے قتل کیا تو حکومت کی طرف سے بیٹی کو جو رقم ملی وہ وراثت کے اصول کے مطابق تقسیم کردی۔ اگر چہ گھر کے افراد اس معاملہ میں ان کے ہمنوا نہیں تھے۔ کھرے اور بے باک انسان تھے۔ خودداری ، حق گوئی اور بے باکی ان کے مزاج کا حصہ تھی اور بعض اوقات اس میں سختی آجاتی اور حق بات کا اظہار کرنے میں اس بات کی پرواہ نہ کرتے کہ مخاطب کون ہے۔اور ان کی اسی حق گوئی اور بے باکی وجہ سے بعض ساتھی ان سے شاکی رہتے۔ چالیس سالہ تنظیمی زندگی میں ایک دو مرتبہ قدرے پسپائی کی نوبت بھی آئی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوبارہ ثابت قدم ہوگئے۔
ان کی خوش قسمتی کہ وہ دین کی طرف قرآن کے راستے سے آئے۔ پنج پیری طرز پر قرآن پڑھا اور سمجھا اور ساتھ ہی گاؤں میں چند لوگوں کو لفظی اور بامحاورہ قرآن پڑھانا شروع کردیا۔ بعد ازاں دورۂ تفسیر اور تفہیم القرآن کےمطالعہ سے وسعت پیدا ہوئی ۔ تفہیم القرآن تو گویا انہیں حفظ تھی۔ تفسیر عثمانی اور تدبر قرآن کا بھی بالاستیعاب مطالعہ کر رکھا تھا اور اکثر تفہیم اور تدبر کا تقابلی مطالعہ بھی پیش کیا کرتے۔اس کے علاوہ دوسری تفاسیر کا بھی گاہے بگاہے مطالعہ جاری رہتا۔ بانیٔ محترم کےترجمہ و تشریح ’’بیان القرآن ‘‘کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ اس میں وہ وہ نکات بیان ہوئے ہیں جو کسی اور تفسیر میں نہیں ملتے۔
تنظیم کے کئی رفقاء نے ان سے وقتاً فوقتاًقرآن پڑھا اور ان سب کا ان کے ساتھ تنظیمی رفاقت کے ساتھ ساتھ ایک استاد اور عقیدت کا رشتہ بھی تھا، جس کا وقتاً فوقتاً اظہار بھی ہوتا رہتا۔ لیکن وہ اپنی ذات میں ان سب ادب آداب سے کوسوں دور تھے بلکہ اس کو بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ کوئی ان کے ساتھ استاد شاگرد کے رشتے کا اظہار بھی کرے بلکہ تنظیمی رفاقت اور دوستانہ تعلقات کے اظہار کو ہی ترجیح دیتے۔
تقریباً6 سال قبل سرطان کے عارضہ میں مبتلا ہوئے۔ شوکت خانم ہسپتال لاہور اور پشاور سے علاج کروایا۔ اللہ تعالیٰ نے شفاء عطا فرمائی۔ سرطان کے مرض کی شدید تکلیف میں انہوں نے صبر کا مظاہرہ کیا اور اس کرب کو بڑی حوصلہ مندی سے برداشت کیا۔ کبھی شکایت کا لفظ زبان پر نہ لائے۔ تقریباً دوسال قبل فالج کا حملہ ہوا اور بایاں حصہ متاثر ہوا۔ البتہ وقت کے ساتھ بہتری آتی چلی گئی۔لیکن پھر کچھ عرصہ بعد کمزوری بڑھنا شروع ہوگئی اور چلنے میں دشواری ہونے لگی۔ بعد ازاں بستر سے لگ گئے۔ اس دوران گاہے بگاہے ان سے ملاقات ہوتی رہتی۔ اپریل 2023ء میں ملاقات کے لیے گیا تو صرف آنکھوں کے اشاروں سے گفتگو کی اور ہلکا سا مسکرائے۔ اس دوران ان کے بیٹے کے بقول یاداشت کھو چکے تھے اور کسی کو نہیں پہچانتے تھے۔ ماہ اگست میں پشاور جانا ہوا تو دیکھا کہ بے حس و حرکت ایک لاشہ پڑا ہواہے اورکوئی حرکت نہیں ہے۔ انتہائی غمزدہ دل کے ساتھ واپسی ہوئی۔ وفات سے تقریباً ہفتہ قبل نمونیے کا اٹیک ہوا۔ سانس اکھڑگئی۔ ہسپتال لے جایا گیا۔ افاقہ ہوا تو ہسپتال سے واپس لائےلیکن اگلے ہی دن دوبارہ طبیعت خراب ہوئی فوری طور پر ہسپتال پہنچایاگیا۔ لیکن وقت پورا ہوچکا تھا۔ اور جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔
ان کی وفات سے تقریباً ہفتہ قبل ایک رفیق نے فون کر کے بتایا کہ ’’میں نے غلام مقصود صاحب کو خواب میں دیکھا ہے کہ ایک تقریب میں بانیٔ محترم ڈاکٹر صاحب ؒ تشریف فرماہیں اور موصوف آئےہیں ۔ ڈاکٹر صاحب ؒاٹھ کر گرم جوشی سے استقبال کرتے ہیں اور ان سے معانقہ کرتے ہیں۔‘‘میں نے رفیق موصوف کو ان کی صحت کا بتایا اور خدشہ ظاہر کیا کہ لگتا ہے کہ سفینہ کنارے آن لگا ہے۔ بعد ازاں فون کر کے بعض رفقاء و احباب کو ان کی عیادت اورآخری ملاقات کی طرف متوجہ کیا کہ بلاشبہ وہ تو ہمیں نہیں پہچانتے لیکن ہم تو انہیں پہچانتے ہیں۔
اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ 4 اکتوبر بروز بدھ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد بیٹھا ہوا تھا کہ 03:58 منٹ پر ان کے چھوٹے بیٹے کا فون آیا۔ ان کے اس بیٹے کا زندگی میں پہلی مرتبہ فون آیا ورنہ عموماً ان کے بڑے بیٹے سے بات ہوتی تھی دل پر جو گزری وہ دل ہی جانتا ہے۔ فون اٹینڈ کیا تو بیٹے نے روتے ہوئےانتقال پر ملا ل کی خبر سنائی۔ فوری طور پر رفقاء و احباب کو اطلاع کی۔ بہر حال جانے والا چلا گیا لیکن ان کی یادیں باقی ہیں اور نیک و خداترس انسانوں کی یادیں اتنی آسانی سے بھلائی بھی نہیں جاسکتیں۔؎
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے