(الہدیٰ) قیامت کا معین وقت کسی کو معلوم نہیں - ادارہ

9 /

الہدیٰ

قیامت کا معین وقت کسی کو معلوم نہیں

آیت 65{قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللہُ ط} ’’آپؐ کہہ دیجیے کہ جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں‘ کسی کو بھی غیب کا علم نہیں سوائے اللہ کے۔‘‘
{وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُـبْعَثُوْنَ(65)} ’’ اور انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ انہیں کب اٹھایا جائے گا۔‘‘
یعنی وہ لوگ جو فوت ہو چکے ہیں‘ چاہے وہ اولیاء اللہ ہوں یا کوئی اور‘ اس دنیا سے جانے کے بعد وہ عالم برزخ میں ہیںاور وہاں انہیں کچھ معلوم نہیں کہ انہیں کب دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔
آیت 66{بَلِ ادّٰرَکَ عِلْمُہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ قف} ’’بلکہ تھک ہار کر رہ گیا ہے ان کا علم آخرت کے بارے میں۔‘‘
یعنی یہ لوگ آخرت کی حقیقت کو سمجھ نہیں پا رہے۔
{بَلْ ہُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْہَاقف بَلْ ہُمْ مِّنْہَا عَمُوْنَ(66)} ’’بلکہ اس کے بارے میں وہ شک میں مبتلا ہیں‘ بلکہ اس کی طرف سے وہ اندھے ہو چکے ہیں۔‘‘
اگرچہ یہ لوگ زبانی طور پر آخرت کا اقرار بھی کرتے ہیں اور دوبارہ جی اٹھنے پر بظاہر ایمان بھی رکھتے ہیں‘ لیکن عملاً وہ اس کے منکر ہیں۔ عملاً انہیں آخرت کی زندگی کو سنوارنے یا قیامت کے احتساب سے بچنے کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اس دنیا میں اپنے کل کی فکر انسان کو ہر وقت دامن گیر رہتی ہے‘ کہ کل کیا کھانا ہے اور باقی ضروریات کیسے پوری کرنی ہیں۔ اس لیے کہ اسے کل کے آنے پر پختہ یقین ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر اسے واقعی یقین ہو کہ مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندہ ہونا ہے اور یہ کہ آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے تو اس کے لیے وہ لازماً فکر مند بھی ہو گا اور اسے بہتر بنانے کی کوشش بھی کرے گا۔ لیکن کسی انسان کو عملاً اگر اس کی فکر نہیں ہے اور وہ اس کے لیے کوشش بھی نہیں کر رہا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسے اس کے بارے میں یقین نہیں ہے۔

درس حدیث

دعوت الی الخیر

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ؓ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِﷺقَالَ:(( مَنْ دَعَا إِلٰی هُدًی، کَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُوْرِ مَنْ تَبِعَهُ لَا يَنْقُصُ ذَالِکَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئًا. وَمَنْ دَعَا إِلٰی ضَلَالَةٍ، کَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ لَا يَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا))(رواہ المسلم)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’جس نے (دوسروں کو) ہدایت کی طرف بلایا اس کے لیے اس راستے پر چلنے والوں کی مثل ثواب ہے جبکہ ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا۔ جس نے گناہ کی دعوت دی اس کے لیے بھی اتنا گناہ ہے جتنا اس غلطی کا ارتکاب کرنے والوں پر ہے جبکہ ان کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘